بدھ، 13 نومبر، 2013

متفرقات !




  رافضی و صوفی سیکولرز !


 ایک گھر میں چور گھس آیا۔ پاوں کی ٹھوکر سے ایک برتن زمین پر گر پڑا جس کی وجہ سے اہل خانہ کی آنکھ کھل گئی ، چور کی جان پر بن گئی ، بھاگ نکلنے کا کوئی مناسب راستہ نہ تھا ، بھاگ کر اہل خانہ کے سربراہ کی چارپائی کے نیچے ہی چھپ گیا۔ اہل خانہ نے چور چور کا شور مچا دیا ، اہل محلہ اکھٹے ہوئے، اسلحہ اکھٹا کیا گیا ، ٹھیکری پہرے کا انتطام ہونے لگا ، گھر کی چیزوں کو اچھی طرح چیک کیا گیا کہ کچھ کم تو نہیں ہے ۔ پولیس کو خبر دی گئی ، کھرا تلاش کرنے کے لیے کھوجی بھی بلا لیا گیا ۔ چور صاحب چارپائی کے نیچے چھپ کر سب کچھ خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہے ، کسی کا دھیان نہیں گیا کہ چور ادھر بھی چھپ سکتا ہے ، جیسے کہ ہنگامہ ٹھنڈا ہوا ، اہل خانہ سکون کی تان کر پھر سو گئے ، چور صاحب دوبارہ نکلے ،سارا سامان سمیٹا اور یہ جا تو وہ جا !! یہ رافضی و صوفی سیکولرز بھی اسی قسم کے چور ہیں جو کہ چپکے سے چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے ہیں ہم ہر طرف چورچور کا شور مچارہے ہیں اور اپنی چارپائی کے نیچے نظر ڈال کر نہیں دیکھتے ۔!! یہ رافضی سیکولر ہے جو کہ ناستک یا دہریہ ہونے کا دعوی کرتا ہے ۔ یاد رہے کہ دعوی اس کے جدید آئمہ بھی تقیہ کا پردہ اوڑھے کرتے رہے ہیں کمیونسٹ انقلاب سے ان کو بہت ہمدردی رہی ہے ، ہوسکتا ہے کہ آپ کو ان کی تحریروں یا تقریروں میں اللہ کا انکار بھی ملے ، حدیث کا انکار بھی ملے ، یہ اسلامی نظام حکومت کا مذاق اڑاتے بھی نظر آئیں ، جہاد کو فساد بھی قرار دے رہے ہوں ، اسلامی تعلیمات کے بھی منکر ہوں ۔ لیکن زرا کسی بھی "عباس ، نقوی ، رضوی ، ہاشمی ، حسینی کا لاحقہ لگے ایسے سیکولر کا پردہ چاک کرنا ہو تو کلیہ آسان ہے ۔ خمینی کو دو تین گالیوں سے نواز دیجیے ، بارہوین امام غائب کی شان میں کچھ کلمات ارشاد فرمادیجیے ، واقعہ کربلا کو زرا زیر تنقید لے آیئے ۔ اغلب امکان یہی ہے کہ سیکولرازم کے پردے پیچھے سے رفض کا گھناونا چہرہ نمودار ہوگا !!! دوسروں کا داو اس بھی خطرناک ہے ۔ نہ اللہ کا انکار ، نہ رسول کا ، نہ قرآن کا نہ حدیث کا ، لیکن جو کچھ بھی یہ آپ کو دینے والے ہیں وہ صرف اور صرف "یہی نہیں ہے" بلکہ "سب کچھ" ہے ۔ قرآن کے ساتھ بائبل بھی پڑھ لیں ، نماز کے ساتھ قوالی بھی سن لیں ، غامدی کی تردید کردیں اور احمد رضا بریلوی کے قریب کردیں ، جہاد ہر گز نہ کریں بلکہ خدمت خلق کریں ، اللہ کے وجود کا انکار کس نے کہا !! یہ تو صرف کہتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ ساتھ بھگوان ، غوث ، مشکل کشا ، حاجت روا کو بھی مان لو !! سب کو ان کے حال پر چھوڑ دو ۔ جو نہیں مانتا وہ بھی ٹھیک جو مانتا ہے وہ بھی ٹھیک ! کسی کا مذہب چھیڑو نہیں اپنا چھوڑو نہیں !! قتال فتنہ و فساد ہے صوفیا کی تعلیمات تو امن پھیلانا ہے ، عالمگیر امن !! چارپائی کے نیچے بھی جھانک لیں چور یہیں چھپا ہوا ہے !!


اندھے نہیں بینا !



جن لوگوں کی بینائی کسی بھی وجہ سے خراب ہو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نظر کی خرابی دو طرح کی ہے ، دور کی اور نزدیک کی ! 
جس کی دور کی نظر خراب ہے ضروری نہیں کہ اس کی قریب کی بھی خراب ہو ، اور جس کی قریب کی خراب ہو ضروری نہیں کہ اس کی دور کی بھی خراب ہو ۔ دونوں نظریں خراب ہونا بھی عام بات ہے ۔ لیکن جس کی دور کی خراب ہوگی وہ دور کا چشمہ یا کنیٹکٹ لینز استعمال کرے گا اور جس کی قریب کی خراب ہوگی وہ قریب کا چشمہ یا کنیٹکٹ لینز استعمال کرے گا ۔ عینک دونوں صورتوں میں لگنی ہے چاہے قریب کی لگے چاہے دور کی !
ہمارے بیشتر علماء یا دوستوں کا مسئلہ بھی یہی ہے ، یہ ایک عالم ہیں یا فلسفی ہیں یا غوروفکر کرنے والے رقیق القلب انسان ہیں ، کافی پڑھے لکھے بھی ہیں مدلل قسم کی چیزیں بھی سامنے لاتے ہیں "جمہوریت ، سیکولرازم ، ہیومن ازم ، گلوبل ازم" جیسے مشکل و دقت طلب مسائل کے کفر کو بہت اچھی طرح سمجھتے و جانتے ہیں ، ان کی نظر اتنی "دوررس" ہے کہ اچھی طرح سمجھتے و جانتے ہیں کہ ان مظاہر سے اسلام کو کس قدر خطرہ لاحق ہے ۔ لیکن عین اپنی ناک کے نیچے والے کفر کو دیکھنے کے روادار نہیں ! عرس ، مزار ، غیر اللہ کی پکار ، چادر پوشیاں ، فتنہ تصوف ، وحدۃ الوجود و شہود ، عالم سکر و صحو ، گھڑی ہوئی کرامتیں ، رومی رقص و وجدان انہیں نظر نہیں آتا ! اور اگر انہیں کہا جائے کہ بھائی آپ کی قریب کی نظر کمزور لگتی ہے زرا توحید کی عینک لگا کر یہ عین ناک کے نیچے ہونے والے کفر پر بھی توجہ کیجیے تو غالب امکان یہی ہے کہ آپ کو فرقہ پرستی یا کم علمی کا الزام لگا کر مسترد کردیا جائے !!
یہ دوسرے صاحب ہیں !! ماشاءاللہ وثنی شرک کے تو بخیے ادھیڑ دیتے ہیں ، کیا مجال ہے کہ وثنی شرک کا کوئی مظہر ان کی آنکھوں سے بچ کر جائے ۔ توحید کے معاملے میں اتنے پختہ ہیں کہ کوئی بھی ہستی ان کی تلوار کی دھار سے بچ نہیں سکتی ، رسول اللہ کے مقابلے میں کوئی اور بات لے لیں ہرگز نہیں ! یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔ قبروں ، قبوں ، عرسوں ، مجالسوں ، میلادوں ، کے رد کا جتنا زور آپ کو ان کے ہاں ملے گا شائد ہی ایسے مدلل دلائل کہیں اور دستیاب ہوں ۔ لیکن ان کی "دور کی نظر" کمزور ہے ۔ مدرسہ بچانے کے لیے عین ممکن ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کا جھنڈا اٹھائے نظر آئیں ، یا کچھ "جماعتی مجبوریوں" کی وجہ سے جمہوریت کو ہی عین اسلام قرار دے رہے ہوں ۔ یا حکومت وقت کی غیر مشروط حمایت ہی انہیں عین حق نظر آرہی ہو ۔ اور اگر کوئی دوست ہمدردانہ لہجے میں انہیں درخواست کرے کہ حضور دور کی نظر کمزور لگتی ہے چشمہ لگا لیجیے تو تکفیری یا خارجی کا فتوی تو کہیں بھی نہیں گیا !!
امت کو ان اندھوں کی نہیں بیناوں کی ضرورت ہے


رافضی فتنہ ! توہین رسالت کے موضوع پر لکھی گئی ایک تحریر ۔سمبتر 15۔2012

شائد مستقبل کا مورخ اس بات کو لکھے کہ جب پوری دنیا میں مسلمان حرمت رسول کے لیے کٹ مر رھے تھے عین اسی وقت "رافضی فتنہ لبنان میں پوپ کی تصویریں اٹھائے سڑک کے دونوں طرف ہزاروں کی تعداد میں کھڑا اس کا استقبال کررھا تھا"


حضرت شماس رضی اللہ تعالی عنہ کی حب رسولؐ۔


یہ شماس رضی اللہ تعالی عنہ ہیں،غزوہ احد کا میدان گرم ہے کفار اللہ کے رسول پر حملہ آور ہوتے ہیں ، شماس اکیلے کفار کا غلبہ ، مقصد اللہ کے رسول کا تحفظ،تلواروں اور تیروں کو اپنے ہاتھ ،سینے اور چہرے پر روکتے ہیں ، زبان حق سے یہ نعرہ حق بلند ہورہا ہے
اے اللہ کے رسول
پہلے میرا چہرہ ،پھر آپ کا چہرہ
پہلے میرا ہاتھ ،پھر آپ کا ہاتھ
پہلے میرا سینہ ،پھر آپ کا سینہ

سمتبر 21۔2012

اصل دشمن!

توہین رسالت کے تناظر میں ایک تحریر
شام ہورہی ہے ،احتجاجی مظاہرے رفتہ رفتہ تھک کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں گئیں بڑی امید ہے کہ "کچھ سکالرین" آج ہی میڈیائی سانپ پر بیٹھ کر ان ہنگاموں کے خلاف ایک اونچی راگنی چھیڑیں گئیں اور کل سے ملک میں دفعہ 144 کا نفاذ ہوجائے گا جس کے مطابق ملک بھر میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی جائے گی اور اسمیں علما کی مرضی بھی شامل ہوگی!!
اے حب رسول کے نام پر نکلنے والے شاہینوں، اے نبی کی حرمت کے لیے ظلم و تشدد برداشت کرنے والوں ، تمھارے بدن چور چور ہوں گئیں ،اور شائد زخم خوردہ بھی ،میں تم سے شرمندہ ہوں ، میں سارا دن دعا کے علاوہ تمھارے لیے کچھ نہیں کرسکا مگر آج رات زرا ان ٹی وی تبصروں کو سنتے ہوئے ، اپنے اندر کے شرپسندوں کو پہچانتے ہوئے یہ ضرور سوچنا کہ تم جن کے کہنے پر نکلے تھے وہ کدھر گئے ؟،تمھارا راستہ کس نے روکا؟، تمھیں گھاو کس نے لگائے ؟، اگر ہوسکے تو اصل "گستاخوں" کو پہچاننا، اور اگلی بار اپنا رخ درست کرلینا،اللہ تمھارا حامی و ناصر ہو



پرامن۔(توہین رسالت کے پس منظر میں لکھی گئی ایک تحریر۔سمتبر 2012)


مجھے یہ بھی قبول ہے کہ "اپنی املاک" کو نقصان پہنچانا درست نہیں۔۔اس سے بھی اختلاف نہیں کہ جلسے جلوسوں کے دوران معصوم شہریوں کو تنگ کرنا،ان کا راستہ روکنا ،سرکاری و غیر سرکاری املاک پر حملہ کرنا ،ان کو لوٹنا،جلانا سب غلط ہے ،سفیر کو نقصان پہنچانے کا بھی میں قائل نہیں مگر یہ "پرامن" احتجاج کیا ہوتا ہے!!!میرے ساتھ کے گھر والے سے مجھے مسلسل اپنے ماں و باپ کو گالیوں کی آوازیں آرہی ہوں ،تو کیا میں پر امن رہ پاوں گا؟ ڈاکو میری عزت سے کھلواڑ کررہے ہوں تو کون ہے جو مجھے "پر امن" رکھ سکے؟چند بدمعاش مل کر گلی محلے میں میری ماں اور بہن کے متعلق گندی باتئیں کررہے ہوں تو ان کو چھوڑ کر مجھے "پرامن" رہنے کی تلقین کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ کبھی کسی گاوں کے چوہدری کو "پرامن" پایا ہے جس کے حسب و نسب میں طعن کر کے اسے "چوہدریوں" کے بجائے میراثیوں کا نطفہ قرار دیا جارہا ہو؟ کبھی اس جماعت کے کارکنان کو "پرامن" پایا ہے جن کی محبوب لیڈر قتل کردی گئی ہو؟ کبھی کسی عوامی لیڈر کا مذاق اڑنے کی صورت میں اس کے متبعین کو "پرامن" پایا ہے؟ ہولو کاسٹ کے متبعین کو کبھی کسی نے "پرامن" دیکھا ہے؟کالوں کی تذلیل ہونے کی صورت میں کبھی امریکہ میں بھی ان کو "پرامن" دیکھا گیا ہو؟فرانس میں تیل کی قیمتیں ہی تو بڑھی تھیں مگر لوگ تو ادھر بھی "پرامن" نہیں رہے؟ لندن میں ایک شخص ہی تو پولیس فائرنگ سے مرا تھا "مگر مظاہرے "پرامن" نہ تھے!! تو پھر مجھے کس "امن " کی تلقین کی جارہی ہے !! محمدعربی کی توہین کردی جائے اور امت "پرامن" رہے ،ان کے برہنہ کارٹون چھاپ دیے جائیں اور "مسلمان "پرامن" رہیں ۔۔غلیظ لوگ ان کا روپ دھارے جو کہ یقینا ان کا روپ بھی نہیں ہے بلکہ شیطان کا چہرہ ہے ایکدوسرے ساتھ سیکس کرتے دکھائے جائیں اور امت "پرامن" رہے ؟!! کیوں رہے پرامن؟ جب یہ احتجاج کا طریقہ بھی تم نے سکھایا ہو، اس کے اصول اور ضابطے بھی تم نے مقرر کیے ہوں اس کی اجازت بھی تم نے دے رکھی ہو،اس کو آزادی اظہار کا طریقہ بھی تم مانتے ہو تو پھر کیوں رہے "پرامن"؟؟ ابھی تو شکر کرو اس کو درست احتجاج کا پتہ نہیں وگرنہ یہ مظاہرے نہ کررہی ہوتی جن کے ہونے کا تمھیں کوئی فرق نہیں بلکہ تم تو چاہتے ہو کہ یہ ہوں۔۔تاکہ لوگ احتجاج کا طریقہ بھی تم سے سیکھیں اور وہ احتجاج بھی "پرامن" ہو اور تم پھر "پرامن طریقوں" سے کوئی اور توہین کرسکو اور امت پھر "پرامن" احتجاج میں مشغول ہوجائے!! اس کی یہ تربیت تو تمھیں درکار ہے ،یہاں تک کہ یہ غیرت رسول سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے اور ہر ہونے والی توہین پر "پرامن"رہنا سیکھ جائے مگر یہ بات اب آسان نہ رہے گی وقت آنے والا ہے کہ یہ اصل احتجاج کرے گی وہ کہ جو اسے سلف سے ملا ہے یہ تمھارے اس طور طریقے سے بھی جان چھڑا لے گی وہ احتجاج جس کے خوف سے تمھاری نیندیں اڑی ہوئی ہیں ،ہاں ہاں امت محمدیہ جاگ رہی ہے اسے تم نے جگا دیا ہے اور "تلوار والااحتجاج" کرنے والی ہے اور کیوں نہ کرے محمد عربی کی حرمت کا معاملہ ہے جس کے بغیر ایمان 
مکمل ہی نہیں ہوتا!


فتنہ و امت کے مابین دروازہ ۔ نومبر 2012


ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے بیان کیا، انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے پوچھا تم میں سے کسے فتنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انسان کا فتنہ( آزمائش) اس کی بیوی، اس کے مال، اس کے بچے اور پڑوسی کے معاملات میں ہوتا ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کردیتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھتا ہوں جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ امیرالمؤمنین تم پر اس کا کوئی خطرہ نہیں اس کے اور تمہارے درمیان ایک بند دروازہ رکاوٹ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا وہ دروازہ توڑدیا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ بیان کیا توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر تو وہ کبھی بند نہ ہوسکے گا۔ میں نے کہا جی ہاں۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا عمرص اس دروازہ کے متعلق جانتے تھے؟ فرمایا کہ ہاں، جس طرح میں جانتا ہوں کہ کل سے پہلے رات آئے گی کیو ںکہ میں نے ایسی بات بیان کی تھی جو بے بنیاد نہیں تھی۔ ہمیں ان سے یہ پوچھتے ہوئے ڈر لگا کہ وہ دروازہ کون تھے۔ چنانچہ ہم نے مسروق سے کہا( کہ وہ پوچھیں) جب انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ دروازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
(متفق علیہ)
اے رافضیوں کس کو گالی نکالتے ھو ، کس کی شان میں تمھاری زبان گستاخی پر دراز ھوتی ھے ، تم علم کے دروازے والی جھوٹی حدیث لیے بیٹھے ھو ادھر دیکھو فتنے اور امت کے درمیان کا دروازہ کون تھا، کس کی زات بابرکات نے فتنے کو روکے رکھا تھا ،آج تم اس دروازے کو توڑنے والے کا مزار بناتے ھو ادھر حاضری دیتے ھو!!! رب کعبہ کی قسم تم خود فتنہ ھو!


قاضی حسین احمد صاحب کی وفات پر ایک حدیث ! جنوری 2013
حضور فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں کہ تم میں سے ایک شخص جنتیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بام بھر کا یا ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے پھر اس پر لکھا ہوا سبقت کر جاتا ہے اور دوز خیوں کے اعمال سروع کر دیتا ہے اور اسی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی جہنمیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جہنم سے ایک ہاتھ یا ایک بام دور رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھ آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے اور جنت نشین ہو جاتا ہے ،۔۔صحیح بخاری


اس دور کا ابن تیمیہ ؟

جولائی 2013

گھوڑے جب زمین پر ٹاپیں مارتے تو گردوغبار کا ایک بادل سا اٹھتا ، نعروں کی گونج سے آسمان کا سینہ چیرا جارھا تھا ،سخت کوش ،تنومند تاتاری کمانیں کھینچے ھوئے تھے عربی گھوڑوں پر ان کہ کسے ھوئے بدن ایک عجب منظر پیش کرتے جس کو دیکھنے سے ہی دلوں پر ھیبت طاری ھوجاتی ،کثرت تعداد ، جنگی مہارت ، دلیری و شجاعت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا!
شامی و مصری مسلمان لشکریوں کہ دلوں میں ایک وحشت کا عالم تھا یہ لشکر جو کہ تاتار کہ جم غفیر کا سامنا کرنے کہ لیے بڑی مشکل سے جمع کیا گیا تھا اس کو اپنی جیت کا یقین نہ تھا ! مگر ایک ادھیڑ عمر نحیف سا شخص جس کہ چہرے پر ایک عجب سی چمک تھی بجلی کی کوندے کی طرح لپک رھا تھا !
اس پر نظر پڑتے ہی لشکریوں کا اضطراب جیسے دور سا ھوجاتا ! وہ ہر دستے کہ سامنے سے گھوڑا دوڑاتا ھوا گزرتا اور قسما و حلفا کہتا " کہ آج فتح تمھاری ھوگی"۔ اس قید یافتہ ،نحیف نراز شخص کہ وجود سے ایک عجب وقار جھلکتا ،اس کہ الفاظ میں عجب جادو تھا ، جنگ کہ لیے تیار ہر دستہ اس کہ قریب آکر درخواست کرتا اے شیخ اب تیمیہ آیئے ھمارے ساتھ کھڑے ھوں ، دیکھیں ہم جانثار ھیں آپ کی حفاظت بخوبی کریں گئیں ، مگر اس پر ایک عجب حال طاری تھا اتباع سنت کا امام کہتا نہیں ، رسول اللہ کی سنت ھے کہ بندہ اپنے قبیلے کہ ساتھ ہی کھڑا ھو !
اس کو ہر بات کی فکر تھی ، وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ آج شقحب کہ میدان میں شکست کا مطلب ،مسلمانوں کی عظیم بربادی ھے ، وہ اس لشکر کا امیر نہ تھا ،مگر لشکر کا عسکری جزبہ اسی کا مرھون منت تھا ،رات کی خاموش تنہایئوں میں یہ اللہ کہ سامنے گڑگڑاتا رھا تھا کہ "مالک لاج رکھنا" ۔ یہ لشکر جو کہ تاتاریوں کی ھیبت سے لرزاں تھا اسی کی مساعی کی وجہ سے اکھٹا ھوا تھا
جنگ کا مرحلہ قریب آرھا تھا ، تاتاریوں کا لشکر صف بندی کرچکا تھا ، رمضان کا مہنیہ بھی کفر و اسلام کی اس جنگ کو دم سادھے دیکھ رھا تھا ، ابن تیمیہ نے اپنے گھوڑے کو لشکر کا چکر مکمل کرنے کہ لیے پھر ایڑ لگائی اس دفعہ ان کہ ہاتھ میں کجھوریں تھیں جن کو وہ اہل لشکر کہ سامنے کھاتے جاتے اور سنت یاد دلواتے جاتے کہ دشمن کہ مقابلے میں اگر کمزوری کا خدشہ ھے تو روزہ کھول لو ! آج اگر کسی بھی جسمانی کمزوری کی وجہ سے کفر غالب آگیا تو روزے کا فائدہ نہ ھوگا!
معرکہ شروع ھوگیا ،تاتاری پے در پے آگے بڑھے ،ان کہ پہلے حملے نے ہی مسلمانوں کی صفوں کو چیر کر رکھ دیا ، بزدل پیٹھ دکھا کر بھاگے ، یہ حالت دیکھ کر مصر کہ حکمران ناصر بن قلاوون نے حکم دیا کہ اس کہ گھوڑے کو زنجیروں سے باندھ دیا جائے ۔ اور اللہ کہ ساتھ میدان جنگ میں موت تک لڑنے کا عہد کیا ۔امیر حسام الدین دیوانہ وار آگے بڑھے اور تاتاریوں کی صف چیرتے ھوئے شہید ھوگئے ،استاد دارالسلطان نے آٹھ امراءسمیت موت پر بیعت کی اور اور اپنا وعدہ پورا کردیا ،صلاح الدین بن ملک کی شان ہی نرالی تھی امیر ھونے کہ باوجود سپاہیوں سے بھی آگے جا کر لڑ رھے تھے !
شامی لشکر میں ابن تیمیہ کی شان ہی نرالی تھی ،یہ قلم و تقریر کا مجاہد آج تلوار ہاتھ میں تھامے شہادت کی تلاش میں سرگرداں تھا ! بار بار اپنے شامی ھمسازوں کو کہتا کہ مجھے اس جگہ لے چلو "جہاں پر موت ناچ رھی ھو" شامی جانباز اس کو دیکھ کر ھمت پکڑتے شاھیںوں کی طرح جھپٹتے اور چیتوں کی طرح دشمن کہ اجسام میں اپنی تلواریں پیوست کردیتے ،معلوم نہیں کہ ابن تیمیہ نے اس دن کیا نعرے لگائے ھوں گئیں مگر اس کا اندازہ ضرور ھے کہ جب یہ مرد حق نعرہ لگا کر حملہ آور ھوتا ھوگا تو ایک جم غفیر لیبیک کہتا ھوا شیر کی طرح حملہ کرتا ھوگا!
علماء و امرائے اسلام کی یہ بہادری دیکھ کر فوجیوں کہ دل ٹہر گئے ،شیر کی پلٹے اور مناجیق کے پتھروں کی طرح تاتار کہ اوپر برس گئے ، شام سے پہلے جنگ کا فیصلہ ھوگیا ، تاتار کہ خاقان ، قازان کو جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس کی دماغ کی شریان پھٹ گئی اور وہ بھی واصل جھنم ھوا !!!

اس دور میں قلم و تقریر کہ مجاہد تو بہت ھیں ، نہ جانے ابن تیمیہ کہاں ھے !! جو قلم و تقریر کہ ساتھ تلوار بھی اٹھائے ھو اور آواز لگائے " مجھے جنگ میں اس جگہ لے چلو جہاں موت ناچ رھی ھو"
یہ دور اپنے ابن تیمیہ کی تلاش میں ھے !!


مجاہدین اسلام کو خراج 

جولائی 2013
کوئی نشان حیدر نہیں ، کوئی ستارہ جرآت نہیں ، کوئی تمغہ بسالت نہیں ، کوئی تمغہ شجاعت نہیں !!
مبارک ھو مجاہدوں ، اللہ نے ان دنیاوی اعزازت سے بھی تم کو بے نیاز کردیا ! اس وھن زدہ امت کہ ہاتھوں لے کر تم نے کرنا بھی کیا تھا ! جو کہ ہر رافضی کو ، ہر یزیدی کو ، ہر احمدی کو ، ہر پلیدی کو اس سے نوازتی رھی ھو ، جس کی نظر میں دختر مشرق بھی شہیدہ ھو اور کوئی ارجاء کا مارا ھوا مجاہد ملت ھو !
تمھارا مقام بلند ہے ، جن کو انعام اللہ نے دینا ھو ،جن کہ سینے پر تمغہ اللہ کہ رسول نے سجانا ھو ، جن کو جنت میں علی شیر خدا کہ ساتھ مقام ملنا ھو ، جو سابقون الاولون میں سے ھونے ھوں ، فرشتوں نے جن کی جانثاری پر تعجب کرنا ھو ان کو یہی زیبا دیتا ھے کہ ان کی لاشیں سمندر کا پیٹ بھریں ، یا گلیوں ،بازاروں میں بے گورو کفن پڑی رھیں ، کبھی ان سے خوشبو آئے تو کبھی ھزاروں ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں کہ یہ خراب کیوں نہیں ھوتیں ،کبھی زمین میں زندہ دفنائے جاو تو کبھی جسم اتنے ٹکڑوں میں تقسیم ھو کہ وہ گنے نہ جاسکیں !
یہی تمھارا انعام ھے ، تمھارا ایمان نشان حیدر ھے ، تمھاری جرآت راہ شجاعت ھے، تمھاری پامردی ہی بسالت ھے ، 
اے دنیا بھر کہ مجاہدوں ، اللہ کہ شیروں تمھیں دنیاوی تمغوں سے بے نیاز کردیا گیا ھے ،تمھاری بدولت ہی وہ صبح نمودار ھونی ھے جس کی ضیا پاشی سے امت منور ھونے والی ھے ،آج تمھارے لیے کوئی تمغہ نہیں ھے ،کل تمھارے نام پر تمغے ڈھالے جانے والے ھیں


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں