عراق کی بدلتی صورتحال
21 دسمبر 2013 کی رات کو عراق کے صوبہ انبار میں برسرپیکار عراقی فوج کے ساتویں ڈویژن کے اعلی کمانداروں کو ایک خفیہ اطلاع ملی کہ نینوی کی سرحد کے قریب ادھم کے مقام پر القاعدہ کا ایک خفیہ اڈہ پایا جاتا ہے جسمیں ابوبکر البغدادی کے موجود ہونے کا یقین ہے ۔یہ اطلاع اسقدر متاثر کن تھی کہ ساتویں ڈویژن کے کمانداروں نے اس آپریشن کی زمہ داری خود سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ بڑی سرعت و احتیاط کے ساتھ القاعدہ کے اس ممکنہ ٹھکانے کے اردگرد گھیرا ڈال دیا گیا لیکن وقت گزرنے کیساتھ یہ احساس ہونے لگا کہ یہ عمارت جسکے بارے میں دعوی کیا جارہا ہے خالی ہے ۔اس بات کا یقین ہوجانے پر ساتویں ڈویژن کے اعلی کماندار جن میں ساتویں ڈویژن کے سربراہ کمانڈر جنرل محمد الکروی ، ان کے اسسٹنٹ جنرل محمد نعمان اور ستایسیویں اور انتیسیویں بریگیڈ کے سربراہ شامل تھے عمارت کے اندر جائزہ لینے کے لیے داخل ہوئے ۔
لیکن انکا عمارت کا خالی ہونے کا تخمینہ بالکل غلط ثابت ہوا یہ القاعدہ کا پھیلایا ہوا جال تھا جسمیں عراقی فوج چوہے کی طرح پھنس کررہ گئی ،عمارت مکمل طور پر چھپائے گئے بموں و خودکش حملہ آوروں سے لیس تھی جنہوں نے ان لوگوں کے اندر داخل ہوتے ہی پھٹنا شروع کردیا اور ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچ پایا ۔
یہ حادثہ عراقی انتظامیہ کو ہلانے کے لیے کافی تھا بغداد جو کے پہلے ہی ہر روز کے بم دھماکوں سے بیزار تھا اسنے فیصلہ کیا کہ صوبہ انبار کے صحرا میں چھپے ہوئے القاعدہ کے بندوں کیخلاف ایک بھرپور آپریشن کیا جائے گا ۔مالکی حکومت کے اس فیصلے کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر بٹے ہوئے ملک میں بہت عوامی حمایت حاصل ہوئی اور عراقی بلاامتیاز اپنے فرقے کے اس فیصلے کی حمایت میں کمربستہ ہوگئے اور ہر شہر میں ایک بھرپور آپریشن کی حمایت میں جلوس نکالے گئے ،یہانتکہ صوبہ انبار کے مشہور عالم شیخ الحیث نے بھی اہل انبار کو القاعدہ سے لڑنے اور اس آپریشن کی حمایت کرنے پر یہ کہہ کر ابھارا کہ القاعدہ کے اس حملے میں مرنے والے زیادہ تر انباری ہیں
لیکن عراقی وزیراعظم المالکی نے اس موقع کو اپنے سیاسی مخالفین کے اوپر کریک ڈاون کرنے کے لیے بھی غنیمت جانا۔مالکی کے سنی سیاسی مخالفین تقریبا ایک سال سے مالکی گورنمنٹ پر سنیوں کی سیاسی و معاشی بیخ کنی کرنے کے الزام لگاتے رہے ہیں اور اس کو ایرانی حمایت یافتہ حکومت قرار دیتے ہیں ،یہ ایک عرصے سے وزیراعظم مالکی سے استعفی کا مطالبہ کررہے ہیں اور رمادی میں گذشتہ کئی ماہ سے انہوں نے اس مطالبے پر دھرنا دیا ہوا ہے ،ان سیاسی مخالفین میں سے سب سے معتبر نام ،سنی رکن پارلیمنٹ احمدالعلوانی کا ہے جو کے اپنی تقاریر میں برملا مالکی گورنمنٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اسے ایک فرقہ وارانہ حکومت قرار دیتے ہیں اپنی ایک تقریر میں العلوانی نے یہاں تک کہا تھا کہ ایرانی ایجنٹ ،عراقی سرزمین پر موجود ہیں اور ان کو پاتے ہی ان کے سر بغیر کسی رحم کے کاٹ دینے چاہییں ۔
عراق کے وزیر اعظم مالکی پر تجزیہ نگاروں کیمطابق ایران کیطرف سے بھی کافی دباو ہے جو کے شام میں بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے سخت پریشان ہے ، عراق کے صوبہ انبار سے ملحقہ شامی صوبے دیرالزور میں اسکو بدترین شکست کا سامنا ہے جسکا صرف ایئرپورٹ اسوقت شامی فوجوں کے قبضے میں ہے دیرالزور میں شامی فوجوں سے برسرپیکار مجاہد تنظیم کوئی اور نہیں دولۃ الاسلامیہ العراق والشام ہی ہے ۔دیرالزور پر ان کا قبضہ ہوجانے کا مطلب ہے کہ عراق تا شام ایک وسیع پٹی ان کے زیر اقتدار آتی ہے ، شام میں برسرپیکار القاعدہ کو اسی بارڈر سے سامان رسد و جنگجو ملتے ہیں ، اسلیے مالکی حکومت ادھر ایک بڑا آپریشن کرکے دیرالزور میں پڑنے والے دباو کو کم کرنا چاہتی تھی ۔
نورالمالکی جو کے ایک تیر سے دوشکار کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ حالیہ امریکہ دورہ پر امریکہ کی آشیر واد بھی حاصل کرچکے تھے اس آپریشن کی آڑ میں اپنے سیاسی مخالفین پر کریک ڈاون بھی شروع کردیا اور رمادی میں سنی رکن پارلیمنٹ احمد العلوانی کے گھر سیکورٹی فورسز نے دھاوا بول دیا ،احمد العلوانی کی پرامن گرفتاری سے انکار ایک مسلح جھڑپ میں بدل گیا جسمیں احمد العلوانی کے بھائی سمیت ان کے دس باڈی گارڈ مارے گئے اور احمد العلوانی کو گرفتار کرلیا گیا ، مالکی حکومت کے اسقدم پر سنی علاقوں میں شدید احتجاج پھیل گیا ٖفلوجہ و رمادی میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ، احمد العلوانی کے قبیلے کا نام العلوان ہے اسنے مالکی حکومت کو العلوان کو رہا کرنے کے لیے بارہ گھنٹوں کی مہلت دی جسپر مالکی حکومت نے یہ شرط عائد کی کہ اگر رمادی میں جاری دھرنا ختم کردیا جائے جو کے نورالمالکی کے استعفی کا مطالبہ کررہا ہے تو العلوانی کو رہا کردیا جائے گا ، اسکے جواب میں فلوجہ ورمادی کی مساجد سے مالکی حکومت کیخلاف جہاد کرنے کی اپیل کی گئی اور فلوجہ سے جنگجووں کو رمادی میں جاری دھرنے کی حفاظت کرنے کے لیے روانہ
کردیا گیا ہے
|
فلوجہ میں حکومت مخالف مظاہرے کی ایک جھلک |
رمادی میں حکومت مخالف مظاہرے کی ایک جھلک |
تازہ ترین صورتحال
رمادی میں جاری دھرنا ایک لڑائی کے بعد ختم کردیا گیا ہے جسمیں دس بندوں کے مارے جانے کی اطلاع ہے ، صوبہ انبار ،فلوجہ ، رمادی ، تکریت مکمل بغاوت پر آمادہ ہیں اور جگہ جگہ فوج و پولیس سے جھڑپیں جاری ہیں ،بیشتر عراقی قبائل حکومت خلاف مظاہروں میں شریک ہوگئے ہیں اور بغداد کا رابطہ ان علاقوں سے کاٹ دیا گیا ہے ،صوبہ انبار کے قبائلی سرداروں نے القاعدہ سے ہنگامی میٹنگ کی ہے اور عراقی فوجوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کیا ہے ۔ حکومتی حمایت یافتہ قبائل جو کے پہلے القاعدہ کے کیخلاف بننے والی صحوہ کے متحرک رکن رہے ہیں ان میں سے چند کے علاوہ بیشتر اس بغاوت میں شریک ہیں ،تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر یہ صورتحال جاری رہتی ہے اور مالکی حکومت اس سے نبٹنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو عراق میں عوامی پیمانے پر ایک بڑی جنگ شروع ہونے کا خطرہ ہے ۔جسکا حتمی فائدہ القاعدہ کو ہوگا اور اسکی جہادی مہم کو نئی زندگی مل جائے گی ،اسکے علاوہ اس جنگ کا بہت گہرا اثر شام میں جاری جنگ پر بھی پڑے گا اور پورا خطہ واضح طور پر رافضی و سنی بلاکز میں تقسیم ہوجائے گا ۔
ماشا اللہ بہت مفید معلومات مہیا کی ہیں آپ نے، اس سلسلے کو جاری رکھیے
جواب دیںحذف کریں