منگل، 27 اگست، 2013

خروج ! تیسری قسط


اس مظلوم قوم کی اس حالت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ حکمران طبقے نے اس کو گروہوں و طبقات میں بانٹ رکھا تھا جو طبقہ یا گروہ اس کی مکمل وفاداری کا عہد کرتا اور اس کی غلامی کا جوا اپنے گلے میں ڈالنے کے لیے تیار ہوتا اس کو یہ اپنا مقرب بنالیتا۔ قرآن پاک میں اس بات کا اشارہ یوں ہے 
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَآىِٕفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ يَسْتَحْيٖ نِسَآءَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۰۰۴
واقعہ یہ کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔  ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کر تا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔
وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ۰۰۱۱۳قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ۠
چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے۔
اُنہوں نے کہا ” اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟“
فرعون نے جواب دیا”ہاں! اور تم مقربِ بارگاہ ہو گے۔(سورہ اعراف) “

جمعرات، 22 اگست، 2013

خروج! دوسری قسط


دوسرا مرض جو کہ دور غلامی کی وجہ سے ان کے اندر در آیا تھا وہ حریت و پامردی کا فقدان تھا۔ یہ آزادی و صبر کی ہر کوشش یا نصیحت کو مزید مصیبت لانے کا سبب جانتے تھے۔ حریت و آزادی خواہش کی کمی کا یہ عالم تھا کہ جب موسی علیہ السلام نے فرعون کہ ظلم و ستم کہ مقابلے میں ان کو ثابت قدم رہنے کی نصیحت کی تو ان کا جواب تھا 
قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْا١ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ١ۙ۫ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ۰۰۱۲۸قَالُوْۤا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا١ؕ قَالَ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ يَسْتَخْلِفَكُمْ۠ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَؒ۰۰۱۲۹
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ” اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو وہ چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انہی کے لیے ہے جو اُس سے ڈرتے ہوئے کام کریں۔“اس کی قوم کے لوگوں نے کہا”تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتےتھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں۔“ اس نے جواب دیا” قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا ربّ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟“  (سورہ اعراف)

بدھ، 21 اگست، 2013

خروج ! پہلی قسط


یہ ایک قوم کی کہانی ہے ۔ نام سے میں اور آپ سب واقف ہیں بنی اسرائیل۔ فلسطین و عراق میں بسی اس قوم کو حضرت یوسف علیہ السلام کہ دور میں جب عمالیق کے زیرحکمرانی ملک مصر میں پناہ ملی تو انہوں نے خوب ترقی کی ۔  عمالیق فراعنہ مصر نہ تھے جیسا کہ عام گمان ہے بلکہ یہ عرب چرواہوں کی ایک قوم تھی جس نے ملک مصر پر قبضہ کرلیا تھا ۔ جدید تحقیات میں ان کا نام ھائی کوسس کہ نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسی لیے قرآن پاک نے انہیں "فرعون" کہ بجائے "ملک" کہہ کر پکارا ہے 
ملک مصر میں یہ لوگ بہت بڑھے پھولے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی وجہ سے ان کو بہت عروج حاصل ہوا ، ملک مصر کا عملی نظام انہی لوگوں کہ ہاتھ میں تھا۔ اور ہر طرح کا فیصلہ یہی کرتے تھے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر سارے موخین متفق ہیں۔قرآن کریم میں اس کی طرف یوں اشارہ ہے 
وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ١ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَآءُ١ؕ نُصِيْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ۰۰۵۶وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا يَتَّقُوْنَؒ۰۵۷
اِس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یُوسُف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مُختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا،اور آخرت کا اجر اُن لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔(سورہ یوسف)
اور تاریخی گواہی اس پر بائبل کی ہے 

"اور اسرائیل کی اولاد برومند ،کیثر التعداد،فرواں اور نہایت زورآور ہوگئی "(بائبل ۔خروج -7)

