پیر، 28 اپریل، 2014

شیخ ابوقتادہ فلسطینی فک اللہ اسرہ کا الدولۃ کے خوارج ہونے پر فتوی !

  بسم اللہ الرحمن الرحیم

  مجاہدین اور محبان جہاد کے نام ایک پیغام
شیخ ابوقتادہ فلسطینی فک اللہ اسرہ کی جانب سے

 یہ خط میں شدید دکھ کیساتھ لکھ رہا ہوں اور اگر یہ اللہ کیساتھ اس عہد کے مطابق نہ ہوتا جوکے اس نے اپنی مخلوق سے لیا تھا تو میں یہ خط کبھی نہ لکھتا، ۔اللہ گواہ ہیں کہ میں نے اس خط کو جاری نہ کرنے کے لیے اپنے آپ سے کتنی سخت جدوجہد کی ہے لیکن اس بات کے خوف نے کہ کہیں میں وہ سچ تو نہیں چھپا رہا جو کے میں جانتا ہوں میں اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔میں نے خاص حلقہ احباب میں اور عوامی سطح پر ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اہل جہاد پر سے کسی بھی نقصان کو ہٹاوں تاہم وہ لوگ جو کے جھوٹ ،شیطان اور گمراہی کا شکار ہوچکے ۔انکا عظیم مقصد صرف جہاد کو تباہ کرنا ہے اور اسکی بھلائی انہیں مقصود نہیں ہے ۔ ان الفاظ کا مخاطب "الدولۃ الاسلامیہ فی العراق کی قیادت اور شام میں انکی شاخ ہے "۔ مجھ اسپر مکمل شرح صدر حاصل ہوچکی جسمیں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ گروہ (الدولۃ الاسلامیہ)بمعہ اسکی عسکری و اسلامی قیادت کے "جہنم کے کتے" ہیں اور انکے اعمال اسپر گواہی دیتے ہیں ،اور وہ رسول اللہ کی اس تعریف پر سب سے زیادہ پورا اترتے ہیں جو کے احادیث میں وارد ہوئی ہے ۔ "وہ مسلمانوں کو ماریں گئیں اور کافروں کو چھوڑ دیں گئیں ۔اللہ کی قسم اگر میں انہیں پاوں تو قوم عاد کی طرح قتل کروں "۔ میں انکے بدترین اعمال کیوجہ سے اس فتوی کو دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ۔ میں نے انہیں سمجھانے کی ہرممکن کوشش کی حتی کے انہوں نے نصحیت ،سچائی و رہنمائی کو ماننے سے انکار کردیا ۔میرا یہ خطاب ان لوگوں کیساتھ ہے جو کے اپنے آپ کو ان سے منسوب کرتے ہیں اور جنکے دلوں میں رتی بھر بھی سنت ، دین یا اللہ کا خوف ہے ،جو مسلمانوں کا خون بہانے سے ڈرتے ہیں کہ یہ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ کے رسول کا فرمان ہے ۔ رسول اللہ کی بیان کردہ تعریف کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ ہم ایسے لوگوں کے متعلق (خارجی کے علاوہ)کوئی اور نام تلاش کریں ،۔

بعض لوگ یہ اعتراض کریں گئیں کہ خوارج کی تعریف ان کے عقیدے پر پورا نہیں اترتی کیونکہ خوارج یہ یقین کرتے تھے کہ جو بھی بندہ کبیرہ گناہ کرتا ہے وہ مرتد ہوتا ہے لیکن رسول اللہ کی حدیث و تعریف ہمیں انکے رویئے کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے بغیر اس بحث میں جائے کہ انکا عقیدہ کیا تھا ۔ انکے بڑوں کا رویہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں بھی ایسا ہی تھا جیسا کے آج انکا ہے ،اسلیے کسی کوبھی رسول اللہ کے فتوی کے علاوہ بات نہیں کرنی چاہیے ۔ان لوگوں کی مثال ایسی ہے ہے جو کے ایمان والوں کیساتھ لڑائی کرتے ہیں جیسے کے جبھۃ النصرہ۔(اللہ انکے کمانداروںوعلماء کی حفاظت فرمائے آمین )۔یہ وہ ہیں جوحکیم الامت شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ جیسے جہاد کے رہنماوں پر پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا منہج بدل لیا ہے ،یہ وہ ہیں جو کے الفاظ سے دھوکہ دیتے ہیں ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ جہاد کے راستے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے نہ ہی یہ اہل جہاد کے عقیدے کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی انکی حکمت عملی کو ۔انکا یہ دعوی کتنا عجیب ہے کہ ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ کاعقیدہ شیخ اسامہ بن لادنؒ کے عقیدے سے ہٹ کر ہے !۔ماسوا انکے جو کے انکے ہی جیسے ہیں ان کی بات کوئی نہیں سنتا جو ان لوگوں (مجاہدین رہنما)کی تاریخ کو نہیں جانتے اور انکے کارناموں کی انہیں کچھ خبر نہیں ہے ۔ یہ دوسروں کو اپنے الفاظ و اصطلاحات سے گمراہ ہونے کا الزام دیتے ہیں حالانکہ یہ خود اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں گمراہ ، جھوٹے و متکبر کہہ کر پکارا جائے !گو کے ان کے الزامات کی اب میرے نزدیک کوئی حثیت نہیں ہے اور یہ مجھے زیادہ متاثر نہیں کرتے لیکن انکے جرائم ہمارے سر پر یہ زمہ داری ڈالتے ہیں کہ ہم ان سے اظہار برآت کریں کیونکہ یہ رسول اللہ کی بتائی گئی خوارج کی تعریف پر پورا اترتے ہیں مجھے اچھی طرح ادراک ہے کہ جاہل بہت ساری باتیں کریں گئیں جن میں سے کم از کم یہ بات ہوگی کہ "یہ بندہ جیل میں ہے اس لیے کچھ نہیں جانتا"۔ میں جوابا کہتا ہوں کہ اللہ گواہ ہیں کہ میں ان سے زیادہ جانتا ہوں ۔مسئلہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ مجھے معلومات نہیں مل رہیں بلکہ دراصل یہ ہے کہ میں ان معلومات میں سے بہت کم ہی افشا کرسکتا ہوں ،میں اس مقام پر نہیں ہوں کہ میں ہرروز دوسروں کی طرح ایک نیا بیان جاری کرسکوں اور یہی وجہ ہے کہ میدان ان جیسے جہلاء کے لیے خالی پڑا ہے جو کے الدولۃ کے ساتھ یوں چمٹے ہوئے ہیں جیسے ایک جاہل اپنے قبیلے کیساتھ جہالت کیوجہ سے چمٹا ہوتا ہے ۔میرا یہ خطاب صرف ان لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے اگر دین میں کوئی بدعت پھیلتی ہے تو اسکی مثال کتے کی بیماری کی طرح ہے جو کے ہرروز اسے اندر باہر سے کمزور و اندھا بنارہی ہوتی ہے ۔ میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ معاملات اس حد تک پہنچے اور جہادی صفوف کی صفائی ہوئی اور اہل جہاد و اہل بدعت میں فرق واضح ہوگیا۔ میں مجاہدین شام کے دکھ کو محسوس کرسکتا ہوں جو کے انہیں ان لوگوں کے جرائم کی وجہ سے پہنچا ہے ،جو کبھی انکے ساتھ ملکر غداروں سے لڑرہے تھے لیکن انکے جنون و انتہا پسندی نے انہیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنے سابقہ ساتھیوں کا خون بھی حلال کربیٹھے ہیں !۔ 
میں ان تمام مجاہدین کو جو ان سے محبت رکھتے ہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ رسول اللہ کی حدیث کو غور سے پڑھیں اور سمجھیں "کہ میری امت میں ایک گروہ بقیہ رہے گا"۔ یہ اسلیے کے وہ سمجھیں کہ یہ ایک گروہ (مجاہدین)ہمیشہ رہنے والا ہےجسکو یہ (الدولۃ کے خوارج )جہادی رہنماوں ،انکے کمانداروں اور انکو جنہوں نے جہاد کا پودا اپنے خون سے سینچا ہے اور اپنے خاندانوں و زندگیوں کی اسکے لیے قربانی دی ہے ،مار کر توڑنا چاہتے ہیں !!۔اور ایسا کرنے کے بعد یہ خوفناک بیانات جاری کرتے ہیں !۔میں اس لیے جبھۃ النصرہ میں علم سے محبت رکھنے والوں اور اسکے طالبین ،ڈاکٹر سامی العریدی حفظہ اللہ ، ابوماریہ العراقی حفظہ اللہ اور عبداللہ الشامی حفظہ اللہ اور انکے ساتھ ساتھ ڈاکٹر المحسینی کے صبر اور انکی کوششوں کا شکر گزار ہوں جو انہوں نے ان جاہلوں کے پھیلائے ہوئے شبہات کا جواب دینے کے لیے کی ہیں ۔میں یہاں الشام کے سارے اہل علم کا تذکرہ نہیں کرسکتا ۔ شام کا جہاد جہاں بدترین دشمن کے ہاتھوں مصائب کا شکار ہے وہاں ایسے جہلاء کے ہاتھوں بھی مصائب کا شکار ہے جو کے جہاد سے محبت رکھتے ہیں یہ بھی جہاد کو اسی طرح نقصان پہنچا رہے ہیں جیسے کے دشمن پہنچا رہا ہے ۔ایمان دار لوگوں کو انکے جرائم کے مقابلے پر صبر کرنا چاہیے ،اہل علم اور اہل فراست کو اس حدیث پر غور کرنا چاہیے "میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کرتا"۔یہ حدیث نہ خیبر کے یہود سے متعلقہ ہے اور نہ ہی یہ قریش پر منطبق کی جاسکتی ہے حالانکہ وہ رسول اللہ کے سب سے سخت دشمن تھے ،اسکی وجہ یہ ہے کہ ان خوارج کا کتوں کے پاگل پن کی طرح کوئی علاج نہیں کیا جاسکتا اور ان میں سے اگر کوئی ایک بھی زندہ بچ گیا تو وہ امت محمدیہ کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہوگا ۔ اس گروہ خوارج کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے ۔ اگر ان میں سے ایک یا دو بھی زندہ بچ جائیں تو یہ اپنی گمراہی صحراوں میں اور ان جگہوں پر تیزی سے پھیلا دیں گئیں جہاں علم کی کمی ہو جسکا نتیجہ انکے دوبارہ ابھرنے کی میں نکل سکتا ہے ،الدولۃ کا گروہ وہی خوارج کا گروہ ہے جو کے ماضی میں پایا جاتا تھا ،ان دونوں میں رتی بھر بھی فرق نہیں ہے ۔ اگر سوال کرنے والا انکے متعلق فتوی پوچھے یا اسکی دلیل طلب کرے تو اسے اہل جہاد کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔یہ بات ورطہ حیرت میں ڈالنے والی ہے کہ یہ ذلت کی اس انتہا پر پہنچ گئے ہیں کہ انہوں نے اہل جہاد کو بھی اپنا دشمن بنا لیا ہے !انہیں مرتدین کہتے ہیں انکے رہنماوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کے اموال کو حلال سمجھتے ہیں ! ان امور کے بعد شک و شبہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ؟ یہ میرا انکے متعلق فتوی ہے اور میں اسکے لیے اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں اور اگر یہ جہاد کے حق میں نہ ہوتا اور مجھے خاموش رہنے میں حکمت محسوس ہوتی تو میں ضرور ایسا ہی کرتا ۔ اللہ گواہ ہے کہ میرا  ان الفاظ کا مقصد صرف نصیحت کرنا ہے اور سنت پر عملدارمد کرنا اور جہلاء کے شر کو رفع کرنا و جہاد کو ان سے پاک کرنا ہے ۔یہ الفاظ میں ایسی جگہ(جیل خانہ) سے کہہ رہا ہوں جہاں سے میں اس فتوی پر اٹھنے والے سوالات کا جواب یا ان اعتراضات کا جواب نہیں دے پاوں گا جو کے اس فتوی سے متعلق اٹھائیں جائیں گئیں ۔زندگی کی نعمت تھوڑی ہے اور اسمیں اللہ ہی کو خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جتنی بھی کوئی کرسکے ۔جو کچھ میں نے اوپر کہا ہے وہی دوسرے علماء کا بھی فرمانا ہے جو کے اسی منہج سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہر کوئی اپنے طریقہ اور تاویلات رکھتا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرے اور اس بات کی جانب جو کے اللہ کو خوش کرتی ہے اور اسے پسند ہے ۔اللہ تعالی جہاد کو اور مجاہدین کو فتح عظیم سے نوازے ۔ آمین آپکا بھائی
 ابوقتادہ
2014، 28 اپریل


منگل، 15 اپریل، 2014

کیا عالمی جہادی تحریک نے اپنا منہج تبدئیل کرلیا ہے ؟!

مصنف ۔ یوسف المرابطی 
مترجم - وردۃ الاسلام

  بسم اللہ الرحمن الرحیم
 تنظیم القاعدہ کی طرف سے جاری کیا گیا تحریری بیان ((جہادی عمل کا لائحہ کار)) تنظیم کے ہاں اول روز سے مسلم قواعد پر مشتمل ہے یا یہ القاعدہ کا سابقہ غلطیوں سے رجوع ہے؟ القاعدہ کے تحریری بیان پر جو ڈاکٹر الظواہری کی طرف سے دستخط شدہ ہے کئی قسم کے شبہات سامنے آئے جن میں یہ بات بہت اٹھائی جا رہی ہے کہ اس تحریری بیان میں القاعدہ نے اپنی سابقہ غلطیوں سے رجوع کیا ہے یا اصلاح کی ہے  اور یہ کہ 17 نکات پر مشتمل یہ تحریری بیان القاعدہ کی جھاد کے بارے میں نئی حکمت عملی کا بیان ہے جو اس نے جھادی کاروائیوں،اسلامی ممالک کی حکومتوں،مختلف گروہوں سے تعامل اور مسلمان ممالک میں بسنے والے کافروں کے بارے میں اختیار کی ۔ جب کے حقیقت یہ ہے کہ جب سے تنظیم وجود میں آئی ہے یہ پہلا موقع ہے کہ اس نے جھادی عمل کے لیے مستقل لائحہ عمل جاری کیا ہے(جسکی وجہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہورہی ہے )،یہ تحریری بیان تنظیم کی ہر شاخ اس کی تائید کرنے والے ہر گروہ اور اس کے حامیوں کے لیے ایک دستور کی حیثیت رکھتا ہے۔اس بیان کے اجراء سے قبل حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والوں کو تنظیم کے جھادی موقف کو جاننے کے لیے اس کی تمام ویڈیوز آڈیوز اور انٹرویوز کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ اس بیان میں کوئی نیا موقف نہیں اختیار کیا گیا بلکہ اس کی ہر شق تنظیم القاعدہ کے قیام سے لیکرآج تک اختیار کیے گئے موقف کو ہی واضح کرتی ہے ہم چند نکات کے بارے میں تفصیلی بات کریں گے اور ان نکات کا موازنہ پرانے بیانات سے کریں گے جن کے بارے میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ یہ القاعدہ کا رجوع ہیں یا اس طریق کار سے انحراف ہے جسکا یہ دعوی کرتی ہے۔
 حکومتوں کے ساتھ مسلح لڑائی!
 کے بارے میں اس تحریری بیان کی تیسری شق میں کہا گیا کہ" داخلی(مسلم) حکومتوں کے ساتھ قتال نہ کیا جائے الا یہ کہ ہم مجبور کر دیے جائیں یعنی اگر حکومت امریکی طاقت کا حصہ بن رہی ہو جیسا کہ افغانستان میں ہے یا وہ امریکا کی طرف سے مجاھدین سے لڑ رہی ہو جیسا کہ صومال اور جزیرہ عرب میں ہے یا حکومت کو مجاہدین کا وجود برداشت نہ ہو جیسا کہ مغرب اسلامی ، شام اور عراق میں ہے لیکن جتنا ہو سکے ان کے قتال سے بچنے کی کوشش کی جائے۔۔۔اور اگر قتال مجبورا کرنا پڑے تو اس بات کا اظہار کر دیا جائے کہ ہماری ان حکومتوں سے جنگ مسلمانوں کے خلاف لڑی جانے والی صلیبی جنگ سے دفاع کا حصہ ہے"
 یہی بات القاعدہ کے یوم تاسیس سے آج تک تنظیم کے ہاں ایک اصول ہے،تنظیم القاعدہ کا خیال ہے کہ حکومت کے ساتھ قتال کی کوئی ضرورت نہیں ہے تنظیم القاعدہ کے سابق امیر الشیخ اسامہ بن لادن اآڈیو بیان میں فرماتے ہیں بیان کا موضوع ہے
"امریکیوں سے اعلان جنگ جنہوں نے بلاد حرمین پر قبضہ کر رکھا ہے" یہ بیان 7 سال قبل نشر کیا گیا تھا۔
"ان حالات میں اپنی تمام تر قوتیں سب سے بڑے دمشن اسلامی ممالک پر قبضہ کرنے والے سب سے بڑے کافر کے خلاف جھاد پر امت کو ابھارنے اور تیار کرنے پر صرف کرنی چاہیے یہ ایسا دشمن ہے جو دین اور دنیا کو بگاڑ رہا ہے اور یہ دشمن اسرائیل کا حلیف امریکہ ہے جو کہ مکہ مدینہ کو اپنے قبضے میں لیے ہوئے ہے ،اور مسلمانوں کو یاد دہانی کروانی چاہیے کہ امت مسلمہ کے بیٹوں کے درمیان جنگ و جدال سے اجتناب کریں کیونکہ اس کے نتائج بہت خوفناک ہیں۔"
  اسی بات کی تاکید 2007 مئی میں حسبۃ نیٹ ورک کے ساتھ اوپن ڈسکشن میں شیخ عطیۃ اللہ لیبی نے کی( جو تنظیم القاعدہ کی لجنۃ شرعیہ کے عضو تھے) حسبۃ نیٹ ورک تنظیم القاعدۃ کا ڈیٹا نشر کرنے میں معروف ہے ۔
آپ نے فرمایا:"میرے نزدیک اور اور القاعدہ کو جاننے والے اور 11 ستمبر کے واقعات سے قبل شیخ اسامہ بن لادن کو جاننے والے ہر شیخ کو یہ بات معلوم ہے کہ شیخ سعودی حکومت اور دیگر عرب حکومتوں کے ساتھ ٹکراو نہیں چاہتے تھے یہ ان کے بارے میں معروف اور مشھور بات ہے"
 اسی ملاقات میں انہوں نے یہ بھی کہا،" الشیخ اسامہ جس قدر ممکن ہوسکے ان حکومتوں سے ٹکراو سے بچناچاہتے ہیں اور ان سے ٹکراو میں جلدی کی رائے نہیں رکھتے،بلکہ ہم امریکہ کو ماریں گے جو سب کا سردار ہے،اور اپنی ساری قوتیں اور طاقتیں اس کے خلاف خرچ کریں گے،اور اس کے علاوہ ہم صرف اس کی ان دم چھلی حکومتوں سے ٹکرائیں گے جن سے ٹکرائیں بغیر کوئی چارہ نہیں"
 ڈاکٹر ایمن الظواہری ستمبر 2011 میں ((نصرت کی صبح قریب ہے )) کے عنوان سے جاری کردہ آڈیو بیان میں فرماتے ہیں "امریکا کا پٹھو میڈیا زعم کرتا ہے کہ القاعدہ کا داخلی حکومتوں کے ساتھ مزاحمت کا اسلوب ناکام ثابت ہو گیا ہے اور یہ میڈیا یہ بات بھول جاتا ہے کہ القاعدہ اور زیادہ تر جہادی تنظیمیں ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ قبل یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ عمومی داخلی حکومتوں سے مزاحمت ترک کر کے دنیا کے سب سے بڑے مجرم کے خلاف قتال پر اپنی تمام تر قوتیں مرکوز کی جائیں "
مختلف گروہوں اور فرقوں کیساتھ تعامل !
رہی بات مختلف گروہوں اور منحرف فرقوں کے ساتھ تعامل کرنے کی تو چوتھی اور پانچویں شق میں بیان کیا گیا ہے کہ منحرف فرقوں مثلا روافض ،اسماعیلی،قادیانی،صوفیہ وغیرہ سے قتال نہ کیا جائے جب تک کہ وہ اھل سنت سے قتال نہ کریں ،اور اگر وہ اھل سنت سے قتال کریں تو قتال کرنے والے فرقے اور گروہ تک اپنی جوابی کاروائی کو محدود رکھا جائے،اسلامی ممالک میں عیسائیوں سکھوں اور ہندووں کو نقصان نہ پہنچایا جائے،اگر ان کی طرف سے سرکشی اور دشمنی کا سامنا کرنا پڑے تو ان کی سرکشی اور دشمنی کی حد تک جواب کو محدود رکھا جائے ،اور یہ بات واضح کر دی جائے کہ ہم ان سے قتال کی ابتدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ ہم عالمی کفر کے ساتھ قتال میں مصروف ہیں اور ہم اس بات کے حریص ہیں کہ ان کے ساتھ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد امن و سکون سے رہیں۔۔۔ اس مسئلے پر القاعدہ کی قیادت نے تنبیہ کی ہے کہ مخالف گروہ اگر قتال کی ابتدا نہ کرنے والے ہوں تو ان سے قتال نہ کیا جائے ۔ مدت اجراء سے 6 سال پہلے ہونے والی اوپن ڈسکشن میں شیخ ایمن الظواہری نے شیعوں کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا "شیعہ کی عوام کے بارے میں میرا وہی موقف ہے جو اہل سنت والجماعت کے علماء کا ہے ،کہ انہیں ان کی جہالت پر عذر دیا جائے گا،لیکن ان میں سے جو صلیبیوں کے ساتھ شرکت کریں اور مسلمانوں پر زیادتی کریں تو ان کا حکم اسلام کے شرائع سے باز رہنے والے گروہوں کا حکم ہے لیکن ان کی وہ عوام جو نہ ہی صلیبیوں کے ساتھ تعاون کرے اور نہ مسلمانوں پر زیادتی کرے تو ان کے ساتھ ہم دعوت کی راہ اختیار کرتے ہیں اور ان کے سامنے حقائق کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ،اور ان کے سامنے ہم وہ جرائم کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو ان کے بڑے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرتے آئے ہیں"۔
اسی طرح انہوں نے اپنی تبرئہ نامی کتاب میں عیسائیوں سے مخاطب ہو کر کہا جو کہ 2008 میں شائع ہوئی تھی "آپ لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں صلیبیوں کی  صف میں کھڑے ہونے سے باز آ جاو خاص طور پر امریکا،اور اس کے عملاء اس کے غلاموں کی صفوں میں بھی نہ کھڑے ہو جن میں سرکردہ حسنی مبارک ہے،ہمارے اور ان کے درمیان شدید معرکہ جاری ہے،اپنے اآپ کو اس معرکہ میں نہ دھکیلو،ہم اآپ کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتے"
 اور یہ ابو مصعب الزرقاوی بلاد الرافدین میں القاعدہ کے سابق امیر 2005 میں نشر کی جانے والے اآڈیو بیان میں فرماتے ہیں"ارض رافدین پر مختلف گروہ بستے ہیں ستارہ پرست،یزیدی شیطان کے عبادت گزار،کلدائی اور آشوری،ہم نے ان کی طرف اپنا ہاتھ کبھی برائی کی نیت سے بڑھایا ہے نہ ہی ہم نے ان پر اسلحہ تانا ہے باوجود اس امر کے کہ ان گروہوں کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ،لیکن ہم پر یہ واضح نہیں ہوا کہ یہ گروہ مجاہدین کے خلاف قتال میں صلیبیوں کی مدد کرتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے روافض کی طرح ملعون اور گھٹیا کردار ادا کیا ہے"
بلکہ بلاد رافدین میں تنظیم القاعدہ نے اعلان کیا تھا کہ القاعدہ ان شیعہ گروپوں کو کچھ نقصان نہ ہپہنچائے گی جو قابض امریکا کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے ،جیسا کہ 2005 میں ان کے ایک بیان میں کہا گیا" شیعوں کا ہر وہ گروہ جو تلعفر وغیرہ میں حکومت کا اھل سنت والجماعت پر کیے جانے والے مظالم کا رد کرتا ہے اور کسی بھی صورت میں قابض امریکی فوجیوں کے ساتھ معاونت نہیں کرتا تو وہ مجاھدین کی کاروائیوں سے محفوظ رہے گا اللہ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے"ولا یجر منکم شنان قوم علی الا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی"۔۔۔۔جبکہ بعض شیعہ گروپوں نے تلعفر میں ہونے والے قتل عام کا رد کیا ہے اور القاعدہ کو اپنے خاص ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بعض گروہپوں نے اس قتل عام کے سنگین واقعہ میں حصہ نہیں لیا اور بعض گروپوں نے قابض امریکہ کا تعاون کرنے سے انکار کیا ہے جیسا کہ تیار الصدری،خالصی اور حسنی وغیرہ،اس لیے تنظیم القاعدہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ان گروپوں کی عوام اور ان کے شعارات کو کچھ نقصان نہ پہنچایا جائے جب تک وہ خود لڑائی شروع کرنے والے نہ ہوں"۔
عوامی مقامات پر حملے کرنا !
 اب بات کرتے ہیں عوامی مقامات یعنی مسجدوں،بازاروں اور رش کے مقامات پر دھماکے کرنے کے بارے میں جہاں دھماکوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ فوت ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے اموال کو شدید نقصانات پہنچتے ہیں اس بارے میں تنظیم القاعدہ نے 8ویں اور 9ویں شق میں بیان کیا کہ"دھماکووں،اغوا کاریوں اور قتل اور مال پر ڈاکے مارنے کے ذریعے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے باز رہا جائے،مسجدوں بازاروں اور رش کے اماکن پر جہاں دشمن عوام کے ساتھ مل جل جاتے ہیں وہاں اپنے دشمنوں کو نشانہ بنانے سے رکا جائے" یہ معاملہ ہمیشہ زیر بحث رہا اور تنظیم القاعدہ کی قیادت ہمیشہ سے ان کاروائیوں کا رد کرتی رہی ہے اور ایسی کاروائیاں کرنے والا کوئی بھی ہو کبھی القاعدہ نے ان کی حمایت نہیں کی اگرچہ وہ اپنے اآپ کو تنظیم سے منسوب ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ 2008 کی گرمیوں میں پاکستانی نیوز چینل جیو نے ابو مصطفی یزید کی ڈرون اٹیک میں شہادت سے قبل ان سے پاکستانی سابق وزیر داخلہ شیرپاو پر مسجد میں حملے کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا" اللہ کا شکر ہے ہم نے اس حادثہ کے بعد بیان جاری کیا ہے جس میں ہم نے سختی سے اس بات کی تردید کی ہے،ہم نے یہ کاروائی نہیں کی نہ ہو ہم اس پر راضی ہیں اور نہ ہی اسے درست سمجھتے ہیں۔جو ہم سے اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے ہم نے ان کے لیے واضح کر دیا ہے کہ اس جیسی کاروائیاں شریعت میں جائز نہیں ہیں اور مجاھدین پر لازم ہے کہ وہ ایسی جگہوں سے اجتناب کریں جہاں عوام اکھٹی ہوتی ہے خاص طور پر مساجد کیوں یہ پاک اور محترم مقامات میں سے ہیں،اور ایسی جگہوں پر کاروائیوں سے بھی اجتناب کیا جائے۔میں کہنا چاہتا ہوں کہ جن کاروائیوں میں مساجد کو نشانہ بنایا جاتا ہے ان کے پیچھے وہ خفیہ ہاتھ ہو سکتا ہے جو مساجد کو بدنام کرنا چاہتا ہے"۔ بلکہ القاعدہ کی طرف سے 2007 میں بھی بیان جاری کیا گیا تھا جس میں ایسی کاروائیوآں کے بارے میں تنظیم کے موقف کو بخوبی واضح کیا گیا تھا،اس بیان میں کہا گیا تھا کہ" ہم تنظیم القاعدہ کے سربراہ واضح کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے نا حق قتل سے بری الذمہ ہیں وہ جہاں کہیں بھی ہوں خصوصا اگر وہ مساجد میں ہوں،چند روز قبل چار سدہ پشاور کی مسجد میں ہونے والے دھماکے سے ہم لا تعلق ہیں نہی ہم نے اس کا حکم دیا نہ ہم اس راضی ہیں ،ہم ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ہم مساجد بازاروں اور عام مسلمانوں کے رش کے مقامات پر دھماکے نہیں کرتے ہم کتنے ہی شرعی طور پر جائز ٹارگٹ اور کتنے ہی اعمال صرف ان حرمتوں کا خیال رکھتے ہوئے ہم نے چھوڑ دیے" 2011 میں نشر ہونے والی ویڈیو میں تنظیم القاعدہ کی لجنۃ شرعیہ کے ممبر عطیۃ اللہ اللیبی نے فرمایا"ہم پورے زور کیساتھ  ہر اس کاروائی سے برآت کا اعلان کرتے ہیں جو عام مسلمانوں کے مجمع کو نشانہ بناتی ہے چاہے وہ مسجد میں ہو،بازار میں یا راستوں میں،اور تنظیم القاعدہ کی اعلی قیادت نے بارہا اپنے بیانات اور اپنے سپیکرز کے ذریعے اس بات کو واضح کیا ہے اور ہم نے واضح کیا ہے کہ یہ کام ہمارے منھج،طریقے اور دعوتی اصولوں کے خلاف ہے،اور ہم نے واضح کیا ہے کہ ہم اسلامی قوموں کو غلام قومیں سمجھتے ہیں"
 یہ بات معلوم رہے کہ تنظیم کی جس شاخ پر سب سے زیادہ ایسی کاروائیوں کی تھمت لگائی جاتی ہے وہ عراق کی تنظیم ہے جن کی قیادت کا ایک شخص ابو مسلم العراقی 2005 میں اپنی ویڈیو بیان میں کہتے ہیں" دشمن نے اپنی ناکامی اور عظیم نقصانات پر پردہ ڈالنے کے لیے بازاروں شہریوں کے درمیان بارود سے بھری گاڑیوں سے دھماکے کرنا شروع کر دیے تاکہ مجاھدین کی بدنامی ہو جائے اور ان کا تصور عام مسلمانوں کے ذہنوں میں بگاڑ دیا جائے اور تاکہ لوگ اس کے نقصانات پر انگلیاں نہ اٹھائیں ،اللہ جانتا ہے کہ مجاھدین کسی معصوم مسلمان کی ناحق جان لینے کی جرات نہیں کرتے ،بلکہ وہ تو اسلام۔ مسلمانوں کی جانوں اور ان کی عزتوں کے دفاع کے لیے ہی تو اپنے گھروں سے نکلے ہیں"
اسلامی جماعتوں کے متعلق موقف!
 شق 11 میں اسلامی جماعتوں کے بارے میں تنظیم کا موقف بیان کیا گیا ہے"دیگر اسلامی جماعتوں کے متعلق ہمارا موقف:جن باتوں پر ہم متفق ہیں اس میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں،جس میں ہمارا اختلاف ہے اس میں ایک دوسرے کو سمجھائیں گے ،سب سے پہلے ہماری جنگ اسلام کے دشمنوں اور اس کے مد مقابل گروپوں سے ہے اس لیے ایسا نہ ہو کہ جماعتوں سے اختلاف ہمیں اسلام کے دشمنوں سے عسکری،دعوتی ،فکری اور جنگ سے روک دے،اسلامی جماعتوں سے جو بھی اچھا عمل یا اچھی بات صادر ہوتی ہے ہم اس کی تائید کرتے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں،اور ان سے جو اعلانیہ غلطی صادر ہو ہم اس کا اعلانیہ طور پر رد کرتے ہیں اور جو وہ چھپ کر غلطی کریں ہم بھی اس کا چھپ کر رد کرتے ہیں،ہم علمی وقار کے ساتھ دلائل پیش کرتے ہوئے نصیحت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں،طعن و تشنیع اور ذاتی کیچڑ اچھالنے سے گریز کرتے ہیں،کیونکہ قوت اور طاقت دلیل میں ہوتی ہے کسی کی برائیاں بیان کرنے میں نہیں"
 اپنے اس موقف کا اظہار تنظیم القاعدہ نے کئی موقعوں پر کیا،جیسے فلسطینی تحریک مزاحمت "حماس" اس تحریک کا تعلق اخوان المسلمین سے ہے جس کا تنظیم القاعدہ سے بہت زیادہ اختلاف ہے ،اس کے باوجود تنظیم اس کی تائید و نصرت کی دعوت دیتی ہے جب یہ درست کام کرے اور جب یہ تحریک غلطی کرتی ہے تنظیم اس پر تنقید کرتی ہے ۔تنظیم "فتح" اور "حماس" کو مساوی قرار دینے کے بارے میں 2007 میں اوپن  ڈسکشن میں کیے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹر ایمن الظواہری نے فرمایا"میں اس کی موافقت نہیں کرتا جو حماس اور فتح کو ایک جیسا سمجھتا ہے ،حماس اپنی اسلام سے نسبت کی بار بار تاکید کرتی ہے جبکہ فتح ایک لبرل تحریک ہے،اور نہ ہی میں حماس کی قیادت کی تکفیر کرنے والے کی موافقت کرتا ہوں ،معین افراد کی تکفیر بہت خطرناک مسئلہ ہے،جس میں شروط کا پورا ہونا اور موانع کا زائل ہونا بہت ضروری ہے،میں بھائیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ یہ مسئلہ چھوڑ دیں اور حماس اگر اچھے کام کرے تو اس کی تائید و نصرت پر زور دیں اور اگر وہ غلط کرے تو علمی دعوتی اور انصاف پر مبنی رد پیش کریں"
 عطیہ لیبی 2007 میں منتدیات حسبۃ کے ساتھ اوپن ڈسکشن میں فرماتے ہیں"تحریک حماس کا عالمی نظام اور داخلی حکومتوں کی سازشوں اور چالوں کے سامنے ڈٹ جانا اس کے لیے اجر کا باعث ہے اور اس کی نیکیوں میں اضافہ کا باعث ہے،اس سے زیادہ عظیم کام اس کے بیٹوں کا جہاد اور ان کی روز روشن کی طرح چمکتی قربانیاں ہیں ،اور اللہ کے راستے میں آنے والی  آزمائشوں کو قبول کرنا ہے،یہ سب کچھ ان نیکیوں میں سے ہے جن کا اجر دیا جائے گا ،ان تمام اعمال کے بارے میں ہم اللہ سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان سے قبول فرما لے اور دنیا و آخرت میں عزت دے"
 بلکہ حالات پر نظر رکھنے والے اکثر لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ تحریک طالبان جس کی تائید و نصرت کا اعلان ڈاکٹر ایمن نے کیا ہے اس کا القاعدہ سے فکری اختلاف ہے تحریک طالبان کا تعلق دیوبندی مدرسہ سے ہے ،اس تحریک میں کچھ تصوف بھی پایا جاتا ہے اور ماتریدی عقیدہ سے اس کی نسبت ہے ماتریدی عقیدہ جو اشعری عقیدہ ہی کی مانند ہے ،اور فروعی مسائل میں اس کا اعتماد فقہ حنفی پر ہوتا ہے جبکہ القاعدہ کا تعلق سلفی لوگوں سے ہے ابو مصعب الزرقاوی 2006 میں اپنی شہادت سے قبل ایک گفتگو کی نشست میں فرمایا"ھاں یہ طالبان ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ماتریدی عقائد کے ہیں دیوبندی مدرسہ اہل سنہ سے  خارج شدہ ہے،ان لوگوں کے بارے میں معروف ہے کہ یہ اللہ کی شریعت کے علاوہ کسی اور قانون کو تسلیم نہیں کرتے انہوں نے اللہ کے راستے میں قتال کیا اور یہ سرکش متکبر امریکہ کے سامنے ڈٹ گئے،ہم جانتے ہیں کہ ان میں کچھ غلطیاں بھی ہیں لییکن میرے نزدیک یہ صحیحہ عقیدہ کے حاملین جزیرہ عرب کے علماء سے بہتر ہیں جنہوں نے طاغوت عبداللہ بن عبدالوزید سے بیعت کر لی ہے،یہ کس صحیح عقیدہ کے حاملین ہیں؟؟اللہ کے نزدیک افضل کون ہیں؟؟ملا عمر یا یہ علماء؟؟ملا عمر پوری دنیا سے بہتر ہوں گے اگرچہ دنیا ساری ان جیسے لوگوں سے بھر جائے"
اسی نشست میں آپ نے یہ بھی کہا::ایک اور مثال شیخ عبدلالہ جنابی ہیں جو کہ صوفی ہے ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے اس کے باوجود الشیخ ابو انس شامی رحمہ اللہ ان کے سر کا بوسہ لیا کرتے تھے،الشیخ ابو انس نے انہیں امام ابن تیمیہ کی بعض کتابیں بطور ہدیہ بھی دی تھی ہم اس سے بھلائی کی امید کرتے تھے اور ہمارا لالچ تھا کہ ہم اسے سلف کے راستے پر کھینچ کر لے آئیں،ہم اور کیا چاہتے ہیں جبکہ وہ جھاد کا جھنڈا بلند کیے ہوئے ہو مسلمانوں کے دشمنوں سے قتال کے لیے سب کو بلانے والا ہو ،اللہ کی قسم وہ ہمارے نزدیک جھاد سے بیٹھے رہ جانے والوں اور دوسروں کی ہمتیں پست کرنے والوں سے بہت بہتر ہے"
دنیا بھر کے مظلوم انسانوں کی مدد۔ بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب
 رہا دنیا پھر کے مظلوم انسانوں کی نصرت کا معاملہ ۔اسی تحریری بیان کی 15 ویں شق میں یہ بات درج ہے"القاعدہ مظلوم اور کمزور انسانوں کی نصرت کرتی ہے وہ مسلمان ہوں یا کافر ،جو ان پر زیادتی و ظلم کرے اس سے انتقام لیتی ہے ،اور جو بھی ان کی مدد کر رہا ہو اگر کافر ہی کیوں نہ ہو اس کی تائید و نصرت کرتی ہے"
 یہ معاملہ القاعدہ کے سابق امیر اسامہ بن لادن سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے" زمین کو بچانے کا راستہ "نامی اآڈیو پیغام میں جو 5 سال پہلے جاری کی گئی تھی اس میں آپ نے فرمایا"مجاھد باذن اللہ عراق اور افغانستان میں ظالموں سے قتال کو جاری رکھیں گے،تاکہ حق حق ثابت ہو جائے اور باطل کو توڑ دیا جائے،اور مسلمانوں کی نصرت و تائید فلسطین میں بھی جاری رکھیں گے،کمزوروں اور عاجز بے بس انسان ایشیا میں ہوں یا افریقہ میں یا جنوبی امریکہ میں جن کا اللہ کے علاوہ کوئی سہارا نہیں ان کی نصرت و مدد کریں گے"
 ڈاکٹر ایمن الظواھری 8 سال قبل جاری کی گئی ویڈیو ریکارڈنگ میں فرماتے ہیں ویڈیو کا عنوان ہے"غزہ اور لبنان پر صیھیونی اور صلیبی دشمنی"
اے دنیا بھر کے مظلوموں کمزوروں ،اے مغربی سرکش اور باغی ترقی جس کا سرغنہ امریکا ہے، کے شکار لوگوں،اس ظلم کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کا ساتھ دو جس جیسا ظلم انسانیت نے کبھی اپنی تاریخ میں نہیں دیکھا ،ہمارا ساتھ دو ہم ظلم اور سرکشی کے خلاف تمہارا ساتھ دیں گے،ظلم و سرکشی جسے ہمارے رب نے اپنی کتاب میں حرام قرار دے دیا ہے ،اللہ کا فرمان ہے {إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُوْلَئِكَ لَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ} ہمارا ساتھ دو تاکہ حقوق کو اس کے حقداروں تک لوٹایا جائے اور بنی نوع انسان کی تاریخ سے ظلم و زیادتی کی علامت کو گرا دیا جائے"
 ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ تحریری بیان تنظیم القاعدہ کا نیا منھج نہیں ہے بلکہ پرانے منھج کو ہی دوبارہ سے پیش کرنا ہے شاید بعض گروپ جو اپنے آپ کو القاعدہ سے منسوب کرتے ہیں ان کے ایسے اعمال کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے جو القاعدہ کے منھج کے خلاف ہیں اور جس کی وجہ سے غلطیاں تنظیم القاعدہ سے منسوب کی جا رہی ہیں القاعدہ نے یہ تحریری بیان اپنے تحریکی اور عملی منھج کو بیان کرنے کے لیے جاری کیاتھا نہ کے یہ اسکا اپنے منہج سے انحراف ہے ۔
 والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ
اصل مضمون عربی میں پڑھنے کے لیے کللک کریں 
http://justpaste.it/eeey