ہفتہ، 28 ستمبر، 2013

شام میں نصیریوں کا عروج !


نصیری ایک ملحد فرقہ ہے جو کہ شام ،ترکی و عراق کے کچھ علاقوں میں پایا جاتا ہے ۔ اس کے عقائد کیا ہیں یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔ لیکن یہ بات ابھی بھی بہت سے لوگوں کےلیے دلچسپی کا باعث ہوسکتی ہے کہ آخر اس مکروہ ترین فرقے کو شام جیسی مقدس سرزمین پر عروج کیسے حاصل ہوا۔یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع سے متعلقہ ہے ۔موجودہ حالات و واقعات میں اور خاص طور پر ملک شام میں اہل سنۃ پر ڈھائے جانے والا انسانیت سوز ظلم اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ ہم تاریخ کے دریچوں میں پھر سے اتریں اور ان کرداروں و واقعات کو دوبارہ زیر بحث لائیں جو کہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کے زمہ دار ہیں ۔ اور تاریخ کے پنوں سے اس سازش کو سمجھنے کی کوشش کریں جو کہ روافض و مغرب نے مل کر امت مسلمہ کے ارد گرد بنی ہے 

بدھ، 25 ستمبر، 2013

جہاد النکاح! رافضی افسانہ یا حقیقت


"انتیس دسمبر 2012 کو لبنان کے ٹی وی سٹیشن "الجدید" سے سعودیہ کے مشہور عالم شیخ محمد العریفی کے حوالے سے ایک خبر سامنے آئی ۔ جس کے مطابق انہوں نے شام میں مجاہدین کی جنسی تسکین کے لیے "جہاد النکاح" کو درست قرار دیا اور اس پر حوصلہ افزائی کی۔ گوکہ اس چینل نے اس فتوی کا کوئی ثبوت پیش نہ کیا تھا ۔ لیکن یہودی و رافضی میڈیا اس خبر کو لے اڑا ،اور لبرلز و سیکولرز کو بھی اسلام کو بدنام کرنے کا ایک موقع ہاتھ لگ گیا ۔ ٹوئٹرپر مبینہ طور پر شامی مزاحمت کے مخالف ایک رافضی یوزر نے اس خبر کا لنک بمعہ انگلش ترجمہ شائع کیا اور یوں یہ مغربی میڈیا کے ہاتھ لگا۔شیخ محمد العریفی بشاری اقتدار کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں اور خلیج وسطی کے مسلمانوں کو شامی جہاد کی مدد کے لیے اکساتے رہتے ہیں ۔صرف ٹویٹر پر ان کو فالو کرنے والوں کی تعداد 35 لاکھ سے زائد ہے اور ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ لوگ ان کو فیس بک پر فالو کرتے ہیں ۔جنوری 2012 میں ان کی شامی جہاد کے بارے میں ایک ویڈیو کو 11 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا تھا۔

اتوار، 22 ستمبر، 2013

شام میں برسرپیکار غیرملکی رافضی گروہ !


عظیم صفوی سلطنت کے خواب کی بانی" مملکت رافضیہ ایران "نے عراق ، ایران جنگ کے دوران ہی سنی سرزمینوں پر ایسے گروھوں کی تشکیل کرنی شروع کردی جو کہ ان علاقوں میں بوقت ضرورت اس کے فوجی مقاصد کے راستے میں حائل مشکلات کو ہٹاسکیں اور عظیم صفوی سلطنت کا خواب پورا کرسکیں ۔ لبنانی سرزمین پر حزب اللہ کا قیام اور ایران ،عراق جنگ کے دوران البدر بریگیڈ اسی کا شناخاسانہ تھا۔ ان گروہوں کی تشکیل و فوجی تربیت ایران میں ہوئی ۔ان کے زیادہ تر ممبران کا تعلق مقامی علاقوں سے ہوتا تھا اور ایرانی انقلابی گارڈ ان کو فوجی تربیت کے عمل سے گزارتی ۔ ایران کی پالیسی اس معاملے میں بڑی واضح تھی ۔ "ایرانی ہر جگہ بھیجنے کی ضرورت نہیں جہاں بھی کوئی شیعہ عقیدے کو ماننے والا ہے اس کو مظبوط کرو" ۔ سختی کے دور میں یہ گروہ رافضی ایران کے سایہ عاطفت میں پناہ پکڑتے اور آسانی میسر ہوتے ہی دوبارہ سرگرم عمل ہوجاتے ۔ رافضی سلطنت نے صرف ان گروہوں کو ہی جنم نہیں دیا بلکہ خطے میں موجود ہر اس عنصر کی قوت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا جو کہ شیعیت سے اپنے آپ کو منسوب کرتا ہو۔ رافضی سلطنت کی اس پالیسی نے مشرق وسطی میں عظیم رافضی جنگجو گروہوں کو جنم دیا۔ جو کہ وقت آنے پر سنی خطوں کے خلاف استعمال کیے گئے ۔ ایک اندازے کے مطابق صرف حزب اللہ سے منسلک جنگجووں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے ۔
شامی جہاد کے شروع ہوتے ہی شام سے شبیحہ نامی گروہ کی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں جو کہ ایک گمان کے مطابق مقامی نصیریوں و حزب اللہ کے غنڈوں پر مشتمل ایک گروہ تھا جس کے مظالم کی داستانیں شامی عوام کے اندر زبان زد خاص و عام تھیں ۔لیکن شامی مزاحمت ان مظالم سے دبائی نہ جاسکی اور جلد ہی شامی فوج میں بھی بڑے پیمانے پر بغاوت پھوٹ پڑٰی اور باغی فوجی جن کی اکثریت کا تعلق سنیوں سے تھا فوج چھوڑ کر بھاگنے لگے ۔ ان حالات نے شامی فوج کی عددی اکثریت اور اس کی فعالیت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ وہ آہستہ آہستہ مختلف محاذوں پر مطلوبہ قوت کھونے لگی ۔اور محاذ جنگ تیزی سے اس کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے ۔ ایرانی رافضی سلطنت کو یہ قابل قبول نہ تھا ۔ اس انقلاب کا چہرہ ابھی تک مذھبی نہ تھا بلکہ بشار جیسے ڈکیٹٹڑ سے چھٹکارے کی کوشش۔ لیکن رافضی میڈیا نے جلد ہی اس کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا ۔ اور تحریک آزادی کو خارجیوں و تکفیریوں کا لقب۔ رافضی سلطنت اس سے دوہرا فائدہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔ ایک تو اپنے عوام کو یہ یقین دہانی کہ یہ تحریک صرف بشار کو ہٹانے کے لیے نہیں ہے بلکہ شیعہ مذھب پر سیدھا حملہ ہے ۔ اور دوسری طرف مغرب کو یہ پیغام کہ جن سے ہم لڑ رہے
ہیں وہ تمہارے بھی دشمن ہیں ۔

جمعرات، 19 ستمبر، 2013

مغرب کی شام پالیسی !

شام میں مغرب کی پالیسی
شام میں مغربی طاقتوں کی پالیسی کیا ہے ، کیا مغرب واقعی ہی بشار مخالف ہے ،شام میں اسے کے امدادی عناصر کونسے ہیں ، کیا واقعی ہی مغرب شامی مجاہدین کی مدد کررہا ہے ، ان سوالات نے بہت سی مباحث کو جنم دیا ہے اور فریقین مخالف نے اپنی اپنی پروپیگنڈہ مہم میں اس کو استعمال کیا ہے ۔ رافضی فریق نے مسلمان ممالک میں پھیلی ہوئی امریکی نفرت کو اس جنگ کو ایک علاقائی یا مغربی حمایت یافتہ فساد کے طور پر پیش کیا ہے تاکہ اس کا اصل چہرہ آشکار نہ ہوسکے ۔ دوسری طرف شامی تنظیمیں اس بات پر زور دیتی رہی ہیں کہ مغرب ان کی خاطر خواہ مدد نہیں کررہا جیسا
کہ ان کو امید تھی ۔

منگل، 17 ستمبر، 2013

اسلامی جمہوریت!


" ہمارے ایک دوست تھے ،ذھن اسلامی ، چہرہ مہرہ غیراسلامی ، ہم ذھن پر ہی شکر ادا کرتے ،موصوف کچھ عرصہ کے لیے ولایت تشریف لے گئے جب واپسی ہوئی تو بغل میں ایک میم تھیں! موصوف کا تعلق روایتی گھرانے سے تھا ،اس لیے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ جناب میم لے کر آئے ہیں ،رشتے داروں نے گوری کے دیدار کے لیے دوردراز سے ان کے گھر تک کا سفر کیا ، عورتیں سروں پر ڈوپٹہ لیتی ہوئی چوری چوری میم صاحبہ کو دیکھتی اور ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتیں کہ کہیں گوری میلی نہ ہوجائے ، دولہا کی بہنیں فخریہ لہجے میں سہلیوں کو بتاتی پھرتیں کہ بھیا انگلینڈ سے میم لائے ہیں، بچے تو اس کمرے سے نکلتے ہی نہ تھے جہاں پر میم تھی اماں کو انگلش وغیرہ تو نہ آتی تھی لیکن پھر بھی روایتا چادر اور سوٹ گوری کو دیا ، بلائیں لیتی لیتی رہ گئیں کہ پتہ نہیں میم کو کیسا لگے ۔ ہاں بیٹے کو جی بھر کر دعائیں دیتی رہیں ، صرف ابا جی تھے جنہوں نے بیٹا جی سے دریافت کیا ،مسلمان کیا ہے ؟ بیٹا جی نے جواب دیا جی اس نے کلمہ پڑھا ہوا
ہے ، اور اباجی مطمئن ہوگئے !

ہفتہ، 14 ستمبر، 2013

فقہ الواقع - حالات و واقعات کا علم


علماء دین و داعیان اکرام کے لیے اپنے کے حالات و واقعات کا فہم کیوں ضروری ہے ۔
فضیلۃ الشیخ - ڈاکٹر ناصر بن سیلمان العمر
ترجمہ و تلخیص ۔ محمد زکریا الزکی 


علماء پر اپنے دور کے حالات و واقعات کا علم بے حد ضروری ہے تاکہ وہ ان پر شرعی حکم لگا سکے ۔ اصول فقہ کے دو اہم اصول ہیں ۔ 
(ا)
مَا لَا یَتِمُّ الوَاجِبُ اِلَّابِہ فَہُوَ وَاجِب  ٌ   جس چیز کے بغیر کوئی شرعی واجب ادا نہ ہوسکتا ہو وہ بھی واجب ہے ۔ علمائے دین پر اپنے دور کے حالات کا شرعی حکم تلاش کرنا واجب ہے ۔ اور یہ شرعی واجب اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتاجب تک وہ اپنے دور کے حالات کا صحیح فہم حاصل نہ کرلیں ۔ چنانچہ حالات و واقعات کی سوجھ بوجھ بھی علمائے دین پر واجب ہے ۔ 
(٢)
اصول فقہ کا دوسرا اصول ہے ۔ اَلْحُکْمُ عَلٰی الشَّیْءِ فَرْعٌ عَنْ تَصَوُّرِہ کسی چیز پر لگایا گیا حکم ، اس چیز کے صحیح یا غلط تصورپر مبنی ہوتا ہے۔ اگر اس چیز کا فہم و تصور غلط ہے تو شرعی حکم بھی غلط ہوگا ۔اگر اس چیز کا فہم و تصور درست ہے تو شرعی حکم بھی درست ہوگا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حالات و واقعات کا صحیح فہم ہی درحقیقت صحیح فتوے اور درست راہنمائی کی بنیاد ہے ۔ 
!فقہ الواقع کی تعریف 

ہُوَ عِلْمٌ یَبْحَثُ فِیْ فِقْہِ الْاَحْوَالِ الْمُعَاصَرَۃِ مِنَ الْعَوَامِلِ المُؤَثِّرَۃِفِیْ الْمُجْتَمَعَاتِ وَ الْقُویٰ الْمُہَیْمَنَۃِ عَلٰی الْدُوَلِ وَ الْاَفْکَارِ الْمُوَجِّہَۃِلِزَعْزَعَۃِ الْعَقِیْدَۃِ وَ الْسُّبُلِ الْمَشْرُوْعَۃِ لِحِمَایَۃِ الْاُمَّۃِوَرَقِیِّہَافِی الْحَاضِرِ وَ الْمُسْتَقْبِلِ

جمعرات، 12 ستمبر، 2013

القاعدہ کا فتح کا بیس سالہ منصوبہ !