یہ اپنے دور اقتدار میں اللہ تعالی کے احکامات پر کاربند تھے اور ایک شاندار و تابناک ماضی کے حامل۔ ان کے اندر حضرت ابرہیم کی پامردی ، حضرت اسحاق کی تابعداری ،حضرت یعقوب کے صبر اور حضرت یوسف کی پاکبازی کی داستانیں زبان زد خاص وعام تھیں اور یہ ان پر نازاں!
لیکن جلد ہی ملک مصر میں ایک قوم پرستانہ تحریک چلی اور ان بادشاہوں کو وہاں سے بے دخل کردیا گیا ۔ اور مصر کا پرانا قبطی النسل شاہی خاندان اپنا مذھبی  لقب "فرعون" کو اختیار کرتا ہوا دوبارہ تخت نشین ہوا۔ تخت نشین ہوتے ہی اس نے پرانے اقتدار کی ہر نشانی مٹانے کی کوشش شروع کردی جو کہ اس کا ہم مذہب بھی نہ تھا بلکہ اپنے دیوی دیوتا اپنے ساتھ لے کر آیا تھا ۔ عجب نہ تھا کہ بنی اسرائیل بھی اس ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنتے جو کہ اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہ چکے تھے ۔ شائد بطور وحی حضرت یوسف کو ان حالات کی پہلے ہی خبر دی گئی تھی اس لیے بائبل کہ مطابق انہوں نے اپنی وفات کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی تھی کہ جب تم ملک مصر سے نکلو تو میری ہڈیاں ساتھ لے جانا ۔ 
یہ دور استبداد ان پر کتنی دیر جاری رہا اس کا درست اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ لیکن مختلف تاریخی حوالوں سے ہم جو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی مدت ڈیڑھ سو سال سے لے کر چار سو سال تک رہی ۔ جس میں اس قوم پر اچھے دور بھی آئے اور برے بھی ۔ وقت کہ تھپیڑوں ،غیرملکی اقتدار اور حد سے زیادہ جبر و ستم نے ان کہ اندر سے حریت کی روح ہی کھینچ لی ، یہ قوم انتہائی سخت جان تھی اور اس وقت کہ اعداد و شمار کہ مطابق انتہائی کیثر تعداد میں ۔ بائبل حضرت موسی والے فرعون کی ان سے دشمنی کی وجہ ہی ان کی کثرت قرار دیتی ہے۔
تب مصر میں ایک بادشاہ ہوا جو کہ یوسف کو نہیں جانتا تھا اور اس نے اپنی قوم کہ لوگوں سے کہا کہ دیکھو بنی اسرائیل ہم سے زیادہ قوی ہوگئے ہیں ۔(بائبل ،خروج) 1
پھر ان کی حریت کچلنے کہ لیے یہ کیا کہ 

اس لیے انہوں نے ان پر بیگار لینے والے مقرر کردیئے جو ان سے سخت کام لے کر انہیں ستائیں ۔بائبل ۔خروج 11
لیکن یہ تدبیر ان کی آبادی گھٹانے کے لیے کارگر ثابت نہ ہوئی  
پر انہوں نے جتنا ان کو ستایا وہ اتنا ہی بڑھتے اور پھلیتے چلے گئے ،اس لیے وہ لوگ بنی اسرائیل کی طرف سے فکرمند ہوگئے اور مصریوں نے بنی اسرائیل پر تشدد کرکر کے ان سے کام کرایا۔( بائبل ۔خروج)

مجبورا فرعون نے خفیہ طریق پر ان کی نسل کشی کرنا چاہی 
تب مصر کہ بادشاہ نے عبرانی دایئوں سے جن میں سے ایک کا نام سفرہ اور دوسری کا فوعہ تھا باتیں کیں ۔اور کہا کہ جب تم عبرانی عورتوں کے بچہ جناو اور انکو پتھر کی بیٹھکوں پربیٹھی دیکھو تو اگر وہ بیٹا ہو تواسے مارڈالنا اور اگر بیٹی ہو تو وہ جیتی رہے ۔لیکن وہ دایئاں خدا سے ڈرتی تھیں (بائبل۔خروج 17)

قرآن پاک نے بائبل والے اس لمبے بیان کو ایک ہی آیت میں بیان کرکہ رکھ دیا
وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاَءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ۔(سورہ مائدہ)
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی۔ اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی 
یہاں سخت عذاب کا معنی ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ طریقے ایجاد کرنا جو کہ حریت ، فکر ، آزادی ، بلند کرداری ، کہ ہر اس مظہر پر ضرب لگانا ہے جو کہ حکمران جماعت کے لیے کسی بھی قسم کے خطرے کا باعث ہو۔ ان کی قومی فکر ، عقیدہ توحید ، رہن سہن کے طریق کار غرضیکہ ہر طرح کی اس اساس پر کاری ضرب لگائی گئی جو کہ حکمرانوں کے لیے کسی بھی طرح خطرہ ہو۔ ان سےبیگار لیا گیا جس سے ان کے اندر آزادی کی فکر ہی پیدا ہونی بند ہو گئی اور یہ اپنے آپ کو قبطی قوم کے غلام سمجھنے لگے ۔ ان کو ایسے شہروں کی تعمیر پر لگایا گیا جو کہ فراعنہ مصر کے رعب و جلال کے امین ہوں لیکن اپنے معماروں کے لیے جبر و دہشت کا ایک نشان ۔ اپنے رزق کہ حصول کے لیے یہ اس بیگار کے کرنے پر مجبور تھے جس نے ان سے وہ حس بھی چھین لی جو کے ان مظالم کہ خلاف آواز بلند کرتی۔ دو وقت کی روٹی اور جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے یہ اس کڑی محنت کو برداشت کرنے پر مجبور تھے ۔ ان کا طرز معاشرت و عقیدہ بھی اسی دور میں بدل گیا ۔حکمران جماعت کا ہر فیشن چاہے وہ عبادت کا طریق کار ہو یا رہن سہن کا ان کہ اندر در آیا، جادو گری ، کاہن سازی اور بچھڑے کی محبت اسی دور کی نشانیاں ہیں جو کہ انہوں نے اپنے حکمرانوں کی اطاعت میں قبول کیں تھیں اور یہ امراض غلامی کی وجہ سے ان میں پیدا ہوگئے تھے ۔ ان میں سب سے پہلا مرض جو کہ حکمرانوں کی اطاعت میں پیدا ہوا وہ عقیدے کا مرض تھا دور غلامی نے نہ صرف ان سے ان کا عقیدہ چھین لیا بلکہ حکمرانوں کہ عقائد کو ان کے اندر رائج کردیا۔ یہ ایک اللہ کہ تصور کو بالکل نہ بھولے تھا لیکن اس کی عبادت کہ تمام مظاہر حکمران طبقے کی نقالی میں ہی اختیار کرتے تھے ۔ قرآن پاک میں ان کی اس حالت کی نشاندہی یوں کی ہے  
اچھا، ان سے کہو: اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کے اُن پیغمبروں کو (جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے ) کیوں قتل کرتے رہے ؟ تمہارے پاس موسٰی ؑ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا۔ پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے ۔ پھر ذرا اس میثاق کو یاد کرو، جو طُور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو۔ تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا، مگر مانیں گے نہیں ۔ اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔ کہو: اگر تم مومن ہو تو یہ عجیب ایمان ہے، جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے ۔ (البقرۃ۔
دوسری جگہ اللہ تعالی ان کی حالت کی نشاندہی یوں کرتے ہیں 
وَ جٰوَزْنَا بِبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰى قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰۤى اَصْنَامٍ لَّهُمْ١ۚ قَالُوْا يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ١ؕ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ
بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر اُن کا گزر ہوا جو اپنے چند بُتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے، ”اے موسیٰ،ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے اِن لوگوں کے معبود ہیں۔ موسیٰ نے کہا”تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتےہو(سورہ اعراف)  

یہاں سے اس قوم کے عقیدہ توحید پر تربیت کا بالکل درست درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو کہ ابھی ابھی اپنے رب کا عظیم الشان معجزہ دیکھ کر آئی ہے اور حضرت موسی علیہ السلام جس کو توحید کی کھلی کھلی دعوت بھی دے چکے ہیں لیکن اس کہ باوجود غلامی کا ذھنوں پر ابھی تک اتنا اثر ہے کہ وہ بالکل نہیں جانتے کہ عبادت کا مفہوم کیا ہے! اسی غلامی کا اثر تھا کہ جب بھی کوئی بہکانے والا شعبدہ باز ان کہ پاس آیا تو اللہ کی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود انہوں نے اس کی پیروی کرنے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہ لگائی ۔ حضرت موسی علیہ السلام جب کوہ طور پر احکامات الہی وصول کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو سامری جیسے شعبدہ گر نے انہیں بچھڑے کہ پوجنے پر لگا دیا۔ یہ اس بات کی دلیل تھا کہ عقیدہ توحید ابھی ان کہ اذھان میں اپنی تفصیلات کہ ساتھ محفوظ نہ ہوا تھا ۔ یہ ان کے لیے بمثل اپنے حکمرانوں چند مراسم عبودیت کو بجا لانے کا نام تھا جس کے لیے کسی شریعت کی پیروی ضروری نہیں بلکہ جو بھی رائج الوقت طریق کار ہو اس پر عملدرآمد کرتے تھے ۔ حکمران اگر بچھڑا کی پوجا کرتے تھے تو یہ طریق ان کی فطرت میں بھی رچ بس چکا تھا وہ اسی طریق کو اللہ کے لیے اختیار کرنا چاہتے تھے جو کہ کفار کا ہے ،ان کی رسومات عبودیت ،ان کی فکر ، ان کی فہم ان کے اندر لاشعوری طور پر درآئی تھی ۔ جس کے باطل ہونے کا انہیں اندازہ نہ تھا۔ باطل قوموں کے ساتھ ایک انتہائی دیر تک رہنے والے تعامل نے ان سے اپنے عقیدے
کی سچی سمجھ بھی چھین لی تھی ۔

اتوار، 18 اگست، 2013

نماز عید و گدھے !


آج کچھ گدھوں کو نماز کسی "مولوی" کہ پیچھے پڑھنی پڑ گئی !! حالانکہ یہ جنازہ بھی اس سے پڑھوانے کہ قائل نہیں ۔ اگر ان کو مرنے کہ بعد دو منٹ بولنے کہ لیے عطا کیے جاتے تو شائد یہ اپنی آل اولاد کی طرف حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتے کہ ان میں سے کوئی جنازہ پڑھوا سکتا!
یہ گدھے دوطرح کہ ہیں ۔ ایک بدیسی اور ایک دیسی ۔ بدیسی تو جیسا نام سے ظاہر ہے کہ بدیس میں پائے جاتے ہیں جو یہ نماز وغیرہ کی زحمت نہیں پالتے مگر یہاں جن گدھوں کی بات ہورہی ہے وہ دیسی ہیں ! یہ اکثر اوقات سوشل ، الیکڑونک و پرنٹ میڈیا پر پائے جاتے ہیں یا نجی محفلوں میں اپنے علم کا مظاہرہ کرتے ہیں ،ان کی ایک کیثر تعداد پر "میڈ ان ترکی" کا لیبل بھی لگا ہوتا ہے لیکن ہوتے دیسی ہی ہیں !
یہ پیدا ہوتے ہی گدھے تھے اس کہ بارے میں علم نہیں ہوسکا لیکن شعور کی منزلیں سنبھالتے ہی انہوں نے اپنے لیے "لبرل و سیکولرز" کا لاحقہ استعمال کیا ۔ عید کا چاند نظر آنے سے پہلے تک ان کی بھرپور کوشش رہی کہ چاند "سائنسدان" ہی دیکھیں ، اگر سائنسدانوں کو عید کی نماز پڑھانی آتی تو یہ نماز بھی انہی کہ پیچھے پڑھتے ! مگر ان کی شومئی قسمت کہ سائنسدانوں کو ابھی تک عید کی نماز نہ پڑھانی آئی اور چاند بھی مولویوں نے ہی دیکھا !!
رمضان کہ دنوں میں انہوں نے 'سحر و افطار" کہ مواقع پر بھرپور شرکت کی بہت سوں نے کسی بھی رمضان بازار یا بازار میں جائے بغیر مہنگائی و مسلمانوں کی بے حسی کہ خلاف بہت سے کالم لکھے یا تقریریں کیں ! یہ سال میں ایک بار کجھوریں خریدتے ہیں شائد وہ انہیں مہنگی لگیں ! زیادہ تر سحر کہ وقت "مشروب خاص ۔مشروب مغرب" سے شغل کرتے رہے اور کچھ نے روزہ کھلنے تک انتظار کیا ! مشروب خاص کی مستی میں رات کہ پچھلے پہر میں ان کہ قلم سے کچھ نادرونایاب تحریریں بھی برآمد ہوئیں جو کہ کافی لوگوں کی مستی کا سبب بنیں! پورے رمضان میں ان کو ایک ہی دینی نشریات اچھی لگیں اور وہ تھی "امان رمضان"!
بقیہ وقت یہ مولویوں کہ بارے میں لطیفے بنانے میں مصروف رہے ! یا دھشت گردی کا راگ الاپتے رہے ! یاد رہے کہ ان کہ نزدیک "دھشت گردی" کے مصداق صرف طالبان ہیں !
چاند رات ان کی "آذادی" کی رات تھی! جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پورے ملک میں "مشروب خاص۔مشروب مغرب" کی قلت پیدا ہوگئی !
ان میں سے زیادہ تر عید کی نماز اپنی نصیبوں جلی بیگم کی خشمگیں آنکھوں سے بچنے کہ لیے پڑھنے نکلے ! جس نے صبح کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی شور مچا دیا اٹھ جائئے "عید کی نماز تو پڑھ لیں"۔ بقیہ کو یہ مرحلہ درپیش ہوا کہ عید پر بچوں کہ لیے 'شلوار قمیض" سلوائی ہے اس کو پہننے کا موقع و محل بھی تو ہونا چاہیے !
یہ عید گاہ میں سب سے آخر میں پہنچنے والے تھے ، ان کی حالت دیدنی تھی ، کبھی اپنے بچوں کو نئے کپڑے پہنے دیکھ کر مسکراتے اور کبھی ان کا مولوی کی تقریر میں انہماک دیکھ کر سہم جاتے ! کیونکہ ان کا ہر کام گدھوں والا ہوتا ہے اس لیے انہوں نے بلاامتیاز ہر مسجد میں نماز عید پڑھی ! باربار گھڑی کو دیکھتے رہے اور یاد کرتے رہے کہ پوسٹر پر نماز عید کا وقت کہاں سے لے کر کہاں تک تھا! کچھ ناسمجھ و پینڈو ٹائپ مسلمانوں کی نادانیاں دیکھ کر یہ کف افسوس بھی ملتے رہے "کہ دیکھو یہ ہیں مسلمان"! لیکن اپنی جوتیاں انہوں نے گم ہوجانے کہ ڈر سے اپنی بغلوں میں داب رکھی تھیں ! 
مولوی صاحب نے خطبے کہ دوران جب فطرانے کا ذکر کیا تو ان کو ایکدم یاد آیا کہ اوہ یہ تو ابھی دینا تھا !! مگر پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ گھر کی نوکرانی یا نوکر کو ابھی ابھی جو عیدی وہ دے کر آئے ہیں وہ "فطرانہ ہی تو تھا" !! کمال کرتے ہیں یہ مولوی بھی !! اللہ کہ راستے میں دینا ہے چاہے "فطرانہ" دو یا "عیدی"!!
تقریر میں اگر کسی ملا نے شام ،عراق ، فلسطین ،افغانستان کا زکر کردیا تو یہ اس کو مضحکہ خیز نگاہوں سے دیکھتے رہے ! پاکستان میں لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ملا غیر ملکوں کی بات کررہا ہے ! گدھوں کی سوچ روٹی و ڈنڈے سے آگے نہیں بڑھتی !
نماز میں ان کو یہی وسوسہ لاحق رہا کہ ساتھ والا یہ نہ جان جائے کہ ان کو عید کی نماز نہیں پڑھنی آتی !! ہر تکبیر پر یہی سوچتے رہے کہ ہاتھ اٹھانے ہیں یا نہیں اٹھانے !! اس لیے کنکھیوں سے ساتھ والے نمازی پر نگاہ ٹکائے رکھی ! جو کہ اپنے سے ساتھ والے کو دیکھ رہا تھا !!
نماز کہ ختم ہوتے ہی ان کی ہڑبڑاہٹ دیدنی تھی ! سب سے پہلے غریبوں کہ ان غمخواروں نے یہ کوشش کی کہ غریبوں کی آنکھ بچا کر نکل جائیں !! گلے ملنے کی زحمت بادل نخواستہ برداشت کی اور گاڑی میں بیٹھ کر فورا ٹیپ ریکارڈر آن کردیا" عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملیے"!!
گھر تک پہنچتے پہنچتے یہ انسان سے پھر "گدھے" بن چکے تھے !!

اتوار، 11 اگست، 2013

بابو منکر !




بابو منکر !!


بابو منکر ، منکر قسم کی شخصیت ہیں ، ان کو منکر کہنے کی وجہ تسمیہ کیا ہے اس کہ بارے میں مختلف روایات ہیں ثقہ راویوں کہ مطابق انہوں نے پہلے حدیث کا انکار کیا تو لوگوں نے اتنی توجہ نہ دی کیونکہ لوگ خود بھی حدیث کہ بارے میں زیادہ نہ جانتے تھے ! پھر انہوں نے روزہ نہ رکھنے کی روش شروع کی تو پھر بھی اضطراب پیدا نہ ہوا کیونکہ لوگ خود بھی کم ہی روزہ رکھتے تھے ! پھر نماز چھوڑی یہ بھی لوگ کونسا پڑھتے تھے غرضیکہ ساری چیزوں کا انکار کرتے کرتے یہ جب "خدا" تک پہنچے تو لوگوں نے انہیں "منکر" کہنا شروع کردیا کیونکہ خدا کا انکار تو "لوگ' بھی نہ کرتے تھے !!
بابو منکر ، انکار کہ معاملے میں مشہور ہیں ،نکاح والے دن بھی دوستوں اور عزیزوں نے ترلے منتیں کرکہ منہ سے قبول ہے قبول ہے نکلوایا وگرنہ یہ "نہ نہ" کہنے ہی والے تھے ! بعد از نکاح یہ اس بات کہ بھی منکر ہوگئے کہ تعلق کہ لیے نکاح کی بھی کوئی ضرورت ہے !
بابو منکر کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے منکر ہونے کہ بھی منکر ہیں ! مثلا کوئی کہے کہ آپ خدا کہ منکر ہیں تو یہ کہیں گئے کہ نہیں میں تو منکر نہیں ہوں ، "میں تو ہر مذہب کہ خدا کو مانتا ہوں" اگر کوئی کہے کہ نماز پڑھا کریں تو یہ کہیں گئیں کہ "حقوق العباد نماز سے بڑھ کر ہیں" بھلا ایسی نماز پڑھ کر کیا کرنا ہے جس کہ بعد رشوت لی جائے یا جھوٹ بولا جائے ! اگر کوئی حج کرنے کا کہے تو ارشاد ہوگا "کسی غریب کی بیٹی کا جہیز دینا حج کرنے سے زیادہ افضل ہے" !
بابو منکر ، بابو پہلے تھے کہ منکر پہلے تھے یہ معاملہ بڑا الجھا ہوا ہے ، ہمیں قرآئن سے جو اندازہ ہوسکا ہے وہ یہی ہے کہ یہ بابو پہلے تھے منکر بعد میں ہوئے بلکہ منکر ہونے میں ان کہ بابو ہونے کا بڑا عمل دخل ہے ! مگر بابو منکر اس بات کہ منکر ہیں ان کا فرمانا ہے کہ وہ سرے سے منکر ہی نہیں ہیں ہاں اگر انہیں بابو نہ کہا جائے تو بہت برا مناتے ہیں !
بابو منکر تاریخ کی ہر "منکر شخصیت" کہ بہت معترف ہیں اور ہر "ثقہ شخصیت" کہ بے حد مخالف! یہ ہر منکر بات کا اقرار کرتے ہیں ،تاریخ ، فلسفہ ، سائنس ، نفسیات ، طب غرضیکہ ہر مضمون انہوں نے اسی حوالے سے پڑھا ہے کہ اسمیں سے "منکرات" تلاش کی جائیں ! اول تو ان کہ سامنے کسی ثقہ شخصیت کا نام لینا ہی خطرے سے خالی نہیں ہے ،لیکن اگر کسی نے یہ ہمت کرلی تو اس شخصیت میں سے ایسے ایسے منکرات نکال لیں گئیں کہ نام لینے والا اپنے سر کو پیٹے گا ،آپ صحابہ کہ فضائل بیان کریں یہ ان کی لڑائیاں لے کر بیٹھ جائیں گئیں ، آپ آئمہ کا نام لیں یہ ان کا اختلاف بیان کریں گئیں ! آپ خلافت کا بیان کریں یہ اسمیں سے بادشاہت نکال لیں گئیں،آپ امت کا نام استعمال کرلیں یہ فورا کہیں گئیں کونسی امت !!
بابو منکر کہ کئی روپ بھی ہیں ان کی شخصیت ہم جہت ہے ، کہیں ان کا انکار حدیث تک محدود ہے ،کہیں اسلاف کی پیروی کا انکار ہے تو کہیں پورے خدا کہ وجود کا ہی انکار ہے !! مگر بابو منکر ایک بااصول شخصیت ہیں اور انتہائی درجہ عیار و مکار بھی ! اس لیے موقع محل کہ مطابق اپنے روپ و اصول بدلتے رہتے ہیں ! یہ مختلف قوانین بھی مرتب کرتے ہیں کبھی کہتے ہیں قرآن کو لوں گا حدیث کو نہیں لوں گا ، کبھی کہتے ہیں کہ سنن کو لے لوں گا بقیہ احادیث کو نہیں لوں گا ، کبھی فرماتے ہیں کہ کتاب کی تشریح اپنی اپنی ! اور کبھی کتاب کو پڑھنے کہ لیے چند قوانین اتمام حجت بھی ترتیب دیتے ہیں ! ان کا دعوی یہ ہے کہ جو ان کہ اصولوں پر چلے گا وہی مقصود اصلی کو پہنچے گا اور یہ مقصود اصلی "منکر" ہونا ہے !
بابو منکر کہ مغرب میں بے شمار فین پائے جاتے ہیں ، جن کی وجہ سے بابو منکر کو کسی بھی قسم کہ خطرے کی صورت میں سیاسی پناہ کہ لیے کوئی دشواری نہیں ہے ، ان مغربی جانثاروں نے بابو منکر کو ایک نیا لفظ بھی سکھایا ہے "سیکولرز و لبرلز"۔ بابو منکر اس کا بھی انکار کرنے والے تھے مگر پھر جان بچانے کہ لیے اس کو قبول کرلیا !
بابو منکر ایک انسان دوست ،مرنج مرنجان ، عاجز سی شخصیت ہیں ،قتل و خون،جنگ و دھشت سے ان کو صرف ہالی ووڈ کی فلموں تک دلچسپی ہے! اور دنیا کہ ہر مظلوم انسان سے ان کو بے حد پیار ہے ، اس لیے یہ "جہاد" کہ کٹٹر مخالف ہیں یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات اپنی کاروباری پیمنٹ کہ لیے یا جائداد میں کوئی حق مارے جانے کی صورت میں یہ یہ مرنے مارنے پر بھی تل آتے ہیں ! بابو منکر کو مذہب کہ نام پر ہر قسم کی قتل و غارت سے سخت نفرت ہے مگر ڈرون حملوں اور دہشت گردی کہ خلاف جنگ کہ شدید حامی ہیں! اور ہر مولوی کو واجب القتل جانتے ہیں ،
آخری خبریں آنے تک بابو منکر کچھ اور باتوں سے بھی منکر ہوچکے تھے !!

جمعرات، 1 اگست، 2013

نو تیر رافضیوں کہ لیے اور ایک !!



ان کی سلطنت افریقہ سے لے کر فلسطین و مصر تک پھیل چکی تھی ،عباسی خلافت کی اندرونی الجھنوں کی وجہ سے کوئی ایسی امید نہ تھی کہ مستقبل قریب میں وہ ان کہ لیے کوئی خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں ،بازنطینی عیسایئوں کی طرف سے خطرہ ضرور لاحق تھا کہ عنقریب وہ اس پر حملہ کردیں گئیں لیکن یہ خطرہ ان کہ لیے ایک غیبی مدد کی مانند تھا جس کہ پردے میں وہ مسلم عوام کہ اوپر حکومت کرسکتے تھے اور وہ عیسایئوں کہ مقابلے میں ان کی حکومت قبول کرنے کہ لیے مجبور ہوتے ۔ 362 ہجری کا آغاز فاطمی رافضیوں کہ انتہائی عروج کا آغاز تھا ۔
مگر فلسطین کی وادیوں میں ایک شیر دھاڑ رہا تھا ۔
"اگر کسی شخص کہ پاس دس تیر ہوں تو اس پر لازم ہے کہ نو تیر فاطمیوں (رافضیوں ) کہ لیے ، اور ایک تیر رومیوں پر استعمال کرنے کہ لیے رکھے "
کون ہے یہ شخص ؟ فاطمی خلیفہ المعز کہ لہجے میں نفرت و حقارت تھی 
اس نفرت و حقارت کا مظاہرہ وہ اسی دن سے کرتا آیا تھا جب سے اس نے مصر و فلسطین کی حکومت سنبھالی تھی اور ملک شام پر نظریں جمائے بیٹھا تھا ، صحابہ پر سرعام منبروں پر تبرا ، نماز تراویح سے جبرا روکنا ، صلواہ التسبیح کا انکار ، اور ظہر کہ وقت قنوت پڑھنے پر جبرا مجبور کرنا اس کا طرہ امتیاز تھا ،مصر میں فاتحانہ داخل ہوتے ہی اس نے اپنے حسب و نسب کی بڑی تعریف کی تھی اور اپنے آپ کو آل فاطمہ سے منسوب کیا تھا ۔
حضور اس کا نام ابوبکر النابلسی ہے ، لوگ اسے بابن النابلسی کہہ کر بھی پکارتے ہیں ، حدیث و فقہ کا امام ہے اور زہد و تقوی میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے ۔ درباریوں نے ڈرتے ڈرتے عرض کی ۔
یہ کوئی بھی ہے اس کو باندھ کر میرے حضور حاضر کیا جائے ! المعز کہ لہجے سے ابھی بھی حقارت جھلک رہی تھی ۔ جو دل صحابہ سے بغض رکھتا ہو اس کو النابلسی کہ زہد و تقوی کی کیا پرواہ تھی ۔!!
کسی خیرخواہ نے امام وقت کو خلیفہ کہ ارادہ بد سے آگاہ کیا اور ان کو دمشق تک پہنچنے میں بھی مدد دی جو کہ ابھی المعز کہ قبضے میں نہیں آیا تھا ، مگر جلد ہی المعز کی فوجوں نے آگے بڑھ کر دمشق پر بھی قبضہ کرلیا اور علم کہ سورج کو پابجولاں المعز کہ دربار میں روانہ کردیا گیا !!
المعز نے امام کہ وجود پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ۔ اور چہرے کہ جلال کی تاب نہ لاتے ہوئے نظریں نیچے کر کہ بولا ۔ میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو کہ "اگر کسی شخص کہ پاس دس تیر ہوں تو وہ نو تیر ہمیں مارے اور ایک رومیوں کو ؟"
میں تو ایسا نہیں کہتا !! امام کہ لہجے میں ایک وقار تھا 
اچھا ! المعز نے سینے میں فرحت و راحت محسوس کی ، سوچنے لگا کہ شائد خوف کہ مارے فتوی بدلنے لگا ہے اب یہ اپنے کام کا بندہ بن جائے گا اور میں اس کو بھی اپنی خلافت کہ لیے ایک دلیل کہ طور پر استعمال کروں گا۔
پھر آپ کیا کہتے ہیں ؟ المعز کہ لہجے میں ایک دم احترام و اشتیاق در آیا
میں تو کہتا ہوں "اگر کسی کہ پاس دس تیر ہیں تو وہ نو تیر تم رافضیوں پر استعمال کرتے اور دسواں بھی تمھی پر استعمال کرے " امام کہ لہجے میں پہاڑوں جیسی استقامت تھی بلکہ پہاڑ بھی شائد ایسی استقامت نہیں رکھتے وگرنہ توحید کا بوجھ اٹھا لیتے جو کہ ان کہ اوپر بھی پیش کیا گیا تھا !! ضرور فرشتوں نے بھی اس استقامت پر حیرت بھری نظروں سے ایکدوسرے کو دیکھا ہوگا اور شائد خالق کائنات نے بھی فاتحانہ انداز میں فرشتوں کو دیکھا ہو کہ "دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ میں وہ جانتا ہوں جو کو تم نہیں جانتے " شائد ایسوں کہ لیے ہی اس نے آیت اتاری ہے کہ "میرے بندے وہ ہر گز تیری راہ  پر نہ چلیں گئیں "
المعز کا چہرہ غصے و نفرت کہ مارے سرخ ہوگیا ۔ استعجاب سے دریافت کیا ۔ایسا کیوں ؟
"کیونکہ تم نے دین کو بدل دیا ہے اور اس پر چلنے والے بندوں کو قتل کرتے ہو ،اور اس چیز (خلافت و حضرت فاطمہ کا نسب) کا دعوی کرتے ہو جو کہ تمھاری نہیں ہے ۔تم راہ ہدایت سے انحراف کرچکے ہو "
امام ابوبکر النابلسی تو گویا اس وقت ایمان کا کوہ گراں تھے 
المعز کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔ اندرونی رعونت در آئی حکم دیا کہ کل انہیں مصر کی گلیوں میں رسوا کرنے کہ لیے نکالا جائے ، اگلے دن ان کو صلیب دے کر کوڑے مارے جائیں اور تیسرے دن ان کی زندہ کھال اتاری جائے ۔
پہلے دن شہر میں تشہیر کہ دوران کسی پوچھنے والے نے امام رحمۃ اللہ سے پوچھا ۔ کہ یہ کیا ہے  ؟ کوہ استقامت بولا " یہ امتحان ہے "
دوسرے دن جب ہاتھ پاوں میں کیل ٹھونک کر صلیب پر ٹانگ دیا گیا تو اس نے پھر پوچھا ۔ اب سناو ؟ امام وقت پھر گویا ہوا" یہ تکلیف گناہوں کا کفارہ ہے "
تیسرے دن جب سر کی طرف سے کھال اتاری جانے لگی تو پھر دریافت کیا کہ سناو یہ کیا ہے ؟ !! عزیمت کی مثال پھر بولی " یہ درجات کی بلندی ہے "
شہر کہ مسلمان قصایئوں نے کھال اتارنے سے انکار کردیا تو ایک یہودی قصائی کو طلب کیا گیا۔ وہ کھال اتارتا گیا اور امام پڑھتا گیا 
کان ذلک فی کتاب مسطورا
اور یہ تو کتاب میں لکھا ہوا تھا
یہودی سر سے ہوتا ہو چہرے تک آیا اس نے یہ آواز سنی ، بے رحم جلاد کا دل بھی رحم سے بھر گیا اس نے کھال اتارنے کہ بہانے خنجر سینے میں پہلے بھونک دیا تاکہ امام کو اس دکھ و کرب سے نجات مل جائے !!
سننے والوں اور دیکھنے والوں نے بیان کیا کہ "امام کہ مردہ جسم سے بھی تلاوت قرآن کی آواز آرہی تھی "
کان ذلک فی کتاب مسطورا 
اور یہ تو کتاب میں لکھا ہوا ہے !!

اہل شام گھبرانا نہیں اور نہ ہی ڈرنا تم امام ابوبکر النابلسی رحمۃ اللہ کہ راستے پر ہو ۔ دس بھی ہیتھار تمھارے پاس ہوں تو ان رافضیوں پر چلا دینا چاہے امریکہ کہ حملے کا بھی ڈر ہو !!
کان ذلک فی کتاب مسطورا
اور یہ تو کتاب میں لکھا ہوا ہے 

(حوالہ جات)
 تاريخ الإسلام، للإمام الذهبي.
• العبر في خبر من غبر، للإمام الذهبي ( الجزء الثاني ).
• شذرات الذهب في أخبار من ذهب، ابن العماد الحنبلي. ( المجلد الثالث، ص: 153 ).
• البداية والنهاية، للإمام ابن كثير. ( الجزء الحادي عشر، ص: 241 ).
• الكامل في التاريخ، للإمام عز الدين ابن الأثير. ( المجلد السابع، ص: 344 ).
• المنتظم في التاريخ، للإمام أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزي.