ہفتہ، 2 نومبر، 2013

غلام و آقا !!


غلام و آقا!
 امریکہ نے اس غلام کو بڑے چاو سے خریدا تھا ، اس کے جوان و متناسب جسم نے پہلی ہی نظر میں اس کی توجہ کھینچ لی تھی ! یہ میرے کافی کام آئے گا ! امریکہ نے دل میں سوچا، اور اس کا یہ خیال غلط ثابت نہ ہوا ۔ لیکن خریدنے کے کچھ دن بعد ہی غلام اداس رہنے لگا اور اب  بیمار بھی پڑگیا تھا امریکہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ غلام ہوم سکسنس (Home Sickness) کا شکار ہوگیا ہے ! وہ بڑی ہمدردی سے اس کے ساتھ بیٹھا اور اس کے بالوں پر پیار سے ہاتھ پھیر کر کہنے لگا بیٹا ! مجھے علم ہے کہ تمہیں گھر کی یاد ستار ہی ہے تم جنگلوں کے باسی ،آزاد فضاوں میں رہنے والے پنچھی ، ان شہروں کی زندگیاں تمہیں پسند نہیں ہیں اس لیے ہی تم بیمار ہوگئے ہو ۔ لیکن بیٹا ابھی تم جوان ہو اگر تم محنت سے کام کرو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ پانچ سال بعد تمہیں آزاد کردوں گا!
 غلام کے چہرے پر بے یقینی تھی ! کیا آپ مجھے واقعی ہی آزاد کردیں گئیں ؟
 ہاں بیٹا میں تمہیں واقعی ہی آزاد کردوں گا ! امریکہ کا لہجہ حتمی تھا اور غلام ٹھیک ہوگیا!
 امریکہ کھیت کے کنارے پر کھڑا اس کو محنت کرتے دیکھتا ، اس کے جواں بازووں کی مچھلیاں جب ہل چلاتے ہوئے مچلتی تو امریکہ کا دل فخر سے بھر جاتا! غلام بوجھ اٹھا کر جب تن کر چلتا تو تو امریکہ کا سینہ بھی فخر سے تن جاتا ! غلام کافی محنت کررہا تھا غلام کے پاس وقت کے حساب کے لیے کوئی پیمانہ نہ تھا لیکن اس کو نظام شمسی کے حساب کا علم تھا وہ روز سورج کو مشرق سے مغرب کی طرف سفر کرتے دیکھتا اور ہر روز پتھر سے سخت زمین پر ایک لائن لگا لیتا ! ایک سال کے مکمل ہونے پر اس نے دل میں سوچا کہ "میری ایک انگلی" آزاد ہوگئی ہے ۔ دو سال مکمل ہونے ہوئے تو وہ اپنی دو انگلیوں کو بقیہ انگلیوں سے زیادہ ترجیح دینے لگا ۔ یہ حساب و کتاب غلام کے لیے روحانی مسرت کا ایک سامان تھا جس میں وہ کسی اور کو شریک نہ کرنا چاہتا تھا اپنے اردگرد کے آزاد انسانوں کی سرگرمیاں دیکھ کر وہ فورا اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگتا کہ کتنی انگلیاں رہ گئیں ہیں ! اور جلد ہی ان کے آزاد رہنے کی امید میں دوبارہ سرجھکا کر کام میں جت جاتا ۔ غلام کے اپنے اندر ایک دنیا آباد تھی ۔سورج ، لکیریں و انگلیاں ! سورج کا غروب ہونا اس کی روح میں اتر گیا ! اور پانچوں انگلیاں آزاد ہوگئی !
امریکہ غلام کی انتھک محنت کی بدولت خوشحال ہوچکا تھا ، غلام نے اس کے پاس آکر غلامی سے آزادی کا مطالبہ کیا ۔تاکہ وہ اپنے جنگل کو واپس جاسکے
 امریکہ نے بخوشی جانے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ سوال کیا تمہارے پاس کیا واپسی کا سفر اختیار کرنے کے لیے پیسے ہیں ؟
غلام نے زمین کی طرف سرجھکایا اس کے پاوں کی انگلیاں جیسے ایکدم اضطراب کے مارے سکڑنے لگیں ، نہیں میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ غلام کے لہجے میں حسرت ایک سوال لیے ہوئے تھی
 اچھا تمہارا گھر کس طرف ہے ؟ امریکہ نے دوسرا سوال داغا مغرب کی طرف ۔غلام نے ایک خوشی کے ساتھ جواب دیا
 اچھا ! پھر تو وہ کافی دور ہوگا اور وہاں تک جانے کےلیے کافی پیسوں کی ضرورت بھی ہوگی ۔ چلو اگر تم میرے لیے تین سال اور کام کرلو تو میں تمہیں وہاں تک جانے کے لیے معقول رقم دے دوں گا ۔ چلو تین سال نہیں تو دو سال ہی سہی ۔ چالاک امریکہ کالہجہ فاتحانہ تھا غلام زیرلب کچھ بڑبڑایا ، اس کے چہرے کا رنگ سیاہ سے کچھ اور سیاہ ہوگیا ۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے زور سے پاوں پٹخے اور کھیتوں میں کام کرنے واپس چلا گیا ۔
لیکن غلام اب کچھ کام چور ہوگیا تھا ، کام میں اس کا دل ویسے نہ لگتا جیسے کہ پہلے تھا ، سونے یا آرام کرنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا اس کا جوان و طاقتور جسم ایک سستی کی سی کیفیت کا شکار نظر آتا۔ امریکہ نے اس بات پر اس کو ایک بار بری طرح پیٹا بھی گوکہ وہ اس بات پر زاروقطار رویا لیکن اس کی سستی کچھ کم ہوگئی ۔ وہ اب پہلے کی طرح حساب بھی نہیں کرتا تھا لیکن اپنے مضبوط ہاتھوں کو دیکھتا رہتا دوسال ،سہاگ رات کی طرح تیزی سے گزر گئے ۔امریکہ نے غلام کو معقول رقم دے دی تاکہ وہ مغرب کی طرف اپنے جنگل کے لیے سفر کرسکے ۔ کچھ عرصے بعد غلام تھکا ماندہ امریکہ کے پاس واپس آگیا وہ مغرب میں دور تک گیا تھا لیکن اس کو اپنا وطن نہیں ملا ۔ امریکہ نے اس کا حوصلہ بڑھایا اس کو کچھ اور رقم دی تاکہ وہ مشرق کی طرف سفر کرکے اپنے جنگل کو ڈھونڈ سکے ! غلام کو مشرق میں جنگل مل گیا، لیکن خود اپنے ہی گھر میں اس کا دل نہ لگا،جنگل کی ویرانی ،شہر کی رنگنیوں کا زور سے احساس دلوانے لگیں ،روز طلوع ہونے والا سورج جب مشرق سے نکلتا تو وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو دیکھنا شروع کردیتا۔ اس کی ٹانگوں نے خود بخود ہی حرکت کی اور مغرب کی طرف عازم سفر ہوگئیں ! وہ امریکہ کے پاس واپس جارہا تھا  امریکہ کو اسے دیکھ کر کوئی حیرانی نہیں ہوئی ۔غلام نے اسے بتایا کہ جو جنگل اسے ملے وہ اسے اپنے نہیں لگے ۔ 
امریکہ نے بڑی توجہ سے اس کی کہانی سنی اور اسے پیار سے کہا ! دیکھو یہ میرا گھر تمہارا اپنا گھر ہے ۔ تم اس میں مزے سے رہو میں تمہارا خیال رکھوں گا لیکن اب کسی طرف بھی جانے کا نہ سوچنا! اور غلام نے سر جھکا دیا ! غلام نے محنت سے کام شروع کردیا ۔اس بار وہ ایسے کام کرتا جیسے کہ وہ اس کا اپنا کام ہو ، امریکہ اس کی صحت و خوراک کا خیال رکھتا تاکہ وہ طاقتور رہے اور اس کا کام کرسکے ۔ سستی دیکھنے پر اس پیٹتا بھی جس پر غلام روتا بھی نہیں ! امریکہ اسے اتوار کو چھٹی بھی دے دیتا تاکہ وہ قریبی پہاڑی پر جاکر مغرب میں غروب ہوتے سورج کو دیکھتا رہے ۔ غلام کی محنت سے امریکہ کی فصلیں اور اچھی ہونے لگیں اس نے ایک اور قطعہ زمین خریدا تاکہ اس پر بھی کھیتی باڑی ہوسکے امریکہ دن بدن امیر ہوتا چلا گیا کچھ عرصہ بعد اس نے غلام کے لیے ایک کنیز بھی خرید لی ! وقت دھیمی رفتار سے آگے بڑھتا چلا گیا ۔ امریکہ اب بوڑھا ہوگیا تھا لیکن اس کے گھر میں اب چھ غلام زادے تھے ایک سے بڑھ کر ایک کڑیل جوان ان کاغلام والد انہیں بتاتا کہ وقت اسی صورت گزرتا ہے جب کوئی کام میں مصروف رہے۔ اور جب (اسی انداز میں ) وقت گزر کر ماضی کا حصہ بن جائے تب ہی ہم لا فانی قسم کے جنگلوں کے اہل ہو سکتے ہیں۔ آرام والے دن وہ اپنے بیٹوں کو پہاڑی پر لے جاتا۔ انہیں غروب ہوتا سورج دکھاتا اور انہیں تمنا کرنے، آرزو کرنے اور (کسی چیز کا) انتظار کرنے کا ڈھنگ سکھاتا۔ امریکہ اب خاصا بوڑھا اور لاغر ہو گیا تھا۔ بوڑھا تو وہ پہلے ہی تھا مگر اب وہ زندگی کے دن گن کر گزار رہا تھا۔ اس کا بیٹا مضبوط و توانا تو نہیں بن سکا لیکن اسے اس بات سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کے گھر میں موجود غلام زادوں میں سے ہر ایک اتنا مضبوط اور لحیم تھا کہ وہ صرف ایک مکے کی ضرب سے کسی بھی شخص کو گرا سکتا تھا۔ وہ انتہائی طاقت ور تھے،ان کے پٹھے لوہے کی مانند تھے اور ان سب کے دانت شیر کی طرح تھے۔ اور ان کے پاس ابھی وقت بھی بہت تھا۔ وہ غلام زادے اپنی کلہاڑیاں چلاتے اور جنگلوں کے درخت کاٹتے رہے۔ 

 (جو ہنیری جنیسن کی کہانی سے ماخوذ)

1 تبصرہ: