اتوار، 22 ستمبر، 2013

شام میں برسرپیکار غیرملکی رافضی گروہ !


عظیم صفوی سلطنت کے خواب کی بانی" مملکت رافضیہ ایران "نے عراق ، ایران جنگ کے دوران ہی سنی سرزمینوں پر ایسے گروھوں کی تشکیل کرنی شروع کردی جو کہ ان علاقوں میں بوقت ضرورت اس کے فوجی مقاصد کے راستے میں حائل مشکلات کو ہٹاسکیں اور عظیم صفوی سلطنت کا خواب پورا کرسکیں ۔ لبنانی سرزمین پر حزب اللہ کا قیام اور ایران ،عراق جنگ کے دوران البدر بریگیڈ اسی کا شناخاسانہ تھا۔ ان گروہوں کی تشکیل و فوجی تربیت ایران میں ہوئی ۔ان کے زیادہ تر ممبران کا تعلق مقامی علاقوں سے ہوتا تھا اور ایرانی انقلابی گارڈ ان کو فوجی تربیت کے عمل سے گزارتی ۔ ایران کی پالیسی اس معاملے میں بڑی واضح تھی ۔ "ایرانی ہر جگہ بھیجنے کی ضرورت نہیں جہاں بھی کوئی شیعہ عقیدے کو ماننے والا ہے اس کو مظبوط کرو" ۔ سختی کے دور میں یہ گروہ رافضی ایران کے سایہ عاطفت میں پناہ پکڑتے اور آسانی میسر ہوتے ہی دوبارہ سرگرم عمل ہوجاتے ۔ رافضی سلطنت نے صرف ان گروہوں کو ہی جنم نہیں دیا بلکہ خطے میں موجود ہر اس عنصر کی قوت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا جو کہ شیعیت سے اپنے آپ کو منسوب کرتا ہو۔ رافضی سلطنت کی اس پالیسی نے مشرق وسطی میں عظیم رافضی جنگجو گروہوں کو جنم دیا۔ جو کہ وقت آنے پر سنی خطوں کے خلاف استعمال کیے گئے ۔ ایک اندازے کے مطابق صرف حزب اللہ سے منسلک جنگجووں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے ۔
شامی جہاد کے شروع ہوتے ہی شام سے شبیحہ نامی گروہ کی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں جو کہ ایک گمان کے مطابق مقامی نصیریوں و حزب اللہ کے غنڈوں پر مشتمل ایک گروہ تھا جس کے مظالم کی داستانیں شامی عوام کے اندر زبان زد خاص و عام تھیں ۔لیکن شامی مزاحمت ان مظالم سے دبائی نہ جاسکی اور جلد ہی شامی فوج میں بھی بڑے پیمانے پر بغاوت پھوٹ پڑٰی اور باغی فوجی جن کی اکثریت کا تعلق سنیوں سے تھا فوج چھوڑ کر بھاگنے لگے ۔ ان حالات نے شامی فوج کی عددی اکثریت اور اس کی فعالیت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ وہ آہستہ آہستہ مختلف محاذوں پر مطلوبہ قوت کھونے لگی ۔اور محاذ جنگ تیزی سے اس کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے ۔ ایرانی رافضی سلطنت کو یہ قابل قبول نہ تھا ۔ اس انقلاب کا چہرہ ابھی تک مذھبی نہ تھا بلکہ بشار جیسے ڈکیٹٹڑ سے چھٹکارے کی کوشش۔ لیکن رافضی میڈیا نے جلد ہی اس کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا ۔ اور تحریک آزادی کو خارجیوں و تکفیریوں کا لقب۔ رافضی سلطنت اس سے دوہرا فائدہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔ ایک تو اپنے عوام کو یہ یقین دہانی کہ یہ تحریک صرف بشار کو ہٹانے کے لیے نہیں ہے بلکہ شیعہ مذھب پر سیدھا حملہ ہے ۔ اور دوسری طرف مغرب کو یہ پیغام کہ جن سے ہم لڑ رہے
ہیں وہ تمہارے بھی دشمن ہیں ۔



بشار کی ٹوٹتی و بکھرتی ہوئی قوت نے رافضی سلطنت کو مجبور کردیا کہ وہ شام کے محاذ پر کھل کر سامنے آجائے ۔ اس مقصد کے لیے اس کا سب سے زیادہ طاقتور گروہ "حزب اللہ" میدان میں کودا اور بشاری اقتدار کو اپنے مقصد کی لڑائی قرار دیا ۔ شامی لڑائی میں لبنانی و ایرانی عنصر شروع سے ہی شامل ہوگیا تھا اور زمین پر موجود شامی رضاکار شامی زمین پر ایرانی فوج و حزب اللہ کے غنڈوں کی متواتر خبر دے رہے تھے ۔ لیکن حزب اللہ کی طرف سے سرکاری سطح پر اس کا اقرار قصیر کی لڑائی کے دوران کیا گیا ۔ اسی طرح سیدہ زنیب کے مقبرے و دیگر علامات مذھب شیعہ جن کی تاریخی حثیت مشکوک ہے کو بچانے کے نام پر عراق ،ایران ، افغانستان ، پاکستان ،افریقہ سے ہزاروں شیعہ ارض شام کی طرف لپکے ۔ ان عناصر کو زیادہ تر ایرانی و عراقی سرزمین پر تربیت دی گئی اور ایک مطلوبہ میعار حاصل ہوجانے پر شام میں داخل کردیا گیا۔ شامی جنگ میں ان کی یہ مداخلت انٹرنیشیل جہادیوں سے بھی پہلے ہوئی ۔ اس لیے رفض کا یہ پروپیگنڈہ کہ شام کا جہادی عنصر غیر ملکی ومغرب نواز ہے حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کے برعکس شام میں موجود رافضی گروہ ایرانی سلطنت کی ایما پر شامی سنی عوام کا قتل عام کرنے کے لیے وہاں بھیجے گئے ۔ ایک عربی اخبار کی رپورٹ کے مطابق غیرملکی رافضیوں کو مشرقی شہروں سننادج اور ورامن میں ایرانی انقلابی گارڈ تربیت فراہم کرتی ہے ۔ جس کے دوران انہیں 50 امریکی ڈالر روزانہ تنخواہ فراہم کی جاتی ہے ۔ اس تربیت کے بعد یہ غیرملکی رافضی 10 تا 15 کے گروہوں میں دمشق کے فوجی ہوائی اڈے پر بھیج دیئے جاتے ہیں ۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق تہران سے پندرہ کلومیٹر دور ایک فوجی ہوائی اڈے میں قائم ایک تربیتی کیمپ میں تربیت دی جاتی ہے جس کا نام "امیرالمومنین" ہے ۔ یہ تربیت گاہ ایرانی نیشل گارڈ کے ایک جنرل قثیم سیلمانی کی زیر قیادت کام کرتی ہے جو کہ پورے مشرق وسطی ،پاکستان ،افغانستان سے رافضی جنگجووں کو  بھرتی کر کے اور تربیت دے کر شام میں داخل کرنے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق شام کے محاذ پر لڑنے والے غیرملکی رافضی جنگجووں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔
 شامی محاذ پر اس وقت مندرجہ زیل غیرملکی رافضی گروہ برسرپیکار ہیں 

