اتوار، 1 ستمبر، 2013

سامری ، قادری ، غامدی !


سامری،قادری ، غامدی  کب جنم لیتے ہے ؟ ان کا طریقہ واردات کیا ہے ؟ ان کا کردار کیا ہوتا ہے ؟ ان سب سوالوں کا جواب جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ "سامری کون ہے"۔ سامری ایک منافق ہے ،ایک مشرک ہے ، ایک بدعتی ہے ، یہ ایک قرآنی و تاریخی کردار ہے ۔ جس کا پایا جانا ہر دور میں لازمی ہے ۔ جہاں نبوت ہے ، جہاں امت ہے وہاں سامری ہے ۔ موقع و محل کے اعتبار سے اس کی قسمیں ،نام و چہرے ضرور بدل جاتے ہیں لیکن طریق کار و مقاصد میں فرق نہیں ہوتا ۔ موسی علیہ السلام والے کا نام سامری تھا، آج والوں کا نام غامدی یا قادری بھی ہوسکتا ہے !



اس کردار نے آج سے تقریبا ڈھائی ہزار سال قبل فراعنہ مصر کے دور میں جنم لیا ، اس کا شجرہ نسب کیا تھا یہ ہمیں معلوم نہیں ، نہ ہی اس کی قومیت کے بارے میں کوئی حتمی رائے دی جاسکتی ہے ۔ یہ قبطی تھا یا بنی اسرائیلی ،حتمی طور پر کچھ بھی کہنا مشکل ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ یہ امت میں ہی شامل رہا اور مناسب موقعے کی تلاش میں !
سامری کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟ یہ اللہ نے ایک ہی فقرے میں بیان کردیا "گمراہ کرنا"
 وَ اَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ۰۔ اور سامری نے انہیں گمراہ کرڈالا۔ سورہ طہ
یہ توحید کے راستے سے ، یہ ہدایت کے راستے سے ، یہ نجات کے راستے سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے ، اس کا طریق کار بھی زرا نہیں بدلتا صرف چہرے ،نام و وقت بدل جاتا ہے ۔ یہ گھات میں رہتا ہے کہ کب امت تعلیم نبوت سے خالی ہو اور یہ تاویلات کا ،شعبدہ بازی کا ،چرب زبانی کا پھندہ لگا کر اس کو گمراہ کرسکے ! یہ چاہے موسی علیہ السلام کے زمانے کا سامری ہو یا موجودہ زمانے کے اس کے چیلے چانٹے قادری یا غامدی ہوں ۔ ان کا طریق کار نہیں بدلتا، ادھر موسی علیہ السلام شریعت الہی کے حصول کے لیے چند دن کے لیے غائب ہوتے ہیں اور اس کو وار کرنے کا موقع مل جاتا ہے ،ادھر جب بھی امت میں  آثار نبوت کی کمی ہو تو قادری و غامدی وار کرنے سے نہیں چوکتے۔ یہ فطرت سب میں یکساں ہے ۔جب امت پریشان ہو، اپنے بوجھوں سے ہی لدی ہو جو کہ اس نے خود اپنے اوپر ڈال رکھے ہوں ،غلامی نے توہم پرستی پیدا کردی ہو ، عقائد کی خرابی کی وجہ سے حق ،ناحق ، استدارج ،معجزہ میں فرق نہ کرسکتی ہو تو سامری ، غامدی ، قادری حرکت میں آجاتے ہیں ۔!
یہ  لوگوں کی نفسیات کا بالکل ٹھیک ٹھیک اندازہ لگاتے ہیں ،مسلسل غلامی و استحصال نے امت میں توہم پرستانہ خیالات کو جنم دے دیا ہوتا ہے ، حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کے یہ قابل نہیں ہوتے ان کو کو کوئی بھی محیرالعقول کام دکھا کر آسانی سے شرک کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے ، یا پھر ان کے لدے ہوئے بوجھ اتارنے کے نام پر ان کے مال کو اپنے مذموعہ مقاصد کی تکمیل کے لیے ! سامری ، قادری ، غامدی صرف مال کے لالچی نہیں ہوتے بلکہ ان کی شخصیت کے نفسیاتی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ جاہ پسندی کی خواہش ان میں حد سے زیادہ بڑھی ہوتی ہے ۔ یہ کم و بیش وہی رتبہ چاہتے ہیں جو کہ نبی کا ہو۔ ان کی غیر مشروط پیروی ! اور ان کے پھیلائی گئی شعبدہ بازی و چرب زبانی کو حرف آخر سمجھنا !
ان سب کا کام امت کے لیے ایک خدا کی تخلیق ہے ، اور یہ کام اسی امت میں ہوسکتا ہے جہاں پر خدائی تعلیمات کا اثر کمزور ہو یا ابھی دلوں میں راسخ نہ ہوا ہو ، اس ہجوم کی نفسیات کا درست تجزیہ کرنے کے بعد یہ ان کے لیے ایک "بچھڑا" تشکیل دیتے ہیں ۔ اور اس کی دلیل لوگوں کے اوپر لدا بوجھ کم کرنے کی ہوتی ہے ! لوگوں کی بے چین طبیعت جو کہ انبیا کے بتائے ہوئے وقت کے مطابق صبر نہیں کرپاتی اور جلدی سے کچھ نتائج دیکھ لینا چاہتی ہے ،یا کم از کم آخری و حتمی فیصلہ آنے سے قبل اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کے لیے کوئی معبود تشکیل دینا چاہتی ہے ،سامری ، قادری و غامدی اس ماحول میں بہت کارگر ہیں ۔
قَالُوْا مَاۤ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَ لٰكِنَّا حُمِّلْنَاۤ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَى السَّامِرِيُّۙ
نہوں نے جواب دیا”ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لَد گئے تھے اور ہم نے بس اُن کو پھینک دیا تھا“پھر اِسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا
(سورہ طہ)
پھر سامری ، قادری ، غامدی اس تیار ماحول میں اپنی طرف سے بھی کچھ ڈالتے ہیں ۔ یہ نکتہ بہت دلچسپ ہے اور سمجھنے کے قابل ہے ۔یہ جو کچھ بھی ڈالتے ہیں وہ چاہے فرشتے کے قدموں کی مٹی ہو ، رسول کے قدموں کی مٹٰی ہو لیکن لیتے اس کو دین سے ہی ہیں ، لیکن اس کا استعمال وہ کرتے ہیں جو کہ انبیا نے نہیں کیا
قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يٰسَامِرِيُّ۰۰۹۵قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُهَا وَ كَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِيْ نَفْسِيْ
موسیٰؑ نے کہا” اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے؟“
اس نے جواب دیا” میں نے وہ چیز دیکھی جو اِن لوگوں کو نظر نہ آئی، پس میں نے رسُول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی اُٹھا لی اور اُس کو ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سُجھایا۔
(سورہ طہ)
شعبدہ بازی ،چرب زبانی ، تاویل گری کے لیے ان کو جو کچھ میسر آتا ہے وہ کچھ "آیات الہیہ"  ہی ہوتی ہیں جن کو یہ اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ، یہ اتنے معاملہ شناس و گہری نظر کے مالک ہوتے ہیں کہ وہ بھی دیکھتے ہیں جو کہ دوسروں کو نظر نہیں آتا ! اور پھر اسی کو اپنے باطل کے الاو میں ڈال کر ایک بچھڑا برآمد کردیتے ہیں ۔ ان کو علم ہے کہ باطل میں جب تک کچھ حق مکس نہ کیا جائے گا لوگ نہیں مانیں گئیں ۔اور یہ اس کام کو بہ احسن خوبی سرانجام دیتے ہیں !موسی علیہ السلام والا سامری باطل کے اندر حق کی آمیزش کرکے بچھڑا گھڑتا ہے ، اور قادری و غامدی میں سے کوئی باطل کو کرامات و معجزات کا تڑکا لگا کر مزار و قبریں گھڑتا ہے اور کوئی عقل و باطل کی امیزش کرکے چند اصول مرتب کرتا ہے جس سے دھوکا ہوسکے !
ان کی ایک نشانی یہ ہے کہ یہ آیات الہیہ کو ویسے استعمال کرتے ہیں جیسے کہ ان کا نفس سجھاتا ہے ، یہ قدر ان سب میں مشترک ہے ، زمان و مکان کے فرق نے اس میں کوئی فرق نہیں ڈالا۔آیات الہیہ کی وہ تاویل یا وہ استعمال جو کہ کسی نبی کے ذھن میں بھی نہ آیا ہوگا ان کے ہاں وافر دستیاب ہے اور یہ اس سے کئی محیر العقول نتائج نکال لیتے ہیں چاہے شعبدہ بازی کے ضمن میں ہوں یا عقل پرستی کے ضمن میں !
ہمیں بعض مفسرین کے اس نکتے سے بھی اختلاف نہیں ہے کہ پہلے سامری نے حضرت موسی کی تعذیب کےجواب میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے یہ جھوٹ گھڑا تھا ،درحقیقت ایسا کچھ نہ ہوا تھا۔ لیکن اس سے نفس واقعہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ سامری ،غامدی ، قادری حق کے پوری طرح آشکار ہوجانے تک اپنی چرب زبانی و شعبدہ بازی میں مصروف رہتے ہیں لیکن حق کے بالکل واضح ہوجانے پر اور سزا کے ڈر سے یہ جھوٹ بھی بول سکتے ہیں ! ان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ وہ کرتے ہیں "جو کہ ان کا نفس سجھاتا ہے " آیات الہی ہوں یا نشانات رسول ان کا کام ان کو اپنے نفس کی خواہش کے مطابق استعمال کرنا ہے نہ کہ اس طریق پر جیسا استعمال انبیا نے کیا!
ان کے طریق کار کا ایک منفرد زوایہ یہ ہے کہ اگر کوئی حق والا انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ جوابا کہتے ہیں کہ نبی کے آنے کا انتظار کرو ! یعنی یہ کسی قسم کا ذاتی فیصلہ چاہتے ہیں جو کہ معجزات والا نبی آکر خود کرے ! درحقیقت یہ نبی کا انکار ہے کیونکہ یہ اس تعلیم سے اس فہم سے تو انکار کررہے ہیں جو کہ نبی ان کو سمجھا کر گیا ہے اوراہل حقہ اس کے امین ہیں اور اس کی ذات کا انتظارکرتے ہیں ،اور اپنے باطل پر ڈٹے رہنے کا اعلان کرتے ہیں جب تک کہ آخری فیصلہ نہ آجائے !
وَ لَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ١ۚ وَ اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ وَ اَطِيْعُوْۤا اَمْرِيْ۰۰۹۰قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا مُوْسٰى
ہارونؑ (موسیٰؑ کے آنے سے)پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ”لوگو، تم اِس کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئےہو، تمہارا ربّ تو رحمٰن ہے، پس تم میرے پیروی کرو اور میری بات مانو۔“ مگر اُنہوں نے اُس سے کہہ دیا کہ”ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰؑ واپس نہ آجائے
(سورہ طہ)
یہاں پر حضرت موسی کا واپس آنا ایک شخصیت کا واپس آنا نہیں ہے بلکہ ایک صاحب فیصلہ و اقتدار کی واپسی ہے ،لیکن اس امر کو وہ اپنے باطل پر ڈٹے رہنے کے لیے استعمال کررہے ہیں ۔حالانکہ نبی کا خلیفہ جو کہ خود بھی نبی ہے اور ان کا وارث انہیں تلقین کررہا ہے کہ دیکھو یہ فتنہ ہے اس سے بچ جاو!لیکن سامری ، قادری ، غامدی امت کی مت کچھ اس طرح سے مارتے ہیں کہ وہ یہ بات بھی سننے کو تیار نہیں ! اور جب کوئی عالم ربانی ان کو نصیحیت کرتا ہے تو یہ جوابا کہتے ہیں "اتمام حجت پوری ہونے کا انتظار کریں"
قریب ہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے موسی علیہ السلام کے جانشین  جو اللہ کی شریعت لینے کے لیے پہاڑوں پر معرکہ آرا ہیں،نیچے اتریں اور وقت کے ان سامریوں کا پردہ چاک کریں ۔ اور ان کی بدقسمتی انہیں پھر یہ شراپ دے کہ ان کو کوئی چھو بھی نہ سکے اور اگر کوئی چھوئے تو ان کو اذیت میں ہی مبتلا کرے ۔ قریب ہے کہ ان کی شعبدہ بازیاں ایمان کی لاٹھی سے پاش پاش ہوجائیں اور امت سامریوں ، غامدیوں و قادریوں کے تسلط سے نکل کر موسی علیہ السلام و محمد رسول اللہ کے رب کی عبادت کی طرف واپس پلٹے ۔

2 تبصرے: