جمعہ، 22 نومبر، 2013

لشکر شام ۔ جبھۃ الاسلامیہ ۔ خصوصی رپورٹ از وردۃ الاسلام




 شام میں برسرپیکار 6 بڑےو نمایاں مجاہد گروہوں نے بشار سے لڑنے و اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے ایک نئے اتحاد جبھۃ الاسلامیہ کی تشکیل دی ہے جو کہ ساٹھ سے ستر ہزار تک جنگجووں پر مشتمل ہے
 بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس اتحاد کا اعلان 22 نومبر 2012 بروز جمعے کو کیا گیا مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ موجودہ تاریخ میں کسی بھی ملک میں تشکیل دیئے جانے والا سب سے بڑا اسلامی لشکر ہے اسمیں شامل گروہوں میں مندرجہ ذیل بڑے گروہ ہیں
 لواء التوحید
 شام میں لڑنے والے بڑے جہادی گروہوں میں سے ایک۔ اس کے لیڈر عبدالقادر صالح تھے جو کہ چند دن پیشتر ہی شامی فوجوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے ۔جبھۃ الاسلامیہ کی تشکیل کے وقت اس کو ان کے نام سے ہی منسوب کیا گیا۔
 حرکہ احرار الشام الاسلامیہ۔
 مقامی شامی سلفی گروہوں میں سے سب سے زیادہ مضبوط ۔ احرارالشام اپنی دلیری و مہارت کے لیے مشہور ہے اور کئی مشہور معرکوں میں حصہ لے چکا ہے۔ احرار الشام کو القاعدہ ہی کی طرح کا گروہ خیال کیا جاتا ہے گو کہ اس نے کبھی القاعدہ سے وابستگی کا اعلان نہیں کیا ۔ اس کے سربراہ عبداللہ الحموی ہیں
جیش الاسلام
 ستمبر 2013 میں کئی مجاہد تنظیموں کو ملا کر اسلام بریگیڈ کے سربراہ ظہران العوش کی قیادت میں ایک لشکر کی تشکیل ہوئی جس کو جیش الاسلام کا نام دیا گیا۔ اس گروہ کے متعلق سعودیہ نواز ہونے کا گمان ہے گو کہ اس کی اعلی قیادت اس کا انکار کرتی ہے اور میدان جنگ میں القاعدہ سے منسلکہ تنظیموں کے ساتھ بھی تعاون کرتی ہے۔ جیش الاسلام اب جبھۃ الاسلامیہ میں ضم ہوچکاہے ۔
 صقور الشام
 شیخ احمد ابو عیسی کی زیرقیادت لڑنے والا یہ گروہ اپنی بہادری و جرآت کی وجہ سے ایک ممتاز حثیت رکھتا ہے ۔سلفی العقیدہ شیخ احمد ابو عیسی اور ان کا خاندان بشاری اقتدار کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ موجودہ صدر بشار اور اس کے باپ حافظ الاسد کے دور میں شیخ احمد ابو عیسی کے کئی قریبی رشتے داروں کو ماردیا گیا ۔ یہ گروہ اب جبھۃ الاسلامیہ کا حصہ ہوگا لواء الحق سلفیوں کی زیر قیادت لڑنے والا یہ گروہ حمص و گردونواح میں اپنی جانباز کاروایئوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
  انصار الشام
 یہ شمالی الاذقیہ اور ادلب میں کاروایئاں کرتا ہے اور اس کا شمار بڑے جنگجو گروہوں میں ہوتا ہے
 کرد اسلامک فرنٹ۔
 اس کا شمار بڑے گروہوں میں نہیں ہے لیکن اس کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ یہ اپنے ہی ہم وطن کردوں سے جو کہ بشار کا ساتھ دیتے ہیں مذہب کی وجہ سے برسرپیکار ہے۔
  شیخ احمد عیسیٰ کو مجلس شوریٰ کا صدر متعین کیا گیا جو کہ صقور الشام نامی لشکر کے امیر ہیں۔ احمد زیدان امیر لواء التوحید نائب صدر مقرر ہوئے ہیں عسکری شعبہ کے صدر زھران علوش ہیں جو کہ جیش الاسلامی کے سربراہ ہیں سیاسی شعبہ کے سربراہ حسان عبود ہیں جو احرار الشام کے قائد ہیں جبھہ کے عام سربراہ لوائ الحق نامی لشکر سے ابو راتب حمصی ہیں حرکۃ احرار الشام سے ابو العباس جبھہ کے شرعی معاملات کے مسئول ہیں۔ ۔شیخ احمد عیسی نے جبھہ کی تعریف کرتے ہوے فرمایا:یہ ایک سیاسی عسکری اور معاشرت تشکیل ہے جس کا مقصد شام میں بشار لاسد کے ظالم نظام کاخاتمہ اور اسلامی مملکت کا قیام ہے جس میں کبریائی اللہ اکیلے کو حاصل ہو گی وہی ایک فرد،معاشرہ اور حکومت کے معاملات میں اکیلا مرجع اور حاکم ہو گا۔
جبھتہ االاسلامیہ کی مجلس شوریٰ کے صدر (شیخ احمد عیسیٰ) کا کہنا ہے ::اس اتحاد کا قیام شیخ عبدالقادر صالح کے خواب کو پورا کرتا ہے جو کہ شام میں مسلمان جنگجووں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور مزید یہ کہ اس تشکیل کردہ تحریک سے سوری نظام کا مکمل نعم البدل حاصل ہو جائے گا ۔شیخ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جبھہ اسلامیہ ان تمام دستوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی جو شام میں انقلاب کے لیے کام کر رہے ہیں وہ کسی سے ٹکراو نہیں کرے گی۔ تمام جہادی اور عسکری قوتوں کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ اتحاد کا یہ عمل لواء التوحید کے قائد عبدالقادر صالح کی شہادت کے ایک ہفتے بعد وجود میں اآیا۔عبدالقادر رحمہ اللہ 17۔11۔2013 کو شہید ہوئے اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے۔
 مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ امر باعث حیرت ہے کہ القاعدہ سے منسلکہ دو بڑے گروہ جبھۃ النصرہ و دولۃ الاسلامیہ العراق و الشام اس میں شامل نہیں ہیں اور وہ اس پر مختلف قیاس آریئوں کو جنم دے رہے ہیں ۔ لیکن مجاہد تنظیموں پر گہری نظر رکھنے والا اور جہاد کی سمجھ رکھنے والا تجزیہ کار اس امر سے بے خبر نہیں ہے کہ ان گروہوں کو اعلانیہ طور پر کسی بھی اتحاد سے باہر رکھنا ایک حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں ان گروہوں کی اپنی رضامندی بھی شامل ہے ،وگرنہ میدان جنگ میں یہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں بلکہ جبھۃ النصرہ و الدولۃ ان کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں

بدھ، 13 نومبر، 2013

متفرقات !




  رافضی و صوفی سیکولرز !


 ایک گھر میں چور گھس آیا۔ پاوں کی ٹھوکر سے ایک برتن زمین پر گر پڑا جس کی وجہ سے اہل خانہ کی آنکھ کھل گئی ، چور کی جان پر بن گئی ، بھاگ نکلنے کا کوئی مناسب راستہ نہ تھا ، بھاگ کر اہل خانہ کے سربراہ کی چارپائی کے نیچے ہی چھپ گیا۔ اہل خانہ نے چور چور کا شور مچا دیا ، اہل محلہ اکھٹے ہوئے، اسلحہ اکھٹا کیا گیا ، ٹھیکری پہرے کا انتطام ہونے لگا ، گھر کی چیزوں کو اچھی طرح چیک کیا گیا کہ کچھ کم تو نہیں ہے ۔ پولیس کو خبر دی گئی ، کھرا تلاش کرنے کے لیے کھوجی بھی بلا لیا گیا ۔ چور صاحب چارپائی کے نیچے چھپ کر سب کچھ خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہے ، کسی کا دھیان نہیں گیا کہ چور ادھر بھی چھپ سکتا ہے ، جیسے کہ ہنگامہ ٹھنڈا ہوا ، اہل خانہ سکون کی تان کر پھر سو گئے ، چور صاحب دوبارہ نکلے ،سارا سامان سمیٹا اور یہ جا تو وہ جا !! یہ رافضی و صوفی سیکولرز بھی اسی قسم کے چور ہیں جو کہ چپکے سے چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے ہیں ہم ہر طرف چورچور کا شور مچارہے ہیں اور اپنی چارپائی کے نیچے نظر ڈال کر نہیں دیکھتے ۔!! یہ رافضی سیکولر ہے جو کہ ناستک یا دہریہ ہونے کا دعوی کرتا ہے ۔ یاد رہے کہ دعوی اس کے جدید آئمہ بھی تقیہ کا پردہ اوڑھے کرتے رہے ہیں کمیونسٹ انقلاب سے ان کو بہت ہمدردی رہی ہے ، ہوسکتا ہے کہ آپ کو ان کی تحریروں یا تقریروں میں اللہ کا انکار بھی ملے ، حدیث کا انکار بھی ملے ، یہ اسلامی نظام حکومت کا مذاق اڑاتے بھی نظر آئیں ، جہاد کو فساد بھی قرار دے رہے ہوں ، اسلامی تعلیمات کے بھی منکر ہوں ۔ لیکن زرا کسی بھی "عباس ، نقوی ، رضوی ، ہاشمی ، حسینی کا لاحقہ لگے ایسے سیکولر کا پردہ چاک کرنا ہو تو کلیہ آسان ہے ۔ خمینی کو دو تین گالیوں سے نواز دیجیے ، بارہوین امام غائب کی شان میں کچھ کلمات ارشاد فرمادیجیے ، واقعہ کربلا کو زرا زیر تنقید لے آیئے ۔ اغلب امکان یہی ہے کہ سیکولرازم کے پردے پیچھے سے رفض کا گھناونا چہرہ نمودار ہوگا !!! دوسروں کا داو اس بھی خطرناک ہے ۔ نہ اللہ کا انکار ، نہ رسول کا ، نہ قرآن کا نہ حدیث کا ، لیکن جو کچھ بھی یہ آپ کو دینے والے ہیں وہ صرف اور صرف "یہی نہیں ہے" بلکہ "سب کچھ" ہے ۔ قرآن کے ساتھ بائبل بھی پڑھ لیں ، نماز کے ساتھ قوالی بھی سن لیں ، غامدی کی تردید کردیں اور احمد رضا بریلوی کے قریب کردیں ، جہاد ہر گز نہ کریں بلکہ خدمت خلق کریں ، اللہ کے وجود کا انکار کس نے کہا !! یہ تو صرف کہتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ ساتھ بھگوان ، غوث ، مشکل کشا ، حاجت روا کو بھی مان لو !! سب کو ان کے حال پر چھوڑ دو ۔ جو نہیں مانتا وہ بھی ٹھیک جو مانتا ہے وہ بھی ٹھیک ! کسی کا مذہب چھیڑو نہیں اپنا چھوڑو نہیں !! قتال فتنہ و فساد ہے صوفیا کی تعلیمات تو امن پھیلانا ہے ، عالمگیر امن !! چارپائی کے نیچے بھی جھانک لیں چور یہیں چھپا ہوا ہے !!


اندھے نہیں بینا !



جن لوگوں کی بینائی کسی بھی وجہ سے خراب ہو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نظر کی خرابی دو طرح کی ہے ، دور کی اور نزدیک کی ! 
جس کی دور کی نظر خراب ہے ضروری نہیں کہ اس کی قریب کی بھی خراب ہو ، اور جس کی قریب کی خراب ہو ضروری نہیں کہ اس کی دور کی بھی خراب ہو ۔ دونوں نظریں خراب ہونا بھی عام بات ہے ۔ لیکن جس کی دور کی خراب ہوگی وہ دور کا چشمہ یا کنیٹکٹ لینز استعمال کرے گا اور جس کی قریب کی خراب ہوگی وہ قریب کا چشمہ یا کنیٹکٹ لینز استعمال کرے گا ۔ عینک دونوں صورتوں میں لگنی ہے چاہے قریب کی لگے چاہے دور کی !
ہمارے بیشتر علماء یا دوستوں کا مسئلہ بھی یہی ہے ، یہ ایک عالم ہیں یا فلسفی ہیں یا غوروفکر کرنے والے رقیق القلب انسان ہیں ، کافی پڑھے لکھے بھی ہیں مدلل قسم کی چیزیں بھی سامنے لاتے ہیں "جمہوریت ، سیکولرازم ، ہیومن ازم ، گلوبل ازم" جیسے مشکل و دقت طلب مسائل کے کفر کو بہت اچھی طرح سمجھتے و جانتے ہیں ، ان کی نظر اتنی "دوررس" ہے کہ اچھی طرح سمجھتے و جانتے ہیں کہ ان مظاہر سے اسلام کو کس قدر خطرہ لاحق ہے ۔ لیکن عین اپنی ناک کے نیچے والے کفر کو دیکھنے کے روادار نہیں ! عرس ، مزار ، غیر اللہ کی پکار ، چادر پوشیاں ، فتنہ تصوف ، وحدۃ الوجود و شہود ، عالم سکر و صحو ، گھڑی ہوئی کرامتیں ، رومی رقص و وجدان انہیں نظر نہیں آتا ! اور اگر انہیں کہا جائے کہ بھائی آپ کی قریب کی نظر کمزور لگتی ہے زرا توحید کی عینک لگا کر یہ عین ناک کے نیچے ہونے والے کفر پر بھی توجہ کیجیے تو غالب امکان یہی ہے کہ آپ کو فرقہ پرستی یا کم علمی کا الزام لگا کر مسترد کردیا جائے !!
یہ دوسرے صاحب ہیں !! ماشاءاللہ وثنی شرک کے تو بخیے ادھیڑ دیتے ہیں ، کیا مجال ہے کہ وثنی شرک کا کوئی مظہر ان کی آنکھوں سے بچ کر جائے ۔ توحید کے معاملے میں اتنے پختہ ہیں کہ کوئی بھی ہستی ان کی تلوار کی دھار سے بچ نہیں سکتی ، رسول اللہ کے مقابلے میں کوئی اور بات لے لیں ہرگز نہیں ! یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔ قبروں ، قبوں ، عرسوں ، مجالسوں ، میلادوں ، کے رد کا جتنا زور آپ کو ان کے ہاں ملے گا شائد ہی ایسے مدلل دلائل کہیں اور دستیاب ہوں ۔ لیکن ان کی "دور کی نظر" کمزور ہے ۔ مدرسہ بچانے کے لیے عین ممکن ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کا جھنڈا اٹھائے نظر آئیں ، یا کچھ "جماعتی مجبوریوں" کی وجہ سے جمہوریت کو ہی عین اسلام قرار دے رہے ہوں ۔ یا حکومت وقت کی غیر مشروط حمایت ہی انہیں عین حق نظر آرہی ہو ۔ اور اگر کوئی دوست ہمدردانہ لہجے میں انہیں درخواست کرے کہ حضور دور کی نظر کمزور لگتی ہے چشمہ لگا لیجیے تو تکفیری یا خارجی کا فتوی تو کہیں بھی نہیں گیا !!
امت کو ان اندھوں کی نہیں بیناوں کی ضرورت ہے


رافضی فتنہ ! توہین رسالت کے موضوع پر لکھی گئی ایک تحریر ۔سمبتر 15۔2012

شائد مستقبل کا مورخ اس بات کو لکھے کہ جب پوری دنیا میں مسلمان حرمت رسول کے لیے کٹ مر رھے تھے عین اسی وقت "رافضی فتنہ لبنان میں پوپ کی تصویریں اٹھائے سڑک کے دونوں طرف ہزاروں کی تعداد میں کھڑا اس کا استقبال کررھا تھا"


حضرت شماس رضی اللہ تعالی عنہ کی حب رسولؐ۔


یہ شماس رضی اللہ تعالی عنہ ہیں،غزوہ احد کا میدان گرم ہے کفار اللہ کے رسول پر حملہ آور ہوتے ہیں ، شماس اکیلے کفار کا غلبہ ، مقصد اللہ کے رسول کا تحفظ،تلواروں اور تیروں کو اپنے ہاتھ ،سینے اور چہرے پر روکتے ہیں ، زبان حق سے یہ نعرہ حق بلند ہورہا ہے
اے اللہ کے رسول
پہلے میرا چہرہ ،پھر آپ کا چہرہ
پہلے میرا ہاتھ ،پھر آپ کا ہاتھ
پہلے میرا سینہ ،پھر آپ کا سینہ

سمتبر 21۔2012

اصل دشمن!

توہین رسالت کے تناظر میں ایک تحریر
شام ہورہی ہے ،احتجاجی مظاہرے رفتہ رفتہ تھک کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں گئیں بڑی امید ہے کہ "کچھ سکالرین" آج ہی میڈیائی سانپ پر بیٹھ کر ان ہنگاموں کے خلاف ایک اونچی راگنی چھیڑیں گئیں اور کل سے ملک میں دفعہ 144 کا نفاذ ہوجائے گا جس کے مطابق ملک بھر میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی جائے گی اور اسمیں علما کی مرضی بھی شامل ہوگی!!
اے حب رسول کے نام پر نکلنے والے شاہینوں، اے نبی کی حرمت کے لیے ظلم و تشدد برداشت کرنے والوں ، تمھارے بدن چور چور ہوں گئیں ،اور شائد زخم خوردہ بھی ،میں تم سے شرمندہ ہوں ، میں سارا دن دعا کے علاوہ تمھارے لیے کچھ نہیں کرسکا مگر آج رات زرا ان ٹی وی تبصروں کو سنتے ہوئے ، اپنے اندر کے شرپسندوں کو پہچانتے ہوئے یہ ضرور سوچنا کہ تم جن کے کہنے پر نکلے تھے وہ کدھر گئے ؟،تمھارا راستہ کس نے روکا؟، تمھیں گھاو کس نے لگائے ؟، اگر ہوسکے تو اصل "گستاخوں" کو پہچاننا، اور اگلی بار اپنا رخ درست کرلینا،اللہ تمھارا حامی و ناصر ہو



پرامن۔(توہین رسالت کے پس منظر میں لکھی گئی ایک تحریر۔سمتبر 2012)


مجھے یہ بھی قبول ہے کہ "اپنی املاک" کو نقصان پہنچانا درست نہیں۔۔اس سے بھی اختلاف نہیں کہ جلسے جلوسوں کے دوران معصوم شہریوں کو تنگ کرنا،ان کا راستہ روکنا ،سرکاری و غیر سرکاری املاک پر حملہ کرنا ،ان کو لوٹنا،جلانا سب غلط ہے ،سفیر کو نقصان پہنچانے کا بھی میں قائل نہیں مگر یہ "پرامن" احتجاج کیا ہوتا ہے!!!میرے ساتھ کے گھر والے سے مجھے مسلسل اپنے ماں و باپ کو گالیوں کی آوازیں آرہی ہوں ،تو کیا میں پر امن رہ پاوں گا؟ ڈاکو میری عزت سے کھلواڑ کررہے ہوں تو کون ہے جو مجھے "پر امن" رکھ سکے؟چند بدمعاش مل کر گلی محلے میں میری ماں اور بہن کے متعلق گندی باتئیں کررہے ہوں تو ان کو چھوڑ کر مجھے "پرامن" رہنے کی تلقین کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ کبھی کسی گاوں کے چوہدری کو "پرامن" پایا ہے جس کے حسب و نسب میں طعن کر کے اسے "چوہدریوں" کے بجائے میراثیوں کا نطفہ قرار دیا جارہا ہو؟ کبھی اس جماعت کے کارکنان کو "پرامن" پایا ہے جن کی محبوب لیڈر قتل کردی گئی ہو؟ کبھی کسی عوامی لیڈر کا مذاق اڑنے کی صورت میں اس کے متبعین کو "پرامن" پایا ہے؟ ہولو کاسٹ کے متبعین کو کبھی کسی نے "پرامن" دیکھا ہے؟کالوں کی تذلیل ہونے کی صورت میں کبھی امریکہ میں بھی ان کو "پرامن" دیکھا گیا ہو؟فرانس میں تیل کی قیمتیں ہی تو بڑھی تھیں مگر لوگ تو ادھر بھی "پرامن" نہیں رہے؟ لندن میں ایک شخص ہی تو پولیس فائرنگ سے مرا تھا "مگر مظاہرے "پرامن" نہ تھے!! تو پھر مجھے کس "امن " کی تلقین کی جارہی ہے !! محمدعربی کی توہین کردی جائے اور امت "پرامن" رہے ،ان کے برہنہ کارٹون چھاپ دیے جائیں اور "مسلمان "پرامن" رہیں ۔۔غلیظ لوگ ان کا روپ دھارے جو کہ یقینا ان کا روپ بھی نہیں ہے بلکہ شیطان کا چہرہ ہے ایکدوسرے ساتھ سیکس کرتے دکھائے جائیں اور امت "پرامن" رہے ؟!! کیوں رہے پرامن؟ جب یہ احتجاج کا طریقہ بھی تم نے سکھایا ہو، اس کے اصول اور ضابطے بھی تم نے مقرر کیے ہوں اس کی اجازت بھی تم نے دے رکھی ہو،اس کو آزادی اظہار کا طریقہ بھی تم مانتے ہو تو پھر کیوں رہے "پرامن"؟؟ ابھی تو شکر کرو اس کو درست احتجاج کا پتہ نہیں وگرنہ یہ مظاہرے نہ کررہی ہوتی جن کے ہونے کا تمھیں کوئی فرق نہیں بلکہ تم تو چاہتے ہو کہ یہ ہوں۔۔تاکہ لوگ احتجاج کا طریقہ بھی تم سے سیکھیں اور وہ احتجاج بھی "پرامن" ہو اور تم پھر "پرامن طریقوں" سے کوئی اور توہین کرسکو اور امت پھر "پرامن" احتجاج میں مشغول ہوجائے!! اس کی یہ تربیت تو تمھیں درکار ہے ،یہاں تک کہ یہ غیرت رسول سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے اور ہر ہونے والی توہین پر "پرامن"رہنا سیکھ جائے مگر یہ بات اب آسان نہ رہے گی وقت آنے والا ہے کہ یہ اصل احتجاج کرے گی وہ کہ جو اسے سلف سے ملا ہے یہ تمھارے اس طور طریقے سے بھی جان چھڑا لے گی وہ احتجاج جس کے خوف سے تمھاری نیندیں اڑی ہوئی ہیں ،ہاں ہاں امت محمدیہ جاگ رہی ہے اسے تم نے جگا دیا ہے اور "تلوار والااحتجاج" کرنے والی ہے اور کیوں نہ کرے محمد عربی کی حرمت کا معاملہ ہے جس کے بغیر ایمان 
مکمل ہی نہیں ہوتا!


فتنہ و امت کے مابین دروازہ ۔ نومبر 2012


ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے بیان کیا، انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے پوچھا تم میں سے کسے فتنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انسان کا فتنہ( آزمائش) اس کی بیوی، اس کے مال، اس کے بچے اور پڑوسی کے معاملات میں ہوتا ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کردیتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھتا ہوں جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ امیرالمؤمنین تم پر اس کا کوئی خطرہ نہیں اس کے اور تمہارے درمیان ایک بند دروازہ رکاوٹ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا وہ دروازہ توڑدیا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ بیان کیا توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر تو وہ کبھی بند نہ ہوسکے گا۔ میں نے کہا جی ہاں۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا عمرص اس دروازہ کے متعلق جانتے تھے؟ فرمایا کہ ہاں، جس طرح میں جانتا ہوں کہ کل سے پہلے رات آئے گی کیو ںکہ میں نے ایسی بات بیان کی تھی جو بے بنیاد نہیں تھی۔ ہمیں ان سے یہ پوچھتے ہوئے ڈر لگا کہ وہ دروازہ کون تھے۔ چنانچہ ہم نے مسروق سے کہا( کہ وہ پوچھیں) جب انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ دروازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
(متفق علیہ)
اے رافضیوں کس کو گالی نکالتے ھو ، کس کی شان میں تمھاری زبان گستاخی پر دراز ھوتی ھے ، تم علم کے دروازے والی جھوٹی حدیث لیے بیٹھے ھو ادھر دیکھو فتنے اور امت کے درمیان کا دروازہ کون تھا، کس کی زات بابرکات نے فتنے کو روکے رکھا تھا ،آج تم اس دروازے کو توڑنے والے کا مزار بناتے ھو ادھر حاضری دیتے ھو!!! رب کعبہ کی قسم تم خود فتنہ ھو!


قاضی حسین احمد صاحب کی وفات پر ایک حدیث ! جنوری 2013
حضور فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں کہ تم میں سے ایک شخص جنتیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بام بھر کا یا ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے پھر اس پر لکھا ہوا سبقت کر جاتا ہے اور دوز خیوں کے اعمال سروع کر دیتا ہے اور اسی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی جہنمیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جہنم سے ایک ہاتھ یا ایک بام دور رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھ آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے اور جنت نشین ہو جاتا ہے ،۔۔صحیح بخاری


اس دور کا ابن تیمیہ ؟

جولائی 2013

گھوڑے جب زمین پر ٹاپیں مارتے تو گردوغبار کا ایک بادل سا اٹھتا ، نعروں کی گونج سے آسمان کا سینہ چیرا جارھا تھا ،سخت کوش ،تنومند تاتاری کمانیں کھینچے ھوئے تھے عربی گھوڑوں پر ان کہ کسے ھوئے بدن ایک عجب منظر پیش کرتے جس کو دیکھنے سے ہی دلوں پر ھیبت طاری ھوجاتی ،کثرت تعداد ، جنگی مہارت ، دلیری و شجاعت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا!
شامی و مصری مسلمان لشکریوں کہ دلوں میں ایک وحشت کا عالم تھا یہ لشکر جو کہ تاتار کہ جم غفیر کا سامنا کرنے کہ لیے بڑی مشکل سے جمع کیا گیا تھا اس کو اپنی جیت کا یقین نہ تھا ! مگر ایک ادھیڑ عمر نحیف سا شخص جس کہ چہرے پر ایک عجب سی چمک تھی بجلی کی کوندے کی طرح لپک رھا تھا !
اس پر نظر پڑتے ہی لشکریوں کا اضطراب جیسے دور سا ھوجاتا ! وہ ہر دستے کہ سامنے سے گھوڑا دوڑاتا ھوا گزرتا اور قسما و حلفا کہتا " کہ آج فتح تمھاری ھوگی"۔ اس قید یافتہ ،نحیف نراز شخص کہ وجود سے ایک عجب وقار جھلکتا ،اس کہ الفاظ میں عجب جادو تھا ، جنگ کہ لیے تیار ہر دستہ اس کہ قریب آکر درخواست کرتا اے شیخ اب تیمیہ آیئے ھمارے ساتھ کھڑے ھوں ، دیکھیں ہم جانثار ھیں آپ کی حفاظت بخوبی کریں گئیں ، مگر اس پر ایک عجب حال طاری تھا اتباع سنت کا امام کہتا نہیں ، رسول اللہ کی سنت ھے کہ بندہ اپنے قبیلے کہ ساتھ ہی کھڑا ھو !
اس کو ہر بات کی فکر تھی ، وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ آج شقحب کہ میدان میں شکست کا مطلب ،مسلمانوں کی عظیم بربادی ھے ، وہ اس لشکر کا امیر نہ تھا ،مگر لشکر کا عسکری جزبہ اسی کا مرھون منت تھا ،رات کی خاموش تنہایئوں میں یہ اللہ کہ سامنے گڑگڑاتا رھا تھا کہ "مالک لاج رکھنا" ۔ یہ لشکر جو کہ تاتاریوں کی ھیبت سے لرزاں تھا اسی کی مساعی کی وجہ سے اکھٹا ھوا تھا
جنگ کا مرحلہ قریب آرھا تھا ، تاتاریوں کا لشکر صف بندی کرچکا تھا ، رمضان کا مہنیہ بھی کفر و اسلام کی اس جنگ کو دم سادھے دیکھ رھا تھا ، ابن تیمیہ نے اپنے گھوڑے کو لشکر کا چکر مکمل کرنے کہ لیے پھر ایڑ لگائی اس دفعہ ان کہ ہاتھ میں کجھوریں تھیں جن کو وہ اہل لشکر کہ سامنے کھاتے جاتے اور سنت یاد دلواتے جاتے کہ دشمن کہ مقابلے میں اگر کمزوری کا خدشہ ھے تو روزہ کھول لو ! آج اگر کسی بھی جسمانی کمزوری کی وجہ سے کفر غالب آگیا تو روزے کا فائدہ نہ ھوگا!
معرکہ شروع ھوگیا ،تاتاری پے در پے آگے بڑھے ،ان کہ پہلے حملے نے ہی مسلمانوں کی صفوں کو چیر کر رکھ دیا ، بزدل پیٹھ دکھا کر بھاگے ، یہ حالت دیکھ کر مصر کہ حکمران ناصر بن قلاوون نے حکم دیا کہ اس کہ گھوڑے کو زنجیروں سے باندھ دیا جائے ۔ اور اللہ کہ ساتھ میدان جنگ میں موت تک لڑنے کا عہد کیا ۔امیر حسام الدین دیوانہ وار آگے بڑھے اور تاتاریوں کی صف چیرتے ھوئے شہید ھوگئے ،استاد دارالسلطان نے آٹھ امراءسمیت موت پر بیعت کی اور اور اپنا وعدہ پورا کردیا ،صلاح الدین بن ملک کی شان ہی نرالی تھی امیر ھونے کہ باوجود سپاہیوں سے بھی آگے جا کر لڑ رھے تھے !
شامی لشکر میں ابن تیمیہ کی شان ہی نرالی تھی ،یہ قلم و تقریر کا مجاہد آج تلوار ہاتھ میں تھامے شہادت کی تلاش میں سرگرداں تھا ! بار بار اپنے شامی ھمسازوں کو کہتا کہ مجھے اس جگہ لے چلو "جہاں پر موت ناچ رھی ھو" شامی جانباز اس کو دیکھ کر ھمت پکڑتے شاھیںوں کی طرح جھپٹتے اور چیتوں کی طرح دشمن کہ اجسام میں اپنی تلواریں پیوست کردیتے ،معلوم نہیں کہ ابن تیمیہ نے اس دن کیا نعرے لگائے ھوں گئیں مگر اس کا اندازہ ضرور ھے کہ جب یہ مرد حق نعرہ لگا کر حملہ آور ھوتا ھوگا تو ایک جم غفیر لیبیک کہتا ھوا شیر کی طرح حملہ کرتا ھوگا!
علماء و امرائے اسلام کی یہ بہادری دیکھ کر فوجیوں کہ دل ٹہر گئے ،شیر کی پلٹے اور مناجیق کے پتھروں کی طرح تاتار کہ اوپر برس گئے ، شام سے پہلے جنگ کا فیصلہ ھوگیا ، تاتار کہ خاقان ، قازان کو جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس کی دماغ کی شریان پھٹ گئی اور وہ بھی واصل جھنم ھوا !!!

اس دور میں قلم و تقریر کہ مجاہد تو بہت ھیں ، نہ جانے ابن تیمیہ کہاں ھے !! جو قلم و تقریر کہ ساتھ تلوار بھی اٹھائے ھو اور آواز لگائے " مجھے جنگ میں اس جگہ لے چلو جہاں موت ناچ رھی ھو"
یہ دور اپنے ابن تیمیہ کی تلاش میں ھے !!


مجاہدین اسلام کو خراج 

جولائی 2013
کوئی نشان حیدر نہیں ، کوئی ستارہ جرآت نہیں ، کوئی تمغہ بسالت نہیں ، کوئی تمغہ شجاعت نہیں !!
مبارک ھو مجاہدوں ، اللہ نے ان دنیاوی اعزازت سے بھی تم کو بے نیاز کردیا ! اس وھن زدہ امت کہ ہاتھوں لے کر تم نے کرنا بھی کیا تھا ! جو کہ ہر رافضی کو ، ہر یزیدی کو ، ہر احمدی کو ، ہر پلیدی کو اس سے نوازتی رھی ھو ، جس کی نظر میں دختر مشرق بھی شہیدہ ھو اور کوئی ارجاء کا مارا ھوا مجاہد ملت ھو !
تمھارا مقام بلند ہے ، جن کو انعام اللہ نے دینا ھو ،جن کہ سینے پر تمغہ اللہ کہ رسول نے سجانا ھو ، جن کو جنت میں علی شیر خدا کہ ساتھ مقام ملنا ھو ، جو سابقون الاولون میں سے ھونے ھوں ، فرشتوں نے جن کی جانثاری پر تعجب کرنا ھو ان کو یہی زیبا دیتا ھے کہ ان کی لاشیں سمندر کا پیٹ بھریں ، یا گلیوں ،بازاروں میں بے گورو کفن پڑی رھیں ، کبھی ان سے خوشبو آئے تو کبھی ھزاروں ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں کہ یہ خراب کیوں نہیں ھوتیں ،کبھی زمین میں زندہ دفنائے جاو تو کبھی جسم اتنے ٹکڑوں میں تقسیم ھو کہ وہ گنے نہ جاسکیں !
یہی تمھارا انعام ھے ، تمھارا ایمان نشان حیدر ھے ، تمھاری جرآت راہ شجاعت ھے، تمھاری پامردی ہی بسالت ھے ، 
اے دنیا بھر کہ مجاہدوں ، اللہ کہ شیروں تمھیں دنیاوی تمغوں سے بے نیاز کردیا گیا ھے ،تمھاری بدولت ہی وہ صبح نمودار ھونی ھے جس کی ضیا پاشی سے امت منور ھونے والی ھے ،آج تمھارے لیے کوئی تمغہ نہیں ھے ،کل تمھارے نام پر تمغے ڈھالے جانے والے ھیں


اتوار، 3 نومبر، 2013

الحاد وطن پرستی کے نقاب میں !

الحاد کے گندے پاخانوں پر پرورش پانے والی ذھنیت، مسلمانوں کے مذبح خانوں پر خوش ہوتی سیکولر و لبرل سوچ اس بات پر امریکہ کا شکریہ ادا کررہی ہے کہ اس نے حکیم اللہ جیسے پاکستان دشمن سے اس کا پیچھا چھڑا دیا !! 
 یہ سوچ اس قدر گندی و خبیث ہے کہ اس کو باقاعدہ خطاب کرنا میرے نزدیک وقت کے ضیاع کے کچھ نہیں ہے لیکن یہ وطن پرستی کے پردے میں آرہی ہے اور بیچارے وطن پرستوں کو بھی رگڑے جارہی ہے جن پر اپنی آوٹ فٹ   کی وجہ سے اسلامی ہونے کا گمان گزرتا ہے !! کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں وطن پرستی کی ہر تعریف پر پورا اترتی ہیں ! کون نہیں جانتا کہ اس کے دانشوروں کی ایک کیثر تعداد وطن پرستی و اسلام پرستی کے مابین فرق نہیں کرسکتی اور ریاست کو اسلام کے مترادف سمجھتی ہے ! ان کی وطن پرستی پاکستان کو پیش آمدہ مسائل میں ضرب المثل رہی ہے ! ارے یہ تو وہ لوگ ہیں جو کہ پاکستان کو بچانے کے لیے افغانستان کو تباہ کرنے تک پر رضامند یا نیم رضامند تھے !! انڈیا کے ساتھ معرکے ہوں ، یا بنگلہ دیش میں البدر ، کشمیر کا محاذ ہو یا زلزلہ زدگان کی مدد ، پاکستان آرمی کی عزت بچانے کا مسئلہ ہو ، یا پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینے کی کوشش، ان جماعتوں کا ان لوگوں کا رویہ ہر شبے سےبالاتر ہے ، آپ ان کے اسلام پر شبہ کرسکتے ہیں لیکن ان کی وطن پرستی پر شبہ نہیں کرسکتے !! 
 الحاد و سیکولرازم تو پہلے اس بات کا جواب دے کہ وہ وطن پرست کب سے ہوا !!! بے دینی کے انڈوں پر بیٹھی ہوئی ان مرغیوں میں وطن پرستی کا جذبہ کب سے پیدا ہوگیا ؟؟؟ ان کے بڑے بڑے رہنما تو اس ملک پر باہر سے صرف اور صرف حکومت کرنے آئے اور حکومت چھنتے ہی باہر کے ممالک میں جاکر اس فوج پر ، اس کے عوام پر ، اس کے وطنی دانشوروں پر بھونکتے رہے ہیں تاکہ مغربی ممالک سے ملنے والا راتب بند نہ ہوجائے !! ان کو اگر وطن سے بھی کوئی محبت دکھانے کا موقع ملا ہے تو اس کے پیچھے وہی حکمرانی کی ازلی خواہش ہے!! ان آوارہ کتوں کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ اگر اپنے آپ کو سارے کا سارا ننگا کرکہ بھی مغرب کے سامنے پیش کردیں تو پھر بھی وہ ان کو اپنے کسی ایک گاوں کی قیادت نہیں بخشنے والا !! کسی مغربی ملک کی حکمرانی تو دور کی بات ہے !!! ان کے چہروں پر چڑھے ہوئے کلمے کے نقاب دراصل ان کی یہاں پر حکمرانی کی خواہش کے لیے ہیں !!
 ہاں پاکستان کو لاحق خطرات کا احساس آج بھی کسی کو ہوا ہے تو وہ ان وطن پرستوں کو ہی ہوا ہے !! یہی سمجھے ہیں کہ حکیم اللہ کی شہادت سے کتنا بڑا نقصان ہونے والا ہے اور انتقام کے ایک طوفان کا کس کو سامنا کرنا پڑے گا!! وطن کی حفاظت پر کمر بستہ یہ نادان لوگ چاہے کچھ بھی ہوں وطن کو لاحق خطرات کا ادراک ان کو سب سے زیادہ ہے ! یہ صرف انڈیا کو روز اول سے اپنا دشمن جاننے والے دانشوران اس حقیقت کو جان گئے ہیں کہ اسلام کے ساتھ وطن بھی مشکل میں ہے !! یہ چاہے ابھی یہی کیوں نہ سمجھتے ہوں کہ اسی موجودہ نظام و طریق کار سے اس مشکل سے نکلا جاسکتا ہے لیکن ان کی نیت میں کوئی شک نہیں ہے !!
 ارے الحادیوں و سیکولروں ، حکیم اللہ کا غم تو امت منارہی ہے بلاامتیاز رنگ ، نسل و ملک کے !! زرا جاکر ٹوئٹر کا ہی جائزہ لے لو دنیا کی ہر قابل تذکرہ جہادی تنظیم اس کی تصویر اپنے سرورق پر لگا رہی ہے ! دنیا بھر میں ہزاروں لوگ اس سے متعلقہ تعزیتی بیان نشر کررہے ہیں ،اور یہ ملکی دانشور اگر اس ملک کے لیے اس واقعے کو ایک عظیم سانحہ قرار دے رہے ہیں اور پاکستان کے لیے نقصان عظیم تو تمہیں ان پر بھی  اعتراض ہے!!!
 حقیقت یہ ہے کہ جو کہ خدا شناس نہیں رہتا وہ وطن ، غیرت ،عزت ، مذہب ، سب سے لاتعلق ہوجاتا ہے !! وہ خود اپنا خدا بن جاتا ہے ۔ تم وطن پرست بھی نہیں ہو ۔ تمہارے سے کوئی خطاب کرنا بھی بے کار ہے! ہاں وطن پرستوں کو یہ ضرور کہوں گا کہ اس الحادی چہرے کے منہ سے نقاب اٹھا کر دیکھ لو رفض کا گھناونا چہرہ نظر آئے گا !!!.

ہفتہ، 2 نومبر، 2013

غلام و آقا !!


غلام و آقا!
 امریکہ نے اس غلام کو بڑے چاو سے خریدا تھا ، اس کے جوان و متناسب جسم نے پہلی ہی نظر میں اس کی توجہ کھینچ لی تھی ! یہ میرے کافی کام آئے گا ! امریکہ نے دل میں سوچا، اور اس کا یہ خیال غلط ثابت نہ ہوا ۔ لیکن خریدنے کے کچھ دن بعد ہی غلام اداس رہنے لگا اور اب  بیمار بھی پڑگیا تھا امریکہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ غلام ہوم سکسنس (Home Sickness) کا شکار ہوگیا ہے ! وہ بڑی ہمدردی سے اس کے ساتھ بیٹھا اور اس کے بالوں پر پیار سے ہاتھ پھیر کر کہنے لگا بیٹا ! مجھے علم ہے کہ تمہیں گھر کی یاد ستار ہی ہے تم جنگلوں کے باسی ،آزاد فضاوں میں رہنے والے پنچھی ، ان شہروں کی زندگیاں تمہیں پسند نہیں ہیں اس لیے ہی تم بیمار ہوگئے ہو ۔ لیکن بیٹا ابھی تم جوان ہو اگر تم محنت سے کام کرو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ پانچ سال بعد تمہیں آزاد کردوں گا!
 غلام کے چہرے پر بے یقینی تھی ! کیا آپ مجھے واقعی ہی آزاد کردیں گئیں ؟
 ہاں بیٹا میں تمہیں واقعی ہی آزاد کردوں گا ! امریکہ کا لہجہ حتمی تھا اور غلام ٹھیک ہوگیا!
 امریکہ کھیت کے کنارے پر کھڑا اس کو محنت کرتے دیکھتا ، اس کے جواں بازووں کی مچھلیاں جب ہل چلاتے ہوئے مچلتی تو امریکہ کا دل فخر سے بھر جاتا! غلام بوجھ اٹھا کر جب تن کر چلتا تو تو امریکہ کا سینہ بھی فخر سے تن جاتا ! غلام کافی محنت کررہا تھا غلام کے پاس وقت کے حساب کے لیے کوئی پیمانہ نہ تھا لیکن اس کو نظام شمسی کے حساب کا علم تھا وہ روز سورج کو مشرق سے مغرب کی طرف سفر کرتے دیکھتا اور ہر روز پتھر سے سخت زمین پر ایک لائن لگا لیتا ! ایک سال کے مکمل ہونے پر اس نے دل میں سوچا کہ "میری ایک انگلی" آزاد ہوگئی ہے ۔ دو سال مکمل ہونے ہوئے تو وہ اپنی دو انگلیوں کو بقیہ انگلیوں سے زیادہ ترجیح دینے لگا ۔ یہ حساب و کتاب غلام کے لیے روحانی مسرت کا ایک سامان تھا جس میں وہ کسی اور کو شریک نہ کرنا چاہتا تھا اپنے اردگرد کے آزاد انسانوں کی سرگرمیاں دیکھ کر وہ فورا اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگتا کہ کتنی انگلیاں رہ گئیں ہیں ! اور جلد ہی ان کے آزاد رہنے کی امید میں دوبارہ سرجھکا کر کام میں جت جاتا ۔ غلام کے اپنے اندر ایک دنیا آباد تھی ۔سورج ، لکیریں و انگلیاں ! سورج کا غروب ہونا اس کی روح میں اتر گیا ! اور پانچوں انگلیاں آزاد ہوگئی !
امریکہ غلام کی انتھک محنت کی بدولت خوشحال ہوچکا تھا ، غلام نے اس کے پاس آکر غلامی سے آزادی کا مطالبہ کیا ۔تاکہ وہ اپنے جنگل کو واپس جاسکے
 امریکہ نے بخوشی جانے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ سوال کیا تمہارے پاس کیا واپسی کا سفر اختیار کرنے کے لیے پیسے ہیں ؟
غلام نے زمین کی طرف سرجھکایا اس کے پاوں کی انگلیاں جیسے ایکدم اضطراب کے مارے سکڑنے لگیں ، نہیں میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ غلام کے لہجے میں حسرت ایک سوال لیے ہوئے تھی
 اچھا تمہارا گھر کس طرف ہے ؟ امریکہ نے دوسرا سوال داغا مغرب کی طرف ۔غلام نے ایک خوشی کے ساتھ جواب دیا
 اچھا ! پھر تو وہ کافی دور ہوگا اور وہاں تک جانے کےلیے کافی پیسوں کی ضرورت بھی ہوگی ۔ چلو اگر تم میرے لیے تین سال اور کام کرلو تو میں تمہیں وہاں تک جانے کے لیے معقول رقم دے دوں گا ۔ چلو تین سال نہیں تو دو سال ہی سہی ۔ چالاک امریکہ کالہجہ فاتحانہ تھا غلام زیرلب کچھ بڑبڑایا ، اس کے چہرے کا رنگ سیاہ سے کچھ اور سیاہ ہوگیا ۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے زور سے پاوں پٹخے اور کھیتوں میں کام کرنے واپس چلا گیا ۔
لیکن غلام اب کچھ کام چور ہوگیا تھا ، کام میں اس کا دل ویسے نہ لگتا جیسے کہ پہلے تھا ، سونے یا آرام کرنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا اس کا جوان و طاقتور جسم ایک سستی کی سی کیفیت کا شکار نظر آتا۔ امریکہ نے اس بات پر اس کو ایک بار بری طرح پیٹا بھی گوکہ وہ اس بات پر زاروقطار رویا لیکن اس کی سستی کچھ کم ہوگئی ۔ وہ اب پہلے کی طرح حساب بھی نہیں کرتا تھا لیکن اپنے مضبوط ہاتھوں کو دیکھتا رہتا دوسال ،سہاگ رات کی طرح تیزی سے گزر گئے ۔امریکہ نے غلام کو معقول رقم دے دی تاکہ وہ مغرب کی طرف اپنے جنگل کے لیے سفر کرسکے ۔ کچھ عرصے بعد غلام تھکا ماندہ امریکہ کے پاس واپس آگیا وہ مغرب میں دور تک گیا تھا لیکن اس کو اپنا وطن نہیں ملا ۔ امریکہ نے اس کا حوصلہ بڑھایا اس کو کچھ اور رقم دی تاکہ وہ مشرق کی طرف سفر کرکے اپنے جنگل کو ڈھونڈ سکے ! غلام کو مشرق میں جنگل مل گیا، لیکن خود اپنے ہی گھر میں اس کا دل نہ لگا،جنگل کی ویرانی ،شہر کی رنگنیوں کا زور سے احساس دلوانے لگیں ،روز طلوع ہونے والا سورج جب مشرق سے نکلتا تو وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو دیکھنا شروع کردیتا۔ اس کی ٹانگوں نے خود بخود ہی حرکت کی اور مغرب کی طرف عازم سفر ہوگئیں ! وہ امریکہ کے پاس واپس جارہا تھا  امریکہ کو اسے دیکھ کر کوئی حیرانی نہیں ہوئی ۔غلام نے اسے بتایا کہ جو جنگل اسے ملے وہ اسے اپنے نہیں لگے ۔ 
امریکہ نے بڑی توجہ سے اس کی کہانی سنی اور اسے پیار سے کہا ! دیکھو یہ میرا گھر تمہارا اپنا گھر ہے ۔ تم اس میں مزے سے رہو میں تمہارا خیال رکھوں گا لیکن اب کسی طرف بھی جانے کا نہ سوچنا! اور غلام نے سر جھکا دیا ! غلام نے محنت سے کام شروع کردیا ۔اس بار وہ ایسے کام کرتا جیسے کہ وہ اس کا اپنا کام ہو ، امریکہ اس کی صحت و خوراک کا خیال رکھتا تاکہ وہ طاقتور رہے اور اس کا کام کرسکے ۔ سستی دیکھنے پر اس پیٹتا بھی جس پر غلام روتا بھی نہیں ! امریکہ اسے اتوار کو چھٹی بھی دے دیتا تاکہ وہ قریبی پہاڑی پر جاکر مغرب میں غروب ہوتے سورج کو دیکھتا رہے ۔ غلام کی محنت سے امریکہ کی فصلیں اور اچھی ہونے لگیں اس نے ایک اور قطعہ زمین خریدا تاکہ اس پر بھی کھیتی باڑی ہوسکے امریکہ دن بدن امیر ہوتا چلا گیا کچھ عرصہ بعد اس نے غلام کے لیے ایک کنیز بھی خرید لی ! وقت دھیمی رفتار سے آگے بڑھتا چلا گیا ۔ امریکہ اب بوڑھا ہوگیا تھا لیکن اس کے گھر میں اب چھ غلام زادے تھے ایک سے بڑھ کر ایک کڑیل جوان ان کاغلام والد انہیں بتاتا کہ وقت اسی صورت گزرتا ہے جب کوئی کام میں مصروف رہے۔ اور جب (اسی انداز میں ) وقت گزر کر ماضی کا حصہ بن جائے تب ہی ہم لا فانی قسم کے جنگلوں کے اہل ہو سکتے ہیں۔ آرام والے دن وہ اپنے بیٹوں کو پہاڑی پر لے جاتا۔ انہیں غروب ہوتا سورج دکھاتا اور انہیں تمنا کرنے، آرزو کرنے اور (کسی چیز کا) انتظار کرنے کا ڈھنگ سکھاتا۔ امریکہ اب خاصا بوڑھا اور لاغر ہو گیا تھا۔ بوڑھا تو وہ پہلے ہی تھا مگر اب وہ زندگی کے دن گن کر گزار رہا تھا۔ اس کا بیٹا مضبوط و توانا تو نہیں بن سکا لیکن اسے اس بات سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کے گھر میں موجود غلام زادوں میں سے ہر ایک اتنا مضبوط اور لحیم تھا کہ وہ صرف ایک مکے کی ضرب سے کسی بھی شخص کو گرا سکتا تھا۔ وہ انتہائی طاقت ور تھے،ان کے پٹھے لوہے کی مانند تھے اور ان سب کے دانت شیر کی طرح تھے۔ اور ان کے پاس ابھی وقت بھی بہت تھا۔ وہ غلام زادے اپنی کلہاڑیاں چلاتے اور جنگلوں کے درخت کاٹتے رہے۔ 

 (جو ہنیری جنیسن کی کہانی سے ماخوذ)