پیر، 30 دسمبر، 2013

عراق کی بدلتی صورتحال اور اسکا پس منظر!

عراق کی بدلتی صورتحال 
21 دسمبر 2013 کی رات کو عراق کے صوبہ انبار میں برسرپیکار عراقی فوج کے ساتویں ڈویژن کے اعلی کمانداروں کو ایک خفیہ اطلاع ملی کہ نینوی کی سرحد کے قریب ادھم کے مقام پر القاعدہ کا ایک خفیہ اڈہ پایا جاتا ہے جسمیں ابوبکر البغدادی کے موجود ہونے کا یقین ہے ۔یہ اطلاع اسقدر متاثر کن تھی کہ ساتویں ڈویژن کے کمانداروں نے اس آپریشن کی زمہ داری خود سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ بڑی سرعت و احتیاط کے ساتھ القاعدہ کے اس ممکنہ ٹھکانے کے اردگرد گھیرا ڈال دیا گیا لیکن وقت گزرنے کیساتھ یہ احساس ہونے لگا کہ یہ عمارت جسکے بارے میں دعوی کیا جارہا ہے خالی ہے ۔اس بات کا یقین ہوجانے پر ساتویں ڈویژن کے اعلی کماندار جن میں ساتویں ڈویژن کے سربراہ کمانڈر جنرل محمد الکروی ، ان کے اسسٹنٹ جنرل محمد نعمان اور ستایسیویں اور انتیسیویں بریگیڈ کے سربراہ شامل تھے عمارت کے اندر جائزہ لینے کے لیے داخل ہوئے ۔
لیکن انکا عمارت کا خالی ہونے کا تخمینہ بالکل غلط ثابت ہوا یہ القاعدہ کا پھیلایا ہوا جال تھا جسمیں عراقی فوج چوہے کی طرح پھنس کررہ گئی ،عمارت مکمل طور پر چھپائے گئے بموں و خودکش حملہ آوروں سے لیس تھی جنہوں نے ان لوگوں کے اندر داخل ہوتے ہی پھٹنا شروع کردیا اور ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچ پایا ۔
یہ حادثہ عراقی انتظامیہ کو ہلانے کے لیے کافی تھا بغداد جو کے پہلے ہی ہر روز کے بم دھماکوں سے بیزار تھا اسنے فیصلہ کیا کہ صوبہ انبار کے صحرا میں چھپے ہوئے القاعدہ کے بندوں کیخلاف ایک بھرپور آپریشن کیا جائے گا ۔مالکی حکومت کے اس فیصلے کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر بٹے ہوئے ملک میں بہت عوامی حمایت حاصل ہوئی اور عراقی بلاامتیاز اپنے فرقے کے اس فیصلے کی حمایت میں کمربستہ ہوگئے اور ہر شہر میں ایک بھرپور آپریشن کی حمایت میں جلوس نکالے گئے ،یہانتکہ صوبہ انبار کے مشہور عالم شیخ الحیث نے بھی اہل انبار کو القاعدہ سے لڑنے اور اس آپریشن کی حمایت کرنے پر یہ کہہ کر ابھارا کہ القاعدہ کے اس حملے میں مرنے والے زیادہ تر انباری ہیں  
لیکن عراقی وزیراعظم المالکی نے اس موقع کو اپنے سیاسی مخالفین کے اوپر کریک ڈاون کرنے کے لیے بھی غنیمت جانا۔مالکی کے سنی سیاسی مخالفین تقریبا ایک سال سے مالکی گورنمنٹ پر سنیوں کی سیاسی و معاشی بیخ کنی کرنے کے الزام لگاتے رہے ہیں اور اس کو ایرانی حمایت یافتہ حکومت قرار دیتے ہیں ،یہ ایک عرصے سے وزیراعظم مالکی سے استعفی کا مطالبہ کررہے ہیں اور رمادی میں گذشتہ کئی ماہ سے انہوں نے اس مطالبے پر دھرنا دیا ہوا ہے ،ان سیاسی مخالفین میں سے سب سے معتبر نام ،سنی رکن پارلیمنٹ احمدالعلوانی کا ہے جو کے اپنی تقاریر میں برملا مالکی گورنمنٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اسے ایک فرقہ وارانہ حکومت قرار دیتے ہیں اپنی ایک تقریر میں العلوانی نے یہاں تک کہا تھا کہ ایرانی ایجنٹ ،عراقی سرزمین پر موجود ہیں اور ان کو پاتے ہی ان کے سر بغیر کسی رحم کے کاٹ دینے چاہییں ۔
عراق کے وزیر اعظم مالکی پر تجزیہ نگاروں کیمطابق ایران کیطرف سے بھی کافی دباو ہے جو کے شام میں بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے سخت پریشان ہے ، عراق کے صوبہ انبار سے ملحقہ شامی صوبے دیرالزور میں اسکو بدترین شکست کا سامنا ہے جسکا صرف ایئرپورٹ اسوقت شامی فوجوں کے قبضے میں ہے دیرالزور میں شامی فوجوں سے برسرپیکار مجاہد تنظیم کوئی اور نہیں دولۃ الاسلامیہ العراق والشام ہی ہے ۔دیرالزور پر ان کا قبضہ ہوجانے کا مطلب ہے کہ عراق تا شام ایک وسیع پٹی ان کے زیر اقتدار آتی ہے ، شام میں برسرپیکار القاعدہ کو اسی بارڈر سے سامان رسد و جنگجو ملتے ہیں ، اسلیے مالکی حکومت ادھر ایک بڑا آپریشن کرکے دیرالزور میں پڑنے والے دباو کو کم کرنا چاہتی تھی ۔
نورالمالکی جو کے ایک تیر سے دوشکار کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ حالیہ امریکہ دورہ پر امریکہ کی آشیر واد بھی حاصل کرچکے تھے اس آپریشن کی آڑ میں اپنے سیاسی مخالفین پر کریک ڈاون بھی شروع کردیا اور رمادی میں سنی رکن پارلیمنٹ احمد العلوانی کے گھر سیکورٹی فورسز نے دھاوا بول دیا ،احمد العلوانی کی پرامن گرفتاری سے انکار ایک مسلح جھڑپ میں بدل گیا جسمیں احمد العلوانی کے بھائی سمیت ان کے دس باڈی گارڈ مارے گئے اور احمد العلوانی کو گرفتار کرلیا گیا ، مالکی حکومت کے اسقدم پر سنی علاقوں میں شدید احتجاج پھیل گیا ٖفلوجہ و رمادی میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ، احمد العلوانی کے قبیلے کا نام العلوان ہے اسنے مالکی حکومت کو العلوان کو رہا کرنے کے لیے بارہ گھنٹوں کی مہلت دی جسپر مالکی حکومت نے یہ شرط عائد کی کہ اگر رمادی میں جاری دھرنا ختم کردیا جائے جو کے نورالمالکی کے استعفی کا مطالبہ کررہا ہے تو العلوانی کو رہا کردیا جائے گا ، اسکے جواب میں فلوجہ ورمادی کی مساجد سے مالکی حکومت کیخلاف جہاد کرنے کی اپیل کی گئی اور فلوجہ سے جنگجووں کو رمادی میں جاری دھرنے کی حفاظت کرنے کے لیے روانہ 
کردیا گیا ہے 

فلوجہ میں حکومت مخالف مظاہرے کی ایک جھلک 
رمادی میں حکومت مخالف مظاہرے کی ایک جھلک
تازہ ترین صورتحال 

رمادی میں جاری دھرنا ایک لڑائی کے بعد ختم کردیا گیا ہے جسمیں دس بندوں کے مارے جانے کی اطلاع ہے ، صوبہ انبار ،فلوجہ ، رمادی ، تکریت مکمل بغاوت پر آمادہ ہیں اور جگہ جگہ فوج و پولیس سے جھڑپیں جاری ہیں ،بیشتر عراقی قبائل حکومت خلاف مظاہروں میں شریک ہوگئے ہیں اور بغداد کا رابطہ ان علاقوں سے کاٹ دیا گیا ہے ،صوبہ انبار کے قبائلی سرداروں نے القاعدہ سے ہنگامی میٹنگ کی ہے اور عراقی فوجوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کیا ہے ۔ حکومتی حمایت یافتہ قبائل جو کے پہلے القاعدہ کے کیخلاف بننے والی صحوہ کے متحرک رکن رہے ہیں ان میں سے چند کے علاوہ بیشتر اس بغاوت میں شریک ہیں ،تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر یہ صورتحال جاری رہتی ہے اور مالکی حکومت اس سے نبٹنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو عراق میں عوامی پیمانے پر ایک بڑی جنگ شروع ہونے کا خطرہ ہے ۔جسکا حتمی فائدہ القاعدہ کو ہوگا اور اسکی جہادی مہم کو نئی زندگی مل جائے گی ،اسکے علاوہ اس جنگ کا بہت گہرا اثر شام میں جاری جنگ پر بھی پڑے گا اور پورا خطہ واضح طور پر رافضی و سنی بلاکز میں تقسیم ہوجائے گا ۔

جمعہ، 22 نومبر، 2013

لشکر شام ۔ جبھۃ الاسلامیہ ۔ خصوصی رپورٹ از وردۃ الاسلام




 شام میں برسرپیکار 6 بڑےو نمایاں مجاہد گروہوں نے بشار سے لڑنے و اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے ایک نئے اتحاد جبھۃ الاسلامیہ کی تشکیل دی ہے جو کہ ساٹھ سے ستر ہزار تک جنگجووں پر مشتمل ہے
 بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس اتحاد کا اعلان 22 نومبر 2012 بروز جمعے کو کیا گیا مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ موجودہ تاریخ میں کسی بھی ملک میں تشکیل دیئے جانے والا سب سے بڑا اسلامی لشکر ہے اسمیں شامل گروہوں میں مندرجہ ذیل بڑے گروہ ہیں
 لواء التوحید
 شام میں لڑنے والے بڑے جہادی گروہوں میں سے ایک۔ اس کے لیڈر عبدالقادر صالح تھے جو کہ چند دن پیشتر ہی شامی فوجوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے ۔جبھۃ الاسلامیہ کی تشکیل کے وقت اس کو ان کے نام سے ہی منسوب کیا گیا۔
 حرکہ احرار الشام الاسلامیہ۔
 مقامی شامی سلفی گروہوں میں سے سب سے زیادہ مضبوط ۔ احرارالشام اپنی دلیری و مہارت کے لیے مشہور ہے اور کئی مشہور معرکوں میں حصہ لے چکا ہے۔ احرار الشام کو القاعدہ ہی کی طرح کا گروہ خیال کیا جاتا ہے گو کہ اس نے کبھی القاعدہ سے وابستگی کا اعلان نہیں کیا ۔ اس کے سربراہ عبداللہ الحموی ہیں
جیش الاسلام
 ستمبر 2013 میں کئی مجاہد تنظیموں کو ملا کر اسلام بریگیڈ کے سربراہ ظہران العوش کی قیادت میں ایک لشکر کی تشکیل ہوئی جس کو جیش الاسلام کا نام دیا گیا۔ اس گروہ کے متعلق سعودیہ نواز ہونے کا گمان ہے گو کہ اس کی اعلی قیادت اس کا انکار کرتی ہے اور میدان جنگ میں القاعدہ سے منسلکہ تنظیموں کے ساتھ بھی تعاون کرتی ہے۔ جیش الاسلام اب جبھۃ الاسلامیہ میں ضم ہوچکاہے ۔
 صقور الشام
 شیخ احمد ابو عیسی کی زیرقیادت لڑنے والا یہ گروہ اپنی بہادری و جرآت کی وجہ سے ایک ممتاز حثیت رکھتا ہے ۔سلفی العقیدہ شیخ احمد ابو عیسی اور ان کا خاندان بشاری اقتدار کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ موجودہ صدر بشار اور اس کے باپ حافظ الاسد کے دور میں شیخ احمد ابو عیسی کے کئی قریبی رشتے داروں کو ماردیا گیا ۔ یہ گروہ اب جبھۃ الاسلامیہ کا حصہ ہوگا لواء الحق سلفیوں کی زیر قیادت لڑنے والا یہ گروہ حمص و گردونواح میں اپنی جانباز کاروایئوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
  انصار الشام
 یہ شمالی الاذقیہ اور ادلب میں کاروایئاں کرتا ہے اور اس کا شمار بڑے جنگجو گروہوں میں ہوتا ہے
 کرد اسلامک فرنٹ۔
 اس کا شمار بڑے گروہوں میں نہیں ہے لیکن اس کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ یہ اپنے ہی ہم وطن کردوں سے جو کہ بشار کا ساتھ دیتے ہیں مذہب کی وجہ سے برسرپیکار ہے۔
  شیخ احمد عیسیٰ کو مجلس شوریٰ کا صدر متعین کیا گیا جو کہ صقور الشام نامی لشکر کے امیر ہیں۔ احمد زیدان امیر لواء التوحید نائب صدر مقرر ہوئے ہیں عسکری شعبہ کے صدر زھران علوش ہیں جو کہ جیش الاسلامی کے سربراہ ہیں سیاسی شعبہ کے سربراہ حسان عبود ہیں جو احرار الشام کے قائد ہیں جبھہ کے عام سربراہ لوائ الحق نامی لشکر سے ابو راتب حمصی ہیں حرکۃ احرار الشام سے ابو العباس جبھہ کے شرعی معاملات کے مسئول ہیں۔ ۔شیخ احمد عیسی نے جبھہ کی تعریف کرتے ہوے فرمایا:یہ ایک سیاسی عسکری اور معاشرت تشکیل ہے جس کا مقصد شام میں بشار لاسد کے ظالم نظام کاخاتمہ اور اسلامی مملکت کا قیام ہے جس میں کبریائی اللہ اکیلے کو حاصل ہو گی وہی ایک فرد،معاشرہ اور حکومت کے معاملات میں اکیلا مرجع اور حاکم ہو گا۔
جبھتہ االاسلامیہ کی مجلس شوریٰ کے صدر (شیخ احمد عیسیٰ) کا کہنا ہے ::اس اتحاد کا قیام شیخ عبدالقادر صالح کے خواب کو پورا کرتا ہے جو کہ شام میں مسلمان جنگجووں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور مزید یہ کہ اس تشکیل کردہ تحریک سے سوری نظام کا مکمل نعم البدل حاصل ہو جائے گا ۔شیخ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جبھہ اسلامیہ ان تمام دستوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی جو شام میں انقلاب کے لیے کام کر رہے ہیں وہ کسی سے ٹکراو نہیں کرے گی۔ تمام جہادی اور عسکری قوتوں کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ اتحاد کا یہ عمل لواء التوحید کے قائد عبدالقادر صالح کی شہادت کے ایک ہفتے بعد وجود میں اآیا۔عبدالقادر رحمہ اللہ 17۔11۔2013 کو شہید ہوئے اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے۔
 مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ امر باعث حیرت ہے کہ القاعدہ سے منسلکہ دو بڑے گروہ جبھۃ النصرہ و دولۃ الاسلامیہ العراق و الشام اس میں شامل نہیں ہیں اور وہ اس پر مختلف قیاس آریئوں کو جنم دے رہے ہیں ۔ لیکن مجاہد تنظیموں پر گہری نظر رکھنے والا اور جہاد کی سمجھ رکھنے والا تجزیہ کار اس امر سے بے خبر نہیں ہے کہ ان گروہوں کو اعلانیہ طور پر کسی بھی اتحاد سے باہر رکھنا ایک حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں ان گروہوں کی اپنی رضامندی بھی شامل ہے ،وگرنہ میدان جنگ میں یہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں بلکہ جبھۃ النصرہ و الدولۃ ان کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں

بدھ، 13 نومبر، 2013

متفرقات !




  رافضی و صوفی سیکولرز !


 ایک گھر میں چور گھس آیا۔ پاوں کی ٹھوکر سے ایک برتن زمین پر گر پڑا جس کی وجہ سے اہل خانہ کی آنکھ کھل گئی ، چور کی جان پر بن گئی ، بھاگ نکلنے کا کوئی مناسب راستہ نہ تھا ، بھاگ کر اہل خانہ کے سربراہ کی چارپائی کے نیچے ہی چھپ گیا۔ اہل خانہ نے چور چور کا شور مچا دیا ، اہل محلہ اکھٹے ہوئے، اسلحہ اکھٹا کیا گیا ، ٹھیکری پہرے کا انتطام ہونے لگا ، گھر کی چیزوں کو اچھی طرح چیک کیا گیا کہ کچھ کم تو نہیں ہے ۔ پولیس کو خبر دی گئی ، کھرا تلاش کرنے کے لیے کھوجی بھی بلا لیا گیا ۔ چور صاحب چارپائی کے نیچے چھپ کر سب کچھ خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہے ، کسی کا دھیان نہیں گیا کہ چور ادھر بھی چھپ سکتا ہے ، جیسے کہ ہنگامہ ٹھنڈا ہوا ، اہل خانہ سکون کی تان کر پھر سو گئے ، چور صاحب دوبارہ نکلے ،سارا سامان سمیٹا اور یہ جا تو وہ جا !! یہ رافضی و صوفی سیکولرز بھی اسی قسم کے چور ہیں جو کہ چپکے سے چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے ہیں ہم ہر طرف چورچور کا شور مچارہے ہیں اور اپنی چارپائی کے نیچے نظر ڈال کر نہیں دیکھتے ۔!! یہ رافضی سیکولر ہے جو کہ ناستک یا دہریہ ہونے کا دعوی کرتا ہے ۔ یاد رہے کہ دعوی اس کے جدید آئمہ بھی تقیہ کا پردہ اوڑھے کرتے رہے ہیں کمیونسٹ انقلاب سے ان کو بہت ہمدردی رہی ہے ، ہوسکتا ہے کہ آپ کو ان کی تحریروں یا تقریروں میں اللہ کا انکار بھی ملے ، حدیث کا انکار بھی ملے ، یہ اسلامی نظام حکومت کا مذاق اڑاتے بھی نظر آئیں ، جہاد کو فساد بھی قرار دے رہے ہوں ، اسلامی تعلیمات کے بھی منکر ہوں ۔ لیکن زرا کسی بھی "عباس ، نقوی ، رضوی ، ہاشمی ، حسینی کا لاحقہ لگے ایسے سیکولر کا پردہ چاک کرنا ہو تو کلیہ آسان ہے ۔ خمینی کو دو تین گالیوں سے نواز دیجیے ، بارہوین امام غائب کی شان میں کچھ کلمات ارشاد فرمادیجیے ، واقعہ کربلا کو زرا زیر تنقید لے آیئے ۔ اغلب امکان یہی ہے کہ سیکولرازم کے پردے پیچھے سے رفض کا گھناونا چہرہ نمودار ہوگا !!! دوسروں کا داو اس بھی خطرناک ہے ۔ نہ اللہ کا انکار ، نہ رسول کا ، نہ قرآن کا نہ حدیث کا ، لیکن جو کچھ بھی یہ آپ کو دینے والے ہیں وہ صرف اور صرف "یہی نہیں ہے" بلکہ "سب کچھ" ہے ۔ قرآن کے ساتھ بائبل بھی پڑھ لیں ، نماز کے ساتھ قوالی بھی سن لیں ، غامدی کی تردید کردیں اور احمد رضا بریلوی کے قریب کردیں ، جہاد ہر گز نہ کریں بلکہ خدمت خلق کریں ، اللہ کے وجود کا انکار کس نے کہا !! یہ تو صرف کہتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ ساتھ بھگوان ، غوث ، مشکل کشا ، حاجت روا کو بھی مان لو !! سب کو ان کے حال پر چھوڑ دو ۔ جو نہیں مانتا وہ بھی ٹھیک جو مانتا ہے وہ بھی ٹھیک ! کسی کا مذہب چھیڑو نہیں اپنا چھوڑو نہیں !! قتال فتنہ و فساد ہے صوفیا کی تعلیمات تو امن پھیلانا ہے ، عالمگیر امن !! چارپائی کے نیچے بھی جھانک لیں چور یہیں چھپا ہوا ہے !!


اندھے نہیں بینا !



جن لوگوں کی بینائی کسی بھی وجہ سے خراب ہو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نظر کی خرابی دو طرح کی ہے ، دور کی اور نزدیک کی ! 
جس کی دور کی نظر خراب ہے ضروری نہیں کہ اس کی قریب کی بھی خراب ہو ، اور جس کی قریب کی خراب ہو ضروری نہیں کہ اس کی دور کی بھی خراب ہو ۔ دونوں نظریں خراب ہونا بھی عام بات ہے ۔ لیکن جس کی دور کی خراب ہوگی وہ دور کا چشمہ یا کنیٹکٹ لینز استعمال کرے گا اور جس کی قریب کی خراب ہوگی وہ قریب کا چشمہ یا کنیٹکٹ لینز استعمال کرے گا ۔ عینک دونوں صورتوں میں لگنی ہے چاہے قریب کی لگے چاہے دور کی !
ہمارے بیشتر علماء یا دوستوں کا مسئلہ بھی یہی ہے ، یہ ایک عالم ہیں یا فلسفی ہیں یا غوروفکر کرنے والے رقیق القلب انسان ہیں ، کافی پڑھے لکھے بھی ہیں مدلل قسم کی چیزیں بھی سامنے لاتے ہیں "جمہوریت ، سیکولرازم ، ہیومن ازم ، گلوبل ازم" جیسے مشکل و دقت طلب مسائل کے کفر کو بہت اچھی طرح سمجھتے و جانتے ہیں ، ان کی نظر اتنی "دوررس" ہے کہ اچھی طرح سمجھتے و جانتے ہیں کہ ان مظاہر سے اسلام کو کس قدر خطرہ لاحق ہے ۔ لیکن عین اپنی ناک کے نیچے والے کفر کو دیکھنے کے روادار نہیں ! عرس ، مزار ، غیر اللہ کی پکار ، چادر پوشیاں ، فتنہ تصوف ، وحدۃ الوجود و شہود ، عالم سکر و صحو ، گھڑی ہوئی کرامتیں ، رومی رقص و وجدان انہیں نظر نہیں آتا ! اور اگر انہیں کہا جائے کہ بھائی آپ کی قریب کی نظر کمزور لگتی ہے زرا توحید کی عینک لگا کر یہ عین ناک کے نیچے ہونے والے کفر پر بھی توجہ کیجیے تو غالب امکان یہی ہے کہ آپ کو فرقہ پرستی یا کم علمی کا الزام لگا کر مسترد کردیا جائے !!
یہ دوسرے صاحب ہیں !! ماشاءاللہ وثنی شرک کے تو بخیے ادھیڑ دیتے ہیں ، کیا مجال ہے کہ وثنی شرک کا کوئی مظہر ان کی آنکھوں سے بچ کر جائے ۔ توحید کے معاملے میں اتنے پختہ ہیں کہ کوئی بھی ہستی ان کی تلوار کی دھار سے بچ نہیں سکتی ، رسول اللہ کے مقابلے میں کوئی اور بات لے لیں ہرگز نہیں ! یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔ قبروں ، قبوں ، عرسوں ، مجالسوں ، میلادوں ، کے رد کا جتنا زور آپ کو ان کے ہاں ملے گا شائد ہی ایسے مدلل دلائل کہیں اور دستیاب ہوں ۔ لیکن ان کی "دور کی نظر" کمزور ہے ۔ مدرسہ بچانے کے لیے عین ممکن ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کا جھنڈا اٹھائے نظر آئیں ، یا کچھ "جماعتی مجبوریوں" کی وجہ سے جمہوریت کو ہی عین اسلام قرار دے رہے ہوں ۔ یا حکومت وقت کی غیر مشروط حمایت ہی انہیں عین حق نظر آرہی ہو ۔ اور اگر کوئی دوست ہمدردانہ لہجے میں انہیں درخواست کرے کہ حضور دور کی نظر کمزور لگتی ہے چشمہ لگا لیجیے تو تکفیری یا خارجی کا فتوی تو کہیں بھی نہیں گیا !!
امت کو ان اندھوں کی نہیں بیناوں کی ضرورت ہے


رافضی فتنہ ! توہین رسالت کے موضوع پر لکھی گئی ایک تحریر ۔سمبتر 15۔2012

شائد مستقبل کا مورخ اس بات کو لکھے کہ جب پوری دنیا میں مسلمان حرمت رسول کے لیے کٹ مر رھے تھے عین اسی وقت "رافضی فتنہ لبنان میں پوپ کی تصویریں اٹھائے سڑک کے دونوں طرف ہزاروں کی تعداد میں کھڑا اس کا استقبال کررھا تھا"


حضرت شماس رضی اللہ تعالی عنہ کی حب رسولؐ۔


یہ شماس رضی اللہ تعالی عنہ ہیں،غزوہ احد کا میدان گرم ہے کفار اللہ کے رسول پر حملہ آور ہوتے ہیں ، شماس اکیلے کفار کا غلبہ ، مقصد اللہ کے رسول کا تحفظ،تلواروں اور تیروں کو اپنے ہاتھ ،سینے اور چہرے پر روکتے ہیں ، زبان حق سے یہ نعرہ حق بلند ہورہا ہے
اے اللہ کے رسول
پہلے میرا چہرہ ،پھر آپ کا چہرہ
پہلے میرا ہاتھ ،پھر آپ کا ہاتھ
پہلے میرا سینہ ،پھر آپ کا سینہ

سمتبر 21۔2012

اصل دشمن!

توہین رسالت کے تناظر میں ایک تحریر
شام ہورہی ہے ،احتجاجی مظاہرے رفتہ رفتہ تھک کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں گئیں بڑی امید ہے کہ "کچھ سکالرین" آج ہی میڈیائی سانپ پر بیٹھ کر ان ہنگاموں کے خلاف ایک اونچی راگنی چھیڑیں گئیں اور کل سے ملک میں دفعہ 144 کا نفاذ ہوجائے گا جس کے مطابق ملک بھر میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی جائے گی اور اسمیں علما کی مرضی بھی شامل ہوگی!!
اے حب رسول کے نام پر نکلنے والے شاہینوں، اے نبی کی حرمت کے لیے ظلم و تشدد برداشت کرنے والوں ، تمھارے بدن چور چور ہوں گئیں ،اور شائد زخم خوردہ بھی ،میں تم سے شرمندہ ہوں ، میں سارا دن دعا کے علاوہ تمھارے لیے کچھ نہیں کرسکا مگر آج رات زرا ان ٹی وی تبصروں کو سنتے ہوئے ، اپنے اندر کے شرپسندوں کو پہچانتے ہوئے یہ ضرور سوچنا کہ تم جن کے کہنے پر نکلے تھے وہ کدھر گئے ؟،تمھارا راستہ کس نے روکا؟، تمھیں گھاو کس نے لگائے ؟، اگر ہوسکے تو اصل "گستاخوں" کو پہچاننا، اور اگلی بار اپنا رخ درست کرلینا،اللہ تمھارا حامی و ناصر ہو



پرامن۔(توہین رسالت کے پس منظر میں لکھی گئی ایک تحریر۔سمتبر 2012)


مجھے یہ بھی قبول ہے کہ "اپنی املاک" کو نقصان پہنچانا درست نہیں۔۔اس سے بھی اختلاف نہیں کہ جلسے جلوسوں کے دوران معصوم شہریوں کو تنگ کرنا،ان کا راستہ روکنا ،سرکاری و غیر سرکاری املاک پر حملہ کرنا ،ان کو لوٹنا،جلانا سب غلط ہے ،سفیر کو نقصان پہنچانے کا بھی میں قائل نہیں مگر یہ "پرامن" احتجاج کیا ہوتا ہے!!!میرے ساتھ کے گھر والے سے مجھے مسلسل اپنے ماں و باپ کو گالیوں کی آوازیں آرہی ہوں ،تو کیا میں پر امن رہ پاوں گا؟ ڈاکو میری عزت سے کھلواڑ کررہے ہوں تو کون ہے جو مجھے "پر امن" رکھ سکے؟چند بدمعاش مل کر گلی محلے میں میری ماں اور بہن کے متعلق گندی باتئیں کررہے ہوں تو ان کو چھوڑ کر مجھے "پرامن" رہنے کی تلقین کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ کبھی کسی گاوں کے چوہدری کو "پرامن" پایا ہے جس کے حسب و نسب میں طعن کر کے اسے "چوہدریوں" کے بجائے میراثیوں کا نطفہ قرار دیا جارہا ہو؟ کبھی اس جماعت کے کارکنان کو "پرامن" پایا ہے جن کی محبوب لیڈر قتل کردی گئی ہو؟ کبھی کسی عوامی لیڈر کا مذاق اڑنے کی صورت میں اس کے متبعین کو "پرامن" پایا ہے؟ ہولو کاسٹ کے متبعین کو کبھی کسی نے "پرامن" دیکھا ہے؟کالوں کی تذلیل ہونے کی صورت میں کبھی امریکہ میں بھی ان کو "پرامن" دیکھا گیا ہو؟فرانس میں تیل کی قیمتیں ہی تو بڑھی تھیں مگر لوگ تو ادھر بھی "پرامن" نہیں رہے؟ لندن میں ایک شخص ہی تو پولیس فائرنگ سے مرا تھا "مگر مظاہرے "پرامن" نہ تھے!! تو پھر مجھے کس "امن " کی تلقین کی جارہی ہے !! محمدعربی کی توہین کردی جائے اور امت "پرامن" رہے ،ان کے برہنہ کارٹون چھاپ دیے جائیں اور "مسلمان "پرامن" رہیں ۔۔غلیظ لوگ ان کا روپ دھارے جو کہ یقینا ان کا روپ بھی نہیں ہے بلکہ شیطان کا چہرہ ہے ایکدوسرے ساتھ سیکس کرتے دکھائے جائیں اور امت "پرامن" رہے ؟!! کیوں رہے پرامن؟ جب یہ احتجاج کا طریقہ بھی تم نے سکھایا ہو، اس کے اصول اور ضابطے بھی تم نے مقرر کیے ہوں اس کی اجازت بھی تم نے دے رکھی ہو،اس کو آزادی اظہار کا طریقہ بھی تم مانتے ہو تو پھر کیوں رہے "پرامن"؟؟ ابھی تو شکر کرو اس کو درست احتجاج کا پتہ نہیں وگرنہ یہ مظاہرے نہ کررہی ہوتی جن کے ہونے کا تمھیں کوئی فرق نہیں بلکہ تم تو چاہتے ہو کہ یہ ہوں۔۔تاکہ لوگ احتجاج کا طریقہ بھی تم سے سیکھیں اور وہ احتجاج بھی "پرامن" ہو اور تم پھر "پرامن طریقوں" سے کوئی اور توہین کرسکو اور امت پھر "پرامن" احتجاج میں مشغول ہوجائے!! اس کی یہ تربیت تو تمھیں درکار ہے ،یہاں تک کہ یہ غیرت رسول سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے اور ہر ہونے والی توہین پر "پرامن"رہنا سیکھ جائے مگر یہ بات اب آسان نہ رہے گی وقت آنے والا ہے کہ یہ اصل احتجاج کرے گی وہ کہ جو اسے سلف سے ملا ہے یہ تمھارے اس طور طریقے سے بھی جان چھڑا لے گی وہ احتجاج جس کے خوف سے تمھاری نیندیں اڑی ہوئی ہیں ،ہاں ہاں امت محمدیہ جاگ رہی ہے اسے تم نے جگا دیا ہے اور "تلوار والااحتجاج" کرنے والی ہے اور کیوں نہ کرے محمد عربی کی حرمت کا معاملہ ہے جس کے بغیر ایمان 
مکمل ہی نہیں ہوتا!


فتنہ و امت کے مابین دروازہ ۔ نومبر 2012


ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے بیان کیا، انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے پوچھا تم میں سے کسے فتنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انسان کا فتنہ( آزمائش) اس کی بیوی، اس کے مال، اس کے بچے اور پڑوسی کے معاملات میں ہوتا ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کردیتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھتا ہوں جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ امیرالمؤمنین تم پر اس کا کوئی خطرہ نہیں اس کے اور تمہارے درمیان ایک بند دروازہ رکاوٹ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا وہ دروازہ توڑدیا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ بیان کیا توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر تو وہ کبھی بند نہ ہوسکے گا۔ میں نے کہا جی ہاں۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا عمرص اس دروازہ کے متعلق جانتے تھے؟ فرمایا کہ ہاں، جس طرح میں جانتا ہوں کہ کل سے پہلے رات آئے گی کیو ںکہ میں نے ایسی بات بیان کی تھی جو بے بنیاد نہیں تھی۔ ہمیں ان سے یہ پوچھتے ہوئے ڈر لگا کہ وہ دروازہ کون تھے۔ چنانچہ ہم نے مسروق سے کہا( کہ وہ پوچھیں) جب انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ دروازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
(متفق علیہ)
اے رافضیوں کس کو گالی نکالتے ھو ، کس کی شان میں تمھاری زبان گستاخی پر دراز ھوتی ھے ، تم علم کے دروازے والی جھوٹی حدیث لیے بیٹھے ھو ادھر دیکھو فتنے اور امت کے درمیان کا دروازہ کون تھا، کس کی زات بابرکات نے فتنے کو روکے رکھا تھا ،آج تم اس دروازے کو توڑنے والے کا مزار بناتے ھو ادھر حاضری دیتے ھو!!! رب کعبہ کی قسم تم خود فتنہ ھو!


قاضی حسین احمد صاحب کی وفات پر ایک حدیث ! جنوری 2013
حضور فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں کہ تم میں سے ایک شخص جنتیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بام بھر کا یا ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے پھر اس پر لکھا ہوا سبقت کر جاتا ہے اور دوز خیوں کے اعمال سروع کر دیتا ہے اور اسی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی جہنمیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جہنم سے ایک ہاتھ یا ایک بام دور رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھ آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے اور جنت نشین ہو جاتا ہے ،۔۔صحیح بخاری


اس دور کا ابن تیمیہ ؟

جولائی 2013

گھوڑے جب زمین پر ٹاپیں مارتے تو گردوغبار کا ایک بادل سا اٹھتا ، نعروں کی گونج سے آسمان کا سینہ چیرا جارھا تھا ،سخت کوش ،تنومند تاتاری کمانیں کھینچے ھوئے تھے عربی گھوڑوں پر ان کہ کسے ھوئے بدن ایک عجب منظر پیش کرتے جس کو دیکھنے سے ہی دلوں پر ھیبت طاری ھوجاتی ،کثرت تعداد ، جنگی مہارت ، دلیری و شجاعت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا!
شامی و مصری مسلمان لشکریوں کہ دلوں میں ایک وحشت کا عالم تھا یہ لشکر جو کہ تاتار کہ جم غفیر کا سامنا کرنے کہ لیے بڑی مشکل سے جمع کیا گیا تھا اس کو اپنی جیت کا یقین نہ تھا ! مگر ایک ادھیڑ عمر نحیف سا شخص جس کہ چہرے پر ایک عجب سی چمک تھی بجلی کی کوندے کی طرح لپک رھا تھا !
اس پر نظر پڑتے ہی لشکریوں کا اضطراب جیسے دور سا ھوجاتا ! وہ ہر دستے کہ سامنے سے گھوڑا دوڑاتا ھوا گزرتا اور قسما و حلفا کہتا " کہ آج فتح تمھاری ھوگی"۔ اس قید یافتہ ،نحیف نراز شخص کہ وجود سے ایک عجب وقار جھلکتا ،اس کہ الفاظ میں عجب جادو تھا ، جنگ کہ لیے تیار ہر دستہ اس کہ قریب آکر درخواست کرتا اے شیخ اب تیمیہ آیئے ھمارے ساتھ کھڑے ھوں ، دیکھیں ہم جانثار ھیں آپ کی حفاظت بخوبی کریں گئیں ، مگر اس پر ایک عجب حال طاری تھا اتباع سنت کا امام کہتا نہیں ، رسول اللہ کی سنت ھے کہ بندہ اپنے قبیلے کہ ساتھ ہی کھڑا ھو !
اس کو ہر بات کی فکر تھی ، وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ آج شقحب کہ میدان میں شکست کا مطلب ،مسلمانوں کی عظیم بربادی ھے ، وہ اس لشکر کا امیر نہ تھا ،مگر لشکر کا عسکری جزبہ اسی کا مرھون منت تھا ،رات کی خاموش تنہایئوں میں یہ اللہ کہ سامنے گڑگڑاتا رھا تھا کہ "مالک لاج رکھنا" ۔ یہ لشکر جو کہ تاتاریوں کی ھیبت سے لرزاں تھا اسی کی مساعی کی وجہ سے اکھٹا ھوا تھا
جنگ کا مرحلہ قریب آرھا تھا ، تاتاریوں کا لشکر صف بندی کرچکا تھا ، رمضان کا مہنیہ بھی کفر و اسلام کی اس جنگ کو دم سادھے دیکھ رھا تھا ، ابن تیمیہ نے اپنے گھوڑے کو لشکر کا چکر مکمل کرنے کہ لیے پھر ایڑ لگائی اس دفعہ ان کہ ہاتھ میں کجھوریں تھیں جن کو وہ اہل لشکر کہ سامنے کھاتے جاتے اور سنت یاد دلواتے جاتے کہ دشمن کہ مقابلے میں اگر کمزوری کا خدشہ ھے تو روزہ کھول لو ! آج اگر کسی بھی جسمانی کمزوری کی وجہ سے کفر غالب آگیا تو روزے کا فائدہ نہ ھوگا!
معرکہ شروع ھوگیا ،تاتاری پے در پے آگے بڑھے ،ان کہ پہلے حملے نے ہی مسلمانوں کی صفوں کو چیر کر رکھ دیا ، بزدل پیٹھ دکھا کر بھاگے ، یہ حالت دیکھ کر مصر کہ حکمران ناصر بن قلاوون نے حکم دیا کہ اس کہ گھوڑے کو زنجیروں سے باندھ دیا جائے ۔ اور اللہ کہ ساتھ میدان جنگ میں موت تک لڑنے کا عہد کیا ۔امیر حسام الدین دیوانہ وار آگے بڑھے اور تاتاریوں کی صف چیرتے ھوئے شہید ھوگئے ،استاد دارالسلطان نے آٹھ امراءسمیت موت پر بیعت کی اور اور اپنا وعدہ پورا کردیا ،صلاح الدین بن ملک کی شان ہی نرالی تھی امیر ھونے کہ باوجود سپاہیوں سے بھی آگے جا کر لڑ رھے تھے !
شامی لشکر میں ابن تیمیہ کی شان ہی نرالی تھی ،یہ قلم و تقریر کا مجاہد آج تلوار ہاتھ میں تھامے شہادت کی تلاش میں سرگرداں تھا ! بار بار اپنے شامی ھمسازوں کو کہتا کہ مجھے اس جگہ لے چلو "جہاں پر موت ناچ رھی ھو" شامی جانباز اس کو دیکھ کر ھمت پکڑتے شاھیںوں کی طرح جھپٹتے اور چیتوں کی طرح دشمن کہ اجسام میں اپنی تلواریں پیوست کردیتے ،معلوم نہیں کہ ابن تیمیہ نے اس دن کیا نعرے لگائے ھوں گئیں مگر اس کا اندازہ ضرور ھے کہ جب یہ مرد حق نعرہ لگا کر حملہ آور ھوتا ھوگا تو ایک جم غفیر لیبیک کہتا ھوا شیر کی طرح حملہ کرتا ھوگا!
علماء و امرائے اسلام کی یہ بہادری دیکھ کر فوجیوں کہ دل ٹہر گئے ،شیر کی پلٹے اور مناجیق کے پتھروں کی طرح تاتار کہ اوپر برس گئے ، شام سے پہلے جنگ کا فیصلہ ھوگیا ، تاتار کہ خاقان ، قازان کو جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس کی دماغ کی شریان پھٹ گئی اور وہ بھی واصل جھنم ھوا !!!

اس دور میں قلم و تقریر کہ مجاہد تو بہت ھیں ، نہ جانے ابن تیمیہ کہاں ھے !! جو قلم و تقریر کہ ساتھ تلوار بھی اٹھائے ھو اور آواز لگائے " مجھے جنگ میں اس جگہ لے چلو جہاں موت ناچ رھی ھو"
یہ دور اپنے ابن تیمیہ کی تلاش میں ھے !!


مجاہدین اسلام کو خراج 

جولائی 2013
کوئی نشان حیدر نہیں ، کوئی ستارہ جرآت نہیں ، کوئی تمغہ بسالت نہیں ، کوئی تمغہ شجاعت نہیں !!
مبارک ھو مجاہدوں ، اللہ نے ان دنیاوی اعزازت سے بھی تم کو بے نیاز کردیا ! اس وھن زدہ امت کہ ہاتھوں لے کر تم نے کرنا بھی کیا تھا ! جو کہ ہر رافضی کو ، ہر یزیدی کو ، ہر احمدی کو ، ہر پلیدی کو اس سے نوازتی رھی ھو ، جس کی نظر میں دختر مشرق بھی شہیدہ ھو اور کوئی ارجاء کا مارا ھوا مجاہد ملت ھو !
تمھارا مقام بلند ہے ، جن کو انعام اللہ نے دینا ھو ،جن کہ سینے پر تمغہ اللہ کہ رسول نے سجانا ھو ، جن کو جنت میں علی شیر خدا کہ ساتھ مقام ملنا ھو ، جو سابقون الاولون میں سے ھونے ھوں ، فرشتوں نے جن کی جانثاری پر تعجب کرنا ھو ان کو یہی زیبا دیتا ھے کہ ان کی لاشیں سمندر کا پیٹ بھریں ، یا گلیوں ،بازاروں میں بے گورو کفن پڑی رھیں ، کبھی ان سے خوشبو آئے تو کبھی ھزاروں ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں کہ یہ خراب کیوں نہیں ھوتیں ،کبھی زمین میں زندہ دفنائے جاو تو کبھی جسم اتنے ٹکڑوں میں تقسیم ھو کہ وہ گنے نہ جاسکیں !
یہی تمھارا انعام ھے ، تمھارا ایمان نشان حیدر ھے ، تمھاری جرآت راہ شجاعت ھے، تمھاری پامردی ہی بسالت ھے ، 
اے دنیا بھر کہ مجاہدوں ، اللہ کہ شیروں تمھیں دنیاوی تمغوں سے بے نیاز کردیا گیا ھے ،تمھاری بدولت ہی وہ صبح نمودار ھونی ھے جس کی ضیا پاشی سے امت منور ھونے والی ھے ،آج تمھارے لیے کوئی تمغہ نہیں ھے ،کل تمھارے نام پر تمغے ڈھالے جانے والے ھیں


اتوار، 3 نومبر، 2013

الحاد وطن پرستی کے نقاب میں !

الحاد کے گندے پاخانوں پر پرورش پانے والی ذھنیت، مسلمانوں کے مذبح خانوں پر خوش ہوتی سیکولر و لبرل سوچ اس بات پر امریکہ کا شکریہ ادا کررہی ہے کہ اس نے حکیم اللہ جیسے پاکستان دشمن سے اس کا پیچھا چھڑا دیا !! 
 یہ سوچ اس قدر گندی و خبیث ہے کہ اس کو باقاعدہ خطاب کرنا میرے نزدیک وقت کے ضیاع کے کچھ نہیں ہے لیکن یہ وطن پرستی کے پردے میں آرہی ہے اور بیچارے وطن پرستوں کو بھی رگڑے جارہی ہے جن پر اپنی آوٹ فٹ   کی وجہ سے اسلامی ہونے کا گمان گزرتا ہے !! کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں وطن پرستی کی ہر تعریف پر پورا اترتی ہیں ! کون نہیں جانتا کہ اس کے دانشوروں کی ایک کیثر تعداد وطن پرستی و اسلام پرستی کے مابین فرق نہیں کرسکتی اور ریاست کو اسلام کے مترادف سمجھتی ہے ! ان کی وطن پرستی پاکستان کو پیش آمدہ مسائل میں ضرب المثل رہی ہے ! ارے یہ تو وہ لوگ ہیں جو کہ پاکستان کو بچانے کے لیے افغانستان کو تباہ کرنے تک پر رضامند یا نیم رضامند تھے !! انڈیا کے ساتھ معرکے ہوں ، یا بنگلہ دیش میں البدر ، کشمیر کا محاذ ہو یا زلزلہ زدگان کی مدد ، پاکستان آرمی کی عزت بچانے کا مسئلہ ہو ، یا پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینے کی کوشش، ان جماعتوں کا ان لوگوں کا رویہ ہر شبے سےبالاتر ہے ، آپ ان کے اسلام پر شبہ کرسکتے ہیں لیکن ان کی وطن پرستی پر شبہ نہیں کرسکتے !! 
 الحاد و سیکولرازم تو پہلے اس بات کا جواب دے کہ وہ وطن پرست کب سے ہوا !!! بے دینی کے انڈوں پر بیٹھی ہوئی ان مرغیوں میں وطن پرستی کا جذبہ کب سے پیدا ہوگیا ؟؟؟ ان کے بڑے بڑے رہنما تو اس ملک پر باہر سے صرف اور صرف حکومت کرنے آئے اور حکومت چھنتے ہی باہر کے ممالک میں جاکر اس فوج پر ، اس کے عوام پر ، اس کے وطنی دانشوروں پر بھونکتے رہے ہیں تاکہ مغربی ممالک سے ملنے والا راتب بند نہ ہوجائے !! ان کو اگر وطن سے بھی کوئی محبت دکھانے کا موقع ملا ہے تو اس کے پیچھے وہی حکمرانی کی ازلی خواہش ہے!! ان آوارہ کتوں کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ اگر اپنے آپ کو سارے کا سارا ننگا کرکہ بھی مغرب کے سامنے پیش کردیں تو پھر بھی وہ ان کو اپنے کسی ایک گاوں کی قیادت نہیں بخشنے والا !! کسی مغربی ملک کی حکمرانی تو دور کی بات ہے !!! ان کے چہروں پر چڑھے ہوئے کلمے کے نقاب دراصل ان کی یہاں پر حکمرانی کی خواہش کے لیے ہیں !!
 ہاں پاکستان کو لاحق خطرات کا احساس آج بھی کسی کو ہوا ہے تو وہ ان وطن پرستوں کو ہی ہوا ہے !! یہی سمجھے ہیں کہ حکیم اللہ کی شہادت سے کتنا بڑا نقصان ہونے والا ہے اور انتقام کے ایک طوفان کا کس کو سامنا کرنا پڑے گا!! وطن کی حفاظت پر کمر بستہ یہ نادان لوگ چاہے کچھ بھی ہوں وطن کو لاحق خطرات کا ادراک ان کو سب سے زیادہ ہے ! یہ صرف انڈیا کو روز اول سے اپنا دشمن جاننے والے دانشوران اس حقیقت کو جان گئے ہیں کہ اسلام کے ساتھ وطن بھی مشکل میں ہے !! یہ چاہے ابھی یہی کیوں نہ سمجھتے ہوں کہ اسی موجودہ نظام و طریق کار سے اس مشکل سے نکلا جاسکتا ہے لیکن ان کی نیت میں کوئی شک نہیں ہے !!
 ارے الحادیوں و سیکولروں ، حکیم اللہ کا غم تو امت منارہی ہے بلاامتیاز رنگ ، نسل و ملک کے !! زرا جاکر ٹوئٹر کا ہی جائزہ لے لو دنیا کی ہر قابل تذکرہ جہادی تنظیم اس کی تصویر اپنے سرورق پر لگا رہی ہے ! دنیا بھر میں ہزاروں لوگ اس سے متعلقہ تعزیتی بیان نشر کررہے ہیں ،اور یہ ملکی دانشور اگر اس ملک کے لیے اس واقعے کو ایک عظیم سانحہ قرار دے رہے ہیں اور پاکستان کے لیے نقصان عظیم تو تمہیں ان پر بھی  اعتراض ہے!!!
 حقیقت یہ ہے کہ جو کہ خدا شناس نہیں رہتا وہ وطن ، غیرت ،عزت ، مذہب ، سب سے لاتعلق ہوجاتا ہے !! وہ خود اپنا خدا بن جاتا ہے ۔ تم وطن پرست بھی نہیں ہو ۔ تمہارے سے کوئی خطاب کرنا بھی بے کار ہے! ہاں وطن پرستوں کو یہ ضرور کہوں گا کہ اس الحادی چہرے کے منہ سے نقاب اٹھا کر دیکھ لو رفض کا گھناونا چہرہ نظر آئے گا !!!.

ہفتہ، 2 نومبر، 2013

غلام و آقا !!


غلام و آقا!
 امریکہ نے اس غلام کو بڑے چاو سے خریدا تھا ، اس کے جوان و متناسب جسم نے پہلی ہی نظر میں اس کی توجہ کھینچ لی تھی ! یہ میرے کافی کام آئے گا ! امریکہ نے دل میں سوچا، اور اس کا یہ خیال غلط ثابت نہ ہوا ۔ لیکن خریدنے کے کچھ دن بعد ہی غلام اداس رہنے لگا اور اب  بیمار بھی پڑگیا تھا امریکہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ غلام ہوم سکسنس (Home Sickness) کا شکار ہوگیا ہے ! وہ بڑی ہمدردی سے اس کے ساتھ بیٹھا اور اس کے بالوں پر پیار سے ہاتھ پھیر کر کہنے لگا بیٹا ! مجھے علم ہے کہ تمہیں گھر کی یاد ستار ہی ہے تم جنگلوں کے باسی ،آزاد فضاوں میں رہنے والے پنچھی ، ان شہروں کی زندگیاں تمہیں پسند نہیں ہیں اس لیے ہی تم بیمار ہوگئے ہو ۔ لیکن بیٹا ابھی تم جوان ہو اگر تم محنت سے کام کرو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ پانچ سال بعد تمہیں آزاد کردوں گا!
 غلام کے چہرے پر بے یقینی تھی ! کیا آپ مجھے واقعی ہی آزاد کردیں گئیں ؟
 ہاں بیٹا میں تمہیں واقعی ہی آزاد کردوں گا ! امریکہ کا لہجہ حتمی تھا اور غلام ٹھیک ہوگیا!
 امریکہ کھیت کے کنارے پر کھڑا اس کو محنت کرتے دیکھتا ، اس کے جواں بازووں کی مچھلیاں جب ہل چلاتے ہوئے مچلتی تو امریکہ کا دل فخر سے بھر جاتا! غلام بوجھ اٹھا کر جب تن کر چلتا تو تو امریکہ کا سینہ بھی فخر سے تن جاتا ! غلام کافی محنت کررہا تھا غلام کے پاس وقت کے حساب کے لیے کوئی پیمانہ نہ تھا لیکن اس کو نظام شمسی کے حساب کا علم تھا وہ روز سورج کو مشرق سے مغرب کی طرف سفر کرتے دیکھتا اور ہر روز پتھر سے سخت زمین پر ایک لائن لگا لیتا ! ایک سال کے مکمل ہونے پر اس نے دل میں سوچا کہ "میری ایک انگلی" آزاد ہوگئی ہے ۔ دو سال مکمل ہونے ہوئے تو وہ اپنی دو انگلیوں کو بقیہ انگلیوں سے زیادہ ترجیح دینے لگا ۔ یہ حساب و کتاب غلام کے لیے روحانی مسرت کا ایک سامان تھا جس میں وہ کسی اور کو شریک نہ کرنا چاہتا تھا اپنے اردگرد کے آزاد انسانوں کی سرگرمیاں دیکھ کر وہ فورا اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگتا کہ کتنی انگلیاں رہ گئیں ہیں ! اور جلد ہی ان کے آزاد رہنے کی امید میں دوبارہ سرجھکا کر کام میں جت جاتا ۔ غلام کے اپنے اندر ایک دنیا آباد تھی ۔سورج ، لکیریں و انگلیاں ! سورج کا غروب ہونا اس کی روح میں اتر گیا ! اور پانچوں انگلیاں آزاد ہوگئی !
امریکہ غلام کی انتھک محنت کی بدولت خوشحال ہوچکا تھا ، غلام نے اس کے پاس آکر غلامی سے آزادی کا مطالبہ کیا ۔تاکہ وہ اپنے جنگل کو واپس جاسکے
 امریکہ نے بخوشی جانے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ سوال کیا تمہارے پاس کیا واپسی کا سفر اختیار کرنے کے لیے پیسے ہیں ؟
غلام نے زمین کی طرف سرجھکایا اس کے پاوں کی انگلیاں جیسے ایکدم اضطراب کے مارے سکڑنے لگیں ، نہیں میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ غلام کے لہجے میں حسرت ایک سوال لیے ہوئے تھی
 اچھا تمہارا گھر کس طرف ہے ؟ امریکہ نے دوسرا سوال داغا مغرب کی طرف ۔غلام نے ایک خوشی کے ساتھ جواب دیا
 اچھا ! پھر تو وہ کافی دور ہوگا اور وہاں تک جانے کےلیے کافی پیسوں کی ضرورت بھی ہوگی ۔ چلو اگر تم میرے لیے تین سال اور کام کرلو تو میں تمہیں وہاں تک جانے کے لیے معقول رقم دے دوں گا ۔ چلو تین سال نہیں تو دو سال ہی سہی ۔ چالاک امریکہ کالہجہ فاتحانہ تھا غلام زیرلب کچھ بڑبڑایا ، اس کے چہرے کا رنگ سیاہ سے کچھ اور سیاہ ہوگیا ۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے زور سے پاوں پٹخے اور کھیتوں میں کام کرنے واپس چلا گیا ۔
لیکن غلام اب کچھ کام چور ہوگیا تھا ، کام میں اس کا دل ویسے نہ لگتا جیسے کہ پہلے تھا ، سونے یا آرام کرنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا اس کا جوان و طاقتور جسم ایک سستی کی سی کیفیت کا شکار نظر آتا۔ امریکہ نے اس بات پر اس کو ایک بار بری طرح پیٹا بھی گوکہ وہ اس بات پر زاروقطار رویا لیکن اس کی سستی کچھ کم ہوگئی ۔ وہ اب پہلے کی طرح حساب بھی نہیں کرتا تھا لیکن اپنے مضبوط ہاتھوں کو دیکھتا رہتا دوسال ،سہاگ رات کی طرح تیزی سے گزر گئے ۔امریکہ نے غلام کو معقول رقم دے دی تاکہ وہ مغرب کی طرف اپنے جنگل کے لیے سفر کرسکے ۔ کچھ عرصے بعد غلام تھکا ماندہ امریکہ کے پاس واپس آگیا وہ مغرب میں دور تک گیا تھا لیکن اس کو اپنا وطن نہیں ملا ۔ امریکہ نے اس کا حوصلہ بڑھایا اس کو کچھ اور رقم دی تاکہ وہ مشرق کی طرف سفر کرکے اپنے جنگل کو ڈھونڈ سکے ! غلام کو مشرق میں جنگل مل گیا، لیکن خود اپنے ہی گھر میں اس کا دل نہ لگا،جنگل کی ویرانی ،شہر کی رنگنیوں کا زور سے احساس دلوانے لگیں ،روز طلوع ہونے والا سورج جب مشرق سے نکلتا تو وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو دیکھنا شروع کردیتا۔ اس کی ٹانگوں نے خود بخود ہی حرکت کی اور مغرب کی طرف عازم سفر ہوگئیں ! وہ امریکہ کے پاس واپس جارہا تھا  امریکہ کو اسے دیکھ کر کوئی حیرانی نہیں ہوئی ۔غلام نے اسے بتایا کہ جو جنگل اسے ملے وہ اسے اپنے نہیں لگے ۔ 
امریکہ نے بڑی توجہ سے اس کی کہانی سنی اور اسے پیار سے کہا ! دیکھو یہ میرا گھر تمہارا اپنا گھر ہے ۔ تم اس میں مزے سے رہو میں تمہارا خیال رکھوں گا لیکن اب کسی طرف بھی جانے کا نہ سوچنا! اور غلام نے سر جھکا دیا ! غلام نے محنت سے کام شروع کردیا ۔اس بار وہ ایسے کام کرتا جیسے کہ وہ اس کا اپنا کام ہو ، امریکہ اس کی صحت و خوراک کا خیال رکھتا تاکہ وہ طاقتور رہے اور اس کا کام کرسکے ۔ سستی دیکھنے پر اس پیٹتا بھی جس پر غلام روتا بھی نہیں ! امریکہ اسے اتوار کو چھٹی بھی دے دیتا تاکہ وہ قریبی پہاڑی پر جاکر مغرب میں غروب ہوتے سورج کو دیکھتا رہے ۔ غلام کی محنت سے امریکہ کی فصلیں اور اچھی ہونے لگیں اس نے ایک اور قطعہ زمین خریدا تاکہ اس پر بھی کھیتی باڑی ہوسکے امریکہ دن بدن امیر ہوتا چلا گیا کچھ عرصہ بعد اس نے غلام کے لیے ایک کنیز بھی خرید لی ! وقت دھیمی رفتار سے آگے بڑھتا چلا گیا ۔ امریکہ اب بوڑھا ہوگیا تھا لیکن اس کے گھر میں اب چھ غلام زادے تھے ایک سے بڑھ کر ایک کڑیل جوان ان کاغلام والد انہیں بتاتا کہ وقت اسی صورت گزرتا ہے جب کوئی کام میں مصروف رہے۔ اور جب (اسی انداز میں ) وقت گزر کر ماضی کا حصہ بن جائے تب ہی ہم لا فانی قسم کے جنگلوں کے اہل ہو سکتے ہیں۔ آرام والے دن وہ اپنے بیٹوں کو پہاڑی پر لے جاتا۔ انہیں غروب ہوتا سورج دکھاتا اور انہیں تمنا کرنے، آرزو کرنے اور (کسی چیز کا) انتظار کرنے کا ڈھنگ سکھاتا۔ امریکہ اب خاصا بوڑھا اور لاغر ہو گیا تھا۔ بوڑھا تو وہ پہلے ہی تھا مگر اب وہ زندگی کے دن گن کر گزار رہا تھا۔ اس کا بیٹا مضبوط و توانا تو نہیں بن سکا لیکن اسے اس بات سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کے گھر میں موجود غلام زادوں میں سے ہر ایک اتنا مضبوط اور لحیم تھا کہ وہ صرف ایک مکے کی ضرب سے کسی بھی شخص کو گرا سکتا تھا۔ وہ انتہائی طاقت ور تھے،ان کے پٹھے لوہے کی مانند تھے اور ان سب کے دانت شیر کی طرح تھے۔ اور ان کے پاس ابھی وقت بھی بہت تھا۔ وہ غلام زادے اپنی کلہاڑیاں چلاتے اور جنگلوں کے درخت کاٹتے رہے۔ 

 (جو ہنیری جنیسن کی کہانی سے ماخوذ)

منگل، 22 اکتوبر، 2013

بابو منکر کی میڈیائی دوکان !


بابو منکر کے پاس کچھ پیسے آئے تو کاروبار کرنی کی سوجھی ! سرمایہ زیادہ بھی نہ تھا اور نہ کم تھا دوستوں سے مشورے کے بعد طے ہوا کہ سپر مارکیٹ میں کریانے کی دوکان کھول لی جائے اور بنیادی ضروریات زندگی کو ابھی دوکان میں ترجیح دی جائے ! بابو منکر نے چند بنیادی ضروریات زندگی آٹا ، گھی ، ڈبے والا دودھ ، دالیں وغیرہ رکھ کر کام شروع کردیا، مارکیٹ میں کچھ عرصہ بیٹھے تو محسوس ہوا کہ لوگ موبائل کارڈز کا بھی پوچھنے آتے ہیں موبائل کارڈز کے سپلائرز سے بات کی اس نے بخوشی کارڈز رکھ دیئے کہ بیچ کر پیسے دیتے رہیں ! کچھ عرصے بعد بابو منکر کو علم ہوا کہ سامنے والی دوکان میں زیادہ بھیڑ کا سبب یہ ہے کہ اس نے بچوں کے پیمپرز بھی رکھے ہوئے ہیں ۔ بابو منکر فورا جا کر پیمپرز لے آئے ! ساتھ والی دوکان بھی کریانے ہی کی تھی لیکن وہ چیزیں ان سے مہنگے داموں بیچتا پھر بھی لوگ خریدتے ، بابو منکر کے منکر ذھن نے فورا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ ساتھ والی دوکان بہت لش پش ہے ! چاروں طرف شیشے لگے ہوئے ہیں اور سلیقے سے ریک بنے ہوئے ہیں بابو منکر کو ٹینشن ہوگئی فورا ادھر ادھر سے پکڑ کر پیسوں کا انتظام کیا اور اپنی دوکان کو لش پش کرلیا 

جمعہ، 11 اکتوبر، 2013

معرکہ کلیسا و الحاد !

باب 1

تثلیث۔

"باپ خدا ہے ، بیٹا خدا ہے ،روح القدس بھی خدا ہے ۔تین پر بھی وہ تین خدا نہیں ہیں بلکہ ایک خدا ہے "(برٹانیکا مطبوعہ 1960 جلد 22)
باپ ،بیٹااور روح القدس مل کر ایک خدائی وحدت تیار کرتے ہیں جو اپنی ماہیت اور حقیقت کے اعتبار سے ایک اور ناقابل تقسیم ہیں اس وجہ سے وہ تین نہیں ایک خدا ہیں (سینٹ آگسٹائن،On the Trinty)
دنیا کا سب سے مشکل سوال یہ ہے کہ خدا تین میں ایک کیسے ہے یا ایک میں تین کیسے (نطشے)

اسکندریہ میں اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس کے بہترین آداب و رہن وسہن اہل شہر کے لیے باعث کشش تھے۔ اس کا لیبیائی بدن ،احسن الکلامی ہر سننے والے اور دیکھنے والے کی توجہ کھینچ لیتں۔ وہ جھک کر بھی چلتا اس کی چال میں ایک بانکپن محسوس ہوتا۔ یہ آریوس تھا ،سینٹ لوسین کے مکتبے کا سب سے ہونہار شاگرد،اوراس کی تعلیم کا وارث۔لیکن اس نے نوزائدہ عیسائی ریاست میں ایک زلزلہ پیدا کردیا ، اسکندریہ کے بطریق اعظم الیگزنڈر کو عین اس وقت ٹوکا جب کہ وہ مسیح اور باپ کے ایک ہونے کا خطبہ دے رہا تھا۔
"دنیا میں ایک وہ بھی وقت تھا کہ جب بیٹا نہ تھا ،صرف باپ تھا ،باپ نے بیٹے کو تخلیق کیا ،پیدا نہیں کیا ، لیکن یہ تخلیق اس نے اپنے جوہر سے کی اور پھر اسے سے بیٹے سے سب کچھ خلق ہوا۔باپ ازل سے ہے بیٹا حادث ہے" ۔
آریوس کا دعوی چند لفظی و حتمی تھا،لیکن یہ عیسایئت کی پوری بنیاد ڈھانے کے مترادف تھا۔ آریوس اس عقیدے کا بانی نہ تھا پال آف سموسٹا اور لوسین مسیح کے خدا کا جسمانی بیٹا ہونے کا اور اس کے قدیم ہونے کا پہلے انکار کرچکے تھے ، لیکن آریوس نے اس انکار کو نیا رنگ و زوردار انداز دے دیا تھا،عیسائی دنیا جو کہ مسیح کو خدا میں سے خدا ماننے پر مصر تھی بھلا اس عقیدے کو کیوں برداشت کرسکتی تھی ! یہ عقیدہ مسیح کے خدا ہونے کا سیدھا سیدھا انکار تھا

منگل، 1 اکتوبر، 2013

جنسی جرائم، پابندی یا آزادی!

ہماری قوم بھی عجب ہے ہر جنون کو چھوڑ کر "جنسی جنون" کے پیچھے لگ جاتی ہے ۔ بچیوں و بچوں پر بڑھتے ہوئے جنسی حملے اس بات کے مصداق بھی ہیں کہ اس پر توجہ دی جائے۔ لیکن ہر بار کی طرح امید یہی رکھیے کہ کچھ عرصہ کےبحث و مباحثے کے بعد جس میں اسلامی ذھن و فکر رکھنے والے بندے مغربی مظاہر کو خوب رگڑیں گئیں اور فلموں ، گانوں ، فحش ویب سائٹسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کا رونا روئیں گئیں یا سکولوں و کالجوں میں مخلوط طریق تعلیم کو نشانہ بنائیں گئیں اور جوابا سیکولر و لبرل گدھے جن کا "روزگار" ان سے وابستہ ہے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اور سخت ترین قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہوئے مساجد یا مدارس میں ہونے والے کسی ایسے ہی گھناونے جرم کو کو منظر عام پر لائیں گئیں ،یا اس بات کو دلیل بنائیں گئیں کہ جن ممالک میں اسلامی نظام نافذ ہے کیا وہاں کوئی ایسا جرم نہیں ہوتا ! اور ماضی قریب یا حال سے کوئی مثال بھی لے آئیں گئیں ۔ ان گدھوں کی اس ساری مسیحائی کا بنیادی مقصد و پیغام ایک ہی ہوگا کہ "بجائے پابندی لگانے کے آزادی دے دو"۔ مادر پدر آزادی ۔ سیکس کی تعلیم عام کردو ۔ناجائز تعلقات پر سے پابندی ہٹا لو ، گرل فرینڈ ، بوائے فرینڈ کے رشتے کو تقدس کا درجہ دے دو۔ یہ معاشرتی دباو کی وجہ سے اسے زبان سے ادا کریں یا نہ کریں ۔ ان کی ہر بات کا یہی مطلب ہوگا۔
اور "پابندی و آزادی" کے اس کھیل میں کچھ ہی عرصہ بعد میڈیا کے ہاتھ میں کوئی نیا کھیل آجائے گا جرائم اسی طرح ہوتے رہیں گئیں ، سنبلیں اسی طرح لٹتی رہی گئیں لیکن بس ان پر یہ شوروغوغا بند ہوجائے گا!۔

ہفتہ، 28 ستمبر، 2013

شام میں نصیریوں کا عروج !


نصیری ایک ملحد فرقہ ہے جو کہ شام ،ترکی و عراق کے کچھ علاقوں میں پایا جاتا ہے ۔ اس کے عقائد کیا ہیں یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔ لیکن یہ بات ابھی بھی بہت سے لوگوں کےلیے دلچسپی کا باعث ہوسکتی ہے کہ آخر اس مکروہ ترین فرقے کو شام جیسی مقدس سرزمین پر عروج کیسے حاصل ہوا۔یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع سے متعلقہ ہے ۔موجودہ حالات و واقعات میں اور خاص طور پر ملک شام میں اہل سنۃ پر ڈھائے جانے والا انسانیت سوز ظلم اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ ہم تاریخ کے دریچوں میں پھر سے اتریں اور ان کرداروں و واقعات کو دوبارہ زیر بحث لائیں جو کہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کے زمہ دار ہیں ۔ اور تاریخ کے پنوں سے اس سازش کو سمجھنے کی کوشش کریں جو کہ روافض و مغرب نے مل کر امت مسلمہ کے ارد گرد بنی ہے 

بدھ، 25 ستمبر، 2013

جہاد النکاح! رافضی افسانہ یا حقیقت


"انتیس دسمبر 2012 کو لبنان کے ٹی وی سٹیشن "الجدید" سے سعودیہ کے مشہور عالم شیخ محمد العریفی کے حوالے سے ایک خبر سامنے آئی ۔ جس کے مطابق انہوں نے شام میں مجاہدین کی جنسی تسکین کے لیے "جہاد النکاح" کو درست قرار دیا اور اس پر حوصلہ افزائی کی۔ گوکہ اس چینل نے اس فتوی کا کوئی ثبوت پیش نہ کیا تھا ۔ لیکن یہودی و رافضی میڈیا اس خبر کو لے اڑا ،اور لبرلز و سیکولرز کو بھی اسلام کو بدنام کرنے کا ایک موقع ہاتھ لگ گیا ۔ ٹوئٹرپر مبینہ طور پر شامی مزاحمت کے مخالف ایک رافضی یوزر نے اس خبر کا لنک بمعہ انگلش ترجمہ شائع کیا اور یوں یہ مغربی میڈیا کے ہاتھ لگا۔شیخ محمد العریفی بشاری اقتدار کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں اور خلیج وسطی کے مسلمانوں کو شامی جہاد کی مدد کے لیے اکساتے رہتے ہیں ۔صرف ٹویٹر پر ان کو فالو کرنے والوں کی تعداد 35 لاکھ سے زائد ہے اور ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ لوگ ان کو فیس بک پر فالو کرتے ہیں ۔جنوری 2012 میں ان کی شامی جہاد کے بارے میں ایک ویڈیو کو 11 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا تھا۔

اتوار، 22 ستمبر، 2013

شام میں برسرپیکار غیرملکی رافضی گروہ !


عظیم صفوی سلطنت کے خواب کی بانی" مملکت رافضیہ ایران "نے عراق ، ایران جنگ کے دوران ہی سنی سرزمینوں پر ایسے گروھوں کی تشکیل کرنی شروع کردی جو کہ ان علاقوں میں بوقت ضرورت اس کے فوجی مقاصد کے راستے میں حائل مشکلات کو ہٹاسکیں اور عظیم صفوی سلطنت کا خواب پورا کرسکیں ۔ لبنانی سرزمین پر حزب اللہ کا قیام اور ایران ،عراق جنگ کے دوران البدر بریگیڈ اسی کا شناخاسانہ تھا۔ ان گروہوں کی تشکیل و فوجی تربیت ایران میں ہوئی ۔ان کے زیادہ تر ممبران کا تعلق مقامی علاقوں سے ہوتا تھا اور ایرانی انقلابی گارڈ ان کو فوجی تربیت کے عمل سے گزارتی ۔ ایران کی پالیسی اس معاملے میں بڑی واضح تھی ۔ "ایرانی ہر جگہ بھیجنے کی ضرورت نہیں جہاں بھی کوئی شیعہ عقیدے کو ماننے والا ہے اس کو مظبوط کرو" ۔ سختی کے دور میں یہ گروہ رافضی ایران کے سایہ عاطفت میں پناہ پکڑتے اور آسانی میسر ہوتے ہی دوبارہ سرگرم عمل ہوجاتے ۔ رافضی سلطنت نے صرف ان گروہوں کو ہی جنم نہیں دیا بلکہ خطے میں موجود ہر اس عنصر کی قوت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا جو کہ شیعیت سے اپنے آپ کو منسوب کرتا ہو۔ رافضی سلطنت کی اس پالیسی نے مشرق وسطی میں عظیم رافضی جنگجو گروہوں کو جنم دیا۔ جو کہ وقت آنے پر سنی خطوں کے خلاف استعمال کیے گئے ۔ ایک اندازے کے مطابق صرف حزب اللہ سے منسلک جنگجووں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے ۔
شامی جہاد کے شروع ہوتے ہی شام سے شبیحہ نامی گروہ کی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں جو کہ ایک گمان کے مطابق مقامی نصیریوں و حزب اللہ کے غنڈوں پر مشتمل ایک گروہ تھا جس کے مظالم کی داستانیں شامی عوام کے اندر زبان زد خاص و عام تھیں ۔لیکن شامی مزاحمت ان مظالم سے دبائی نہ جاسکی اور جلد ہی شامی فوج میں بھی بڑے پیمانے پر بغاوت پھوٹ پڑٰی اور باغی فوجی جن کی اکثریت کا تعلق سنیوں سے تھا فوج چھوڑ کر بھاگنے لگے ۔ ان حالات نے شامی فوج کی عددی اکثریت اور اس کی فعالیت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ وہ آہستہ آہستہ مختلف محاذوں پر مطلوبہ قوت کھونے لگی ۔اور محاذ جنگ تیزی سے اس کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے ۔ ایرانی رافضی سلطنت کو یہ قابل قبول نہ تھا ۔ اس انقلاب کا چہرہ ابھی تک مذھبی نہ تھا بلکہ بشار جیسے ڈکیٹٹڑ سے چھٹکارے کی کوشش۔ لیکن رافضی میڈیا نے جلد ہی اس کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا ۔ اور تحریک آزادی کو خارجیوں و تکفیریوں کا لقب۔ رافضی سلطنت اس سے دوہرا فائدہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔ ایک تو اپنے عوام کو یہ یقین دہانی کہ یہ تحریک صرف بشار کو ہٹانے کے لیے نہیں ہے بلکہ شیعہ مذھب پر سیدھا حملہ ہے ۔ اور دوسری طرف مغرب کو یہ پیغام کہ جن سے ہم لڑ رہے
ہیں وہ تمہارے بھی دشمن ہیں ۔

جمعرات، 19 ستمبر، 2013

مغرب کی شام پالیسی !

شام میں مغرب کی پالیسی
شام میں مغربی طاقتوں کی پالیسی کیا ہے ، کیا مغرب واقعی ہی بشار مخالف ہے ،شام میں اسے کے امدادی عناصر کونسے ہیں ، کیا واقعی ہی مغرب شامی مجاہدین کی مدد کررہا ہے ، ان سوالات نے بہت سی مباحث کو جنم دیا ہے اور فریقین مخالف نے اپنی اپنی پروپیگنڈہ مہم میں اس کو استعمال کیا ہے ۔ رافضی فریق نے مسلمان ممالک میں پھیلی ہوئی امریکی نفرت کو اس جنگ کو ایک علاقائی یا مغربی حمایت یافتہ فساد کے طور پر پیش کیا ہے تاکہ اس کا اصل چہرہ آشکار نہ ہوسکے ۔ دوسری طرف شامی تنظیمیں اس بات پر زور دیتی رہی ہیں کہ مغرب ان کی خاطر خواہ مدد نہیں کررہا جیسا
کہ ان کو امید تھی ۔

منگل، 17 ستمبر، 2013

اسلامی جمہوریت!


" ہمارے ایک دوست تھے ،ذھن اسلامی ، چہرہ مہرہ غیراسلامی ، ہم ذھن پر ہی شکر ادا کرتے ،موصوف کچھ عرصہ کے لیے ولایت تشریف لے گئے جب واپسی ہوئی تو بغل میں ایک میم تھیں! موصوف کا تعلق روایتی گھرانے سے تھا ،اس لیے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ جناب میم لے کر آئے ہیں ،رشتے داروں نے گوری کے دیدار کے لیے دوردراز سے ان کے گھر تک کا سفر کیا ، عورتیں سروں پر ڈوپٹہ لیتی ہوئی چوری چوری میم صاحبہ کو دیکھتی اور ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتیں کہ کہیں گوری میلی نہ ہوجائے ، دولہا کی بہنیں فخریہ لہجے میں سہلیوں کو بتاتی پھرتیں کہ بھیا انگلینڈ سے میم لائے ہیں، بچے تو اس کمرے سے نکلتے ہی نہ تھے جہاں پر میم تھی اماں کو انگلش وغیرہ تو نہ آتی تھی لیکن پھر بھی روایتا چادر اور سوٹ گوری کو دیا ، بلائیں لیتی لیتی رہ گئیں کہ پتہ نہیں میم کو کیسا لگے ۔ ہاں بیٹے کو جی بھر کر دعائیں دیتی رہیں ، صرف ابا جی تھے جنہوں نے بیٹا جی سے دریافت کیا ،مسلمان کیا ہے ؟ بیٹا جی نے جواب دیا جی اس نے کلمہ پڑھا ہوا
ہے ، اور اباجی مطمئن ہوگئے !

ہفتہ، 14 ستمبر، 2013

فقہ الواقع - حالات و واقعات کا علم


علماء دین و داعیان اکرام کے لیے اپنے کے حالات و واقعات کا فہم کیوں ضروری ہے ۔
فضیلۃ الشیخ - ڈاکٹر ناصر بن سیلمان العمر
ترجمہ و تلخیص ۔ محمد زکریا الزکی 


علماء پر اپنے دور کے حالات و واقعات کا علم بے حد ضروری ہے تاکہ وہ ان پر شرعی حکم لگا سکے ۔ اصول فقہ کے دو اہم اصول ہیں ۔ 
(ا)
مَا لَا یَتِمُّ الوَاجِبُ اِلَّابِہ فَہُوَ وَاجِب  ٌ   جس چیز کے بغیر کوئی شرعی واجب ادا نہ ہوسکتا ہو وہ بھی واجب ہے ۔ علمائے دین پر اپنے دور کے حالات کا شرعی حکم تلاش کرنا واجب ہے ۔ اور یہ شرعی واجب اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتاجب تک وہ اپنے دور کے حالات کا صحیح فہم حاصل نہ کرلیں ۔ چنانچہ حالات و واقعات کی سوجھ بوجھ بھی علمائے دین پر واجب ہے ۔ 
(٢)
اصول فقہ کا دوسرا اصول ہے ۔ اَلْحُکْمُ عَلٰی الشَّیْءِ فَرْعٌ عَنْ تَصَوُّرِہ کسی چیز پر لگایا گیا حکم ، اس چیز کے صحیح یا غلط تصورپر مبنی ہوتا ہے۔ اگر اس چیز کا فہم و تصور غلط ہے تو شرعی حکم بھی غلط ہوگا ۔اگر اس چیز کا فہم و تصور درست ہے تو شرعی حکم بھی درست ہوگا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حالات و واقعات کا صحیح فہم ہی درحقیقت صحیح فتوے اور درست راہنمائی کی بنیاد ہے ۔ 
!فقہ الواقع کی تعریف 

ہُوَ عِلْمٌ یَبْحَثُ فِیْ فِقْہِ الْاَحْوَالِ الْمُعَاصَرَۃِ مِنَ الْعَوَامِلِ المُؤَثِّرَۃِفِیْ الْمُجْتَمَعَاتِ وَ الْقُویٰ الْمُہَیْمَنَۃِ عَلٰی الْدُوَلِ وَ الْاَفْکَارِ الْمُوَجِّہَۃِلِزَعْزَعَۃِ الْعَقِیْدَۃِ وَ الْسُّبُلِ الْمَشْرُوْعَۃِ لِحِمَایَۃِ الْاُمَّۃِوَرَقِیِّہَافِی الْحَاضِرِ وَ الْمُسْتَقْبِلِ

جمعرات، 12 ستمبر، 2013

القاعدہ کا فتح کا بیس سالہ منصوبہ !

"
"  سن 2005 کے اختتام پر ایک اردنی صحافی فواد حسین کی ایک عربی کتاب منظر عام پر آئی جس کو عربی روزنامہ القدس عربی نے چھاپا - کتاب کا نام تھا 
الزرقاوی ۔ القاعدہ کی دوسری نسل 
" Al-Zarqawi . Al-Qaeda Second Generation
اپنی طباعت کے موقع پر یہ کتاب کوئی خاص اہمیت حاصل نہ کرسکی گوکہ فواد حسین معصب الزرقاوی کے ساتھ اردنی جیل میں کچھ وقت گزار چکے تھے ۔ اور اپنے دعوی کے مطابق القاعدہ کی لیڈر شپ سے رابطہ رکھتے تھے ۔ لیکن عرب بہاریہ کے بعد ایک دم یہ کتاب مغربی تجزیہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن گئی ۔ خاص طور پر جس بات نے ان کی توجہ مرکوز کی وہ "القاعدہ کا فتح کا بیس سالہ منصوبہ" تھا جس کا دعوی جہادی ذرائع سے اس کتاب میں کیا گیا ۔ اس کتاب کے یہ مندرجات حیران کن طور پر کچھ ہی سالوں میں سچے ثابت ہوئے ۔ جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتے 
ہیں ۔ مصنف نے القاعدہ کے منصوبے کو سات حصوں یا مراحل میں تقسیم کیا ہے 
"

"

شامی جہاد ! مغرب کی بے بسی




امریکی وزیر جان کیری نے 4 ستمبر کو جب شامی مزاحمت کی صرف 10 سے 25 فیصد تعداد کو "اسلامسٹ" قرار دیا تو بہت سے مبصرین کے لیے یہ بات ورطہ حیرت میں ڈالنے والی تھی ! کیا جان کیری امریکی سینٹرز کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ حالات واقعی ہی کچھ ایسے ہیں ! اس سوال نے امریکی حلقوں میں بھی ایک بحث کو جنم دیا ۔ یہاں تک کہ ایلزبتھ او بے نامی جس امریکن تجزیہ نگار کو جان کیری نے امریکی سینٹرز کو پڑھنے کا مشورہ دیا وہ بھی تنقید کی ذد میں آگئی (ایلزبتھ کو ڈاکٹریٹ کی جعلی ڈگری رکھنے کی بنا پر انسٹیوٹ آف سٹڈی آف وار سے فارغ کردیا گیا ہے )

بدھ، 11 ستمبر، 2013

ماں !


اسے علم تھا کہ وہ مرجائے گا ! ایک کا لاشہ وہ پندرہ سال پہلے اٹھا چکی تھی ۔ وہ اسی وقت بہت روئی تھی ۔ اب اس کےچہرے کی جھریاں آنسو نیچے نہ گرنے دیتی تھیں ۔ آنکھوں سے بہتے اور چہرے کی پیچ و خم میں ہی کہیں ضم ہوجاتے ۔
وہ ایک عرب خاتون کا مکمل نمونہ تھیں ۔ انہیں اچھی طرح یاد تھا کہ ان کی شادی چھوٹی عمر میں ہی ہوگئی تھی ۔ شوہر کے مظبوط آسرے نے آس کو کبھی ٹوٹنے نہ دیا تھا۔ بچے ہوئے اور ایسے لگا جیسے کہ یکایک جوان بھی ہوگئے ! وقت نے چہرے کو جھری زدہ کردیا تھا لیکن محنت کش و جفا شعار عورت ہمت آج بھی نہ ہاری تھی ۔ 
پہلے بیٹے نے جب اسے اپنے خیالات سے آگاہ کیا تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ لیکن ایک نامعلوم خوف اس کے جسم کے اندر سرایت کرگیا ۔ اس کا جی چاہا کہ چیخ کر کہے "کہ تم مارے جاوگئے" لیکن وہ ضبط کرگئی ۔ اور بیٹا مارا گیا!
لیکن اس کے ضبط کا بندھن پھر بھی نہ ٹوٹا ، پندرہ سال گزر گئے ۔ کہ اردگرد بیٹوں کی لاشیں گرنے لگیں ۔سارے اپنے ہی بیٹے تھے ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھنے والے بچے ! جن میں سے کوئی بچپن میں شرارت سے اسے نانی اماں یا دادی اماں کہہ کر ستاتا ، یا چیز لے دینے کی فرمائش کرتا! سب اس کے سگے بیٹوں کے دوست تھے جو گھر کے آنگن میں اس کے سامنے کھیلتے کھیلتے جوان ہوگئے تھے، یہ ان کی شادیاں ، خوشیاں ،جھگڑے ، زندگیاں دیکھتے دیکھتے بوڑھی ہوگئی !اسے باغبانی کا شوق تھا ، سبزیاں و پھلوں کے بیج زمین کے دامن میں بوتے بوتے وہ ایکدم انہی بیٹوں کی لاشیں بونے لگیں!
  اماں کو اب سمجھ آنے لگا کہ اس کا بیٹا اسے کیا سمجھانا چاہتا تھا ۔ وہ بقیہ بیٹوں کے چہروں کو حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتی ۔ اسے معلوم تھا کہ یہ بھی مارے جائیں گئیں ! لیکن اب وہ خوفزدہ نہ تھی ، قریب ہوتی ہوئی موت نے موت کا ڈر اس سے چھین لیا تھا ۔ ماں تھی یہ قبول نہ تھا کہ بیٹے بھوکے مارے جائیں ۔ دن رات ان کے لیے راشن تیار کرتی ۔ میلے کپڑے دھوتی ۔زخموں پر پٹٰی باندھتی اور رات کی تنہایئوں میں اللہ کے آگے روتی ۔ ٹی وی پر ایک انٹرویو لینے والی نے جب ان کا انٹرویو لیا تو پہلی بار ان کے ضبط کا دامن دنیا کے سامنے ٹوٹا ۔ ایک شیرنی غرا رہی تھی ۔ ایک بوڑھی نے حمص کے محاذ کا ایسا نقشہ کھینچا کہ بڑے سے بڑا نامہ نگار بھی ویسی عکس بندی بیان نہ کرسکتا تھا !
بشاری درندوں کی نظر اس بڑھیا پر پڑ گئی۔ راتوں کے اندھیروں میں حمص کے گلی کوچوں میں گونجنے والی ایک ضیعف آواز جو کہ نوجوانوں کا حوصلہ بڑھاتی تھی ۔ بوڑھے ہاتھوں سے پکائی گئی وہ روٹی جو کہ محاذ پر مشغول نوجوان مزے لے لے کر کھاتے تھے کہ "ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی ہے"، دعاوں کا وہ سیلاب جو کہ ایک ماں ہی کی زبان و دل سے نکل سکتا ہے ، یہ ساری نعمتیں پانچ سبتمر کو ایک رافضی گولی کا شکار ہو گئیں ۔ 95 سالہ تاریخ کا ایک اور نشان مٹ گیا !
ماں کی قبر بیٹوں کے پاس ہی بنائی گئی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ جنت میں اس کی خواہش یہی ہو کہ اپنے شہید بیٹوں کو کھانا بنا کر دیتی رہے ۔ ماں کے ہاتھ کا زائقہ جنت میں بھی مل جائے تو کیا ہی بات ہے۔ 

اتوار، 1 ستمبر، 2013

سامری ، قادری ، غامدی !


سامری،قادری ، غامدی  کب جنم لیتے ہے ؟ ان کا طریقہ واردات کیا ہے ؟ ان کا کردار کیا ہوتا ہے ؟ ان سب سوالوں کا جواب جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ "سامری کون ہے"۔ سامری ایک منافق ہے ،ایک مشرک ہے ، ایک بدعتی ہے ، یہ ایک قرآنی و تاریخی کردار ہے ۔ جس کا پایا جانا ہر دور میں لازمی ہے ۔ جہاں نبوت ہے ، جہاں امت ہے وہاں سامری ہے ۔ موقع و محل کے اعتبار سے اس کی قسمیں ،نام و چہرے ضرور بدل جاتے ہیں لیکن طریق کار و مقاصد میں فرق نہیں ہوتا ۔ موسی علیہ السلام والے کا نام سامری تھا، آج والوں کا نام غامدی یا قادری بھی ہوسکتا ہے !

منگل، 27 اگست، 2013

خروج ! تیسری قسط


اس مظلوم قوم کی اس حالت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ حکمران طبقے نے اس کو گروہوں و طبقات میں بانٹ رکھا تھا جو طبقہ یا گروہ اس کی مکمل وفاداری کا عہد کرتا اور اس کی غلامی کا جوا اپنے گلے میں ڈالنے کے لیے تیار ہوتا اس کو یہ اپنا مقرب بنالیتا۔ قرآن پاک میں اس بات کا اشارہ یوں ہے 
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَآىِٕفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ يَسْتَحْيٖ نِسَآءَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۰۰۴
واقعہ یہ کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔  ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کر تا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔
وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ۰۰۱۱۳قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ۠
چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے۔
اُنہوں نے کہا ” اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟“
فرعون نے جواب دیا”ہاں! اور تم مقربِ بارگاہ ہو گے۔(سورہ اعراف) “

جمعرات، 22 اگست، 2013

خروج! دوسری قسط


دوسرا مرض جو کہ دور غلامی کی وجہ سے ان کے اندر در آیا تھا وہ حریت و پامردی کا فقدان تھا۔ یہ آزادی و صبر کی ہر کوشش یا نصیحت کو مزید مصیبت لانے کا سبب جانتے تھے۔ حریت و آزادی خواہش کی کمی کا یہ عالم تھا کہ جب موسی علیہ السلام نے فرعون کہ ظلم و ستم کہ مقابلے میں ان کو ثابت قدم رہنے کی نصیحت کی تو ان کا جواب تھا 
قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْا١ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ١ۙ۫ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ۰۰۱۲۸قَالُوْۤا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا١ؕ قَالَ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ يَسْتَخْلِفَكُمْ۠ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَؒ۰۰۱۲۹
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ” اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو وہ چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انہی کے لیے ہے جو اُس سے ڈرتے ہوئے کام کریں۔“اس کی قوم کے لوگوں نے کہا”تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتےتھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں۔“ اس نے جواب دیا” قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا ربّ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟“  (سورہ اعراف)

بدھ، 21 اگست، 2013

خروج ! پہلی قسط


یہ ایک قوم کی کہانی ہے ۔ نام سے میں اور آپ سب واقف ہیں بنی اسرائیل۔ فلسطین و عراق میں بسی اس قوم کو حضرت یوسف علیہ السلام کہ دور میں جب عمالیق کے زیرحکمرانی ملک مصر میں پناہ ملی تو انہوں نے خوب ترقی کی ۔  عمالیق فراعنہ مصر نہ تھے جیسا کہ عام گمان ہے بلکہ یہ عرب چرواہوں کی ایک قوم تھی جس نے ملک مصر پر قبضہ کرلیا تھا ۔ جدید تحقیات میں ان کا نام ھائی کوسس کہ نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسی لیے قرآن پاک نے انہیں "فرعون" کہ بجائے "ملک" کہہ کر پکارا ہے 
ملک مصر میں یہ لوگ بہت بڑھے پھولے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی وجہ سے ان کو بہت عروج حاصل ہوا ، ملک مصر کا عملی نظام انہی لوگوں کہ ہاتھ میں تھا۔ اور ہر طرح کا فیصلہ یہی کرتے تھے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر سارے موخین متفق ہیں۔قرآن کریم میں اس کی طرف یوں اشارہ ہے 
وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ١ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَآءُ١ؕ نُصِيْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ۰۰۵۶وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا يَتَّقُوْنَؒ۰۵۷
اِس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یُوسُف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مُختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا،اور آخرت کا اجر اُن لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔(سورہ یوسف)
اور تاریخی گواہی اس پر بائبل کی ہے 

"اور اسرائیل کی اولاد برومند ،کیثر التعداد،فرواں اور نہایت زورآور ہوگئی "(بائبل ۔خروج -7)

یہ اپنے دور اقتدار میں اللہ تعالی کے احکامات پر کاربند تھے اور ایک شاندار و تابناک ماضی کے حامل۔ ان کے اندر حضرت ابرہیم کی پامردی ، حضرت اسحاق کی تابعداری ،حضرت یعقوب کے صبر اور حضرت یوسف کی پاکبازی کی داستانیں زبان زد خاص وعام تھیں اور یہ ان پر نازاں!
لیکن جلد ہی ملک مصر میں ایک قوم پرستانہ تحریک چلی اور ان بادشاہوں کو وہاں سے بے دخل کردیا گیا ۔ اور مصر کا پرانا قبطی النسل شاہی خاندان اپنا مذھبی  لقب "فرعون" کو اختیار کرتا ہوا دوبارہ تخت نشین ہوا۔ تخت نشین ہوتے ہی اس نے پرانے اقتدار کی ہر نشانی مٹانے کی کوشش شروع کردی جو کہ اس کا ہم مذہب بھی نہ تھا بلکہ اپنے دیوی دیوتا اپنے ساتھ لے کر آیا تھا ۔ عجب نہ تھا کہ بنی اسرائیل بھی اس ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنتے جو کہ اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہ چکے تھے ۔ شائد بطور وحی حضرت یوسف کو ان حالات کی پہلے ہی خبر دی گئی تھی اس لیے بائبل کہ مطابق انہوں نے اپنی وفات کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی تھی کہ جب تم ملک مصر سے نکلو تو میری ہڈیاں ساتھ لے جانا ۔ 
یہ دور استبداد ان پر کتنی دیر جاری رہا اس کا درست اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ لیکن مختلف تاریخی حوالوں سے ہم جو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی مدت ڈیڑھ سو سال سے لے کر چار سو سال تک رہی ۔ جس میں اس قوم پر اچھے دور بھی آئے اور برے بھی ۔ وقت کہ تھپیڑوں ،غیرملکی اقتدار اور حد سے زیادہ جبر و ستم نے ان کہ اندر سے حریت کی روح ہی کھینچ لی ، یہ قوم انتہائی سخت جان تھی اور اس وقت کہ اعداد و شمار کہ مطابق انتہائی کیثر تعداد میں ۔ بائبل حضرت موسی والے فرعون کی ان سے دشمنی کی وجہ ہی ان کی کثرت قرار دیتی ہے۔
تب مصر میں ایک بادشاہ ہوا جو کہ یوسف کو نہیں جانتا تھا اور اس نے اپنی قوم کہ لوگوں سے کہا کہ دیکھو بنی اسرائیل ہم سے زیادہ قوی ہوگئے ہیں ۔(بائبل ،خروج) 1
پھر ان کی حریت کچلنے کہ لیے یہ کیا کہ 

اس لیے انہوں نے ان پر بیگار لینے والے مقرر کردیئے جو ان سے سخت کام لے کر انہیں ستائیں ۔بائبل ۔خروج 11
لیکن یہ تدبیر ان کی آبادی گھٹانے کے لیے کارگر ثابت نہ ہوئی  
پر انہوں نے جتنا ان کو ستایا وہ اتنا ہی بڑھتے اور پھلیتے چلے گئے ،اس لیے وہ لوگ بنی اسرائیل کی طرف سے فکرمند ہوگئے اور مصریوں نے بنی اسرائیل پر تشدد کرکر کے ان سے کام کرایا۔( بائبل ۔خروج)

مجبورا فرعون نے خفیہ طریق پر ان کی نسل کشی کرنا چاہی 
تب مصر کہ بادشاہ نے عبرانی دایئوں سے جن میں سے ایک کا نام سفرہ اور دوسری کا فوعہ تھا باتیں کیں ۔اور کہا کہ جب تم عبرانی عورتوں کے بچہ جناو اور انکو پتھر کی بیٹھکوں پربیٹھی دیکھو تو اگر وہ بیٹا ہو تواسے مارڈالنا اور اگر بیٹی ہو تو وہ جیتی رہے ۔لیکن وہ دایئاں خدا سے ڈرتی تھیں (بائبل۔خروج 17)

قرآن پاک نے بائبل والے اس لمبے بیان کو ایک ہی آیت میں بیان کرکہ رکھ دیا
وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاَءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ۔(سورہ مائدہ)
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی۔ اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی 
یہاں سخت عذاب کا معنی ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ طریقے ایجاد کرنا جو کہ حریت ، فکر ، آزادی ، بلند کرداری ، کہ ہر اس مظہر پر ضرب لگانا ہے جو کہ حکمران جماعت کے لیے کسی بھی قسم کے خطرے کا باعث ہو۔ ان کی قومی فکر ، عقیدہ توحید ، رہن سہن کے طریق کار غرضیکہ ہر طرح کی اس اساس پر کاری ضرب لگائی گئی جو کہ حکمرانوں کے لیے کسی بھی طرح خطرہ ہو۔ ان سےبیگار لیا گیا جس سے ان کے اندر آزادی کی فکر ہی پیدا ہونی بند ہو گئی اور یہ اپنے آپ کو قبطی قوم کے غلام سمجھنے لگے ۔ ان کو ایسے شہروں کی تعمیر پر لگایا گیا جو کہ فراعنہ مصر کے رعب و جلال کے امین ہوں لیکن اپنے معماروں کے لیے جبر و دہشت کا ایک نشان ۔ اپنے رزق کہ حصول کے لیے یہ اس بیگار کے کرنے پر مجبور تھے جس نے ان سے وہ حس بھی چھین لی جو کے ان مظالم کہ خلاف آواز بلند کرتی۔ دو وقت کی روٹی اور جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے یہ اس کڑی محنت کو برداشت کرنے پر مجبور تھے ۔ ان کا طرز معاشرت و عقیدہ بھی اسی دور میں بدل گیا ۔حکمران جماعت کا ہر فیشن چاہے وہ عبادت کا طریق کار ہو یا رہن سہن کا ان کہ اندر در آیا، جادو گری ، کاہن سازی اور بچھڑے کی محبت اسی دور کی نشانیاں ہیں جو کہ انہوں نے اپنے حکمرانوں کی اطاعت میں قبول کیں تھیں اور یہ امراض غلامی کی وجہ سے ان میں پیدا ہوگئے تھے ۔ ان میں سب سے پہلا مرض جو کہ حکمرانوں کی اطاعت میں پیدا ہوا وہ عقیدے کا مرض تھا دور غلامی نے نہ صرف ان سے ان کا عقیدہ چھین لیا بلکہ حکمرانوں کہ عقائد کو ان کے اندر رائج کردیا۔ یہ ایک اللہ کہ تصور کو بالکل نہ بھولے تھا لیکن اس کی عبادت کہ تمام مظاہر حکمران طبقے کی نقالی میں ہی اختیار کرتے تھے ۔ قرآن پاک میں ان کی اس حالت کی نشاندہی یوں کی ہے  
اچھا، ان سے کہو: اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کے اُن پیغمبروں کو (جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے ) کیوں قتل کرتے رہے ؟ تمہارے پاس موسٰی ؑ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا۔ پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے ۔ پھر ذرا اس میثاق کو یاد کرو، جو طُور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو۔ تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا، مگر مانیں گے نہیں ۔ اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔ کہو: اگر تم مومن ہو تو یہ عجیب ایمان ہے، جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے ۔ (البقرۃ۔
دوسری جگہ اللہ تعالی ان کی حالت کی نشاندہی یوں کرتے ہیں 
وَ جٰوَزْنَا بِبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰى قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰۤى اَصْنَامٍ لَّهُمْ١ۚ قَالُوْا يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ١ؕ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ
بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر اُن کا گزر ہوا جو اپنے چند بُتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے، ”اے موسیٰ،ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے اِن لوگوں کے معبود ہیں۔ موسیٰ نے کہا”تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتےہو(سورہ اعراف)  

یہاں سے اس قوم کے عقیدہ توحید پر تربیت کا بالکل درست درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو کہ ابھی ابھی اپنے رب کا عظیم الشان معجزہ دیکھ کر آئی ہے اور حضرت موسی علیہ السلام جس کو توحید کی کھلی کھلی دعوت بھی دے چکے ہیں لیکن اس کہ باوجود غلامی کا ذھنوں پر ابھی تک اتنا اثر ہے کہ وہ بالکل نہیں جانتے کہ عبادت کا مفہوم کیا ہے! اسی غلامی کا اثر تھا کہ جب بھی کوئی بہکانے والا شعبدہ باز ان کہ پاس آیا تو اللہ کی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود انہوں نے اس کی پیروی کرنے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہ لگائی ۔ حضرت موسی علیہ السلام جب کوہ طور پر احکامات الہی وصول کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو سامری جیسے شعبدہ گر نے انہیں بچھڑے کہ پوجنے پر لگا دیا۔ یہ اس بات کی دلیل تھا کہ عقیدہ توحید ابھی ان کہ اذھان میں اپنی تفصیلات کہ ساتھ محفوظ نہ ہوا تھا ۔ یہ ان کے لیے بمثل اپنے حکمرانوں چند مراسم عبودیت کو بجا لانے کا نام تھا جس کے لیے کسی شریعت کی پیروی ضروری نہیں بلکہ جو بھی رائج الوقت طریق کار ہو اس پر عملدرآمد کرتے تھے ۔ حکمران اگر بچھڑا کی پوجا کرتے تھے تو یہ طریق ان کی فطرت میں بھی رچ بس چکا تھا وہ اسی طریق کو اللہ کے لیے اختیار کرنا چاہتے تھے جو کہ کفار کا ہے ،ان کی رسومات عبودیت ،ان کی فکر ، ان کی فہم ان کے اندر لاشعوری طور پر درآئی تھی ۔ جس کے باطل ہونے کا انہیں اندازہ نہ تھا۔ باطل قوموں کے ساتھ ایک انتہائی دیر تک رہنے والے تعامل نے ان سے اپنے عقیدے
کی سچی سمجھ بھی چھین لی تھی ۔

اتوار، 18 اگست، 2013

نماز عید و گدھے !


آج کچھ گدھوں کو نماز کسی "مولوی" کہ پیچھے پڑھنی پڑ گئی !! حالانکہ یہ جنازہ بھی اس سے پڑھوانے کہ قائل نہیں ۔ اگر ان کو مرنے کہ بعد دو منٹ بولنے کہ لیے عطا کیے جاتے تو شائد یہ اپنی آل اولاد کی طرف حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتے کہ ان میں سے کوئی جنازہ پڑھوا سکتا!
یہ گدھے دوطرح کہ ہیں ۔ ایک بدیسی اور ایک دیسی ۔ بدیسی تو جیسا نام سے ظاہر ہے کہ بدیس میں پائے جاتے ہیں جو یہ نماز وغیرہ کی زحمت نہیں پالتے مگر یہاں جن گدھوں کی بات ہورہی ہے وہ دیسی ہیں ! یہ اکثر اوقات سوشل ، الیکڑونک و پرنٹ میڈیا پر پائے جاتے ہیں یا نجی محفلوں میں اپنے علم کا مظاہرہ کرتے ہیں ،ان کی ایک کیثر تعداد پر "میڈ ان ترکی" کا لیبل بھی لگا ہوتا ہے لیکن ہوتے دیسی ہی ہیں !
یہ پیدا ہوتے ہی گدھے تھے اس کہ بارے میں علم نہیں ہوسکا لیکن شعور کی منزلیں سنبھالتے ہی انہوں نے اپنے لیے "لبرل و سیکولرز" کا لاحقہ استعمال کیا ۔ عید کا چاند نظر آنے سے پہلے تک ان کی بھرپور کوشش رہی کہ چاند "سائنسدان" ہی دیکھیں ، اگر سائنسدانوں کو عید کی نماز پڑھانی آتی تو یہ نماز بھی انہی کہ پیچھے پڑھتے ! مگر ان کی شومئی قسمت کہ سائنسدانوں کو ابھی تک عید کی نماز نہ پڑھانی آئی اور چاند بھی مولویوں نے ہی دیکھا !!
رمضان کہ دنوں میں انہوں نے 'سحر و افطار" کہ مواقع پر بھرپور شرکت کی بہت سوں نے کسی بھی رمضان بازار یا بازار میں جائے بغیر مہنگائی و مسلمانوں کی بے حسی کہ خلاف بہت سے کالم لکھے یا تقریریں کیں ! یہ سال میں ایک بار کجھوریں خریدتے ہیں شائد وہ انہیں مہنگی لگیں ! زیادہ تر سحر کہ وقت "مشروب خاص ۔مشروب مغرب" سے شغل کرتے رہے اور کچھ نے روزہ کھلنے تک انتظار کیا ! مشروب خاص کی مستی میں رات کہ پچھلے پہر میں ان کہ قلم سے کچھ نادرونایاب تحریریں بھی برآمد ہوئیں جو کہ کافی لوگوں کی مستی کا سبب بنیں! پورے رمضان میں ان کو ایک ہی دینی نشریات اچھی لگیں اور وہ تھی "امان رمضان"!
بقیہ وقت یہ مولویوں کہ بارے میں لطیفے بنانے میں مصروف رہے ! یا دھشت گردی کا راگ الاپتے رہے ! یاد رہے کہ ان کہ نزدیک "دھشت گردی" کے مصداق صرف طالبان ہیں !
چاند رات ان کی "آذادی" کی رات تھی! جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پورے ملک میں "مشروب خاص۔مشروب مغرب" کی قلت پیدا ہوگئی !
ان میں سے زیادہ تر عید کی نماز اپنی نصیبوں جلی بیگم کی خشمگیں آنکھوں سے بچنے کہ لیے پڑھنے نکلے ! جس نے صبح کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی شور مچا دیا اٹھ جائئے "عید کی نماز تو پڑھ لیں"۔ بقیہ کو یہ مرحلہ درپیش ہوا کہ عید پر بچوں کہ لیے 'شلوار قمیض" سلوائی ہے اس کو پہننے کا موقع و محل بھی تو ہونا چاہیے !
یہ عید گاہ میں سب سے آخر میں پہنچنے والے تھے ، ان کی حالت دیدنی تھی ، کبھی اپنے بچوں کو نئے کپڑے پہنے دیکھ کر مسکراتے اور کبھی ان کا مولوی کی تقریر میں انہماک دیکھ کر سہم جاتے ! کیونکہ ان کا ہر کام گدھوں والا ہوتا ہے اس لیے انہوں نے بلاامتیاز ہر مسجد میں نماز عید پڑھی ! باربار گھڑی کو دیکھتے رہے اور یاد کرتے رہے کہ پوسٹر پر نماز عید کا وقت کہاں سے لے کر کہاں تک تھا! کچھ ناسمجھ و پینڈو ٹائپ مسلمانوں کی نادانیاں دیکھ کر یہ کف افسوس بھی ملتے رہے "کہ دیکھو یہ ہیں مسلمان"! لیکن اپنی جوتیاں انہوں نے گم ہوجانے کہ ڈر سے اپنی بغلوں میں داب رکھی تھیں ! 
مولوی صاحب نے خطبے کہ دوران جب فطرانے کا ذکر کیا تو ان کو ایکدم یاد آیا کہ اوہ یہ تو ابھی دینا تھا !! مگر پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ گھر کی نوکرانی یا نوکر کو ابھی ابھی جو عیدی وہ دے کر آئے ہیں وہ "فطرانہ ہی تو تھا" !! کمال کرتے ہیں یہ مولوی بھی !! اللہ کہ راستے میں دینا ہے چاہے "فطرانہ" دو یا "عیدی"!!
تقریر میں اگر کسی ملا نے شام ،عراق ، فلسطین ،افغانستان کا زکر کردیا تو یہ اس کو مضحکہ خیز نگاہوں سے دیکھتے رہے ! پاکستان میں لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ملا غیر ملکوں کی بات کررہا ہے ! گدھوں کی سوچ روٹی و ڈنڈے سے آگے نہیں بڑھتی !
نماز میں ان کو یہی وسوسہ لاحق رہا کہ ساتھ والا یہ نہ جان جائے کہ ان کو عید کی نماز نہیں پڑھنی آتی !! ہر تکبیر پر یہی سوچتے رہے کہ ہاتھ اٹھانے ہیں یا نہیں اٹھانے !! اس لیے کنکھیوں سے ساتھ والے نمازی پر نگاہ ٹکائے رکھی ! جو کہ اپنے سے ساتھ والے کو دیکھ رہا تھا !!
نماز کہ ختم ہوتے ہی ان کی ہڑبڑاہٹ دیدنی تھی ! سب سے پہلے غریبوں کہ ان غمخواروں نے یہ کوشش کی کہ غریبوں کی آنکھ بچا کر نکل جائیں !! گلے ملنے کی زحمت بادل نخواستہ برداشت کی اور گاڑی میں بیٹھ کر فورا ٹیپ ریکارڈر آن کردیا" عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملیے"!!
گھر تک پہنچتے پہنچتے یہ انسان سے پھر "گدھے" بن چکے تھے !!