کتائب حزب اللہ ۔
مارچ 2013 میں اس گروہ کے پہلے جنگجو کے ہلاک ہونے کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی ۔ یہ عراقی بیناد گروہ ہے جو کہ لبنانی تنظیم حزب اللہ اور ایران سے اپنے تعلقات کا کھل کا اقرار کرتا ہے ۔ یہ شام میں رافضی جنگجو بھیجنے والے بڑے گروہوں میں شمار ہوتا ہے ۔ عراق میں یہ ایرانی مخالف خلق المجاہدین کے اوپر حملوں میں بھی ملوث رہا ہے 
کتائب سید الشہدا 
یہ گروہ عراق میں مارچ 2013 میں تشکیل دیا گیا ۔ اس کے اعلان کردہ مقاصد میں "شام میں رافضیوں کے مقدس مقامات کی حفاظت " شامل ہے ۔ اس کی لیڈرشپ کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے لیکن مصدقہ اطلاعات کے بارے میں کتائب حزب اللہ سے الگ ہونے والے ایک شخص "ابو مصطفی الشیبانی" اس کی قیادت کررہا ہے ۔ اس کے تمام اراکین ایران سے تربیت یافتہ ہیں ۔ اس کا تعلق عراقی شہر بصرہ میں قائم شدہ "سیدالشہدا تحریک" نامی سیاسی گروہ سے مانا جاتا ہے جو کہ بصرہ میں شام کے اندر رافضی مقدس مقامات کے بچاو کی مہم چلاتی ہے ۔
حرکت حزب اللہ النجوی
یہ گروہ بھی عراق میں تشکیل دیا گیا۔ جو کہ جون 2013 میں شام میں اپنے سات جنگجووں کی ہلاکت کے بعد منظر عام پر آیا ۔ یہ شامی رافضی    ملیشا "لواعمار بن یاسر" کو جنگجو فراہم کرتا ہے 
عصائب اہل الحق 
یہ گروہ سن 2006 میں عراق میں مہدی آرمی سے علیحدگی کے بعد معرض وجود میں آیا ۔ اس کی براہ راست تربیت حزب اللہ و ایرانی نیشل گارڈ کے زیر تحت ہوئی ۔ یہ ایران کے ولایت فقہیہ کے عقیدے سے مکمل وابستگی رکھتا ہے ۔اور شام میں جنگجو بھیجنے والے بڑے گروہوں میں سے شمار ہوتا ہے ۔شام میں اس کے جنگجووں پر مشتمل گروہ "کفیل سیدہ زنیب" کے نام سے سرگرم عمل ہے جو کہ جنوبی دمشق میں واقع سیدہ زنیب رضی اللہ تعالی عنہ کے دعوی کردہ مقبرے کی حفاظت پر معمور ہے ۔ یہ گروہ لبنانی حزب اللہ کے ساتھ مل کر شامی مجاہدین کے خلاف کئی معرکوں میں شریک رہا ہے 
البدر آرگنایزیشن
یہ تنظیم حال میں ہی عراق کی سپریم کونسل سے علیحدگی کے بعد معرض وجود میں آئی ۔ جس نے اپنے قیام کا مقصد ہی شام میں لڑائی بتایا۔ اس کا ملٹری ونگ "قوات شہید الصدر" کے نام سے شام میں سرگرم عمل ہے ۔ اس کے اپنے دعوی کے مطابق یہ ابھی تک شام میں 1500 جنگجو بھیج چکی ہے ۔ جولائی 2013 میں اس گروہ نے میدان جنگ میں اپنی پہلی ہلاکت کا اعتراف کیا 
ابو الفضل العباس بریگیڈ۔
یہ بریگیڈ سن 2012 کے موسم خزاں میں منظر عام پر آیا جب اس کی کچھ ویڈیوز ریلیز ہوئیں ۔ مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ 2012 سے پہلے ہی شامی سرزمین پر موجود تھا ۔ اور جنوبی دمشق میں واقع  سیدہ زنیب کے مقبرے کی حفاظت کا فرض سرانجام دے رہا تھا۔ یہ گروپ زیادہ تر بیرونی جنگجووں پر مشتمل ہے جن کی بڑی تعداد کا تعلق ایران ، عراق ، لبنان سے ہے ۔ شامی مقامی رافضیوں کی ایک چھوٹی تعداد بھی ان میں پائی جاتی ہے ۔ 
اس گروپ کے سیکرٹری جنرل کا نام یا لقب "ابو عجیب" ہے جو کہ مختلف رافضی میڈیاز پر انٹرویو دیتا رہتا ہے ۔ اس کے سربراہ کا نام ابو ھاجر ہے ۔ جو کہ مجاہدین کے ساتھ ایک حالیہ جھڑپ میں مارا جاچکا ہے ۔ جون 2013 میں اس گروپ کے اپنے درمیان پیسوں کی تقسیم کے مسئلہ پر ایک ہولناک لڑائی لڑی گئی جس کے بعد غیرشامی رافضی جنگجووں نے اسی نام سے ایک الگ بریگیڈ تشکیل دے دیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے کارکنان کی تعداد ہزاروں میں ہے جس کو ایرانی نیشنل گارڈز و عراق کی بدنام زمانہ مہدی ارمی کی مدد حاصل ہےیہ دمشق ، حلب اور ان کے نواحی علاقوں میں سرگرم عمل ہے اور لبنانی حزب اللہ کے ساتھ مکمل رابطے و تعاون میں۔
لوا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ
لواامام حسین دمشق میں سرگرم عمل ہے ۔ اس کا ناطہ عراق کے مشہور رافضی رہنما مقتدی الصدر سے ماناجاتا ہے جو کہ مہدی آرمی کی قیادت کرتا ہے ۔اس کے بارے میں یہ بھی شبہ ہے کہ اس میں عراقی فوجیوں کی ایک معقول تعداد شامل ہے ۔ گروہ کا کمانڈر ماجد ابو ذبیح عراقی فوجی نشانات والی یونیفارم زیب تن کرتا ہے ۔ یہ جون 2013 میں منظر عام پر آیا ۔ اور دمشق و اس کے گردونواح کے علاقوں میں مصروف کار ہے 
لواعمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ
یہ گروہ حال میں ہی معرض وجود میں آیا ہے ۔اور دمشق سے باہر حلب میں سرگرم عمل ہے ۔ یہ عصائب اہل الحق سے وابستگی رکھتا ہے اور ایرانی ولایت فقہیہ کے عقیدے کا ماننے والا ہے ۔

1 تبصرہ:

  1. روافض اور ان کے گروہوں پر مختصرا اور جامع تحریر ہے۔ پڑھ کر آنکھیں کھل گئی۔۔۔۔۔ جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں