جمعہ، 2 مئی، 2014

القاعدہ و الدولۃ تنازعے کا تاریخی جائرہ

  بسم اللہ الرحمن الرحیم

پہلا اصول ۔درست تناظر 

الدولۃ اور القاعدہ کے درمیان موجودہ تنازعہ ہرگز ایسا نہیں ہے کہ اسکو نظر انداز کرکے آگے بڑھ جایا جائے یا ان دونوں کے تنازعے کو اجتہاد کا تنازعہ سمجھ لیا جائے بلکہ یہ ایک پیچیدہ و پرفکر تنازعہ ہے اور اسی پر جہاد کے مستقبل کا دارومدآر ہے ، اپنے قیام سے لیکر اب تک جہادی تحریک کو نظریاتی میدان میں اس سے بڑے چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور یہ چیلنج بھی اسکی اپنی صفوف میں سے پھوٹا ہے اور ان لوگوں کیطرف سے جن کی اپنی قربانیاں راہ جہاد میں ان گنت ہیں اور وہ ایک عرصہ سے اسی تنظیم و جدوجہد کا ایک حصہ مانے جاتے رہے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ چونکہ مقاصد ایک ہیں اس لیے طریق کار کا فرق کوئی بڑا فرق نہیں ہے حالانکہ مسئلہ یوں ہے کہ اگر یہ فرق طریق کار کا بھی ہو تو پھر بھی جہاد کے مستقبل پر اسکے عظیم و دوررس اثرات مرتب ہونے والے ہیں ۔ انکے تنازعے کی مثال ان دو طالب علموں کے درمیان فرق کی مانند ہے جن میں سے ایک ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرکے ڈاکٹر بنے اور دوسرا سخت محنت اور نصاب کی گہری سمجھ کے بعد اس مقام پر پہنچے  ۔الدولۃ و القاعدہ کا تنازعہ بھی انہی دو طالب علموں کی طرح کا ہے جنکا نتیجہ ظاہری نظر سے دیکھنے والے کو ایک سا لگ سکتا ہے لیکن درحقیقت یہ فرق عظیم ہے جو کے مستقبل پر انمٹ نقوش چھوڑے گا اور اگر واقعی ہی اللہ نے اس اسلامی ریاست کا خواب جو کے ہر مسلمان کی تمنا ہے انہی میں سے کسی ایک کے ہاتھوں سے کروانا ہے تو اسکے مستقبل کے متعلق بھی پیشین گوئی اسی منزل پر کی جاسکتی ہے جس کے لیے کسی لمبی چوڑی ذھانت کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ ایک درمیانے درجے کی ذہانت والاشخص بھی یہ نتائج خود ہی اخذ کرسکتا ہے بھلا ڈنگر ڈاکٹر کو اپنے فیملی ڈاکٹر کے طور پر رکھنے کا مشورہ کون قبول کرے گا !ہمیں ان دونوں کے تنازعے کو جاننے کے لیے اور حقیقت حال تک پہنچنے کے لیے کچھ مراحل کو سامنے رکھنا ہوگا اور کچھ سوالات کے جوابات ڈھونڈنے ہوں گئیں یہ مرحلہ کوئی اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ سن 1988 میں قائم کی گئی تنظیم القاعدہ بے شمار فکری و عملی مراحل سے گزر چکی ہے اس طویل راستے پر چلتے ہوئے بے شمار لوگ اسکا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور بے شمار نئے لوگ شامل ہوچکے ہیں جو کے القاعدہ کا آج کا منظر نامہ دیکھتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ انکی پہنچ 9/11 تک ہے ان میں سے بھی زیادہ تر القاعدہ کے جہادی منہج سے آگاہ ہیں القاعدہ کے فکری منہج کا انہیں کچھ اندازہ نہیں ہے اسکی بہت بڑی وجہ بذات خود القاعدہ کا اپنے فکری منہج کے فروغ و اشاعت سے زیادہ جہادی منہج کو مرکزی نقطہ بنانا ہے جسکی وجہ سے عامی ذھن اسے عام قسم کا ایک جہادی گروہ سمجھنے پر اپنے آپکو مجبور پاتا ہے جو کے ہر خطے میں لڑائی کو شروع کرنا چاہتا ہے مگر گذشتہ تین دہایوں پر پھیلی ہوئی اس جدوجہد کو صرف قتال کا منہج سمجھنے والے سخت غلطی کا شکار ہیں ۔انکے درست موقف کو سمجھنے کے لیے کسی بھی ذھن کو ان تین دہایئوں کا سفر کرنا پڑتا ہے انکے ارتقاء کے مراحل کو سمجھنا پڑتا ہے اور انکے اوپر کیے گئے اندرونی و بیرونی تجزیات کا تجزیہ کرنا پڑتا ہے یہ کوئی آسان امر نہیں ہے اور نہی اس بحث میں جانا ہمارے اس مضمون کا مقصد ہے لیکن آج یہ تنظیم جس مقام پر کھڑی ہے اسکے پیچھے بے شمار علمی و عملی تجربات ہیں جن کو ان کے درست تناظر میں رکھنا ضروری ہے وگرنہ انکے بغیر انکی سمجھ حاصل کرنا ممکن نہ ہوگا ۔آج اگر آپ القاعدہ کے کسی حمایتی کو کہیں کہ شیخ اسامہ بن لادن ؒ کسی وقت سعودی حکمرانوں کے وفادار بھی رہ چکے ہیں ،یا روس کے خلاف جنگ میں وہ امریکی مدد بھی قبول کرتے رہے ہیں ،یا شام کے نصیری شہر الاذقیہ میں بھی رہایش پذیر رہے ہیں یا ایک وقت ان پر ایسا بھی گزرا ہے جب پاکستان میں نواز شریف کو برسراقتدار لانے کے لیے وہ رقم بھی خرچ کرنے پر تیار تھے اور اس سلسلے میں مختلف جماعتوں سے ملاقات بھی کی تھی یا شیخ اسامہ بن لادنؒ کسی وقت میں اخوان المسلمون کے باقاعدہ رکن رہے ہیں تو گمان غالب یہی ہے کہ وہ آپ کا چہرہ حیرت سے تکنا شروع کردے ،یا آپکو کفار کا ایجنٹ سمجھے یا ان سب باتوں کو پروپیگنڈہ قرار دیکر آپ کی بات پر یقین لانے سے انکار کردے ،لیکن یہ وہ بدیہی حقائق ہیں جن کا انکار ایک متعصب ذھن تو کرسکتا ہے لیکن علم کی دنیا سے اسکا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔یہ سارے اقدامات ذھنی شعور کی مختلف منزلوں و صورتحال کے مختلف تقاضوں کی نشاندہی ہے جس سے ہر باشعور بندہ گزرتا ہے اور ہر نئے قدم پر ایک نئی منزل کے حصول کے بعد اپنی پالیسی و خیالات میں تبدئیلی لاتا ہے ! کیا خیال ہے کہ اگر سعودی حکومت شیخ اسامہ ؒ کے ان بیانات کو بنیاد بنا کر جو کے انہوں نے مکہ کی بغاوت کے دوران باغیوں کیخلاف دیئے تھے اس بات کا دعوی شروع کردے کہ آج بھی ہماری کاروائی درست ہے ؟ یا مسلم لیگ کل اپنی انتخابی مہم میں یہ نعرہ بھی شامل کرلے کہ یہی وہ جماعت ہے جسکی حکمرانی کے لیے شیخ اسامہ ؒ بھی سرگرم عمل رہے ہیں !؟ کوئی شک نہیں کہ ایسا استدلال ایک عامی و کم علم ذھن کو تو متاثر کرسکتا ہے لیکن علم کی دنیا میں جو انہوں نے بعد میں کیا وہ بھی میعار ہوگا ۔ اگر یہ میعار ہم مان جائیں تو ان دونوں تنظمیوں کے ایکدوسرے کے متعلق بیانات جو چاہے حمایت میں ہوں یا مخالفت میں اسکو ہم انکے درست تناظر میں رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گئیں وگرنہ نتیجہ یہی نکلے گا کہ مردوں کے بیانات کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے گا بغیر انکا تناظر جانے اور زندوں کو مسترد کردیا جائے گا ! الدولۃ و القاعدہ کے درمیان فرق کو جاننے کے لیے اور دونوں کا ایکدوسرے کے بارے میں دعووں کا جائزہ لینے کے لیے اس اصول کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے 

دوسرا اصول ۔ منہج اور حکمت عملی کا فرق۔

دوسرا اصو ل جو کے اس سارے تنازعے کو سمجھنے کے لیے مد نظر رکھنا ضروری ہے وہ حکمت عملی و فکر کا الگ الگ کرنا ہے ۔بہت سے لوگ اس معاملے میں غلطی کھاتے ہیں القاعدہ کی فکر ہے کہ جمہوریت حرام ہے یہانتکے وہ اسلامی جمہوریت کی تاویل کو بھی تسلیم نہیں کرتے لیکن کیا انکی حکمت عملی میں اس جمہوریت کے منہج والی تنظمیوں سے جنگ بھی شامل ہے ؟ کیا وہ انکو تلوار کے زور پر اپنے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں ؟القاعدہ سعودی حکمرانوں کو مغرب کا پٹھو و غدار جانتی ہے لیکن کیا وہ ان کے خلاف لڑائی کی بھی قائل ہے ؟ یا اس نے کسی تجربے کے بعد کوئی سبق سیکھا ہے ؟ اگر ہم ان دونوں میں فرق کرنا سیکھ جائیں تو بہت سی ذھنی الجھنوں کا جواب مل جائے گا ،ایک شخص ، گروہ یا تنظیم جمہوریت کے خلاف دلائل کے طومار باندھ رہا ہے اسپر سخت ترین رویہ اختیار کیے ہوئے ہے یہ اسکی فکر ہے جسکا وہ فروغ چاہتا ہے لیکن عین اسی لمحے میں کیا اسکی حکمت عملی میں یہ بات شامل ہے کہ ان لوگوں سے تصادم کی راہ بھی اختیار کی جائے !! بلاشبہ یہ رائے دونوں طرف جاسکتی ہے اور درست و صواب رائے وہی ہوگی جسکی دلیل قرآن و سنت سے ملتی ہو اور جو امت کو جوڑتی ہو نہ کے توڑتی ہو اور جسکے نتیجے میں بین المسلمین تلوار نہ کھنیچی جائے الا یہ کے حجت اتمام ہوچکی ہو اور کفر بواح ظاہر ہوچکا ہو۔کفر بواح کے ظاہر ہونے کے بعد بھی بغاوت تو فرض ہوجاتی ہے لیکن بغاوت کی صورت صرف قتال ہی ہو یہ ہرگز ضروری نہیں ہے ۔القاعدہ کے منہج کو درست طور پر سمجھنے کے لیے انکی فکر و حکمت عملی کا فرق ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے وگرنہ عامی و متشدد ذھن انکو انحراف کا مرتکب سمجھنے میں دیر نہ کرے گا اور الزامات کا طومار باندھ دے گا ۔اس امر کو بھی ایک آسان سی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے پاکستان کے طول و عرض پر پھیلے ہوئے لاتعداد مزارات کا حکم کسی اہل توحیدعالم سے جان لیجیے بلا شک و شبہ وہ انکے کفر کے اڈے ہونے پر کسی بھی قسم کاشک و شبہ نہ رکھتا ہوگا بلکہ انکو گرانے پر اجروثواب کے آثار سنائیں گا ،لیکن آپ انکو گرانے کے متعلق بغیر"سلطہ" کے فتوی طلب کریں وہ ہرگز یہ فتوی نہ دے گا ،کیونکہ انکے کمزوری کے اس عالم میں گرانا اصلاح سے زیادہ فتنے کا سبب بن جائے گا اور جو تھوڑی بہت دعوت اس میدان میں جاری ہے وہ بھی ختم کی جاسکتی ہے بعض معاملات کا تعلق "جائز و ناجائز" ہونے سے نہیں بلکہ "مناسب یا غیرمناسب" ہونے سے بھی ہوتا ہے ۔اور یہی فرق "فکر" و "حکمت عملی" کا بھی ہے جسکی مثالیں ہمیں سنت رسول سے بھی ملتی ہیں ۔عامی و کم فہم ذھن جب فکر و حکمت عملی میں فرق کو نہیں سمجھ پاتا تو اسے منہج سے انحراف سمجھ بیٹھتا ہے اور یوں معاملے کی درست تطبیق سے محروم رہتا ہے ۔القاعدہ و الدولۃ کے تنازعے کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمیں اس دوسرے اصول کو بھی مدنظر رکھنا ہے کہ کونسا بیان انکی فکر کو بیان کرتا ہے اور کونسا عمل انکی حکمت عملی ہے ۔حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے ایک اور بات کا دھیان رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ بسااوقات حکمت عملی کے نتائج توقع کے مطابق برآمد نہیں ہوتے جسکو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی کو تبدئیل کیا جاتا ہے یہ فکر کی تبدئیلی نہیں ہوتی بلکہ متوقع نتائج نہ ملنے کی صورت میں حکمت عملی کی تبدییلی ہوتی ہے اور جب معاملہ انبیا کا نہ ہو کہ جن کو ہر وقت وحی کی نشاندہی حاصل رہتی ہے تو پھر یہ امر کوئی حیرت انگیز نہیں کہ غیر انبیا جو کے صاحب وحی نہیں ہوتے لیکن اسی وحی کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں وہ معاملات کی تطبیق میں غلطی کھائیں اور اس سے رجوع کریں ۔اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عراق جنگ کے بعد القاعدہ کی حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیئلی ہے جو کے عراق کی جنگ میں مقررہ اہداف حاصل نہ کرپانے کی بناء پر ہیں یا ہم اسکو اندازے کی غلطی بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اور یہ "ٹکراو کیساتھ تعامل" کی حکمت عملی ہے جسکا پہلا اظہار القاعدہ کے نظریاتی رہنماوں سیف العادل و سلمان ابوغیث کی جانب سے 2009 و 2010 میں کیا گیا/اگر ہم القاعدہ کی حکمت عملی کے متعلق بیرونی گواہیوں کو نظر انداز بھی کردیں تو انکے اپنے اندر سے اندرونی گواہیاں اتنی ہیں جنکو نظر انداز کرنا مشکل نہیں ہے ۔انکے اپنے اندر سے ایسی زوردار آوازیں اٹھتی رہی ہیں جو کے مختلف پالیسز سے اختلاف کرتی رہی ہیں اور اس اختلاف کو ہمیشہ مثبت نظر سے دیکھا گیا ہے ۔ ہم یہاں صرف ایک مثال کو دیکھیں گئیں ۔ القاعدہ کے سابقہ ترجمان ، شیخ اسامہ بن لادنؒ کے داماد شیخ سلمان ابوغیث فک اللہ اسرہ جو کے اسوقت امریکی جیل میں سن 2010 میں اپنی مشہور زمانہ کتاب "جہاد کے بیس رہنما اصول " میں لکھتے ہیں۔جسکو آج پڑھتے ہوئے ذرا بھی اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ انکا روئے سخن عراق میں الدولۃ کی کاروایئوں کی طرف بالخصوص اور القاعدہ کی کچھ غلطیوں کی طرف بالعموم تھا ۔شیخ لکھتے ہیں
 "میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ جہاد امت مسلمہ کا مشن ہے اور اسے چرانے یا اس پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ لوگ غلط ہیں جن کی یہ سوچ ہے کہ جہاد کا مطلب ہتھیار اٹھانا اور دشمن سے لڑنا ہے۔ اس سے مراد زندگی اور تعمیر کی ثقافت نہیں بلکہ قتل و غارت گری اور تباہی کی ثقافت ہے جو ہمیں تحریک دیتی ہے۔" وہ مزید رقمطراز ہیں یہ خیال غلط ہے کہ جہادی عناصر کا ریاست اور اس کے اداروں کی تعمیر، سائنس اور علم کے فروغ اور اسلام اور اسلامی ریاست میں رہنے والے تمام افراد کے لئے بہتر زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
شیخ پھر فرماتے ہیں۔
   جہادیوں کو جہاد کے اصل رخ سے آگاہ ہونا چاہیے اور انہیں ناانصافی کی بجائے انصاف، تباہی کی بجائے تعمیر، خوف کی بجائے سلامتی، سزا کی بجائے ہمدردی اور تقسیم کی بجائے اتفاق رائے کے لئے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہے۔
 بیعت کے مسئلے پر ابوغیث کہتے ہیں (یاد رہے کہ 2010 ہی وہ وقت ہے جب کے عراق میں الدولۃ کے موجودہ رہنما ابوبکر بغدادی کی بیعت لی جارہی تھی اس بیان میں گویا شیخ اہل عقل کے لیے مجرم کے اوپر انگلی رکھ دی ہے )۔
 " صرف ان افراد کی اطاعت فرض ہے جن کی دیانت داری، راست بازی اور صلاحیتیں قابل اعتماد ہوں۔ کسی غیر مستحق شخص کی اطاعت کرنا غداری کے مترادف ہے اور اس کی ہر غلطی یا تباہی کی ذمہ داری اس کی اطاعت کرنے والوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔"
 غرضیکہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور انکی اصلاح کرنا ہمیشہ سے اہل حق کا شیوہ رہا ہے اسی کتاب مین ابوغیث اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
   اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے اور ان کی اصلاح کرنے میں شرم کی کوئی بات نہیں۔ بلاشبہ یہی درست قدم ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر شرم کی بات یہ ہے کہ اپنی غلطیوں کو دیکھ کر انہیں دفن کر دیا جائے۔
 اگر ان دو اصولوں کو مد نظر رکھ لیا جائے تو الدولۃ و القاعدہ کے قضیے کا فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے اور نہی اس بات کا فیصلہ کرنا کہ ان دونوں میں سے کون حق پر ہے ۔

الدولہ کےدلائل۔

الدولۃ کے دلائل گنے چنے ہیں جنکا لب لباب یہ ہے
 الدولۃ ایک تنظیم نہیں ایک ریاست ہے
 اس ریاست کی تشکیل شیخ اسامہ ؒ ، شیخ عطیہ اللہ ؒ، شیخ ابویحیی اللبی ؒ اور شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ جیسے اکابرین جہاد کے مشورے سے ہوئی
 بغدادی فیملی جسکی بنیاد ابوعمر بغدادی ؒ سے شروع ہوتی ہے اور موجودہ سربراہ ابوبکر بغدادی تک آتی ہے یہ ایک ریاست کے امیر نہیں بلکہ خلیفہ المسلمین ہیں اس خلیفہ المسلمین کی اطاعت ہر بندے پر فرض ہے جو کے اسکے زیر تسلط علاقے میں رہتا ہو اور جو انکی بیعت نہیں کرتا یا اسکو توڑتا ہے وہ باغی ہے یہ انکی بحث کا لب لباب ہے انکی ساری بحث انہی نقاط کے اردگرد گھومتی ہے وہ بڑے نامحسوس طریقے سے وہ سارے حقوق جو کے خلیفہ المسلمین کو حاصل ہیں انکے بغدادی کے لیے ثابت کرتے ہیں ،حالانکہ انکی بحث کا آغاز اسی نکتہ سے ہوتا ہے کہ ابوبکر بغدادی ایک "شرعی امیر" ہیں لیکن دراصل وہ بڑے ہی خوبصورت طریقے سے یہ ثابت کررہے ہوتے ہیں اس شرعی امیر کو ہر وہ حق حاصل ہے جو کے "خلیفہ المسلمین" کو حاصل ہوتے ہیں ۔یوں شرعی امیر کے پردے میں وہ اسکو خلیفہ المسلمین ہی تسیلم کرتے ہیں الدولہ کے کسی بھی ناسمجھ سے سپورٹر سے بحث کے دوران آپ کو قطعی طور پر یہ احساس نہ ہوگا کہ وہ شرعی امیر کو خلیفہ المسلمین کے معنی میں لیتے ہیں لیکن جب بھی آپ انکے کسی باشعور بندے سے بات کریں گئیں وہ آپکو بتائے گا کہ ابوبکر بغدادی دراصل خلیفہ المسلمین کے برابر ہے ۔ 
ہم ان سب نکات کو فردا فردا بیان کرتے ہیں اور ایک غیر جانبدار مبصر کے طور پر جو کے ان دونوں تنظمیوں کا حصہ نہیں ہے وہ نکات بھی کھولیں گئیں جنکو عرصہ دراز سے لوگ بھول چکے یا ایک حکمت عملی کے طور پر ان مباحث کو چھپایا جاتا ہے ۔ 

تنازعے کا تاریخی جائزہ۔

جہاد پر نظر رکھنے والا ہر شخص اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ الدولۃ و القاعدہ کے موجودہ تنازعے کی جڑیں شیخ ابومعصب الزرقاوی ؒ تک جاپہنچتی ہیں ۔ ہمارے لیے یہ سوال زرا بھی دلچسپی کا باعث نہیں ہے کہ الدولۃ کس نے اور کب قائم کی بلکہ اس سے اہم امر یہ ہے کہ القاعدہ جیسی عالمی جہادی تنظیم کو جو عراق کے اندر سب سے بڑی عسکری قوت تھی اسکو آخر اپنے نام سے ہٹ ایک نئی تنظیم یا دولت کی ضرورت کیوں پڑی !؟ تو یہاں ہم جس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گئیں وہ یہ نہیں ہے کہ الدولۃ کس نے قائم کی بلکہ یہ ہے کہ آخر الدولۃ کی ضرورت کیوں پیش آئی اور القاعدہ نے اپنے نام سے عراق میں کام کرنا کیوں ترک کیا ؟

الدولۃ کے قیام کی وجہ۔

 سن 2003 میں القاعدہ نے عراق میں اپنا آپریشن شروع کیا یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ ابومعصب الزرقاوی ؒ نے عراق میں "التوحید والجہاد" کے نام سے گروہ بنایا جو کے دراصل شیخ ابومحمد المقدسی حفظہ اللہ کے "منبر التوحید والجہاد" سے ماخوذ شدہ تھا ۔ شیخ ابومعصب الزرقاوی ؒ دراصل شیخ ابومحمد المقدسی حفظہ اللہ کے شاگرد ہیں جو کے القاعدہ کی حکمت عملی سے زیادہ شیخ المقدسی حفظہ اللہ کی تعلیمات سے زیادہ متاثر تھے ۔لیکن جوں جوں عراقی جہاد آگے بڑھتا چلا گیا توں توں عراق میں شیخ ابومعصب الزرقاوی ؒ کے بعض اقدامات پر سخت تنقید سامنے آنے لگی اور یہ تنقید کرنے والا کوئی اور نہیں خود انکے اپنے استاد شیخ ابومحمد المقدسی ؒ تھے ۔ گوکے شیخ الزرقاوی ؒ کو وسیع پیمانے پر اہل علم کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جن چیزوں کی طرف علماء نے اشارہ کیا تھا وہ معرض وجود میں آکر رہیں اور عراق جو کے گلوبل جہاد کا سب سے اہم مرکز تھا اور جسکے بارے اسوقت شیخ ایمن الظواہری نے ایک بیان میں فرمایا
 "بڑا اور اصل جہاد عراق ہے ۔ خراسان و دیگر خطوں کا جہاد تو جہاد کا تتمہ تھے "
 یہ محاذ عالمی تحریک کے ہاتھ سے نکل گیا اور اسکو یہاں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ہم یہاں پر صرف شیخ ابومحمد المقدسی ؒ کی تنقید کا ذکر ہی کریں گئیں کیونکہ الدولۃ والوں کے نزدیک انکا علمی مقام بھی مسلمہ ہے گوکے وہ انکے بارے میں وہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں جو کے کسی وقت شیخ الزرقاوی ؒ کا تھا ۔ شیخ الزرقاوی ؒ کے جہادی مقام و شہادت کی بے انتہا عزت و مرتبے کے باوجود یہ کہنا کچھ دشوار نہیں کہ الدولۃ کے موجودہ فتنے کے بیج اسی وقت میں بوئے گئے تھے اور اسکا زرا سا اندازہ بھی شیخ الزرقاوی ؒ کو ہوجاتا تو وہ اسکا خیال تک دل میں نہ لاتے اور یہ احساس انکو پیدا ہوبھی گیا تھا گوکے انہوں نے اسکو سمیٹنے کی بہت کوشش کی لیکن زندگی نے وفا نہ کی ۔شیخ المقدسی حفظہ اللہ کا شیخ الزرقاوی ؒ کے نام پہلے دو تنبہیی رسالے "الزرقاوی ۔نصیحت و حمایت" اور "جہاد کا ثمرات" کے نام سے جولائی 2004 میں سامنے آئے ۔ یہ شیخ المقدسی حفظہ اللہ کی شیخ الزرقاوی ؒ جو کے انکے سابقہ شاگرد بھی تھے پر پہلی تنقید تھی ۔ شیخ الزرقاوی ؒ تک یہ تنقید پہنچی اور انہوں نے اسکا مطالعہ کیا لیکن اسکا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا ۔ ان رسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اردنی حکومت نے سن 2004 میں ہی شیخ المقدسی کو جیل سے رہا کردیا اس رہائی سے انکے سیاسی مقاصد یہ تھے کہ شائد شیخ رہائی کے بعد شیخ الزرقاوی کے اوپر شدید نوعیت کے حملے کریں گئیں اور یوں شیخ الزرقاوی کی حثیت کو گرانے کا موقع مل جائے گا ، لیکن انکی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور شیخ المقدسی نے شیخ الزرقاوی پر جو تنقید کی وہ زاتی نہ تھی بلکہ جہاد کے طریق کار پر تھی جو کے الجزیرہ کو 5 جولائی 2005 کے ایک انٹرویو میں کی گئی ۔ اس انٹرویو میں شیخ المقدسی نے تکفیر کے متعلق اور مکفرہ گروہوں کے عامہ الناس کے متعلق اپنے عقیدے و منہج کو واضح کیا اور ان سے لڑنے کو فتنے کا سبب قرار دیا ۔ انکے اس انٹرویو کا لب لباب مندرجہ ذیل لائنز میں ہے۔ 
 "میرا منصوبہ شراب کے کسی اڈے کو اڑانے کا نہیں ہے نہی کسی سینما گھر کو بم دھماکے میں اڑانے کا اور نہی میں اس آفیسر کو مارنے کی دعوت دیتا ہوں جس نے ہمارے ساتھ ظلم و تشدد سے کام لیا ہو ،میری دعوت مسلم امت کو اسکی کھوئی عظمت واپس دلانے کی ہے اور ایسی اسلامی ریاست کے قیام کی جو کے ہر مسلمان کی ممدو معاون ہو ، یہ ایک عظیم امر ہے جسکی انجام دہی ادنی درجے کی انتقامی کاروایئوں سے ممکن نہیں ہے ۔اسکے لیے ایک پوری نسل کی تربیت اور ایک لمبی حکمت عملی درکار ہے ، اس مقصد کے حصول کے لیے مسلم امت کے تمام بیٹوں کی شمولیت درکار ہے اور جب تک یہ مجھےدستیاب نہ ہوسکے تب تک میں اپنے بھایئوں کو کسی ایسی چھوٹی کاروائی پر نہ ابھاروں گا جو کے ہمارے دشمنوں کی خواہشات کے مطابق ہمارے نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینک دے ۔
 اسی انٹرویو میں مزید فرماتے ہیں۔
  "ہر منزل کی کچھ ترجیحات ہوتی ہیں اور اس منزل پر میں عراق یا دنیا کے کسی بھی اور مقام کے متعلق یہ نہیں چاہتا کہ وہ اس تحریک کے نوجوانوں کے لیے ایک جلتی بھٹی بن جائے "
شیخ کے اس بیان کو دیکھیے یوں لگتا ہے کہ جیسے 2005 میں وہ الدولہ سے ہی مخاطب ہوں۔
  "وہ (شیخ الزرقاویؒ) اسے رجوع قرار دیں گئیں یا انحراف ۔ لیکن انہیں کہنے دو جو بھی وہ کہنا چاہتے ہیں ایسی باتیں و الزامات ہمارے لیے نئے نہیں ہیں ۔ ہم نے کب عورتوں و بچوں کو مارنے کی اجازت دی تھی ؟ ہم نے کب شیعہ کے عامۃ الناس کو مارنے کی بات کی تھی ؟ ہم نے کب ایسا کچھ بھی کرنے کو کہا تھا؟"۔ شیخ المقدسی نے اسی انٹرویو میں خودکش حملوں کی شرائط و ترجیحات بھی بیان کیں اور اندھا دھند بم دھماکوں کی شدید مذمت ۔ "میں ایسی کاروایئوں(خودکش حملوں) کے لیے سارے دروازے بند نہیں کرتا اور نہی انکی کھلی اجازت دیتا ہوں ان کاروایئوں کا تعلق جہاد کی اضطراری و امتیازی حالت کیساتھ ہے نہ کے یہ جہاد کی اصل ہیں "۔
 شیخ الزرقاوی ؒ کے اس مشہور زمانہ فتوی کے متعلق جسمیں وہ شیعہ کے عامۃ الناس کو مارنے کی بات بھی کرتے ہیں ،شیخ المقدسی کا کہنا تھا ۔ 
"میدان جہاد کو شیعہ کے خلاف تک پھیلا دینا اور انکے خون کو بلاامتیاز بہانے کے پیچھے دراصل ایک فتوی ہے جو کے ایران وعراق جنگ کے دوران سامنے آیا یہ سرکاری مولویوں کا فتوی تھا جو انہوں نے اسوقت صدام کے قتل عام کو سچا ثابت کرنےکے لیے دیا جب کے وہ تمام عرب امارتیں اسکی حمایت میں کھڑی تھیں ۔عام شیعہ ، عام سنی مسلمان کی طرح ہے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سوفیصد شیعہ عوام ایسی ہی ہے لیکن ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کے صرف روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا جانتے ہیں اور انکی شیعہ مذہب کی تفصیلات کا علم نہیں ہے انکی مساجد یا مقدس مقامات کو نشانہ بنانا قطعا جائز نہیں ہے "۔ 
شیخ الزرقاوی کا جواب توقع کے عین مطابق جوشیلا و جارحانہ  تھا آج انکے جواب کو پڑھتے ہوئے یہ احساس کرنا چنداں مشکل نہیں کہ جیسے الدولۃ شیخ المقدسی کے ضمن میں کچھ کہہ رہی ہو ۔
 "جو بھی انکی (شیعہ) کی صورتحال کو عراق میں جانتا ہے وہ یقینا محسوس کرلے گا کہ وہ عامہ الناس شیعہ نہیں ہیں جیسے کے آپکا (شیخ المقدسی) کا گمان ہے ،وہ صلیبیوں کے سپاہی بن چکے ہیں اور انکی وہ آنکھیں جن سے وہ سچے مجاہدین کی نگرانی کرتے ہیں ۔اور کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ جعفری اور حکیم جیسے لوگ ان عامۃ الناس شیعہ کے ووٹوں کی مدد سے ہی اقتدار میں آئے ہیں ؟اور یہ بات بالکل انصاف پر مبنی نہیں ہے کہ آپ امام ابن تیمیہ ؒ کے عہد کا ایک فتوی اٹھائیں اور اسے اس زمانے پر منطبق کردیں !!ان دونوں زمانوں میں فرق کیے بغیر ! حالانکہ شیخ حمود بن عقلا ؒ شیخ سلمان العلوان ،شیخ سلمان الغدیر فک اللہ اسرہ اور شیخ عبداللہ المہاجر و شیخ الرشود جیسے علماء بھی موجود ہیں جو کے شیعہ کا کافر قرار دیتے ہیں "۔
شیخ الزرقاویؒ آگے چل کر بیان کرتے ہیں۔
  "آپکو انتظار کرنا چاہیے تھا یہاں تک کے آپکو اس صورتحال کا اصل اندازہ ہوتا جسمیں ہم یہاں رہتے ہیں تب آپ ہمیں نصحیت کرتے اور ہم اس کے عمل کرنے والے حصوں پر ضرور عمل کرتے اور جو حصہ ناقابل عمل ہوتا اسکے بارے میں آپکو اپنے موقف سے آگاہ کرتے اور اپنی کاروایئوں کو ان حالات کے مطابق ترتیب دیتے جن کا ہمیں سامنا ہے اور آپ ان سے مکمل بے خبر ہیں کیونکہ آپ دور ہیں "۔
 یوں شیخ الزرقاوی نے پورے اخلاص نیت سے علماء جو کے علم و فضل سے ان سے بہت بڑھ کر تھے انکو زمینی حقائق سے لاعلمی کا طعنہ دیکر علماء کے مشورے کو رد کرنے کا بیج عراق کی سرزمین پر بودیا جسکے مستقبل پر مضمرات کا انہیں قطعا علم نہ تھا ۔آج الدولۃ بھی شیخ ابوقتادہ ، شیخ المقدسی جیسے علماء کی رہبری و مشوروں کو اسی بنیاد پر رد کرتی ہے کہ وہ میدان جنگ میں نہیں ہیں اور ان حالات کو نہیں سمجھتے جسمیں وہ ہیں ! بلاشبہ یہ بیج شیخ الزرقاوی کا ہی بویا ہوا ہے جسکا احساس القاعدہ کو بہت بعد میں جاکر ہوا ۔اس مقام پر یہ بھی بہتر رہے گا کہ ہم شیخ الزرقاوی و شیخ المقدسی کے فہم کا تقابلی جائزہ لے لیں اور اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں کہ دونوں میں سے شرعی دلائل کے لحاظ سے کون درست تھا ۔ بلاشبہ شیخ الزرقاوی کا شیعہ کے متعلق شرعی موقف شیخ المقدسی سے زیادہ اچھا تھا اور کوئی متعصب ہی اس بات میں شک کرسکتا تھا کہ شیعہ اپنے نظریات و عقائد سے ہٹ کر بھی کفر سے تعاون کی وجہ سے کفار کی صف میں آچکے تھے اور اس بات پر کویت کے مشہور عالم شیخ حامد العلی حفظہ اللہ سے تائیدی فتوی بھی طلب کیا گیا لیکن اس جنگ کی آڑ میں بلاامتیاز جس طرح شیعہ و انکے مددگار اہل سنہ کو نشانہ بنایا گیا اور اندھا دھند بم دھماکوں ،پبلک مقامات پر حملوں ، شیعہ مذہبی جلوسوں پر حملوں کا جو دروازہ کھلا اس نے اس لڑائی کو ایکدم ایک اعلی مقصد کے حصول کے لیے اختیار کردہ بدترین طریقوں میں بدل دیا اور دشمن میں صحوہ کو بپا کرنے کے لیے جہادی تحریک کی غلطی اسی کے خلاف استعمال کرڈالی ۔یہیں سے عراقی تحریک القاعدہ کی اس حکمت عملی سے انحراف کرگئی جو کے جنگ کیساتھ عوامی امداد جیتنے کی بھی تھی ،ہم بڑی آسانی سے اسکا تصور کرسکتے ہیں سن 2005 تک القاعدہ عراقی عوام کے دلوں کی دھڑکن تھی لیکن اس جنگ کے شروع ہوتے ہی 2006 تک وہ عراقی محاذ کی سب سے بدنام تنظیم بن چکی تھی اور اس تاثر کا اعلی قیادت کو شدت سے احساس تھا کیونکہ یہ معاملات حکمت عملی سے متعلقہ ہوتے ہیں اور میدان جنگ کی حکمت عملی کوئی بھی عسکری گروہ دشمن کے لیے نہیں کھولتا اور نہی اسے پبلک کرتا ہے ۔ اس لیے اس دوران کی صورتحال کو جاننے کے لیے ہمیں داخلی سے زیادہ خارجیگواہیوں پر بھی انحصار کرنا پڑے گا ۔
اور حکمت عملی کے اندر اختلاف اور اسپر تحفظات کی گواہی  شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کے ایک خط سے ہی وصول ہوگئی جو کے انہوں 2006 میں شیخ الزرقاوی ؒ کو لکھا تھا اور وہ امریکن فوج کے قبضے میں آگیا اس خط کو بعد میں پبلک کردیا گیا۔اس خط کے مطابق 
عراقی جہاد کی چار منازل تھیں۔
۔1۔ امریکی افواج کو عراق میں شکست سے دوچار کرنا جسکے بعد ایک فاتح کا درجہ حاصل ہونا مشکل نہ رہے گا 
۔2۔عراق میں ایک اسلامی امارات کا قیام کرنا جو کے خلافت اسلامی کا تتمہ ہو 
۔3۔ عراق کو مرکز بنا کر دوسرے خطوں میں جہاد کو پھیلانا 
۔4۔آخر کار اسرائیل سے مقابلے کے لیے آگے بڑھنا
ان مقاصد کے حصول کے لیے مندرجہ ذیل تجاویر پیش کی گئیں تھی۔
ا۔ عوامی حمایت کو ہر صورت یقینی بنانا اور اسمیں ہر ممکن اضافے کی کوشش کرنا بشرطیکہ یہ کوششیں شریعت سے متصادم نہ ہوجائیں 
ب۔ہر ایسی کاروائی سے پرہیز کرنا جسکو عوامی حمایت حاصل نہ ہو اور منافقین تک سے صرف نظر برتنا۔
ج۔عراقی خطے میں بالخصوص اور عرب خطے میں بالعموم مسلمانوں کے ہیرو کا درجہ 
حاصل کرنا جسکے ساتھ فتح کا اعزاز ہو ۔
س۔مجاہدین تنظیموں کے درمیان روابط بڑھانا اور باہمی اتحاد کو فروغ دینا خاص طور پر انصار السنہ کیساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا ۔اور سب تنظیموں کو 
ایک جھنڈے تلے اکھٹا کرنا۔
شیخ ایمن کے اسی خط میں شیعہ کے ساتھ جنگ پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور گلے کاٹنے والے طریق کار پر بھی تحفظات ظاہر کیے گئے 

شیخ عطیہ اللہ ؒ کا خط

انہی باتوں کا اظہار شیخ عطیہ اللہ کے ایک خط میں بھی کیا گیا جو کے شیخ اسامہ بن لادنؒ کے مغرب میں سب سے بڑے تجزیہ نگار مائیکل شوئر کے مطابق  شیخ اسامہؒ کی ہدایت پر ہی لکھا گیا کیونکہ انکوعراق میں شیخ الزرقاوی ؒ کی پالیسز پر تحفظات تھے ۔ شیخ عطیہ اللہ ؒ اس خط میں بالصراحت فرماتے ہیں ۔
میرے عزیز بھائی (شیخ الزرقاوی ؒ) اللہ تعالی تم پر اپنی رحمتیں نازل کرے اور تمہیںقوت و شان و شوکت سے نوازے ۔ میرے ان الفاظ کو بڑے غور سے سنیے گا اور ذھن نشین کرلیجیے گا ۔ اور جو کچھ میں کہنے جارہا ہوں وہ آپکو مخلص ہمدرد و سچے خیرخواہ کے علاوہ اور کوئی نہ کہے گا اور اگر آپ کو اس سے اختلاف ہو تو وہ آپکا حق ہے ۔ میرے عزیز بھائی اب آپ ایک عوامی آدمی ہیں ،آپ مقبولیت حاصل کرچکے اب آپ کے اعمال و فیصلے اور رویہ صرف آپ کے لیے شکست یا فتح کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اسلام ،مسلمین ،مجاہدین اور وہ گروہ جو کے جہاد کررہے ہیں ان سے براہ راست متعلقہ ہیں ۔گوکے یہ رب العلمین کی طرف سے ایک انعام بھی ہیں لیکن درحقیقت یہ ایک امتحان بھی ہے ایک بوجھل امتحان ۔اللہ آپکو آزمائش میں مبتلا کررہے ہیں اور آپکو جانچ رہے ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ اس آزمائش پر پورا اتر سکیں گئے کہ نہیں ۔ یہ ایک سخت آزمائش ہے اور عام طور پر صراط مستقیم پر چلنے والے اشخاص ایسی آزمائش سے ایکدم نکلنا چاہتے ہیں ۔میرے عزیز بھائی آپ پر اس مقام کے لیے اعتبار کیا گیا ہے (دنیا بھر میں مجاہدین کے سب سے بڑے گروہ کے رہنما ہونے کا اعزاز جو کے امریکہ کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے )۔اور یہ عظمت و وقار آپکے حصے میں ہی آیا ہے آپ سے بے انتہا محبت کرنے والے لوگ بھی ہیں اور نفرت کرنے والے بھی ،آپ کے قصیدہ خوان بھی اور ہجو گوئی کرنے والے بھی ۔آپ کے الفاظ وہ ہیں جو کے دنیا بھر کے مسلمانوں اور امہ کے دشمنوں تک پہنچتے ہیں ،آپ کے اعمال پوری دنیا پر تاثرات چھوڑتے ہیں ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے انکو پرکھا جاتا ہے ۔میرے بھائی آپ کے لیے یقیننا اس مقام کا بوجھ اٹھانا اور اسے برقرار رکھنا بہت دشوار ہوگا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اس میں ہی کھو جائیں اور اپنی زمہ داریاں پوری نہ کرسکیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کچھ اثرات کی بناء پر یہ سوچ رہے ہوں کہ جو کچھ بھی آپ کررہے ہیں وہی درست ہے اور درحقیقت آپ ایک بیوقوفانہ امر سرانجام دے رہے ہوں اور ایسی غلطیاں سرانجام دے رہے ہوں جو کے شدید نوعیت کی ہوں ،اور انہی کی وجہ سے بدعنوانی اور فساد جو کے اللہ کی مرضی نہیں ہے وہ پھیل رہا ہو !
یہ معاملہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اسکے لیے بہت ہی کاملیت درکار ہے جو کے آج ہمارے بندوں میں موجود نہیں ہے اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اختلاف رائے کے فرق کو مٹانے کے اصول وضع کیے جائیں اور یہی وہ بات ہے جسکی طرف میں آپکی توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ آپ کے لیے بہت ضروری ہے کہ اس معاملے پر توجہ دیں کیونکہ امت کی عمومی رہنمائی آپ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور انکے لیے اور بھی مشکل ہے جو کے آپ سے زیادہ بڑے ہیں (القاعدہ کی مرکزی قیادت)۔آپ اس معاملے کا فیصلہ اکیلے نہیں کرسکتے آپ کا اپنی زمہ داریوں کے بارے میں اسطرح اکیلے سوچنا ایک عظیم خطرہ ہے برائے مہربانی اس نکتے پر توجہ دیجیے ۔کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آپ کی غلطیاں بڑھتی جائیں اور آپ انکی تلافی نہ کرسکیں اور آپ لوگوں و معاشرے کی رہنمائی نہ کرپائیں ۔اسلیے یہ بہت ضروری امر ہے کہ آپ اس اختلاف ہمدرد و مخلص لوگوں کی مدد سے کم کریں اور اس قیادت کی طرف پلٹیں جو کے آپ سے زیادہ عظیم اور ماہر ہے ۔آپکو ہمیشہ ذھن میں رکھنا چاہیے کہ آپکی زمینی قیادت ایک ایسی عظیم قیادت کے زیرتحت ہے جو کے مسلمانوں کی رہنمائی کے زیادہ قابل ہے ،آپ کو اپنے کچھ خیالات و منصوبے ترک کردینے چاہییں یا انکو بھایئوں کے مشورے پر چھوڑ دینا چاہیے خاص طور پر اپنی قیادت پر اور انپر جو کے ان مسائل میں آپکے سامنے آئے ہیں ۔
میرے پیارے بھائی آپ فتوحات پر فتوحات حاصل کررہے ہیں اور اللہ کے دشمنوں کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں جو کے ایک عظیم کامیابی ہے لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے ، یہ راستہ بہت لمبا و دشوار ہے اور دشمن آسان نہیں ہے ۔دشمن تعداد میں زیادہ ہے اور بڑے لمبے عرصے تک نقصانات کو سہنے کا حوصلہ رکھتا ہے اس لیے اصل فتح اصولوں و کردار کی فتح ہوگی ،اصل فتح اسلام کی دعوت کی ہوگی ،اصل فتح لوگوں کے دل جیت لینے کی ہوگی ،اور اصل فتح یہ ہوگی کہ ہم صلح حدیبیہ کو بھی ایک فتح کے طور پر دیکھیں "۔
شیخ عطیہ اللہ ؒ کا یہ خط اس بات کا مستحق ہے کہ اسکا مکمل ترجمہ کردیا جائے یہ آج سے تقریبا دس سال پہلے القاعدہ کی اس حکمت عملی کی خبر دیتا ہے جسکا دعوی آج اسکو ہے لیکن ہم مضمون کی مناسبت سے اس کے بعض حصوں کے ترجمے پر ہی اکتفا کریں گئیں ۔ شیخ عطیہ اللہ ؒ آگے لکھتے ہیں 
"ہم آپکو نصحیت کرتے ہیں کہ مشترکہ معاملات پر خود فیصلہ نہ لیں جب تک کے آپ شیخ اسامہ ؒ اور ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ یا انکے جو لوگ وہاں موجود ہیں ان سے مشورہ نہ کرلیں جیسے کہ ہمارے بھائی "انصار السنہ"اور دوسرے ۔چاہے آپ کو ان پر کیسے ہی تحفظات کیوں نہ ہوں ۔ مثال کے طور پر جیسے آپکا شیعہ کیخلاف جنگ شروع کرنے کا اور انہیں مارنے کا اعلان ہے ،اسی طرح جہاد کو ہمسایہ ممالک تک پھیلا دینے کا فیصلہ ،اور اسی طرح ایسی کاروایئاں جنکا اثر دوررس ہوتا ہے اور اسی طرح کی اور چیزیں ۔ ان میں آپکو مشورہ کرنا چاہیے !۔
اسی طرح میں آپ کی توجہ ان لوگوں کیساتھ مشورے کی طرف بھی مبذول کروانا چاہوں گا جو کے مجاہدین نہیں ہیں ان میں وہ اہل وطن ہیں جہاں پر آپ جنگ کررہے ہیں ،اہل سنہ اور اسی طرح کے دوسرے لوگ۔ گوکے وہ مذہبی طور پر اسوقت سلفی نہیں ہیں یا منافق ہیں ،لیکن جب تک وہ کلمہ گو ہیں اور ہمارے ساتھ دشمنوں کیساتھ جہاد پر متفق ہیں ۔ مثال کے طور پر بہت سے علماء اور قبائلی رہنما اور اسی طرح کے اور لوگ۔اس امر کی ضرورت اس لیے ہے کہ ان کے ساتھ مشورہ جس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ہر معاملے میں انکے مشورے کو قبول بھی کریں ،ایک دانشمندانہ حکمت عملی ہے جو کہ شریعت ،منطق ، تاریخ اور قوموںکے مطالعے سے ثابت شدہ بات ہے "
شیخ عطیہ اللہ ؒ اور شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ دونوں کے خط سے ایک اہم بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ دونوں خطوط میں "الجیریا کے جہاد" کا بہت زیادہ حوالہ دیا گیا ہے ۔ یہاں تک کے شیخ عطیہ اللہ ببانگ دہل لکھتے ہیں کہ "الجیریا کا جہاد ہمیں کسی نے نہیں ہرایا بلکہ مجاہدین نے اپنے ہاتھوں سے یہ جہاد ہارا ہے "۔ الجیریا کے جہاد کی مثال دینا علامتی ہے ہوسکتا ہے کہ القاعدہ جیسی حساس تنظیم کی حساسیت اسے یہ خبردار کررہی ہو کہ القاعدہ فی العراق میں تکفیری عنصر زور پکڑ رہاہے ۔ کیونکہ یہ بات معروف ہے کے الجیریا کا جہاد تکفیری رویئے کی وجہ سے برباد ہوا تھا اور وہاں کی ایک تکفیر  پر آمادۃتنظیم نے دوسری مجاہدین تنظمیوں کی تکفیر کرکے بدترین قسم کا قتل عام شروع کردیا تھا جسکا لازمی نتیجہ جہاد کی ناکامی کی صورت میں نکلا ۔ اسی جہاد میں شیخ ابومعصب السوری فک اللہ اسرہ جیسے نظریاتی لوگوں نے اسکی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ الجیریا کو ایک علامت کے طور پر لینے کی واضح نشانی شیخ ایمن کی حالیہ تقریر بھی ہے جسمیں وہ ابوخالد السوریؒ کے قتل کو الجزائر میں تکفیریوں کے ہاتھوں مارے گئے ایک شہید رہنما کے قتل سے تشبہیہ دیتے ہیں اور ہر بار یہ مثال عراقی گروہ سے متعلقہ ہی بیان کی جاتی ہے !۔ یہ مثال نظر انداز کیے جانے والی نہیں ہے اور نہ ہی بلامقصد ۔ہوسکتی ہے ،اعلی قیادت کو شائد یہ احساس تھا کے عراق میں حالات اس جانب جاسکتے ہیں۔
اسکے علاوہ یہ دونوں خطوط ایک بات پر بے انتہا زور دیتے ہیں "عوامی حمایت و دوسری مجاہد تنظمیوں سے مشاورت"۔ عوامی حمایت کا خیال کرنا تو شاید ان خطوط کا لب لباب ہے اور اسپر اسلیے بھی زور دیا جارہا ہے کے جنگ تو لڑائی سے جیتنا ممکن ہوگی لیکن حکومت چلانے کے لیے عوامی حمایت ناگزیر ہے ۔ ہر اس قدم سے باز رہنے کا مشورہ دیا جارہا ہے جسکو عوامی حمایت حاصل نہ ہو ۔شیخ عطیہ اللہ لکھتے ہیں۔
ان تمام باتوں میں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ عراق میں کسی بھی سنی عالم یا قبائلی رہنما کو مارنے سے ہر ممکن گریز کیا جائے جنکی عوام میں بات مانی جاتی ہے اور وہ اچھی شہرت کے حامل ہیں ،بغیر اس بات کے امتیاز کے کہ وہ کیسے ہیں ! مارنے کے بجائے ہمیں ان سے پہنچنے والی برایئوں کو اور طریقوں سے مثلا تقاریر وغیرہ سے رفع کرنا چاہیے اور عقلمندی و تدبر سے کام دکھانا چاہیے ۔.
ہمیں اس جہاد کو جاری رکھنا ہے اور جب اللہ راستہ کھول دیں گئیں اور امریکی افواج ملک سے نکل جائیں گئیں تو پھر ہم صورتحال کے مطابق اپنی پالیسی کا فیصلہ کرلیں گئیں ۔ 
شیخ عطیہ اللہ کا یہ خط اس بات کی واضح دلیل ہے کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت میں القاعدہ فی العراق کی پالیسز کے متعلق بعض تحفظات پائے جاتے تھے اور شومئی قسمت سے یہ تحفظات آگے چل کر درست ثابت ہوئے گوکے عراق کے معرکے دوران ان امور کا اقرار نہیں کیا گیا لیکن ایک اوسط درجہ کی جماعت سے بھی یہ تصور ممکن نہیں کہ وہ اپنی غلطیوں کو باربار دوہرائے الا یہ کے معاملہ القاعدہ جیسی جماعت کا ہو جو کے روئے زمین کے ذہین ترین لوگوں پر مشتمل ہے ! عراق میں دوہرائی گئی ان غلطیوں کو فورا تجزیہ کرلیا گیا اور شام میں عالمی جہادی تحریک نے ان کے پہلے آثار نمودار ہوتے ہی ان سے اظہار برآت کردیا جسکا تذکرہ آگے چل کر تفصیلا آئے گا
اور یہی وہ دن تھے جب کے القاعدہ ہمیشہ کے لیے عراقی محاذ سے مایوس ہوگئی گوکے اسکی اخلاقی امداد بعد میں بھی موجود رہی لیکن وہ عظیم فتح جسکا خواب عراق میں دیکھا گیا تھا وہ ہاتھ سے نکل گیا ۔عراق کے محاذ پر القاعدہ کی گرفت کمزور ہوگئی اور یہ محاذ ہمیشہ کے لیے تکفیریوں کے قبضے میں آگیا ۔ ایک مبصر نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ عراق کے محاذ پر القاعدہ کو میدانی شکست سے زیادہ افسوس فکری شکست کا ہے کیونکہ اگر یہ نہ ہوتی تو میدانی شکست کو کبھی بھی فتح میں بدلہ جاسکتا تھا ۔ 
 شیخ الزرقاوی کی شخصیت ایسی طلمساتی تھی کہ ان غلطیوں کے باوجود تنظیم انکے دور میں بکھری نہیں اور ان تمام غلطیوں پر انکے کرشماتی معرکوں نے پردہ ڈال دیا لیکن بذات خود القاعدہ میں رائے تقسیم ہوچکی تھی اور عراق کی حکمت عملی کو متردد نظروں سے دیکھا جارہا تھا ۔ شیخ الزرقاویؒ کے شیعہ کے خلاف عام اعلان جنگ پر سب سے زیادہ تحفظات تھے اور دوسری جہادی تنظمیوں کی شکایات دن بدن بڑھتی جارہی تھیں اسکے علاوہ اہل سنہ کو بھی عراقی حکومت سے کسی بھی قسم کا تعاون کرنے پر سخت اقدامات سے گریز نہ کیا جاتا تھا۔ مختلف جہادی تنظمیں اپنے محور سے ہٹنے لگیں القاعدہ کے لیے یہ صورتحال پریشان کن تھی اور اسی اثنا میں انہوں نے پہلے مرحلے کے اختتام سے پہلے دوسرے مرحلے یعنی عراق میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے اعلان کا فیصلہ کرلیا ! القاعدہ کے مطابق امریکی افواج کسی بھی وقت عراق کو چھوڑ سکتی تھیں اسلیے یہ مناسب وقت تھا کہ عراق میں ایک اسلامی ریاست قائم کردی جائے ۔ شیخ زرقاوی نے فورا اس تجویز پر عمل کیا اور "الشوری المجاہدین " قائم کردی مجاہدین شوری میں القاعدہ سمیت چھ جہادی گروہ شامل تھے ۔ جیش الطائفہ، المنصورہ کتیبہ ،انصار التوحید والسنہ،  ساریہ الجہاد ،الغرباء بریگیڈ، الاحوال بریگیڈ۔ یہی مجاہدین شوری کونسل آگے چل کر جہادی میدان کی سب سے بڑی غلطی "الدولۃ الاسلامیہ العراق" میں بدل گئی۔ شیخ الزرقاوی ؒ کو زندگی نے زیادہ مہلت نہ دی اور شوری کے قیام کے پانچ ماہ بعد ہی وہ شہید ہوگئے ، شوری کے مشورے ایک ریاست کو قائم کرنے کے لیے انکی زندگی میں ہی جاری تھے اور شیخ ایمن کے مطابق وہ اس امر میں دیر کررہے تھے جسکا اظہار انہوں نے 2007 کے ایک انٹرویو میں کیا ۔ القاعدہ کی قیادت  ابوحمزہ مہاجرؒ کے ہاتھوں میں تھی  اور ابوحمزہ مہاجر ؒ نے ابوعمر بغدادی ؒ نامی ایک سابقہ پولیس ملازم کی بیعت کرلی ،جو کے خود بھی القاعدہ کا حصہ تھے ۔2006 مجاہدین شوری کا  نام بدل  کر "الدولۃ الاسلامیہ فی العراق" رکھ دیا گیا اور یہیں سے اس عظیم فتنے کا آغاز ہوگیا جس نے جہاد کو تقسیم کردیا اور اس بیج سے پیداکردہ درخت جسکے بارے میں پھلدار ہونے کا گمان تھا اسپر کانٹے اگنے لگے ۔
 اوپر کے دونوں خطوط سے کوئی بندہ یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت بالکل ہی کچھ نہ جانتی تھی یا اسے جان بوجھ کر بے خبر رکھا جاتا تھا شیخ الزرقاوی ؒ ایک مخلص و شاندار کماندار ہونے کے علاوہ اطاعت کے فریضے سے بخوبی آگاہ تھے شیخ الزرقاوی ؒ کو ساری زندگی شیخ اسامہ بن لادن اور شیخ ایمن کی حمایت حاصل رہی ہے انکے بعض اقدامات و فیصلوں پر تحفظات کے باوجود انکی اخلاص نیت پر شک کرنا اپنے آپکو خطرے میں ڈالنا ہے ۔وہ اسلام کے بطل جلیل تھے یہ حالات و واقعات کی آندھی تھی جو کے ان سے چند درست فیصلے کروانے میں مانع آئی اور القاعدہ کی مرکزی قیادت میدان جنگ سے دوری اور معلومات کے پہنچنے میں مانع مختلف مشکلات کی بناء پر صورتحال کا اصل اندازہ نہ کرسکی ۔اسکی معلومات کا سارا ذریعہ القاعدہ فی العراق کی قیادت ہی تھی وہی انکی آنکھیں و کان تھے اور القاعدہ فی العراق اسوقت خود ایک نرگسیت کا شکار تھی جسکا اندازہ بعد میں جا کر ہوا ۔القاعدہ فی العراق جسکو مغربی تجزیہ نگار القاعدہ کی مرکزی قیادت سے الگ طور پر پہچاننے کے لیے "زرقاوسٹ" کا نام دیتے ہیں وہ صحوہ کے بپا ہونے کے بعد اور عراق میں قومی حکومت کے قیام کے اعلان کے قریب ہونے کیوجہ سے یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ کہیں جہاد کا پھل ان سے چھن نہ جائے اور انکی قربانیاں رائیگاں نہ چلی جائیں ۔ پھر انمیں یہ تاثر بھی بہت نمایاں تھا کہ انبار کی حدود تک ایک علاقہ انکے زیر تسلط ہے جہاں پر وہ ایک متوازی نظام قائم کرسکتے ہیں جو کے ایک متحدہ کمان یا امیر کے نیچے کام کرے ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے الدولۃ الاسلامیہ فی العراق کا اعلان کیا ۔ لیکن ہمارے لیے ایک سوال اور ہے کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت کیا اس فیصلے سے بے خبر تھی ،اور اگر باخبر تھی تو اس فیصلے پر اسکا ردعمل کیا تھا ، اور اگر وہ متفق تھی تو پھر نئی اعلان شدہ ریاست کو وہ کن معنی یا مفہوم میں لیتی تھی ؟ یعنی سوالات دو ہیں جن کے جواب ہم ڈھونڈنے کی کوشش کریں گئیں 

کیا القاعدہ کی مرکزی قیادت الدولۃ کے قیام کے فیصلے پر راضی تھی ۔؟

 اس سوال کا جواب ڈھونڈنا کچھ دشوار ہے کیونکہ تجزیہ نگار خود اس امر پر بٹے ہوئے ہیں بعض کے مطابق القاعدہ کی مرکزی قیادت کو اس اعلان کے بارے میں بتایا بھی نہیں گیا تھا اور نہی ان سے کوئی مشورہ کیا گیا تھا ۔اس امر کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ القاعدہ کی الدولۃ کی پہلی آفیشل حمایت اسکے قیام سے ایک سال بعد منظر عام پر آئی اور وہ بھی شیخ ابویحیی اللبی ؒ اور شیخ عطیہ اللہ ؒ کے اصرار پر ۔الدولہ کا موجودہ موقف بھی اسی بات کی تائید کرتا ہے جب کے وہ کہتی ہے کہ ہمارا تنظیم القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ انہوں نے ہماری بیعت کی تھی اسکا مطلب ہے کہ انکا قیام بھی انکی مشاورت کے بغیر ہوا ہے لیکن یہ بات ایک سفید جھوٹ ہے اور تاریخ سے نابلد بندے کو ہی متاثر کرسکتا ہے یہ القاعدہ فی العراق ہی تھی جو کے الدولۃ الاسلامیہ فی العراق میں بدل گئی ۔ مجاہدین شوری کا پہلا نام "الدولۃ الاسلامیہ فی العراق" ہی تھا جس نے تین دن بعد ایک نامعلوم بندے "ابوعمر بغدادی ؒ" کو اپنا امیر مقرر کرلیا اور اسکے چند ہفتوں بعد شیخ ابوحمزہ المہاجر ؒ نے باقاعدہ انکی ہاشمی و قریشی ہونے کی تصدیق کیساتھ انکی بیعت کی ۔یہ بیعت صرف رسمی تھی اصل میں القاعدہ فی العراق ہی الدولۃ میں بدل رہی تھی جسکا ایک نیا امیر تھا یوں یہ ایک نئے امیر کی بیعت تھی نہ کے الگ سے کسی تنظیم یا ریاست کی ! شیخ ابوعمر بغدادی ؒ کو اس سے پہلے دو بندے بھی نہ جانتے تھے ۔
 لیکن میری تحقیق کے مطابق یہ موقف درست نہیں ہے کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت ایک ریاست کے قیام کے فیصلے کو نہیں جانتی تھی یا اسمیں اسکی رضامندی شامل نہ تھی بلکہ وہ اسکی ترغیب دینے والی اور اسکی طرف لوگوں کو دعوت دینے والی تھی ۔آج جو بندہ شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ الدولۃ کے عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں وہی اسکے سب سے بڑے موید تھے ۔ شیخ الزرقاوی ؒ کو 2005 میں لکھے گئے ایک خط میں تاکیدا فرماتے ہیں کہ "یہ سب سے مناسب وقت ہے کہ آپ ایک ریاست کے قیام کا اعلان کردیں "۔ یہ خط راستے میں ہی پکڑاگیا اور القاعدہ فی العراق نے اس خظ کے مستند ہونے کا انکار کیا یہاں تک کے شیخ ابویحیی اللبی اور شیخ عطیہ اللہ کی گواہی انتک پہنچ گئی کہ یہ خط اصلی ہے ۔ یہ الزرقاوی ؒ نے فورا "مجاہدین الشوری" قائم کردی جس نے اپنے قیام کے پانچ ماہ بعد ہی الدولۃ الاسلامیہ کے قیام کا اعلان کردیا گوکے شیخ الزرقاوی ؒ اس اعلان سے پہلے ہی راہ شہادت میں قدم رکھ گئے ۔ہم حالات و واقعات اور مجاہدین رہنماوں کے مسلسل و مصدقہ بیانات کے زریعے اس نتیجے پر بآسانی پہنچ سکتے ہیں کہ الدولۃ کے بنانے کی غلطی میں القاعدہ کی مرکزی قیادت کا نہ صرف مشورہ بلکہ تحریک و رہنمائی بھی شامل تھی ۔ ہم اسے کبھی غلطی کہنے کی جسارت نہ کرتے اگر اسوقت کے مایہ ناز علماء نے اسے غلطی نہ کہا ہوتا اور القاعدہ نے خود اس غلطی سے ان سے اعلان برآت کرکے رجوع نہ کیا ہوتا ۔ لیکن الدولۃ کے آج کے حمایتوں کو یہ علم نہیں ہے کہ جنہیں وہ منہج سے ہٹنے کا طعنہ دیتے ہیں وہی انہیں بنانے والے ہیں ۔ یہاں ہم پھر وہی بات کہیں گئیں "منہج و حکمت عملی" کا فرق ۔ الدولۃ ایک حکمت عملی کے تحت بنائی گئی تھی جو کے بعد میں غلط ثابت ہوئی اور اسکو بدلنا منہج کو بدلنے کے مترادف نہیں ہے لیکن القاعدہ اس بات سے واقف نہ تھی کہ کونسے لوگ اس ریاست کی زمہ داری کو سنبھالے گئیں اور کون اسکے رہنما ہوں گئیں اس ضمن میں ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا بلکہ قیادت کے قیام کے بعد اسکی خبر خراسان میں اعلی قیادت کو دی گئی ۔
اور اس غلطی پر سب سے زیادہ تنقید عراقی جہاد کے سب سے بڑے فکری رہنما "شیخ حامد العلی حفظہ اللہ" کیطرف سے سامنے آئی ۔آج انکا  فتوی اور شیخ ابوبصیر کا فتوی اگر پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دونوں ایک ہی زبان بول رہے ہیں ۔ شیخ حامد العلی نےببانگ دہل کہا کہ "کسی بھی مجہول الحال شخص کی بیعت کی دعوت دینا بالکل حرام ہے جسکو تمکن بھی حاصل نہ ہو اور ابوعمر بغدادی کی بیعت یا اسکو بیعت لینے کا کوئی بھی حق حاصل نہیں ہے اور نہی اسپر اہل حل و عقد کا اجتماع ہے " بلکہ شیخ نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور القاعدہ سے مخاطب ہوکر کہا "آپ کو فورا اس فیصلے سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے اور الدولۃ سے اعلان برآت کردینا چاہیے " شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ اسوقت حالات و واقعات کی درست جانچ نہ کرپائے لیکن مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا اسلیے انہوں نے شام کے معاملے میں علماء کی رائے سامنے آتے ہی الدولۃ سے اعلان برآت میں زیادہ تاخیر نہیں کی ۔گوکے وہ سن 2007 میں اور شیخ اسامہ بن لادن ؒ 2008 میں الدولۃ فی العراق کی حمایت میں کمربستہ رہے ہیں اور اسپر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیتے رہے ہیں ۔اسوقت یہ "الدولۃ الاسلامیہ فی العراق " تھی جسکے امیر شیخ ابوعمر بغدادی تھے نہ کے "الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام" جو کے 2013 میں ۔ ۔معرض وجود میں آئی اور جسکا امیر ابوبکر بغدادی نامی بندہ ہے۔اب ہم دوسرے سوال کی طرف بڑھتے ہیں کہ الدولۃ کا مفہوم یا ریاست کا مفہوم القاعدہ کے ذھن میں کیا تھا ۔

الدولہ کا مفہوم القاعدہ کے ذھن میں کیا تھا ؟ 

۔ اب ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گئیں  کہ الدولۃ کا مفہوم القاعدہ کی مرکزی قیادت کے ذھن میں کیا تھا خوش قسمتی سے ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑتی بلکہ الدولۃ الاسلامیہ فی العراق کے سب سے اہم حامی شیخ عطیہ اللہ ؒ کے ایک انٹرویو کے دوران کیے گئے سوالات اور انکے جوابات سے ہی اس کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔ نیٹ پر کیے گئے ان سوالات کے جوابات میں ۔جو کے زیادہ تر عراق سے متعلقہ ہیں شیخ یوں رقمطراز ہیں۔
 "سب سے پہلے میں اپنے بھایئوں کی توجہ اس امر کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ یہ نام "الدولۃ الاسلامیہ فی العراق" ایک عنوان ہے جو کے اہل سنہ اور مجاہدین کی سیاسی و معاشرتی حثیت کو اسلام کی سرزمینوں پر اجاگر کرتا ہے ۔ہم اس سے صرف نظر نہیں کرسکتے ۔ جب یہ سمجھ آجائے کہ یہ ایک عنوان ہے اور ایک روایتی نام ہے جو کے ہمارے بھائی استعمال کرتے ہیں جو کے اس معاملے کے فیصلہ ساز ہوتے ہیں اور اس امر میں کوئی شک نہیں ہے ۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ کوئی پوچھتا ہے کہ یہی نام کیوں ؟ ہم جوابا کہیں گئیں کہ یہ ہمارے بھایئوں کا اجتہاد ہے ۔لیکن یہی نام کیوں ،یا اسلامی امارات فی العراق کیوں نہیں ؟ دوسرے الفاظ میں وہ اسکو ایک امارات کہہ کر کیوں نہیں پکارتے اسکو ایک ریاست کا نام ہی کیوں دیتے ہیں ؟درحقیقت یہ ایک بہت اچھا سوال ہے لیکن ہمیں اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ یہ ایک "انفرادی اجتہاد" ہے جو کے ہمارے بھایئوں نے مطالعے ،مشورے اور اللہ کے راستے میں ہر ممکنہ کوشش کے بعد اپنایا ہے ۔ میرے مشورے کے مطابق "اسکا کوئی اور نام رکھنا بہتر تھا "ہر کوئی اپنی رائے میں آزاد ہے یہاں تک کے اسکی رائے فساد نہ پیدا کردے تب اسے ایسا کرنے سے روک دینا چاہیے ۔ ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ ہمارے بھائی ہم سے زیادہ وہاں کے زمینی حقائق سے آگاہ ہیں اور ہمیں انکے اجتہاد کا احترام کرنا چاہیے یہانتکے وہ قطعی طور پر دین کے مخالف نہ ہوجائے ۔یہ صرف لفظی اختلاف ہے جو کے ان شاءاللہ کسی نقصان کا سبب نہ بنے گا ۔اگرچہ "امارات" کی اصطلاح انکے نزدیک جو کے اسکو "الدولہ" کی اصطلاح پر ترجیح دیتے ہیں ،بھی اپنے حق میں دلائل رکھتی ہے لیکن شائد ہمارے بھایئوں نے یہ محسوس کیا کہ "الدولۃ" کی اصطلاح انکی معاشرت و موجودہ سیاسی شعور سے جو عراق و علاقے میں پائی جاتی ہے زیادہ میل کھاتا ہے یا اسکی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے سیاسی طور پر زیادہ موثر ہونے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہو ،جسکی حکمت ہم پر دور ہونے کی وجہ سے نہیں کھل سکتی ۔معاملہ جو بھی ہو جیسا کے میں پہلے بھی کہہ چکا کہ ہمیں اسے صرف ایک لقب کے طور پر لینا چاہیے اور اسکے مطالب و معنی پر غور کرتے رہنا چاہیے اور جس مفہوم میں ہم یہ لفظ استعمال کرتے ہیں اسکا دھیان رکھنا چاہیے ،اور زاتی اجتہاد کی گنجائش ہمیشہ ہوتی ہے ۔ یہی معاملہ لفظ "امیرالمومنین" کے استعمال کا ہے ۔ اسکا مطلب ہوتا ہے ""ریاست کا کماندار و سربراہ" یہ کسی خطے یا ریاست کا سربراہ ہوتا ہے ۔اس اصطلاح کا استعمال بھی اجتہادی معاملہ ہےجیسے کے ہم پہلے بھی بیان کرچکے "
کیا امیرالمومنین کا لازمی مطلب خلیفہ المسلمین ہے ؟ شیخ عطیہ اللہ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہیں اور الدولۃ کے اس تصور کی جڑ کو کاٹ کررکھ دیتے ہیں کہ القاعدہ کبھی بھی الدولۃ کے سربراہ کو خلیفہ المسلمین کے روپ میں لیتی تھی ،رقمطراز ہیں ۔
 "اس لفظ (امیرالمومنین) کو استعمال کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ وہ خلیفہ المسلمین ہے جس کی بیعت عامہ دعوت دی جائے یا وہ اس بات پر قادر مان لیا جائے کہ امت کے فیصلے کرسکے یا "تمام اسلامی سرزمینوں پر اسکی حاکمیت تسلیم کرلی جائےبعنیہ انہی معنی میں جو کے خلیفہ المسلمین کا استحقاق ہے۔ بلکہ یہاں اس اصطلاح کا استعمال ایک ریاست کے سربراہ کے طور پر ہے "۔ شیخ عطیہ اللہ پھر اس اصطلاح کے استعمال پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں ۔ "،کوئی کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ بھی ان دونوں اصطلاحات "امارات" و "الدولۃ"کے ضمن میں کہا گیا ہے شائد اسی وجہ سے ہمارے بھایئوں نے لفظ "الدولۃ" کو ترجیح دی ہے ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے جو کے ہم سے دور ہونے کی وجہ سے اوجھل ہیں ۔ لیکن میری اپنی رائے یہی ہے کہ ان اصطلاحات کے استعمال سے زیادہ مناسب کوئی دوسری ترجیح ہے اور میں نے اپنی اس رائے کا اظہار "امیرالمومنین ملاعمر حفظہ اللہ" کے ضمن میں بھی کیا تھا کہ انہیں "امیرالمومنین " کے بجائے صرف "امیر" کے نام سے پکارنا زیادہ مناسب ہے تاکہ معاملے میں لفظی مشابہت کیوجہ سے جو اشتباہ پیدا ہوتا ہے وہ نہ رہے اور یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ صرف "اسی ریاست(افغانستان) کے امیر ہیں ۔کیونکہ کسی کو بھی "امیرالمومنین" کہہ کر پکارنے سے یہ اشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ شائد اس سے مراد "خلیفہ المسلمین" ہے کیونکہ یہ اصطلاح حضرت عمر کے زمانے سے خلیفہ کے لیے استعمال ہوتی ہے ،اور اس شبے کو مزید تقویت اسوقت حاصل ہوجاتی ہے جب کے اسکا دعوی کرنے والا حسینی و قریشی بھی ہو "۔ شیخ عطیہ اللہ ؒ مزید وضاحت فرماتے ہیں "تو نتیجہ یہ نکلا کہ "الدولۃ الاسلامیہ فی العراق" اس خطے میں مسلمانوں کی ایک ریاست ہے اور ایسا کہنے سے میرا مطلب یہ ہے کہ موجودہ طور پر عراقی علاقوں میں اور پھر اگر اسکا پھیلاو متعلقہ خطوں تک ممکن ہو ۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ وہ "عظیم خلافت اسلام" ہے جیسا کے کوئی بھی اندازہ کرسکتا ہے اور اسی ریاست کا سربراہ "امیرالمومنین" ہے
 یوں شیخ عطیہ اللہ ؒ اس چیز کی مکمل وضاحت فرمادیتے ہیں کہ الدولۃ کا مفہوم القاعدہ کے ذھن میں کیا تھا اور کس حوالے سے الدولۃ فی العراق کی حمایت کرتی رہی ۔ شیخ ایمن ہوں یا شیخ اسامہ بن لادن ؒ ، شیخ عطیہ اللہ ہوں یا شیخ ابویحیی اللبی ؒ ان سب کی الدولۃ کی حمایت و اس سے متعلقہ بیانات اسی تناظر میں دیکھے جانے چاہیں کہ جیسے وہ امارات اسلامیہ افغانستان کی حمایت کرتے ہیں لیکن اسے خلافت اسلامیہ نہیں سمجھتے ویسے ہی وہ الدولۃ کی حمایت کرتے رہے ہیں نہ کے اسکے سربراہ کو خلیفہ المسلمین جانکر ۔ اور یہ ہمارے پہلے اصول کے مطابق بیانات کو انکے درست تناظر میں رکھنا ہے۔  اسی لفظ کے مفہوم کے بارے میں شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ اپنے 2007 کے  انٹرویو السحاب کیساتھ تیسری نشست میں اشارہ فرماتے ہیں جسمیں وہ بالصراحت الدولۃ الاسلامیہ فی العراق کو "امارات اسلامیہ مجاہدین" کہہ کر پکارتے ہیں اور اسی انٹرویو میں بالصراحت ابوعمر بغدادیؒ کو "فوجی کماندار" کہہ کر پکارتے ہیں ۔ جو لوگ کورچشم ہیں انکے لے شائد یہ الفاظ اہمیت نہ رکھتے ہوں لیکن جن کو عقل کی آنکھ عطاہوئی وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ان الفاظ کے استعمال سے کونسا پیغام پہنچایا گیا ہے !

القاعدہ کا خلافت کے متعلق منہج کیا ہے ؟

 اس سوال کا جواب القاعدہ خود ہی دیتی ہے جو کے اسکے الدولۃ سے اعلان برآت کے اعلان میں بالکل واضح ہے۔
 " ہمیں چاہیے کہ ہم اِس امت کا حصہ بننے کے حریص بنیں،اِس کے حق پر قابض نہ ہوں ۔ یہ امت کا حق ہے کہ جس میں حکمران بننے کی شرعی شرائط پائی جائیں ، اُسے اپنے اپنے لیے حکمران منتخب کرے،اور ہم علمائے جہاد، قیادتِ جہاد ، مجاہدین اور عام مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر سلطنتیں اور حکومتیں بنانے ،اُنہیں لوگوں پر مسلط کرنے ، اور جو اسے نہ مانے ، اُسے خارجی تصور کرنے میں جلدی نہ کریں ۔"۔ 
یعنی القاعدہ خلافت کی موید ہے لیکن کسی شخص کے خلیفہ ہونے کی موید نہیں ۔ یہ امر بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور خلافت کے داعی ہونے میں اور کسی خاص شخص کے خلیفہ ہونے کے داعی ہونے میں فرق کرنا چاہیے ۔ کسی شخص کا خلیفہ ہونا امت کے اجماع کے بغیر ممکن نہیں ہے اور موجودہ صورتحال میں کسی شخص کو خلیفہ مقرر کرکے اسے امت کے سر پر بزور طاقت مسلط کرنا یا ایک جگہ کے اہل حل و عقد کے اجتماع کو پوری امت پر حجت سمجھنا یہ القاعدہ کا منہج نہیں بلکہ اسپر الزام اور اسکی پالیسی کو درست طور پر نہ سمجھنے کیوجہ سے ہے ۔اور نہی اس نے دنیا بھر میں کسی بھی جہادی مجموعے کے سربراہ کی خلافت کی کبھی دعوت دی ہے ۔

 القاعدہ خلافت کو کیسے بپا کرنا چاہتی ہے ؟

 القاعدہ کا خلافت بپا کرنے کا فارمولہ سیدھا سادا ہے ، وہ دنیا کے مختلف خطوں میں "اسلامی امارتیں" بپا کرنی چاہتی ہے جو کے کسی بھی قسم کے مغربی یا بیرونی تسلط میں نہ ہوں اور صرف اور صرف قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا راستہ وضع کریں اور یہ قیادتیں مقامی لوگوں پر مشتمل ہوں اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے عراق میں شیخ ابوعمربغدادی ؒ کی بیعت کی گئی تھی اور القاعدہ فی العراق کو الدولۃ الاسلامیہ فی العراق میں بدلہ گیا تھا 

!الدولۃ فی العراق کا تکفیری رحجان 

یہ موضوع بہت اہمیت کا حامل ہے اور درحقیقت اسپر الگ سے ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے لیکن یہاں طوالت سے بچنے کے لیے ہم چند اشارات پر ہی اکتفاکریں گئیں ۔
شیخ الزرقاویؒ کے دور تک یہ تکفیر صرف ان گروہوں و مملکتوں کی حد تک محدود تھی جن کی تکفیر سے القاعدہ کو بھی کوئی اصولی اختلاف نہ تھا ،لیکن ہر ایک سے لڑنے پر ضرور تحفطات تھے ،مثلا شیعہ سے لڑنے پر تحفظات ، عراق سے ملحقہ علاقوں جیسے اردن ، سعودیہ وغیرہ میں اندھا دھند بم دھماکے جو کے القاعدہ کی پالیسی کا حصہ نہیں رہے ہیں ،لیکن شیخ الزرقاوی نے یہ فیصلے خود ہی لیے اور القاعدہ کی لیڈرشپ نے اسپر اصلاح کی کوشش بھی کی جسکا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا ان عوامل کا زکر ہم اوپر کرچکے ہیں شیخ الزرقاوی کے دور تک یہ مسئلہ منہج سے زیادہ حکمت عملی کا تھا ۔لیکن شیخ ابوحمزہ المہاجرؒ کے دور میں ہم غیر شرعی تکفیر کی واضح نشانیاں دیکھ سکتے ہیں ۔اور یہ الزامات کسی اور کی جانب سے نہیں بلکہ الدولۃ کے اپنے قاضی "شیخ سیلمان العتیبی" کی جانب سے سامنے آئے جن میں شیخ حمزہ کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا ۔ سیلمان العتیبی کو الدولہ نے شرعی قاضی کے عہدے سے معزول کردیا تھا اور وہ خطہ خراسان میں اعلی قیادت کے پاس پہنچنے میں کامیاب رہے تھے۔یہیں پر 2008 میں ایک ڈرون حملے میں انکی شہادت ہوئی ۔اعلی جہادی قیادت کی طرف سے لکھے گئے کچھ خطوط جو کے امریکی افواج کے ہاتھ آئے اور انہوں نے اسے پبلک کردیا ان الزامات کی کہانی بیان کرتے ہیں 
ا۔ابوحمزہ المہاجر ، امام مہدی کے آنے کے جذبے سے بہت سرشار تھے اور مکمل یقین رکھتے تھے کہ یہ انہی کا زمانہ ہے اور الدولۃ کے امیر کو کسی حد تک اسکی نشانیوں میں سے سمجھتے تھے ۔یہ ذھنیت الدولۃ میں آجتک عام دیکھی جاسکتی ہے بلکہ انکے کچھ لوگ الدولۃ کے امیر کو ہی امام مہدی سمجھتے ہیں 
 ب۔ ابوحمزہ المہاجر القاعدہ کے لوگوں سے کٹ چکے تھے  اور اہم فیصلوں کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔(اس آرٹیکل کی تیاری کے دوران میری کی گئی تحقیق اس بات کی تائید کرتی ہے کہ ابوحمزہ المہاجر قائدانہ صلاحیات کے مالک نہ تھے ،)۔ 
ج۔الدولۃ کے اندر ایسے بندوں کی کثرت ہوچکی تھی جو کے القاعدہ سے مکمل انحراف کرتے تھے اور اسکو رہنما تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے یہ لوگ انتہا درجے کے بدعنوان و ظالم تھے جیسے کے نائب امیرالدولہ ابوعبدالرحمان الفلاحی ،اور محارب جبوری وغیرہ۔
د۔ الدولۃ اپنی کاروایئوں کی جھوٹی ویڈیوز جاری کرتی تھی اور اسکے لیے پرانی کاروایئوں کو نئے لیبل کیساتھ پیش کیا جاتا تھا جسمیں دوسری جہادی تنظمیوں کی کاروایئاں بھی اپنی نام سے جاری کی جاتیں تھیں ۔اسکے علاوہ ابوحمزہ المہاجر اپنے اخلاص کے باوجود ان مشکلات سے نبٹنے کی نہ طاقت رکھتے ہیں نہ صلاحیت ۔
اسی طرح الدولہ کے اولین رہنماوں ابوعمربغدادیؒ کی ابتدائی تقاریر کا مطالعہ کریں تو ہم بآسانی یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ بنیادی توحید کے علاوہ وہ کئی غیر ضروری باتوں پر بھی تکفیر کرتے تھے ،انہوں نے عراق کے سارے عیسایئوں کا خون مباح کردیا تھا اور عید الضحی پر قربانی کی طاقت نہ ہونے کی صورت میں کسی ایسے شخص کی قربانی کرنے کا حکم دیتے تھے جو کے جمہوریت میں حصہ لیتا ہو !۔
الدولۃ کے بنتے ہی نہ القاعدہ کی اور نہی الدولۃ کی یہ خواہش پوری ہوئی کہ عراق کی ساری تنظمیں اسکی بیعت کرلیں گئیں اور ایک جھنڈے تلے اکھٹی ہوجائیں گئیں بلکہ عراق کی سب سے مضبوط سلفی تنظیم "انصار الاسلام " جو کے "انصار السنہ" کے نام سے بھی مشہور ہے اور القاعدہ کی قابل اعتماد ترین جماعتوں میں شامل تھی اس نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی اور بے شمار اصرار کے باوجود انکی بیعت نہیں کی ۔یوں آہستہ آہستہ اپنی یہ بے قدری دیکھ کر انکی غصہ ان جماعتوں کی طرف بھی منتقل ہوتا چلا گیا اور تکفیر دین سے ہٹ کر ریاست کے مسئلے پر بھی ہوئی ۔آج ہم جیش الاسلام کے الزامات کی فہرست  دیکھیں جو کے اس نے الدولۃ پر لگائے تھے یا الدولۃ کے الزامات کو پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شام میں جو کچھ ہورہا ہے وہ عراق کا ری پلے ہو ۔ وہی الزامات ، وہی طریق کار ، وہی تکفیر ،وہی تصاویرو بیانات پر ،ظن پر فتوی بازی ! ہمیں یہاں اس بحث میں نہیں جانا کہ کون غلط تھا کون درست ۔ہمیں مماثلث سے غرض ہے اور نہی ہم دونوں اطراف کو معصوم سمجھتے ہیں ۔لیکن انہیں باتوں پر زیادہ زور نے جہاد عراق کو اس کے اصل راستے سے روک دیا اور بین المجاہدین لڑائی شروع کروادی یوں جو بندوق امریکہ کی طرف اٹھی تھی وہ اپنوں کی طرف ہوگئی اور دشمن نے اسی موقعے سے فائدہ اٹھا کر عراق پر اپنا قبضہ مضبوط کرلیا اور جہاد کو عوامی حمایت حاصل نہ رہی ! کیا خیال ہے کہ اگر انہی غلطیوں کو شام کی سرزمین پر دوہرایا جائے اور اس مجنونانہ تکفیری ذھنیت کا سہارا لیکر جہاد کو جاری رکھا جائے ؟ کیا بشار کے لیے اس سے بڑی بھی نعمت کوئی اور ہوسکتی ہے !۔ بلاشبہ القاعدہ نے عراق سے بہت کچھ سیکھا ہے اور الدولہ نے کچھ نہیں سیکھا ۔
بہرحال ابوحمزہ المہاجرؒ کو شیخ عمربغدادیؒ کو القاعدہ کی حمایت ہمیشہ حاصل رہی کیونکہ وہ انہی کا پروجیکٹ تھے یہ اور بات ہے کہ جن بندوں کے ہاتھ میں یہ پروجیکٹ دیا گیا وہ اسکو درست طور پر نہ چلا سکے لیکن وہ بالمجموع اطاعت سے باہر نہیں نکلے ۔وہ القاعدہ کی آنکھیں و کان تھے جس سے وہ عراقی جہاد کو دیکھتے تھے اور انہیں اس کمی کا شدید احساس تھا ۔ شیخ ایمن الظواہریؒ الدولۃ پر لگائے گئے الزامات کے جواب میں  السحاب کیساتھ چھوتھی نشستنامی انٹرویو میں کہتے ہیں 
ادراہ السحاب : معزز شیخ کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ الدولۃ الاسلامیہ العراق ہی اس باہمی جھگڑے کی زمہ دار ہے اور اسی نے معصوم لوگوں کا خون بہایا ہے ؟۔
شیخ ایمن :یہ ایک الزام ہے اور الزام کے لیے ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے اور الدولۃ کسی بھی الزام کا جواب دینے کے لیے تیار ہے ۔
ادارہ السحاب : تو کیا آپ الدولۃ کو ہر قسم کے الزام سے بری قرار دیتے ہیں ؟
شیخ ایمن:میں فریقین میں سے کسی کو بھی مجرم یا معصوم قرار دینے کے قابل نہیں ہوں کیونکہ میں نے دونوں اطراف کو خود نہیں سنا ہے ۔لیکن میں اس بات کا اعلان ضرور کرتا ہوں کہ الدولہ ایک ایسا عقیدہ رکھتی ہے جو کے کسی معصوم کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا ۔۔۔۔۔۔۔
یعنی القاعدہ کی عراقی جہاد کے متعلق معلومات کا انحصار الدولہ پر ہی تھا جسکو وہ صحوہ فرمادیتے انکے پاس کوئی معقول وجہ نہ ہوتی اسکو صحوہ نہ سمجھنے کی گوکے انصار السنہ جیسی مخلص جماعت الدولۃ کے طرزعمل سے شدید اختلاف رکھتی تھی ۔شیخ ابوحمزہ و شیخ ابوعمر 2010 میں ایک حملے میں شہید ہوگئے آخری وقت میں یہ معاملات کو کافی حد تک سدھار چکے تھے اور آخری عراقی الیکشنز میں عامۃ الناس میں کیے گئے حملوں کی تعداد زیرو تھی کیونکہ عراقی قیادت کی طرف سے یہ آرڈر جاری کیا جاچکا تھا کہ عراقی الیکشنز پر حملہ نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی کو بزور قوت ووٹ ڈالنے سے  روکا جائے بلکہ افہام و تفہیم سے کام لیا جائے ، یوں ان دونوں کی آخری عہد کی پالیساں القاعدہ کی پالیسز سے میل کھاتیں تھیں ۔لیکن انکی شہادت کے ساتھ ہی القاعدہ کی عراقی قیادت کا خاتمہ ہوگیا اور انکی شہادت کی صورت میں قیادت ایک ایسے بندےکے ہاتھوں میں آگئی جسکو القاعدہ کی قیادت زرا بھی نہیں جانتی تھی اور شیخ اسامہ ؒ نے شیخ عطیہ اللہ کو باقاعدہ ہدایت جاری کی کہ وہ نئے لیڈر ابوبکر بغدادی کے بارے میں معلومات فراہم کریں ۔ 
ابوبکر بغدادی پہلا بندہ تھا جس نے شیخ اسامہؒ کی شہادت کے بعد شیخ ایمن الظواہری کی بیعت کی ,لیکن اس نے الدولۃ کے طریق کار کو پھر انہی لائنوں پر استوار کیا جو کے القاعدہ کے طریق کار سے میل نہیں کھاتے تھے اس کے دور میں انصار الاسلام جیسی جماعت بھی اسکے شر سے محفوظ نہیں رہی۔ 
(جاری ہے )