"
"  سن 2005 کے اختتام پر ایک اردنی صحافی فواد حسین کی ایک عربی کتاب منظر عام پر آئی جس کو عربی روزنامہ القدس عربی نے چھاپا - کتاب کا نام تھا 
الزرقاوی ۔ القاعدہ کی دوسری نسل 
" Al-Zarqawi . Al-Qaeda Second Generation
اپنی طباعت کے موقع پر یہ کتاب کوئی خاص اہمیت حاصل نہ کرسکی گوکہ فواد حسین معصب الزرقاوی کے ساتھ اردنی جیل میں کچھ وقت گزار چکے تھے ۔ اور اپنے دعوی کے مطابق القاعدہ کی لیڈر شپ سے رابطہ رکھتے تھے ۔ لیکن عرب بہاریہ کے بعد ایک دم یہ کتاب مغربی تجزیہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن گئی ۔ خاص طور پر جس بات نے ان کی توجہ مرکوز کی وہ "القاعدہ کا فتح کا بیس سالہ منصوبہ" تھا جس کا دعوی جہادی ذرائع سے اس کتاب میں کیا گیا ۔ اس کتاب کے یہ مندرجات حیران کن طور پر کچھ ہی سالوں میں سچے ثابت ہوئے ۔ جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتے 
ہیں ۔ مصنف نے القاعدہ کے منصوبے کو سات حصوں یا مراحل میں تقسیم کیا ہے 
"

"

شامی جہاد ! مغرب کی بے بسی




امریکی وزیر جان کیری نے 4 ستمبر کو جب شامی مزاحمت کی صرف 10 سے 25 فیصد تعداد کو "اسلامسٹ" قرار دیا تو بہت سے مبصرین کے لیے یہ بات ورطہ حیرت میں ڈالنے والی تھی ! کیا جان کیری امریکی سینٹرز کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ حالات واقعی ہی کچھ ایسے ہیں ! اس سوال نے امریکی حلقوں میں بھی ایک بحث کو جنم دیا ۔ یہاں تک کہ ایلزبتھ او بے نامی جس امریکن تجزیہ نگار کو جان کیری نے امریکی سینٹرز کو پڑھنے کا مشورہ دیا وہ بھی تنقید کی ذد میں آگئی (ایلزبتھ کو ڈاکٹریٹ کی جعلی ڈگری رکھنے کی بنا پر انسٹیوٹ آف سٹڈی آف وار سے فارغ کردیا گیا ہے )

بدھ، 11 ستمبر، 2013

ماں !


اسے علم تھا کہ وہ مرجائے گا ! ایک کا لاشہ وہ پندرہ سال پہلے اٹھا چکی تھی ۔ وہ اسی وقت بہت روئی تھی ۔ اب اس کےچہرے کی جھریاں آنسو نیچے نہ گرنے دیتی تھیں ۔ آنکھوں سے بہتے اور چہرے کی پیچ و خم میں ہی کہیں ضم ہوجاتے ۔
وہ ایک عرب خاتون کا مکمل نمونہ تھیں ۔ انہیں اچھی طرح یاد تھا کہ ان کی شادی چھوٹی عمر میں ہی ہوگئی تھی ۔ شوہر کے مظبوط آسرے نے آس کو کبھی ٹوٹنے نہ دیا تھا۔ بچے ہوئے اور ایسے لگا جیسے کہ یکایک جوان بھی ہوگئے ! وقت نے چہرے کو جھری زدہ کردیا تھا لیکن محنت کش و جفا شعار عورت ہمت آج بھی نہ ہاری تھی ۔ 
پہلے بیٹے نے جب اسے اپنے خیالات سے آگاہ کیا تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ لیکن ایک نامعلوم خوف اس کے جسم کے اندر سرایت کرگیا ۔ اس کا جی چاہا کہ چیخ کر کہے "کہ تم مارے جاوگئے" لیکن وہ ضبط کرگئی ۔ اور بیٹا مارا گیا!
لیکن اس کے ضبط کا بندھن پھر بھی نہ ٹوٹا ، پندرہ سال گزر گئے ۔ کہ اردگرد بیٹوں کی لاشیں گرنے لگیں ۔سارے اپنے ہی بیٹے تھے ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھنے والے بچے ! جن میں سے کوئی بچپن میں شرارت سے اسے نانی اماں یا دادی اماں کہہ کر ستاتا ، یا چیز لے دینے کی فرمائش کرتا! سب اس کے سگے بیٹوں کے دوست تھے جو گھر کے آنگن میں اس کے سامنے کھیلتے کھیلتے جوان ہوگئے تھے، یہ ان کی شادیاں ، خوشیاں ،جھگڑے ، زندگیاں دیکھتے دیکھتے بوڑھی ہوگئی !اسے باغبانی کا شوق تھا ، سبزیاں و پھلوں کے بیج زمین کے دامن میں بوتے بوتے وہ ایکدم انہی بیٹوں کی لاشیں بونے لگیں!
  اماں کو اب سمجھ آنے لگا کہ اس کا بیٹا اسے کیا سمجھانا چاہتا تھا ۔ وہ بقیہ بیٹوں کے چہروں کو حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتی ۔ اسے معلوم تھا کہ یہ بھی مارے جائیں گئیں ! لیکن اب وہ خوفزدہ نہ تھی ، قریب ہوتی ہوئی موت نے موت کا ڈر اس سے چھین لیا تھا ۔ ماں تھی یہ قبول نہ تھا کہ بیٹے بھوکے مارے جائیں ۔ دن رات ان کے لیے راشن تیار کرتی ۔ میلے کپڑے دھوتی ۔زخموں پر پٹٰی باندھتی اور رات کی تنہایئوں میں اللہ کے آگے روتی ۔ ٹی وی پر ایک انٹرویو لینے والی نے جب ان کا انٹرویو لیا تو پہلی بار ان کے ضبط کا دامن دنیا کے سامنے ٹوٹا ۔ ایک شیرنی غرا رہی تھی ۔ ایک بوڑھی نے حمص کے محاذ کا ایسا نقشہ کھینچا کہ بڑے سے بڑا نامہ نگار بھی ویسی عکس بندی بیان نہ کرسکتا تھا !
بشاری درندوں کی نظر اس بڑھیا پر پڑ گئی۔ راتوں کے اندھیروں میں حمص کے گلی کوچوں میں گونجنے والی ایک ضیعف آواز جو کہ نوجوانوں کا حوصلہ بڑھاتی تھی ۔ بوڑھے ہاتھوں سے پکائی گئی وہ روٹی جو کہ محاذ پر مشغول نوجوان مزے لے لے کر کھاتے تھے کہ "ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی ہے"، دعاوں کا وہ سیلاب جو کہ ایک ماں ہی کی زبان و دل سے نکل سکتا ہے ، یہ ساری نعمتیں پانچ سبتمر کو ایک رافضی گولی کا شکار ہو گئیں ۔ 95 سالہ تاریخ کا ایک اور نشان مٹ گیا !
ماں کی قبر بیٹوں کے پاس ہی بنائی گئی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ جنت میں اس کی خواہش یہی ہو کہ اپنے شہید بیٹوں کو کھانا بنا کر دیتی رہے ۔ ماں کے ہاتھ کا زائقہ جنت میں بھی مل جائے تو کیا ہی بات ہے۔ 

اتوار، 1 ستمبر، 2013

سامری ، قادری ، غامدی !


سامری،قادری ، غامدی  کب جنم لیتے ہے ؟ ان کا طریقہ واردات کیا ہے ؟ ان کا کردار کیا ہوتا ہے ؟ ان سب سوالوں کا جواب جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ "سامری کون ہے"۔ سامری ایک منافق ہے ،ایک مشرک ہے ، ایک بدعتی ہے ، یہ ایک قرآنی و تاریخی کردار ہے ۔ جس کا پایا جانا ہر دور میں لازمی ہے ۔ جہاں نبوت ہے ، جہاں امت ہے وہاں سامری ہے ۔ موقع و محل کے اعتبار سے اس کی قسمیں ،نام و چہرے ضرور بدل جاتے ہیں لیکن طریق کار و مقاصد میں فرق نہیں ہوتا ۔ موسی علیہ السلام والے کا نام سامری تھا، آج والوں کا نام غامدی یا قادری بھی ہوسکتا ہے !