اتوار، 28 جولائی، 2013

قتل عام !

تاریخ کہ دریچوں سے میں نے کئی قتل عام دیکھے ۔ مگر ان کو کبھی محسوس نہیں کیا
بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کا قتل عام ، رومیوں کہ عہد سلطنت میں عیسایئوں کا قتل عام ، کہیں اصحاب الاخدود کو آگ کہ گڑھوں میں گرتے دیکھا ، تو کبھی ہزاروں کہ مجمعے میں تاتاریوں کو کلہاڑیاں و تلواریں لے کر داخل ہوتے دیکھا ، کبھی بغداد ،ثمرقند ، بخارا لہورنگ ہوئے ،تو کبھی یوسف بن حجاج کہ ہاتھوں مدینہ کی گلیاں خون سے سرخ دیکھیں ،کبھی صلیبیوں کو بیت المقدس کو مسلمانوں کہ خون سے غسل دیتے دیکھا تو کبھی ایران کے صفویوں کو اہل سنت کہ خون میں !کبھی صابرہ و شتیلہ کہ کیمپوں کو خون رنگ پایا تو بھی نصیریوں کو حماۃ شہر برباد کرتے دیکھا !
کبھی فلسطین میں مسلمانوں کہ قتل عام کہ بارے میں پڑھا تو کبھی روسیوں کہ ہاتھوں ان کہ قتل عام کی خبر ملی !
مگر یہ سارے قتل عام میرے لیے تاریخ کہ پنوں پر لکھے گئے لفظوں کی مانند تھے جن کو پڑھ کر میں کبھی ان کی نوعیت کا نہ جان سکا اس دکھ درد و کرب احساس مجھے کبھی نہ ہوا جو کہ ان میں شریک لوگوں پر بیتا ہوگا۔ لڑکپن سے جوانی حدود میں داخل گیا ہاں اتنا ضرور جانتا تھا کہ قتل عام ہوتا تھا!! مگر اب جمہوریت ہے قتل عام نہیں ہوتا ًً

شعور کی حد میں داخل ہونے کہ بعد پہلا قتل عام کشمیر میں دیکھا ۔ جب ھندو غنڈے بہنوں و ماوں کی عزت پائمال کرتے ہوئے جنت نظیر میں گھس آئے اور اس وادی کو خون رنگ کردیا ۔ میں دیکھتا رہا پڑھتا رہا اور دعائیں کرتا رہا ۔
 شعور نے کچھ اور منزلیں طے کیں اور دوسرا قتل عام میں نے "قلعہ جنگی" کا دیکھا یہ قتل عام میرے گھر کہ پچھواڑے میں ہورہا تھا جس نے میرے شعور کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔ قتل عام ہوتا رہا میں بیٹھ کر دیکھتا رہا دعائیں ہی مانگتا رہا !!
تیسرا معروف قتل عام "فلوجہ عراق" میں ہوا یہ ستایئسویں کی شب تھی وحشی درندوں نے شہر میں داخل ہوکر بچوں ،عورتوں ،بوڑھوں تک کو نہ چھوڑا ۔ لاشیں گلیوں بازاروں ، چوراھوں میں جانوروں کہ پیٹ بھرنے کا سامان بنیں ۔میں بیٹھ کر دیکھتا رہا دعائیں ہی مانگتا رہا !!

چوتھا معروف قتل عام مشہور بدنام زمانہ جیل "ابوغریب عراق" میں ہوا ۔ جی یہ بھی قتل عام تھا جب کہ انسانیت نے انسانیت کی تذلیل کی ۔ میں بیٹھ کر دیکھتا رہا اور دعائیں ہی مانگتا رہا !!
میرے شعور کی حد میں پانچواں  قتل عام "لال مسجد" میں ہوا میں تین دن تک بیٹھ کر دیکھتا رہا دعائیں ہی مانگتا رہا ًً
چھٹا قتل عام "سوات" میں ہوا میں گھر میں بیٹھ کر دیکھتا رہا دعائیں ہی مانگتا رہا !
ساتواں قتل عام ، آٹھواں قتل عام ، نواں قتل عام میں دیکھتا ہی رہا اور دعائیں ہی مانگتا رہا۔!!

پھرمذبح خانہ شام میں کھلا میں دیکھ ہی رہا ہوں اور دعائیں ہی مانگ رہا ہوں !!
مگر بات ابھی ختم نہیں ہوئی کہ مصر کا "قتل عام" شروع ہوگیا ۔مگر میری حالت نہیں بدلی میں دیکھ ہی رہا ہوں اور دعائیں ہی مانگ رہا ہوں !!
قاتلوں قتل عام کرتے رہو میں دیکھ رہا ہوں اور دعائیں مانگ رہا ہوں !!!

ہفتہ، 27 جولائی، 2013

روح سید قطب سے ایک خطاب !!


سید مجھے یاد ہے کہ جب نئی نئی مجھے توحید کی سمجھ آئی تھی ،قرآن کی روشن کرنوں نے میرے سینے کو منور کرنا شروع کیا تھا ،جہالت کہ اتھاہ اندھیروں سے نکل کر توحید کی روشنی میں ،میں نے راستہ دیکھنا شروع کیا تھا تو میں اپنے سالخوردہ سلفی استاد کو حیرت کی نظروں سے دیکھنا شروع کردیتا جب یہ لمبی داڑھی والا ہر معلوم سنت پر اپنی طاقت کہ مطابق عامل شخص آپ کا نام بڑے احترام سے لیتا ! میں نے ان دنوں گوگل پر نئی نئی آپ کی تصویر دیکھی تھی ،مجھے سمجھ نہ آتی تھی کہ میرے استاد جو ہر لمحہ ہمیں قال اللہ و قال الرسول کی دعوت و تعلیم دیتے ہیں اور ان کی دعوت توحید اتنی خالص ہے کہ بڑے سے بڑا نام جس کا دامن شرک سے یا بدعت سے منسوب ہو اس کہ رد سے نہیں بچ سکتا، بھلا اس کو آپ کو آپ کا داڑھی کہ بغیر ہونا اور سوٹ بوٹ میں ملبوس ہونا نظر نہیں آتا !!! یہ میرے استاد آپ کی بات بیان کرتے اور کسی اندرونی جذبے سے ان کا چہرہ دمکنے لگتا !
سید میں نے بڑے شوق سے آپ کی کتاب المعالم فی الطریق کا اردو ترجمہ جادہ منزل خریدا اور اسے پڑھنا شروع کیا ، سید میں سچی بتاوں اس کتاب کی مجھے سمجھ آئی ہو یا نہ آئی ہو مگر آپ کی زندگی کہ حالات پڑھ کر میں بھونچکا رہ گیا !!
آپ نے یہ سب کچھ کیسے کرلیا ؟ اعلی تعلیم ، شاعری ، مصنفی ، سفارت ، پھر راہ خدا میں پلٹنا ، اخوان کی قیادت ، جیل ،تشدد ، پامردی ، استقامت ، دین کی دعوت ،تفسیر ، اور پھر شہادت !!
میں جو سدا سے ایک سپر ہیرو کی تلاش میں تھا آپ کی صورت میں مجھے وہ مل گیا ، کبھی آپ کی تحریر اور کبھی تفسیر نے میری بہت سی جگہوں پر رھنمائی کی ۔ سید میں کبھی کبھار سوچتا تھا کہ میں آپ کو دیکھ نہیں سکا ،کاش کہ میں بھی آپ کہ زمانے میں ہوتا مجھے معلوم ہونا شروع ہوگیا کہ میرا بوڑھا عظیم استاد آپ کا نام عقیدت و احترام سے کیوں لیتا ہے ! میرا چہرہ بھی آپ کا نام زبان پر لاتے ہی دمکنا شروع ہوجاتا !!
مگر اب مجھے آپ سے نہ ملنے کو کوئی افسوس نہیں ہے ! میں مصر کی گلیوں میں ، سڑکوں پر ، چوراھوں پر لاکھوں سیدوں کو دیکھ رہا ہوں ! کسی کو گولی کھاتے ، کسی کو ہنٹر کھاتے ، کسی کو ڈنڈوں سے مضروب ، کسی نے اپنے وجود کہ اوپر پہنی شرٹ پر یہ بھی پینٹ کروا لیا ہے اسلام یا شہادت !!
آج چاروں طرف سید ہیں ،ان میں بے ریش بھی ہیں اور با ریش بھی ، ان میں سوٹڈ بوٹڈ ،ٹائی کوٹ پینٹ پہنے ہوئے بھی ہیں اور لمبی مصری عباوں میں ملبوس بھی ، ان میں افغانستان کہ سنگلاخ چٹانوں پر لڑنے والے جانثار بھی ہیں ، اور عراق ، شام ، لیبیا کہ صحراوں و میدانوں میں داد شجاعت دینے والے شیر بھی ، یہ جو آج مصری فوج کی گولیوں سے گرے ہیں یہ بھی سید ہیں ، یہ جو مسجد کہ پاس اکھٹے ہیں یہ بھی سید ہیں ، ہر کوئی جادہ و منزل کہ کسی باب پر ہے کوئی پہلے پر تو کوئی آخری پر مگر آج ان سب کہ چہرے دمک رہے ہیں !! میں ان کو دیکھتا ہوں تو میرا بھی چہرہ دمک اٹھتا ہے 

منگل، 23 جولائی، 2013

شام کی جہادی تنظمیں ! تعارف و تبصرہ ، دوسری قسط




فری سیرین آرمی (FSA):
عربی نام – الجیش السوری الحر
    جولائی    2011  میں شامی انقلاب کہ آغاز میں ہی  شامی فوج میں شامل فوجیوں کی ایک کیثر تعداد نے بغاوت کردی اور فوج سے علیحدہ ھوکر ایک فوجی کمانڈر کرنل ریاض الاسد کہ اردگرد جمع ھوگئے ، کرنل ریاض اس وقت ترکی میں پناہ لیے ھوئے تھے اور ترکی کہ ایک پناہ گزین کیمپ میں زندگی گزار رھے تھے ، مغربی و حکومتی عربی میڈیا نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور فوجیوں کہ اس اجتماع کو "فری سیرین آرمی " کہہ کہ پکارنا شروع کردیا ، اس فوجی اجتماع کہ مقاصد شام کو بشار الاسد کہ قبضے سے نجات دلانا تھا ،اس کا کوئی اسلامی ایجنڈہ نہ تھا ،مغربی طاقتوں نے اس فوجی اجتماع کو "شامی آزادی محاز " جس کو "ایس این سی" بھی کہا جاتا ھے کا ملٹری ونگ بنانے کہ لیے کوششیں تیز کردیں  شامی آزادی محاذ کا قیام سسمبتر ،اکتوبر 2011 کہ درمیان مغربی طاقتوں کہ کہنے پر ترکی میں وجود میں آیا تھا اور اس میں قوم پرست سیکولرز اور دینی جمہوری طاقتیں  جیسے کہ اخوان وغیرہ شامل ھیں  اس وجہ سے  میڈیا میں فری سیرین آرمی  کو غیرمعمولی کوریج ملی ۔
2011 کہ اختتام تک شام میں معرض وجود میں آنے والا ہر مزاحمتی گروہ اپنے آپ کو فری سیرین آرمی سے منسوب کرتا تھا اور اسی جھنڈا و نشان استعمال کرتا تھا ،ایسے گروہ ہر ھفتے درجنوں کی تعداد میں جنم لیتے تھے ،یہ سارے ریاض الاسد کو اپنا سپریم ملٹری کمانڈر تسلیم کرتے ، مگر درحقیقت ان کاترکی میں جلاوطن قیادت سے کسی بھی قسم کا کوئی  انتظامی تعلق نہ تھا ، یہ بس ایک نام  کا استعمال تھا جس کو مغربی میڈیا نے کوریج دی تھی ۔
ریاض الاسد کا حال یہ تھا کہ وہ ترکی کہ ایک پناہ گزین کیمپ میں ترکی خفیہ اداروں کی کڑی نگرانی میں دن گزاررھے تھے جو کہ ان کہ ہر نقل و حرکت پر نگاہ رکھتی تھی ،یہاں تک کہ ان سے ملنے آنے والے میڈیا کہ نمائندوں کو بھی کڑی پڑتال کہ مراحل سے گزرنا پڑتا اس کہ بعد اگر ترکی کہ خفیہ ادارے ان کو اجازت دیتے تو وہ ان سے مل پاتے ! اس صورتحال میں کرنل ریاض کا کام ماسوا بیانات جاری کرنے کہ یا کبھی کبھار شام میں کچھ مالی مدد روانہ کرنے کہ اور  کچھ بھی نہ رہ گیا تھا ۔ بالفعل شام تک ان کی رسائی نہ ھونے کہ برابر تھی ۔2012 کی شروعات تک یہ بات واضح ھوگئی کہ کرنل ریاض شام میں جاری  مزاحمتی تحریک کو مناسب مالی یا ملٹری سپورٹ دینے سے قاصر رھے ھیں اور شام میں اپنی مقبولیت کو کھوتے جارھے ھیں ،اسی سال کہ درمیان تک شام میں جو نئے مزاحمتی گروہ سامنے آرھے تھے وہ فری سیرین آرمی  کا نام استعمال کرنے سے اجتناب برت رھے تھے اور اپنی ایک آذادانہ پہچان کروا رھے تھے۔ 2012 کہ موسم خزاں تک یہ آرمی اپناتشخص کھوچکی تھی اور زمینی حقائق میں کہیں بھی نہ پائی جاتی تھی ۔کرنل ریاض پردہ سکرین سے غائب ھوچکے تھے اور مختلف رپورٹوں کہ مطابق  شام میں لڑنے کہ لیے پہنچ گئے تھے ۔
مگر فری سیرین آرمی کہ نام نے جو مقبولیت حاصل کی تھی اور اس کا جو ایجنڈہ تھا وہ مغربی طاقتوں کہ لیے خاص اہمیت کا حامل تھا  کوئی شک نہیں  کہ کرنل ریاض اور انکی آرمی  محب وطن لوگوں پر مشتمل تھی اور بشار کو ھٹانے کہ لیے فوجی بغاوت پر کمر بستہ ،اور اس سے بڑھ کر یہ بشار کو ھٹانے کہ بعد شام میں ایک  "اسلامی جمہوری ریاست" کہ قیام کی متمنی تھی جو کہ مغرب کہ لیے ایک نعمت سے کم نہ تھا ، اس لیے انہوں نے دسمبر 2012 میں پھر کوشش کر کہ ترکی کہ شہر اناطولیہ میں ھوئی ایک کانفرنس کہ زریعے اس آرمی کو دوبارہ کھڑا کیا۔ اس بار اس کہ کمانڈر جنرل سلیم ادریس تھے ۔ فری سیرین آرمی کہ جھنڈے تلے ان تمام گروھوں کو اکھٹا کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ کسی نہ کسی طریق پر مغربی یا عرب ممالک سے فوجی و مالی امداد وصول کررھے تھے ۔ مگر عملا اب اس آرمی کا سیکولر یا لبرل تشخص صرف سیاسی رہ گیا تھا اس کہ جھنڈے تلے لڑنے والے گروھوں کی پہچان "دینی جمہوری" لوگ تھے  جو کہ ایک آزاد جمہوری ریاست کہ قیام پر یقین رکھتے تھے جہاں پر اسلام کو جمہوری طریقہ سے نافذ کیا جائے ۔ اسمیں موجود سیکولرز و لبرلز جنگ کی سختیوں کی تاب نہ لاکر اپنی عادت کہ مطابق کب کہ بھاگ چکے تھے یا انہی گروھوں میں ضم ھوگے تھے ۔
مگر فری سیرین آرمی آج بھی میدان جنگ میں ایک منظم قوت کی حثیت نہیں رکھتی ، یہ ایک لیبل ھے جو کہ مختلف گروھوں کی طرف سے استعمال کیا جاتا ھے ۔جیسے کہ صقور الشام جس کہ لیڈر ایک سلفی  شیخ احمد ہیں ، اور شہدا الشام  جس کہ رھنما جمال معروف ھیں ، یہ اپنے آپ کو مختف مالی و  فوجی امداد کہ ضمن میں فری سیرین آرمی سے منسوب ضرور کرتے ھیں مگر در حقیقت یہ سلیم ادریس سے کسی بھی قسم کا کوئی حکم وصول نہیں کرتے اور نہی ہی  میدان جنگ میں کوئی رھنمائی اس ے لی جاتی ھے ۔بات سمجھنے کہ لیے اس کی سب سے قریب ترین مثال  یاسر عرفات ہیں ، جن کی عملی شمولیت میدان جنگ میں نہ ھونے کہ برابر تھی  وہ صرف تحریک آزادی فلسطین کا ایک سیاسی چہرہ تھے !
   اس میں شامل ایک اور قابل زکر نام فاروق بٹالین ھے جو کہ  غیر ملکی جنگجووں کہ سخت خلاف ھے اور اسی نے ستمبر 2012 میں ایک شامی مجاہد  ابو محمد العبسی کو  القاعدہ کا جھنڈا لہرانے پر اغوا کہ کہ مارڈالا تھا ، اس کہ ایک کمانڈر پر  اسدی فوجی کو مارنے کہ بعد اس کا کلیجہ نکال کر کھانے کا بھی الزام ھے
ان وجوہات کی بنا پر بعض مغربی صحافی جو کہ شام کی تنظیموں کہ حالات پر اتھارٹی سمجھے جاتے ھیں  جن میں  آئرن لنڈ کا نام قابل زکر ھے  اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں کہ فری سیرین آرمی نامی کوئی گروہ  زمینی حقائق میں پایا جاتا ھے ۔ ان کہ مطابق یہ نام  "شام کی تحریک آزادی کی نمائندگی کہ لیے استعمال  ھوتا ھے " جیسے کہ  ہم تحریک پاکستان کا لفظ اس پوری تحریک کہ لیے استعمال کرتے ھیں جس  میں مختلف  دینی  و سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا جن میں سے ہر ایک  مسلم لیگ کا حصہ نہ تھی ۔
تعداد:
  مختلف دعوی کیے جاتے ہیں مگر حال ہی میں جون 2013 میں سلیم ادریس کا یہ دعوی  
 ہزار جنگجوؤں کو اپنے گروپ میں رہنمائی کررہے ہیں80000سامنے آیا ہے کہ وہ 
 کے درمیان سے ہی مختلف باغی گروہوں کے زیر استعمال رہا2011
منسلکہ گروہ
 شامی شہداء بریگیڈ،
تعداد: ہزاروں میں، دس ہزار کے لگ بھگ، اس گروہ کے لیڈر نے دعوی کیا تھا کہ ان کے پاس اٹھارہ ہزار جنگجو ہیں مگر یہ دعوی بہرحال متنازعہ ہے
لیڈر جمال معروف
تعلق: فری سیرین آرمی

ابتدائی نام جبل الزاویہ شہداء برگیڈ تھا مگر بعد میں جمال معروف کے عزائم کے تناظر میں اس نام میں تبدیلی کردی گئی، اس گروہ کا گڑھ ادلیب کے جبل الزاویہ کے مشکل اور دشوار گزار علاقے ہیں، اس گروہ کی کچھ ہی شاخیں ایسی ہیں جو اس گڑھ سے باہر ہوں، اپنے مقامی اسلامی حریفوں کے مقابل جمال معروف کی کوئی واضح فکری سمت متعین نہیں ہے مگر بہرحال یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کو سعودی امداد حاصل ہے


 فاروق بٹالین
لیڈر -: اسامہ جنیدی

تعلق: شامی اسلامی آزادی محازاور فری سیرین آرمی

فاروق بٹالین ایک بہت بڑا اسلام کی جانب جھکاؤ رکھنے والا گروہ ہے جس کے جڑیں شامی جہاد کی شروعاتی فری سیرین آرمی کے قیام سے جا ملتی ہیں جو حمص میں 2011 میں قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، یہ گروہ منظر عام پر تب آیا جب فروری 2012 میں اس گروہ نے بابا امر نامی جگہ کی ناکام دفاع کی کوشش کی ، تب سے اس گروہ نے قابل غور ترقی کی اور آج یہ ملک بھرمیں منسلک گروہوں کے زریعے آپریٹ کررہا ہے ، شمال میں فاروق بٹالین کا ایک بہترین مالی حالات کا حامل بازو فاروق الشمال اہم سرحدی علاقوں پر کنٹرول رکھتا ہے اور اس کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ اس پر ترک حکومت کا سایہ شفققت ہے


توحید بریگیڈ
جنرل لیڈر: عبدالعزیز سلاما
ملٹری کمانڈر: عبدالقدیر صالح
تعداد: ترجمان کے مطابق 11000
علاقہ: حلب، پورے ملک میں چھوٹے گروہ بھی موجود ہیں
تعلق: شامی اسلامی آزادی محاذ، فری سیرین آرمی
توحید بریگیڈ جولائی 2012 میں سنی عرب گروہوں کو ملا کر حلب کے اطراف میں بنایا گیا ، کچھ ہی عرصے میں اس گروہ نے شہر پر دھاوا بول دیا مگر کچھ ابتدائی کامیابیوں کے بعد 2012 کی خزاں میں باغیوں کو قابو کرلیا گیا،توحید بریگیڈ حلب کے علاقے میں ایک مضبوط قوت ہے اور اس کے کچھ حلیف دیگر علاقوں میں بھی موجود ہیں،یہ گروہ گو کہ اسلامی ریاست کا قیام چاہتا ہے مگر یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ اقلیتوں کو بھی برابر کے حقوق دلائے جائیں۔

اسلام بریگیڈ-: رہنماء:طہران العوش

تعداد:ہزاروں میں
علاقہ: بنیادی طور پر دمشق

تعلق: شامی اسلامی محاذ اور فری سیرین آرمی

اسلام بریگیڈ العوش خاندان کی جانب سے بنایا گیا جن کا تعلق دمشق کے مشرقی علاقے دوما سے تھا،بزرگ سردار محمد العوش جو عالم دین بھی ہیں سعودیہ میں رہائش پزیر ہیں ان کے صاحبزادے ظہران جو کہ ایک سلفی متحرک کارکن ہیں ،اور جن کو حکومت 2009 میں جیل بھی بھیج چکی ہے، نے اس گروپ کی بنیاد تب رکھی جب وہ 2011 کے وسط میں جیل سے رہا ہوئے، اس گروہ کا عروج بشار الاسد حکومت کے نیشنل سیکورٹی سینٹر کو 2012جولائی میں تباہ کرنے کے بعد سے شروع ہوا جس میں کافی بڑے پیمانے پر اسدی حکومت کےصف اوّل افسران مارے گئے تھے، یہ گروہ خود کو دمشق کا سب سے بڑا گروپ قرار دیتا ہے اور دعوا کرتا ہے کہ اس کی 64 سب بٹالئینز ہیں مگر اپنی قطعی تعداد بتانے سے انکاری ہیں


صقر الشّام بریگیڈ -: رہنماء: احمد عیسٰی الشیخ

تعداد: ہزاروں میں،ممکنہ طور پر دس ہزار تک

علاقہ: جبل الزاویہ، ادلیب
تعلق: شامی اسلامی آزادی محاذ، فری سیرین آرمی
اس گروہ کی بنیادیں 2011 کی گرمیوں میں ادلیب کے جبل الزاویہ کے علاقے میں رکھی گئیں، یہ شام کے اسلام پسند گروپوں میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اور پہچانا جاتا ہے، تب سے اب تک اس گروہ کی اٹھان قابل غور رہی ہے اور اس کے کئی ایک سب یونٹس جیسے کہ داؤد بریگیڈ دیگر انتہاء پسند جتھوں کے ساتھ جنوبی علاقے جیسے کہ حماء کی طرف پیش قدمی کر چکے ہیں، اس گروپ نے شامی 

اسلامی آزادی اتحاد تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا جس کے لیڈر کی زمہ داریاں احمد عیسٰی الشیخ نبھاتے رہے تھے
تیسری قسط پڑھنے کہ لیے یہاں کلک کریں

پیر، 22 جولائی، 2013

الوداع مسجد خالد بن ولید ! تصویر کہانی





الوداع مسجد خالد بن ولید

حمص کہ قریب سے گزرتے ھوئے اس کہ لنگڑے وجود پر بھی ہیبت طاری تھی ،  جس کی ہیبت سے مشرق و مغرب تھرتھراتے تھے آج خود ایک رعب کا شکار تھا ، اپنے دشمنوں کے سروں کی کھوپڑیاں کا محل بنانے والا "امیر تیمور" ملک شام میں اپنی ظلم و بربریت کہ نشانات چھوڑتا ھوا آگے بڑھ رھا تھا مگر حمص کہ پاس آتے ہی کسی کہ رعب نے اس کی ساری اکڑ ختم کردی تھی ! یہ سیف اللہ کا رعب تھا ، اللہ کی ننگی تلوار ،جس کہ بارے زبان صادق ،حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا تھا " کہ جس تلوار کو اللہ نے اپنے دشمنوں پر کھنچا ھے اس کو میں نیام میں کیسے کرلوں"
تیمور کی آنکھوں میں کئی منظر ھوں گئیں ، اسے وہ اپنا وہ وقت یاد آگیا جب وہ ایک ٹیلے پر صرف سترہ ساتھیوں سمیت پانچ سو کہ لشکر سے جا ٹکرایا تھا ، مگر اپنی یہ بہادری بھی اس کو سیف اللہ کہ مقابلے میں چھوٹی لگ رہی تھی جو کہ چند مسلمانوں کو لے کر رومیوں کہ بحر بے کنار سے جاٹکرائے تھے ،یا اس کی چشم تصور نے دیکھا ھوگا کہ خالد بن ولید اپنی بغل میں مشہور ایرانی پہلوان و سپہ سالار کہ دبائے دوڑے جارھے ھیں اور اٹھا کر زمین پر پٹخ رہے ھیں ! 
ایک "ظالم" نے ایک "بہادر" کو خراج تحسین پیش کیا اور حمص کو بغیر تباہ کیے آگے بڑھ گیا! سیف اللہ کی ہیبت ان کی وفات پاجانے کہ صدیوں بعد بھی کام کررھی تھی !!
مگر یہ کون ھیں !؟ یہ کالی پگڑیوں اور کالے کرتوں والے رافضی جو کہ اپنی دانست میں سیدہ زنیب کہ مقبرے کو بچانے آئے ھیں اور سیف اللہ کی مسجد پر بمباری کیے جارھے ھیں ! ان کہ دل مردہ ھوچکے ھیں ،ظالم اگر بہادر بھی ھو تو دوسرے بہادر کو خراج تحسین پیش کرتا ھے یہ اصل میں بزدل ھیں ، ان کو بہادری کی پہچان نہیں ،ان کو عزت کی پہچان نہیں ، ان کو حرمت کی پہچان نہیں !
ہاں مگر خالد بن ولید کہ بیٹے زندہ ھیں ! کم
ہیں تو کیا ھوا !! خالد بھی تو امت میں ایک ہی ھوتا ھے ،اللہ کی ایک ہی تلوار کافی ھے ! رافضیوں یہ خالد کہ بیٹے ھیں خالد کی طرف بڑھنے سے پہلے ان کی لاشوں سے گزرنا ھوگا!! !


ھائے افسوس ! خالد بن ولید کو تو قعقاع بن عمرو میسر تھا ، معدی کرب میسر تھا ، ابو عبیدہ الجراح میسر تھا ، مدینہ و مکہ میں ایک ایسی قوم میسر تھی جس کا ہر بندہ خالد بن ولید تھا 
مگر ان خالد کہ بیٹوں کو "ایک وہن زدہ جمہور" میسر ھے ، مگر غم نہ کرنا ،مسجد جاتی ہے تو جائے ، خالد بن ولید کا جسم جاتا ہے تو جائے تم ان شاءاللہ سیف اللہ کہ ساتھ جنت کی وادیوں میں ھو گئے !
الوداع مسجد خالد بن ولید ، الوداع خالد کہ بیٹوں ، الوداع جنت کہ راہیوں ۔ تمھارا مقام اتنا اونچا ھے کہ تمھیں اس "وہن زدہ جمہور" کہ ساتھ رھنے کی حاجت نہیں

اتوار، 21 جولائی، 2013

ایک اور درندہ جھپٹتا ھے !!





ایک اور درندہ جھپٹا ھے

تم پر قومیں یوں ٹوٹ پڑیں گئیں جیسے کھانے والے تھال پر بھوکے جھپٹتے ھیں ! رسول اللہ کہ لہجے میں مکمل یقین تھا
صحابہ میں اضطراب بڑھ گیا ، ایک الجھن کہ عالم میں دریافت کیا ،
 کیا اس دن ہم تعداد میں کم ھوں گئیں؟ !
نہیں ! رسول اللہ کہ انکار میں ایک حزن و ملال تھا ،
تمھاری تعداد تو ریت کہ زروں کی مانند ھوگی ،مگر تمھاری حثیت خس و خاشاک جیسی ھوگی ، تمھاری ھیبت دشمنوں کہ دلوں سے ختم ھوچکی ھوگی اور تمھارے دلوں میں وہن ھوگا!
یہ وہن کیا ھے اے اللہ کہ رسول؟ !! صحابہ نے اور اضطرابی حالت میں پوچھا
وہن! حب الدنیا و کراھیۃ الموت (دنیا کی محبت و موت سے نفرت)۔ رسول اللہ نے فرمایا

ھاں ھاں ھمارے دلوں میں وہن آچکا ھے درندے پر درندہ جھپٹ رھا ھے ، کبھی افغانستان میں جھپٹتا ھے ، کبھی چین میں ، کبھی عراق میں تو کبھی شام میں، کبھی وزیرستان کے پرپیچ پہاڑی راستوں پر خون مسلم سے ھولی کھیلتا ھے تو کبھی مالی کہ صحراوں میں مسلمانوں کا مذبح خانہ کھولتا ھے ، کبھی برما کے مسلمانوں کا خون پیتا ھےتو کبھی چیچنیا کہ مرغزاروں میں ۔ایک آتا ھے کھاتا ھے ،پھر دوسرے کو آواز دیتا ھے کہ آو اپنا حصہ کھا لو ،پھر جو بچ جاتا ھے اس کو اردگرد جمع رھائشی گدھوں کہ لیے چھوڑ دیتا ھے کہ دیکھنا کچھ بچ نہ جائے یہ بڑا ہی سخت جان ھے کیا پتہ کہ زندگی کی کوئی معمولی سی رمق رہ گئی ھو !!
آج یہ درندہ پھر جھپٹا ھے سجدے ، رکوع و تلاوت میں مصروف مصری مسلمانوں پر ،دیکھتے ہی دیکھتے 40 سے زائد کو خاک و خون میں نہلا گیا ھے ، یہ طفیلی مسلم خور آقا سے زیادہ آقا کا وفادار ھے !!
مگر مسلمانوں غم نہ کرنا ، تم "وہن ذدہ جمہور" جو ھوئے !! کثرت میں ھو دیکھتے نہیں ارب سے زیادہ تعداد ھے تمھاری ، دنیا کا سب سے بڑا مذھب !! تم سے کوئی ایشین ٹائیگر ھے تو کوئی اٹیمی طاقت ، کوئی تیل کی دولت سے مالا مال ھے اور کسی کے پہاڑ ھیرے جواہرات اگلتے ھیں ،بابری مسجد گر گئی تو کیا ! لال مسجد کون سی بھلا تم نے توڑی ھے ! حمص کی خالد بن ولید مسجد سے تمھیں کیا مطلب! عراق کی مساجد پر پریشان ھونے کا کیا سوال ! حج تو ھورھا ھے نا! مسجد نبوی تو آباد ھے نا ! پچیس لاکھ سے زیادہ حاجی ھوتے ھیں رمضان میں 15 لاکھ سے زیادہ عمرہ کرنے والے ! واللہ کیا نظارہ ھے ،کیا کثرت ھے ! اللہ اکبر کیا جمہور ھے ! ان چند لوگوں کی بات نہ سننا کیونکہ تم ہی جمہور ھو!
پریشان ھونے کی بات نہیں تمھاری کثرت بہت زیادہ ھے چالیس مرے یا ھزار تمھیں کیا فرق پڑتا ھے "تم جمہور ھو ،تم ہی کثرت ھو"
اگلے الیکشن بھی تمھارے ہی ہیں!

آخری مورچہ !


   
3 سبتمر 1260-
میدان – عین جالوت ۔ گلیل
موجودہ ۔ ریاست اسرائیل
سیف الدین قظز آپ کہاں ھو !!

عیسائی بچے ان کو حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھ رھے تھے ، گرجے کی دعاوں میں آج مسلمانوں کی فتح کہ لیے دعائیں بھی شامل تھیں،عیسائی دوشیزائیں سفید گھوڑوں پر سوار ان شامی و مصری جوان رعنا چہروں کو دیکھ کر عجب سی کیفیت سے گزرتیں جو کہ ان کہ علاقے میں سامان رسد خریدنے کہ لیے رک گیا تھا ،
عیسائی سردار کو یہ تشویش تو تھی کہ کیا یہ مصری و شامی لشکر اپنا وعدہ پورا کرے گا اور اس کہ خطے سے صرف رسد کی خریداری کر کہ گزر جائے گا مگر اس سے زیادہ فکر اسے اس بات کی تھی کہ خدا اس لشکر کو فتح یاب کرے جو کہ نسل انسانی پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی قیامت تاتاریوں سے مقابلہ کرنے کہ لیے جارھا ھے ،جس نے مسلمانوں کی سلطنتوں کہ ٹکڑے ٹکڑے کردیئے تھے ! اور اگر اس معرکہ میں بھی وہ شکست کھاجاتے ھیں تو ان کہ پاس عرب کہ صحراوں کہ علاوہ سر چھپانے کو کوئی جگہ نہ ھوگی! اور تاتاریوں کا اگلا نشانہ عیسائی سلطنطیں ھوں گئیں !
 
مصر و شام اسلام کہ آخری مورچے تھے !!
عین جالوت کہ مقام پر یہ معرکہ شروع ھوا، تاتاریوں کا حملہ بلا خیز تھا ،مگر شامی چھلاوہ بیبرس طرح دیئے جارھا تھا ، تاتاری سردار قط بوغا کو اپنی فوجوں کہ مہارت و بے رحمی پر یقین تھا ، وہ شیر کی طرح آگے بڑھا ، بیبرس مقابلے کہ لیے آگے بڑھا مگر عین ٹکراو کہ وقت جھکائی دے گیا ، تاتار کو لگا کہ مسلمان اس کی افسانوی ھیبت سے ڈر کر میدان چھوڑ رھے ھیں ، تعاقب شروع ھوگیا ، بیبرس ایک چھلاوہ بنا ھوا تھا ان کو عین جالوت کہ پہاڑی سلسلے تک گھیر لایا ، مسلمان اللہ اکبر کہ نعروں کی گونج میں پلٹے اور اصل مقابلہ شروع ھوگیا ، قط بوغا فورا سمجھ گیا کہ آج تاتار کی چال انہی پر پلٹ گئی ھے،
ادھر سے سیف الدین قطز کی فوجیں گھات لگائے ھوئے شیر کی طرح دھاڑتی ھوئی جنگل سے نکل کر آگے بڑھیں، یہ مصری جوان جن کی جوانمردی کہ قصے افسانوں کی زنیت تھے عقاب کی طرح جھپٹے !
مگر تاتار نے جی جان سے مقابلہ کیا ، نرغے میں آئے ھوئے شیر کی طرح چاروں طرف کا حملہ ، مسلمانوں کا بایاں بازو برباد کرکہ رکھ دیا ، شکست کہ آثار ظاہر ھونے لگے ، بزدل پیٹھ دکھا کر بھاگنے لگے !!
ان بھاگتے ھوئے فوجیوں نے ایک عجب منظر دیکھا ، ایک اکیلا شخص جس کہ چہرے پر حفاظتی خود بھی نہ تھا ان کی مخالف سمت میں تاتاریوں کہ لشکر کی طرف دوڑتا ھوا جارھا تھا ،چہرے پر اعلی نسبی کی علامات ، ہاتھ میں چمکتی تلوار ، زبان پر نعرہ مستانہ " او اہل اسلام ، او اہل اسلام ، اسلام کی مدد کرو"
مصری شاھینوں نے پہچاننے میں کوئی غلطی نہ کی یہ کوئی اور نہیں خود ان کا امیر "سیف الدین قطز" تھا وہ چمکتی ھوئے بجلیوں کی طرح اپنے امیر کہ پیچھے لپکے جو کہ تاتار کی صف میں اکیلا ہی تلوار چلا رھا تھا ،اور تاتاریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا! قط بوغا لڑائی میں مسلمانوں کہ ہاتھوں مارا گیا اور پورے شام سے تاتاریوں کا صفایا کردیا گیا ۔ وقت کہ مورخ نے اس معرکے کو تاریخ کی چند فیصلہ کن و عہد ساز جنگوں میں قرار دیا
!

سیف الدین قطز آپ کہاں ھیں ؟ کوئی ھے مصر میں ، شام میں ، لیبیا میں ، پاکستان میں ، ملائیشا میں ، سعودیہ میں ، انڈونیشا میں ، قطر میں ، یمن میں جو کہ اپنے چہرے سے "ہر منافقت کا خود اتار پھینکے" اور پکار کر کہے او مسلمانوں ، او مسلمانوں ، اسلام کی مدد کرو !! کوئی ھے ؟؟؟؟؟؟؟؟
Top of Form
Bottom of Form

خلیفہ کیسے منتخب ھوگا !


عاطف بیگ
بھلا یہ بات بھی سمجھنی کیا مشکل تھی ! اور کچھ نہیں تو جمہور پسندوں نے اپنے سسٹم پر ہی غور کرلیا ہوتا!
مسئلہ ذہن میں یہ الجھا ہوا ہے کہ "خلیفہ" کا انتخاب آخر "جمہوریت" کے بغیر ہوکیسے سکتا ہے !!یعنی ان گنت لوگوں کا ایک ہجوم ہے اور ان میں سے ایک خلیفہ منتخب کرنا ہے یہ ووٹنگ کے بغیر آخر ہوکیسے سکتا ہے ؟!آج کل ہرطرف یہ کوشش ہورہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح چناؤکے اس طریقے کو "اسلامی جمہوریت" ثابت کردیا جائے اور کثرت کو اس کی دلیل بنا دیا جائے !کچھ ظریف تو یہاں تک پہنچے ہیں کہ "جمہوریت اور اسلام " کے فرق کو صرف "اصطلاحات" کا فرق مان بیٹہے ہیں - کیونکہ یہ دونوں ہی "نظام حکمرانی" ہیں اس لیے ان کی واقعاتی مشابہت سے دھوکا کھا کر یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ ان کی بنیاد میں بھی کوئی فرق نہیں ہے !
بہرحال اس مضمون کا مقصد ابھی اس فرق کو اجاگر کرنا نہیں ہے بلکہ "جمہوریوں" کو انہی کے نظام سے یہ سمجھانا ہے کہ لیڈر کیسے جنم لیتا ہے !اور خود ان کے ہاں لیڈر کیسے بنتے ہیں ۔
تو پیدا ہونے والے سوالات کچھ یوں ہیں
1 )خلیفہ کا انتخاب کیسے ہوگا؟
2 ) خلیفہ پر لوگوں کا اتفاق کیسے ہوتا ہے ؟
3)کیا خلیفہ کا انتخاب ووٹنگ کے علاوہ بھی ہوسکتا ہے؟
4)اگر خلیفہ کو شوری منتخب کرے گی تو شوری کو کون لوگ منتخب کریں گے؟
5 )اہل حل و عقد کا فیصلہ کیسے ہوگا؟
شومئی قسمت سے امت کا ایک طویل دور ایسے گذرا ہے جس میں اس بدنصیب کے سامنے جمہوریت کے عمل کے علاوہ فیصلہ کرنے کا کوئی اور مظہر نہیں ورہا اور حقیت حال یوں ہے کہ مقابلہ بھی جمہوریت سے نہیں بلکہ "سیکولرازم" کہ اس گھناؤنے زہر سے ہے جو کہ "خدائی سلیکشن کے مقابلے میں عوامی سلیکشن" کو امت کی رگوں میں اتارنا چاہتا ہے ۔ اس طویل دور نے ان سوالات کا جواب بھی مشکل بنادیا ہے جو کہ کبھی سے سوالات تہے ہی نہیں۔
جمہوریت کے ہاں بھی لیڈر بننے کی واقعاتی ترتیب یوں نہیں ہے کہ کوئی شخص پہلے الیکشن جیتتا ہے تو پھر وہ لیڈر کہلاتا ہے ۔ بلکہ سب سے پہلے تو جمہوریت قائم کئے جانے کا اپنا ایک عمل ہوتا ہے۔ کہیں سے تبدیلی اور انقلاب کی آواز لگائی جاتی ہے۔ ایک شخص "ملک و قوم" کی خدمت کا جزبہ لے کر اٹھتا ہے ، اس کے کارہائے نمایاں نظر آنے شروع ہوتے ہیں ، آہستہ آہستہ ایک گروپ کی صورت اختیار کرتا ہے ، یہ گروپ ایک طویل سیاسی جدوجہد سے گزرتا ہے ، جو کسی ایک شخص کی قیادت میں ہوتی ہے اور یہ شخص عام طور پر دعوت کنندہ ہی ہوتا ہے ،جو کہ اپنی سوچ و فکر کو پیش کرتا ہے ، اگر بالفرض محال وہ کنگ کے بجائے کنگ میکر بننے کو ترجیح دے ، جیسا کہ برصیغیر پاک و ہند میں بھی اس کی مثالیں گاندھی ، الطاف حسین یا کچھ اور لوگوں کی صورت میں مل جاتیں ہیں تو یہ سمجھنا پھر بھی محال ہے کہ کوئی بھی فیصلہ اس کی منظوری کے بغیر ہوتا ہوگا!
سیکولر یا بے دین سیاسی جماعتیں جو کہ اپنی جماعتوں کے اندر بھی الیکشن کی حامی ہیں ، وہ بھی اپنی جماعت کے ہربندے کو جماعتی قیادت کا حق نہیں دیتیں ، بلکہ کارہائے نمایاں یا طویل خدمات سرانجام دینے والے بندے کو جس کی جماعت اور جماعت کے عقیدے کے ساتھ وابستگی ہر شک و شبہ سے بالاتر ہو اسی کو جماعتی سطح پر الیکشن لڑنے کی اجازت دیتی ہیں اور یہ امیدوار کوئی نامعلوم کارکنان نہیں ہوتے !
ان جماعتوں کی دعوت ، ان کا طریق کار ،ان کا نکتہ ہائے نظر ان کی بنیاد اسی ایک شخص کی مرہون منت ہوتی ہیں جو اس جماعت کے نظریات کا داعی اول ہوتا ہے۔اکثر معاملات میں لوگ کسی جماعت پر جمع نہیں ہوتے بلکہ جماعت کسی فرد واحد پر جمع ہوتی ہے !
یاد رہے کہ یہاں موضوع زیربحث ایک لیڈر کی تشکیل ہے نہ کہ اس لیڈر کے سیاسی جانشینوں کا تذکرہ ،جو کہ بعد میں اسی سوچ و فکر کو لے کر آگے بڑھتے ہیں اور بعض اوقات ایک "لیڈر" کا روپ بھی دھار جاتے ہیں مگر یہ امر واقعہ ہے کہ ان کے لیڈر بننے کے پیچہے ایک ازم کارفرما نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے موجود ایک ازم کی پاسداری ہوتی ہے !
تشکیل کے اس ابتدائی مرحلے میں ہی اس فرد ،جماعت یا گروہ کے نظریات و عقائد،بالکل واضح ہوتے ہیں۔ ایک واضح و متعین مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے اور اس کے مخالفین و حمایتی بالکل کھل کا آمنے سامنے آجاتے ہیں ۔
دعوت کے ابتدائی مرحلے میں ہی یہ بات وضح ہوجاتی ہے کہ یہ پارٹی کے سیکولر اور مذہبی رجحانات کیا ہونگے۔ اس کا جھکاؤ لیفٹ ونگ پر ہوگا یا رائٹ ونگ پر۔ یہ کس طرز معاشرت ،نظام معشیت کی طرف دعوت دیتی ہے ،مختلف پیش آمدہ مسائل سے نمٹنے کے لیے یہ کیا حل تجویز کرتی ہے ،اور پھر اس دعوت کو لے کر یہ میدان عمل میں کود جاتی ہے اور ایک طویل مدت کے بعد معاشرے میں ایک اثر پزیر قوت بن جاتی ہے یا دم توڑ دیتی ہے۔
اس فرد یا جماعت کو اگر حکمرانی بھی مل جائے تو یہ سارے فیصلے کم و بیش پہلے سے فیصل ہوچکے ہوتے ہیں کہ پرائم منسٹر کون ہوگا ،ایڈوائزری کونسل کن اراکین پر مشتمل ہوگی ،وزرا کون ہوں گے ،مشیران کو ہوں گے !! کیا ان سب فیصلوں کے لیے بھی کبھی کوئی "عوامی رائے سازی" کروائی جاتی ہے !؟؟
اسلامی سیاسی جماعتیں جو کہ "امیر" کا فیصلہ مجلس شوری کے ذریعے کرتی ہیں ، وہ بھی شوری کے اندر اپنی جماعت کے ہربندے کو "امارت کا ایک امیدوار" تصور نہیں کرتیں ، بلکہ چند کارہائے نمایاں والے اشخاص ہی ان شرائط پر پورا اترتے ہیں اور انہی کو زیربحث لایا جاتا ہے اور یہ "مجلس شوری" بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی جماعتی اساسات کے ساتھ وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ہو اور ایک انتھک جدوجہد و قربانی کی تاریخ اس پر گواہ ہو !
کیا آپ کوئی ایسی سیاسی جماعت بتا سکتے ہیں جو کہ اپنے ہر سیاسی قدم کا فیصلہ اپنے ہر سیاسی کارکن کی رائے جان کر کرتی ہو؟ اور تقریبا ہر معاملے میں الیکشن کرواتی ہو؟ یا کوئی ایسی سیاسی جماعت جس کی "مجلس مشاورت" اس جماعت کے خالص ترین اراکین پر مشتمل نہ ہوتی ہو؟ چاہے ان اراکین کا انتخاب کسی ووٹنگ سے ہوا ہو مگر ان کے خلوص کی گواہی یہ ووٹنگ نہیں ہوتی بلکہ وہ "طویل سیاسی جدوجہد و قربانی ھوتی ہے جو کہ ان کو اپنے حلقے میں معروف بنادیتی ہے اور ان کی وفاداری کو ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر۔ یہ ووٹ اس خلوص اور سیاسی جدوجہد کو پڑتے ہیں نہ کہ ان کی شخصیت کو!!
ابھی ہم معاملے کی آئیڈیل صورت لے رہے ہیں اور اس صورت کو ابھی زیربحث نہیں لایا جارہا ہے جس میں مفاد پرست عناصر پیسہ ، دھونس و دھاندلی ، جبر ، فریب وغیرہ استعمال کر کے کسی پارٹی کو ہائی جیک کرلیا جاتا ہے اور اس کو اس کی اساس سے بدل دیا جاتا ہے۔!
بہر حال آپ چاہیں کسی بھی پارٹی سے منسلک ہوں مگر لیڈر کے یہ خدو خال آپ کی نظروں سے کبھی اوجھل نہ ہوں گے۔
عمران کا جادو اگر آج کام کررہا ہے تو اس کے پیچھے ورلڈ کپ کی فتح ، شوکت خانم میموریل ہسپتال ، ایک مسمراتی شخصیت ،سترہ سال کی طویل سیاسی جدوجہد شامل ہے !کیا ان کے بغیر عمران کو کوئی لیڈر بھی کہہ سکتا ہے !
یاد رہے کہ تحریک انصاف نے عمران کو جنم نہیں دیا بلکہ عمران نے تحریک انصاف کو جنم دیا ہے !
الطاف حسین کے نام کی مالا اگر آج مہاجر جپ رہے ہیں تو اس پیچھے ایک خونیں تاریخ ہے جس میں الطاف پر ہوا بدترین تشدد، اس کی جرأت،شعلہ بیانی اپنی کیمونٹی کے لیے بے انتہا قربانی کی ایک تاریخ موجود ہے !پھر یاد دلواتا چلوں
کہ ایم کیوایم نے الطاف کو جنم نہیں دیا بلکہ الطاف سے ایم کیوایم معرض وجود میں آئی ہے "
بھٹو وزیر خارجہ سے ایکدم عوام کی آنکھوں کا تارا نہ بن گیا تھا ، اس کی جرآت و شعلہ بیانی کی ادا پاکستانی عوام کے دل میں گھر کر گئی تھی،
بھٹو پیپلز پارٹی سے نہیں نکلا تھا بلکہ اس نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی !
بعینہ اسی طرح گاندھی کانگرس سے نہ نکلا تھا بلکہ کانگرس اس کی وجہ سے مشہور ہوئی !
سید مودودی جماعت اسلامی سے نہ نکلے تھے بلکہ جماعت اسلامی سید مودودی سے معرض وجود میں آئی تھی !
جرمنی کی نازی پارٹی کسی کونے میں پڑی گل سڑ رہی تھی کہ ہٹلر جیسے شعلہ بیان مقرر نے اس کے تن مردہ میں جان ڈال دی !
ہزارہا مثالیں ہیں ، ایک سے بڑھ کر ایک کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں ، ایک انسان اٹھا اور اس نے اپنی قوم کی فکر ، تاریخ و تمدن پر عہد ساز نقوش مرتب کردیئے ،انہی سے آپ کی جماعتیں بنیں یا پارٹیوں کے تن مردہ میں جان پھونکی گئی !
ان کے ہوتے ہوئے کسی اور لیڈر ، کسی اور رہبر کا تصور کرنا بھی ان جماعتوں کے لیے محال ہے ! یہ لیڈران کسی الیکشن کے ذریعے معرض وجود میں نہیں آئے ! بلکہ کسی الیکشن میں ہارنے کہ باوجود ان میں سے کسی کی عظمت اس کی جماعت میں گہنا نہیں سکی اسی کو شائد قدرتی طریقہ انتخاب کہتے ہیں !
اب اگلا مرحلے پر جانے سے پہلے اس بات کو آپ ہی کے اصولوں کے مطابق سمجھ لیا جائے
۱)لیڈر کسی پارٹی یا انتخاب کی وجہ سے معرض وجود میں نہیں آتے بلکہ پارٹیاں ان کی وجہ سے معرض وجود میں آتی ہیں یا دوبارہ سے زندہ ہوتی ہیں
۲) لیڈران کا چناؤ کسی قسم کا الیکشن یا کوئی طے کردہ طریق کار نہیں کرتا بلکہ ان کے کارہائے نمایاں ہی ان کا انتخاب کرتے ہیں ، الیکشن صرف اس پر ایک مہر ثبت کرتا ہے
۳) لیڈران کسی قسم کی اکثریت کے محتاج نہیں ہوتے ، بلکہ یہ کسی ایک یونٹ کی کل کہےمختار ہوتے ہیں
۴) جن لیڈران کا انتخاب کیا جاتا ہے ، وہ بھی کارہائے نمایاں سر انجام دینے والے لوگ ہوتے ہیں جن کی اپنے مخصوص یا جماعتی حلقہ میں خوب پہچان ھوتی ہے
۵) وہ مجلس مشاورت یا شوری جو کہ ان لیڈران کو منتخب کرتی ہے اس جماعت کے ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی وفاداری ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہوتی ہے۔
"الغرض، خلافت ہو یا جمہوریت، یہ لیڈران ہوتے ہیں جو سب سے پہلے کسی قوم میں ابھرتے ہیں اور جو اپنے کارہائے نمایاں کے ذریعے ایک کثیر خلقت کے دلوں پہ راج کرتے ہیں۔ اپنے اسی ابتدائی اور پہلے سے قائم شدہ لیڈرانہ تشخص کی بنیاد پر یہ اس بات کے اہل قرار پاتے ہیں کے نظامِ حکومت کی زمام کار ان کے ہاتھوں میں دی جائے۔ طریقہِ انتخاب کی باری تو بعد میں آتی ہے، سب سے پہلے لیڈرانہ تشخص اور اس کے نتیجہ میں ایک زیرِ اثر وسیع حلقہ پائے جانے کی یہ ابتدائی شرط پوری ہونا ضروری ہوتی ہے۔ طریقہِ انتخاب جمہوری ہو تو یہ لیڈرانہ تشخص کے حامل افراد اپنی اپنی پارٹیوں یا حامیوں کے ہمراہ انتخابی معرکےلڑتے ہیں، اور پھر اپنی اپنی مقبولیت و حمایت کے بقدر انتخابی فتح اور اس کے بعد جمہوری حکومت کے قیام میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ جبکہ ایک خالص اسلامی طرزِ معاشرت میں جب امتِ مسلمہ کے مقبول سرکردہ افراد و کبار علما (نہ کہ کسی خاص مقامی جماعت یا تنظیم کے اپنے افراد!)امت کے اندرکسی ایسے ہی لیڈرانہ تشخص کے حامل شخص کے اوپر امت کے امور و معاملات کی نگرانی کے لیے مجتمع و متفق ہوجاتے ہیں تو خلیفۃ المسلین کا منصب ظہور پذیر ہوتا ہے۔
اب بتایئے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ امت کا دامن کسی بھی قسم کے ایسے شخص سے خالی ہے جس کے کچھ کارہائے نمایاں صرف اور صرف اللہ کے دین کی سرفرازی کے لیے ہوں ؟ یا کہیں بھی ایسے اشخاص کا وجود نہیں ہے جن کی اسلام کے ساتھ وفاداری ہرقسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہو؟ کیا آپ کے گمان میں امت میں اس وقت کوئی لیڈر ہے ہی نہیں؟ اگر آپ کا یہ گمان ہے اور اسمیں کوئی حیرت بھی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ لیڈر ہونے کا مطلب آپ کے ہاں "جمہوری" ہونے سے مشروط ہے تو پھر یقین کرلیجیے کہ مسلمان لیڈر نہ تو ایسے جنم لیتا ہے اور نہ ہی ایسے پہچانا جاتا ہے !
بلکہ خود جمہوری لیڈر اس طرح جنم نہیں لیتا، بلکہ اس کے لیڈر بننے میں پہلے پہل وہی فطری طریقہِ انتخاب کار فرما ہوتا ہے جس پر اوپر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
ایک جمہوری لیڈر اپنی دانست میں اپنی جماعت ،گروہ یا عوام کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے اٹھتا ہے اور ہر اس امر کا خیال رکھتا ہے جو کہ اسے اپنی جماعت ،گروہ یا عوام میں مقبول بنادے چاہے اس کے لیے اس کو رب العزت کی ناراضگی ہی کیوں نہ مول لینا پڑے ، اور ایک اسلامی لیڈر اللہ کے دین کے لیے اٹھتا ہے اور انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے وہ ہر اس امر سے محتاط رہتا ہے جو کہ اللہ کی نظروں میں غیر مقبول ٹہرے چاہے اس کے لیے انسانوں کے ایک گروہ میں وہ ملامت زدہ ہی کیوں نہ ٹہرے اور بدلے میں اللہ مسلمانوں کے دلوں میں اس کا پیار ڈال دیتے ہیں !
غور کیجیے یہ چھوٹا سا فرق جو کہ آپ کو بالکل ایک سا لگتا ہے اصل میں کتنا عظیم الشان ہے ! ایک لیڈر کی ہر جدوجہد "عوامی مقبولیت و انقلاب" کے لیے ہے اور ایک لیڈر کی ہر کوشش "الہی انقلاب" کے لیے ہے۔
یہ خود ، اس کی جماعت ، اس کا گروہ ، اس کے مشیران ،اپنی مسلسل جدوجہد و قربانیوں کی وجہ سے ہرقسم کے شک وشبے سے بالاتر ہوجاتے ہیں ۔ ان کی دعوت ، ان کا منشور ، ان کے دوست و دشمن ،مختلف مسائل سے نمٹنے کا جو حل یہ رکھتے ہیں وہ امت میں قبولیت پانے ہیں ۔ یہ مجہول الحال اشخاص کا ایک گروہ نہیں ہوتا ، ان کا عقیدہ عین اسلامی عقیدہ ہوتا ہے اور اسی سے ان کا منہج و طریق کار تشکیل پاتا ہے ، یہ اس کولے کر میدان عمل میں کود جاتے ہیں اور یہ میدان عمل صرف جمہوریت ہی نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے دین کی سرفرازی ہوتی ہے
یہ اسی نیچرل پروسیس سے نکلتا ہے جہاں سے آپ کے لیڈران جنم لیتے ہیں مگر ان کے مقاصد میں جوہری فرق ہوتا ہے۔ اس لیے ایک"جمہوری لیڈر" لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہونے کے باوجود اسلام کی نظر میں "نفس کے پجاری" سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور ایک اللہ کے دین کی تابعداری کی وجہ سے امت کا سرخیل بن سکتا ہے !
اگر آپ کو اس نظام کے لیے جدوجہد کرتے لوگ نظر نہیں آرہے ہیں تو یہ ان کا نہیں بلکہ آپ کی نظروں کا قصور ہے جس کے مطابق ہر لیڈر کا کم از کم "جمہوری" ہونا لازمی ہے۔ اور یہ جمہوری ہونا بھی آپ کے نزدیک مغرب کے مخصوص پیمانوں پر نہ کہ خدائی تشکیل کے اس پیمانے پر جس کی وجہ سے اللہ اپنے بندے کی محبت اپنی مخلوق کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔
پھر بھی نظریں کھولیے ،ذرا افغانستان کے پہاڑوں پر نظر دواڑیئے ، عراق کے ریگستانوں کو دیکھیے ، افریقہ کے تپتے میدانوں پر نگاہ کیجیے ،ڈرونز کے شکار مظلوم لوگوں پر نظر ڈالیے ،شام کے میدانوں پر نظر ڈالیے ،مصر کے جلوسوں کو دیکھیے ، جیل خانوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں ،گواتناموبے کی بیرکوں میں ،کچھ مظلوموں کی آہ پکار سنیے کیا ان جگہوں پر آپ کو کوئی ایک بھی لیڈر نظر نہیں آرہا؟ کہ ہر لیڈر کے لیے "آپ کے فراہم کردہ ایک جمہوری میعار پر اترنا ضروری ہے ؟"کیا ان میں کوئی بھی صاحب اہل حل و عقد نہیں ہے ؟ کوئی بھی اصحاب شوری بننے کا اہل نہیں ہے ؟ کسی کی بھی اسلام سے وابستگی ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر نہیں ہے ؟ کسی کی محبت بھی امت کے دلوں میں پھولوں کی خوشبو کی طرح بسی ھوئی نہیں ہے ؟ کسی کے پیچھے قربانیوں اور جدوجہد کی ایک عظیم داستان نہیں ہے ؟! اس کا انکار امر واقعہ کا انکار ہے۔
مشرق تا مغرب جو ایک عظیم دعوتی ،اصلاحی و جہادی کام چل رہا ہے اس سے کس کو انکار ہوسکتا ہے ! ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ ابھی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے ایک نظام کی صورت میں بپا نہیں ہوپارہا مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ "طاقت آپ کے وضع کردہ جمہوری نظام کے ذریعے ہی ان لوگوں کے ہاتھوں میں آئے "ان کے روشن کرداروں کے آگے امت کے ہزاروں مفتیوں ، لیڈروں ،مدرسوں کی مسیحائی ہیچ تھی ، امت کا بچہ بچہ ان کے نام سے ان کے کردار سے ان کے کارناموں سے واقف ۔
یاد رہے کہ "خلافت اقامت دین کے راستے کی ایک منزل ہے نہ کہ اصل مراد"کوشش و جدوجہد اقامت دین کے لیے ہے اور اسی راستے پر وہ منزل بھی آتی ہے جس کو خلافت ارضی کہتے ہیں اور یہ خدائی انتخاب ہوتا ہے نہ کہ عوامی !
آج خلافت اجنبی اس لئے لگتی ہے کیوں کہ ہمارے بھولے بھالے عوام بلکہ ہمارے کچھ مخلص داعی بھی مغرب کے باطل سیکولر گلوبل نظام میں کہیں خلافت کو فٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خلافت اس نظام میں فٹ ہوہی نہیں سکتی اور جو چیز اس نظام میں فٹ ہوگئی وہ خلافت نہیں بلکہ کچھ وقتی سمجھوتے ہی ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نہیں ہوا کہ ایک قائد نے جس نظام کو توڑنے کی جدو جہد کی ہو وہ اسی نظام کے مطابق اپنی قیادت منوانے کو کوشش کرے۔ آج کے دور میں خلافت کی پہلی شرط ہی یہ ہوگی کہ کوئی فرد یا جماعت باطل کے اس فریم کو توڑنے پر تیار ہوجائے۔ خلیفہ اپنا اسلامی فریم خود بنائے گا اور اسلامی اجتماعی نظام کو بغیر کسی کامپرومائز کے مخلوق خدا پر نافذ کرے گا۔
اور اس خلیفہ کو نہ کسی ووٹنگ کی ضرورت ہوگی اور نہ کسی اور مصنوعی عمل کی ! وہ خلیفہ ہوگا جس کے کارہائے نمایاں پوری امت پر کھلے ہوں گے نہ کہ کوئی مجہول الحال شخص جس کو اپنی لیڈری کے لیے بھی چند ٹکے کے ووٹوں کی ضرورت ہو جس کہ لیے وہ کفرکو کفر کہنے سے بھی دستبردار ھونےکو تیار ہو!!

امت کی کہانی ، تصویر کی زبانی !



شام ،حمص کا ایک منظر! 
مجاہد باپ ، مجاہدہ بیٹی کہ ہمراہ 




آجا میرا پیارا بیٹا ! آ ادھر میری باھوں میں آجا ! شاباش

ابا جان آپ کیسے ھیں؟ بیٹیا میں بالکل ٹھیک ھوں ، تم پریشان نہ ھونا ،تم بالکل ٹھیک ھوجاو گی ان شاءاللہ !
ابا بھائی کہاں ھے ؟ امی بھی نظر نہیں آتیں ؟
میری پیاری گڑیا وہ اللہ کہ پاس باغوں کی سیر کرنے گئے ھیں 
ابا میں نے بھی ادھر جانا ھے !
ھاں بیٹا چلیں گئیں مگر پہلے میں اپنی گڑیا کی ڈولی سجاوں گا ، ڈھیر سارے تحفے ملیں گئیں ، تم کتنے عرصے سے گڑیا کی ضد کررھی ھو میں جلد ہی لے کر دوں گا اور ڈھیر سارے کھانے جو کہ تم کو پسند ھیں !
اباجان میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا !
بیٹا بس تھوڑا سا صبر اور کھانا آنے والا ھے ،میں نے بتایا تھا نا کہ تمھارے بھائی آئیں گئیں اور ڈھیر سارا کھانا لائیں گئیں !
ابا جان ! میرے بھائی کب آئیں گئیں ؟؟!!!
بہت جلد آئیں کہ گڑیا ، بہت جلد ، تم زیادہ باتیں نہ کرو زخم تکلیف دے گا ادھر میرے بازووں میں آکر سو جاو !
ابا میرے بھائی کب آئیں گئیں ،ابا میرے بھائی کب آئیں گئیں ، ابا میرے بھائی کب آئیں گئیں !

ہفتہ، 20 جولائی، 2013

شام کی جہادی تنظمیں ! تعارف و تبصرہ ۔ پہلی قسط


عرب سپرنگ جب شروع ھوا تو کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ ایسی شدت اختیار کرجائے گا ،جسمیں بڑے بڑے برج بہہ جائیں گئیں ، اور دھایئوں سے اقتدار کی مسند پر قابض بزجمہروں کو ایسے عبرت ناک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا ، اور تو اور اقتدار پر قابض ان لوگوں کو اور پس پردہ ان کہ سپورٹرز کو بھی یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ ناگہانی بلا ان پر اچانک ٹوٹ پڑے گی ، تیونس سے جو سیلاب اٹھا اس نے دیکھتے ہی دیکھتے مصر و لیبیا کو بھی اپنی لیپٹ میں لے لیا اور دنوں میں ہی صورتحال یکسر مختلف ھوگئی ، اللہ تعالی کی خاص حکمت بالغہ سے ماسوا لیبیا کہ کہیں بھی مسلم جانوں کا اتنا ضیاع نہ ھوا اور اقتدار پر قابض لوگوں کو چلتے بننے میں ہی عافیت نظر آئی اور جس نے تھوڑٰی سی اکڑ دکھائی اس کو لوگوں کہ غضب کا شکار ھونا پڑا۔
عرب بہاریہ اپنے اندر کئی معنی لیے ھوئے تھا اور اس کی ٹائمنگ بہت ہی اہمیت کی حامل تھی ، مجاہدین کہ سرفروش جذبے کی وجہ سے اسلامی دنیا جہاد جیسی سنت کی طرف دوبارہ پلٹ رھی تھی اور عرب جو کہ اس میں ہیمشہ فرنٹ لائن پر ہی رھے ھیں کسی مقصد کہ لیے جان دینے میں زرا بھی نہیں ھچکچاتے ، انہوں نے انہی بغاوتوں کو جہاد سمجھا اور یہ بہرطور کسی نہ کسی صورت میں "جہاد" کہ لفظ کو ان خطوں میں دوبارہ متعارف کروانے میں کامیاب ھوگئے ، عرب بہاریہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ یہ عوامی انقلاب سے آگے بڑھا، عوامی انقلاب کی وجہ چاھے کچھ بھی رھی ھو ،ریاست کا حد سے بڑھا ھوا ظلم و تشددھو، ناجائز پابندیاں ھوں ، امتیازی سلوک ھو، بے ایمانہ فیصلے ھوں ، اقتدار پر قابض لوگوں کی لوٹ مار ھو ، معاشی صورتحال کا مڈل کلاس یا غریب طبقے کہ لیے بد سے بدتر ھوتے جانا ھو، سیکولرز ،لبرلز و نام نہاد سکالرین کی میڈیا پر اجارہ داری ھو جو کہ نہ صرف اسلام بلکہ ان خطوں میں موجود کلچرل تشخص کا مزاق اڑاتے رھے(یاد رھے کہ ان خطوں کا معاشرتی تشخص اسلام سے بے حد قریب ھے ،شرم و حیا ، عفت ،بہادری ، ایمانداری وغیرہ ان کہ کلچر کا ایک بنیادی حصہ ھے) مگر ان سب عوامل نے مل کر عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر کب تک !
کوئی شک نہیں کہ ان خطوں کہ عوام کہ پاس ان مسائل سے چھٹکارا پانے کا جو قریب ترین ،پرامن حل موجود تھا وہ یہی جمہوریت تھی ، اسی کا ماڈل وہ عملی صورت میں مغربی ممالک میں دیکھ رھے تھے ، اسلام کہ سیاسی و حکومتی نظام سے ڈیڑھ صدی کی دوری نے ان کو یہ چیز ہی بھلا دی تھی کہ اسلام اس کا حل کیسے پیش کرتا ھے ، مگر یہ بات اپنی جگہ حقیقت ھے کہ ان خطوں کہ عوام اس بے خبری کہ باوجود اگر کسی چیز کو اپنے لیے نجات دھندہ سمجھتے تھے تو وہ صرف اور صرف "اسلام" تھا ! اور اسلام کی جو قریب ترین صورت ان کو مذھبی جماعتوں کی صورت میں سامنے نظر آئی اسی کو عین اسلام جان کر انہیں اپنا نجات دھندہ بنا لیا ! اس طرح ان خطوں میں معرض وجود میں آنے والی نئی اسلامی حکومتیں اپنے دامن میں اسلام کہ ساتھ "جمہوریت کی غلاظتیں" بھی سمیٹے ھوئے سامنے آئیں  ۔ جسمیں وقت کہ ساتھ ساتھ بہتری کی امید ھے ان شاءاللہ
مگر اس عرب بہاریہ کو ابھی کسی جاندار مخالفت سے پالا نہ پڑا تھا ، بلکہ بعض خطوں کہ حکمران تو ان کہ مغربی آقاوں کہ لیے بھی بیکار ھوچکے تھے ، اور بعض کہ خلاف وہ کب سے دل میں چھبن لیے ھوئے بیٹھے تھے ،مغرب کہ نزدیک اہمیت ان  مسند اقتدار پر براجمان لوگوں کی نہ تھی بلکہ ان مقاصد کی تھی جن کی تکمیل یہ لوگ کررھے تھے جسمیں سب سے زیادہ ضروری ریاست اسرائیل کا تحفظ تھا جب یہی گارنٹی انہیں کہیں اور سے مل گئی تو انہوں نے ایک لحظہ ضایع کیے بغیر ان لوگوں کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا کیونکہ وہ عوامی مومینٹم کو دیکھ کر یہ اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ ان کو بچانے کی ہر کوشش بیکار ھے بلکہ الٹا وہ بھی عوامی غیظ و غضب کا شکار ھوسکتے ہیں اور وہ ان علاقوں میں ایک جہادی تحریک کو کھڑا کرنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے اس لیے بجائے اس عوامی مومینٹم کی مخالفت کرنے کہ انہوں نے اس کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی ، جسمیں فوجی امداد سے لے کر انسانی و معاشی بنیادوں تک امداد شامل تھی ، مسلم تحریکوں نے اس مرحلے کو اپنے لیے غنیمت جانا اور سیاست کو استعمال کرتے ھوئے حکومتوں کو اپنے زیر کنٹرول کرلیا ، اور تدریج کی تاویل کا سہارا لے کر ابھی اس حقیقی اسلامی مملکت کی تشکیل پر سمجھوتہ کرگئے جو کہ ان کا اصل دعوی رھا ھے ۔ امید ھے کہ ان کی کمزوری کی یہ حالت جلدی رفع ھوجائے گی اور وہ صراط مستقیم پر گامزن ھوجائیں گئیں
یہ عرب بہاریہ اپنی تیزی و تندی دکھاتا ھوا سرزمین شام کی طرف بڑھتا چلا گیا ، یہاں پر اس کا سامنا صرف کسی ظالم و جابر ، اہل سنہ کی طرف منسوب عرب حکمران سے نہ تھا بلکہ وہ صدیوں سے جاری اس معرکے کو دوبارہ شروع کرنے جارھا تھے جو کہ اہل سنۃ و روافض کہ درمیان ہمیشہ سے جاری و ساری رھا ھے اس کی تاریخ میں جانے کا یہ محل نہیں ، مگرعظیم صفوی سلطنت کا وہ خواب جو کہ روافض پچھلی کئی صدیوں سے دیکھتے آئے ہیں اور عراق میں اپنی غداری کہ بدلے انعام میں ملی حکومت کو دیکھ کر انہیں اس کی قوی امید ھوچلی تھی کہ اب اس ریاست کہ قیام کو کوئی نہیں روک سکتا، شام میں ھوئی بغاوت اس خواب پر ایک کاری وار تھا جس کی اجازت رفض کبھی نہ دے سکتا تھا ، یہ عظیم کنفیڈریشن جس کی سرحدیں ایران سے شروع ھوکر عراق ، شام و لبنان تک پھیلی ھوں اور یمن و بحرین کہ کچھ علاقے بھی ہڑپ کرنے کا خواب دیکھ رھی ھو اسمیں سے کسی ایک خطے کا ہاتھ سے نکل جانا کوئی چھوٹا نقصان نہ تھا ! اور خطہ بھی جب شام جیسا اہم ھو ! اس لیے عوامی انقلاب کہ پہلے مرحلے کو ہی جو کہ درحقیقت ایک "جمہوری احتجاج" ہی تھا جس کو بذات خود یہ حکومتیں "بنیادی انسانی حقوق" میں سے سمجھتی آئی ہیں پرانے اور آزمودہ طریق کار کو سامنے رکھتے ھوئے جس کا مظاہرہ بشار کا باپ اسد اپنے دور اقتدار میں کرچکا تھا ، ظالمانہ طریقے سے کچل کر رکھ دیا گیا ! مشہور کہاوت ھے کہ گیڈر کی جب موت آتی ھے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ھے ، یہ اندازہ نہ کرسکے کہ ان حالات میں ایسا اقدام کرنے کا کیا مطلب ھوگا ! نتیجۃ وہ جمہوری احتجاج جلد ہی ایک عظیم عوامی بغاوت میں بدل گیا ،
رفض کا مسئلہ یہ ھے کہ بشار الاسد سے زیادہ کارآمد کھلاڑی اس کہ پاس موجود نہیں ھے وگرنہ گیم جیتنے کہ لیے کھلاڑٰی بدلنے میں وہ دیر نہ لگاتا ، اس کہ پاس ایک ہی آپشن تھا کہ اپنا سب کچھ اسی کھلاڑی پر داو پر لگا دو ، مغرب انگشت بدنداں یہ سارا نظارہ دیکھ رھا تھا ، اس کو بہت اچھی طرح علم تھا کہ اس بغاوت کا مطلب کیا ھے ،اسرائیل کی عین سرحد کہ اوپر ایک اور "سنی ریاست" کا قیام جو کہ اسلامی جذبے سے چھلک رھی ھو اور پھر مستقبل قریب میں مصر و شام پر مشتمل اس کنفیڈریشن کا اعلان جس کا منصوبہ 1954 میں بھی بنایا گیا تھا مگر حافظ الاسد کی بروقت بغاوت کی وجہ سے یہ کامیاب نہ ھوسکا تھا ! عوامی مومینٹم کا اندازہ لگانے میں اس نے اس بار بھی کوئی غلطی نہیں کی اور بالکل درست طریقے پر سمجھ گیا کہ اس کا راستہ روکنا بیکار ھے اس لیے اس نے مزاحم ھونے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہی کھلاڑیوں کی تلاش میں لگ گیا جو کہ چاھے اس کی طرف سے نہ کھیلیں مگر کم از کم اس کی گول پوسٹ پر حملے نہ کریں ، یہ کوشش ھنوز جاری ھے !
اسی اثنا میں ایک تیسری ٹٰیم بھی میدان میں کود آئی ، یہ ان عرب ممالک پر مشتمل ھے جو کہ اپنے عربی تشخص کی بنا پر "رافضی خطرے" سے دوچار ھیں  اور اس عظیم صفوی سلطنت کہ قیام کو شک کی نظر سے دیکھتی ھے جس کا احیا ھوتے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رھی ھے ، یہ ٹٰیم مغربی ٹیم کو اپنا حریف نہیں حلیف خیال کرتی ھے اور دونوں طرف یہ سوچ بدرجہ اتم پائی جاتی ھے ، مگر اس "عربی ٹٰیم" کی گول پوسٹ سب سے زیادہ قریب ھے اور یہ عین ممکن ھے کہ عظیم صفوی سلطنت کہ بپا ھوتے ہی اس کا وجود سب سے پہلے خطرے میں پڑ جائے اور بہرحال وجود کا خاتمہ کسی کو بھی منظور نہیں ھوتا!
اس سارے ھنگامے کہ دوران شامی عوام میں ایک بہت بڑی تبدئیلی رونما ھورھی تھی ، وہ دیکھ رھے تھے کہ جمہوری و عرب قوتیں ان کا تحفظ کرنے میں ناکام ھورھی ہیں اور ھزاروں انسانوں کی لاشیں ہر روز سڑکوں پر بچھائی جارھی ھیں ،جن میں عورتیں ، شیر خوار بچے اور نوخیرلڑکے تک شامل تھے ، ان سے جمہوری احتجاج کا حق بھی چھینا جارھا ھے ، ان عوامل نے مل کر انہیں مجبور کردیا کہ وہ اپنے تحفظ کہ لیے ھتیھار اٹھا لیں !
شامی بغاوت اب  "عوامی انقلاب سے بڑھ کر  مسلح جدوجہد" کا روپ دھار گئی تھی "  کسی بھی عقیدے ،ملک یا تنظیم کا بندہ  جب  احتجاج سے بڑھ کر  بغاوت پر اتر آئے تو یہ لازمی امر ھوتا ھے کہ وہ اس  کہ لیے تحریک اپنے عقیدے ، یا دین سے حاصل کرے ، جب اس دنیا سے نگاہیں ہٹتی ھیں تو پھر ہی جان دینے کا جزبہ پیدا ھوتا ھے، یہ چاھے وطن سے محبت کی بنا پر ھو یا اپنے عقیدے و ایمان کو بچانے کو مسئلہ ھو یا اپنی ماوں بہنوں کی عزتیں بچانے کی جنگ ۔ مگر لوگ ایک فطری ردعمل کہ طور پر دین کی طرف پلٹتے ہیں ، جیسے کہ اوپر بیان ھوچکا کہ  جب عرب بہاریہ کہ دوسرے ممالک میں  لوگ دین کی طرف پلٹے تو انہیں "دینی جمہوری جماعتیں" ہی اس کام کہ لیے موزوں نظر آئیں جو کہ ان کی جدوجہد کا ایک "سیاسی جمہوری حل " پیش کرسکتی تھیں ،مگر شام  میں یہ صورتحال یکسر مختلف تھی  جمہوری طریقے کو پہلے ہی وار میں ظالمانہ فوجی طاقت کہ استعمال سے کچل کر رکھ دیا گیا تھا اور شام میں کوئی  بھی مذھبی سیاسی جماعت" ایسی موجود نہ تھی  جو کہ کوئی قابل زکر قوت رکھتی ھو ، اخوان کی بغاوت کو 80 کی دھائی میں کچلا جاچکا تھا اور وہ اپنی  اندورنی اختلافات کی بنا پر عوام میں اپنی مقبولیت کھوچکی تھی اور ایک متواتر مسلح جہاد کو کھڑا کرنے میں قاصر! مگر پہلی بار مسلم عوام کہ پاس  ایسی صورتحال سے نبٹنے کہ لیے ایک اور حل بھی موجود تھا  جس کا مشاہدہ وہ افغانستان ،عراق ، چیچنیا  ، مالی و صومالیہ میں کررھے تھے ۔ ایک بھرپور مسلح مزاحمت !اور تنگ آمد و بجنگ آمد کہ فارمولے کہ تحت  وہ اس کہ لیے کمر بستہ ھوگئے ۔
اور جہاد جیسی سنت کو ارض شام میں جس کی فضلیت میں بے شمار آثار بیا ن ھوئے ہیں جاری کرنے میں کامیاب ھوگئے ، امت کا یک متعد بہ طبقہ جو کہ سرزمین شام کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھا اور ان  آثار کی اہمیت سے بھی جو کہ صاحب وحی کی زبان مبارکہ سے جاری و ساری ھوئے تھے وہ اس معرکے میں مردانہ وار کود پڑا
بے خظر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ھے محوتماشا لب بام ابھی
اس معرکہ میں اللہ کی عجب حکمتیں سامنے آنے لگیں ، سن 2011 میں اس بغاوت کہ ابتدائی لوگوں میں تلاش کرنے سے کوئی ایک "داڑھی والا" ملتا تھا اور زیادہ تر نعرے بشار مخالف ھوتے تھے ،مگر صرف عرصہ ایک سال میں یعنی سن 2012 کی شروعات ھوتے ھوتے ، جوان رعنا چہروں پر جو کہ مشرق کا سارا مردانہ حسن اپنے اندر سمیٹے ھوئے تھے داڑھیوں کی اور پیشانیوں پر سجدوں کہ نشانات کی ایسی بہار پھوٹی کہ گلشن ہی مہکنے لگا ! ھزاروں ،لاکھوں کا مجمع ایک ہی نعرہ لگا رھا تھا " اللہ کی زمین ، اللہ کا نظام" ۔ سرفروش جوان کاندھوں پر اسلحہ یوں سجنے لگا جیسے کسی دلہن نے تازہ تازہ عروسی جوڑا زیب تن کیا ھو،
یہ نوجوان کہاں سے آیا ھے ؟یہ تو آسڑیلیا کا باشندہ ھے! جس کو شائد عربی بھی نہیں آتی ! اس شخص کہ چہرے پر لمبی مسافتوں کی دھول کیوں ھے؟ یہ چیچنیا سے شوق جہاد میں ھزاروں میل کی مسافت طے کر کہ آیا ھے ! وہ بوڑھا شخص کون ھے جس کہ چہرے پر ایک عجب سی چمک ھے اور جب وہ بات کرتا ھے تو سب متوجہ ھوجاتے ہیں ؟ یہ ابو بصیر طرطوسی ھے جو کہ تمام مجاہدین کہ استاد کی حثیت رکھتا ھے ، یہ لڑکی کون ھے جو کہ چہرے پر سے نقاب کو نہیں ھٹنے دیتی مگر مجاہدین کی خدمت میں سب سے آگے ھے ؟ یہ خالص امریکی مسلمان ھے  جس نے اسلام قبول کیا تھا اور  جہاد کی کشش اسے شام کھینچ لائی ھے ! یہ سانولی رنگت مگر روشن چہروں والے لوگ کوں ھین ؟ یہ عراق سے آئے ہیں کہتے ہیں جب ہم مشکل میں تھے تو شامیوں نے ہماری مدد کی تھی آج بدلاہاتارنے کا دن ھے ، یہ ویڈیو میں نظر آنے والا گورا سا لڑکا کون ھے جس کی داڑھی بھی  انگریزوں کی طرح بھوری سی ھے ، ارے بھائی  لندن سے آیا ھے اور فرنٹ پر سب سے آگے لڑتا ھے !  یہ فلپائنی ھے وہ چینی ھے ، یہ پاکستانی ھے وہ لیبیائی ھے وہ مصری ھے وہ لبنانی ھے ،یہ کیا ھے  ؟یہ امت ھے !
یہ امت رفض کے کوہ گراں سے دیوانہ وار جاٹکرائی ھے جس کہ پاس اپنے آپشن بھی یہی ہیں کہ  وہ اس سیلاب کہ آگے اپنی جان و مال سے بند باندھ دے وگرنہ وہ اس صفوی سلطنت کو بھی بہا کر لے جائے گا اور رفض  کے ساتھ آخری معرکہ ھوکر رھے گا جس کہ بعد وہ پھر صدیوں تک سر نہ اٹھا سکے گا، رفض کا مقصد واضح اور متعین ھے ، وہ اس جاں گسل معرکے کہ پہلے محاذ پر ہی  ہار نہیں ماننا چاھتا اس لیے اس  نے اپنے بہترین لشکر یعنی حزب اللہ وغیرہ میدان میں اتاردیئے ھیں جو کہ اسی مذھبی جذبے سے آراستہ  ھیں جن سے ان کا فریق – اسی طرح  ہر ٹیم کہ کچھ مقاصد ہیں مغرب اس تلاش میں ھے  اس عوامی مومینٹم سے وہ عنصر نکال لے  جو کہ اس  کہ کچھ جمہوری و صہیونی مفادات کی پاسداری کا نگہبان بن جائے ، عربی ٹیم  ایک تیر سے دو شکار کرنا چاھتی ھے  ،رفض بھی ختم ھوجائے  یا کم از کم اس کے لیے خطرہ نہ رھے  اور اس کے اقتدار کا پایا بھی جما رھے ،جس کو "قطبی اسلام" سے شدید خطرہ دوچار ھے ، مگر ان سب ٹیموں کہ مقاصد کچھ بھی ھوں اس میں کوئی شک نہیں ھے کہ  اللہ تعالی نے "امت" کہ لیے شائد سب سے ضروری محاذ کھول دیا ھے جو کہ ان کو عقیدہ بھی سکھا کر رھے گا ! کیونکہ خالص عقیدہ ، خالص کفر کہ زیر مقابل وجود میں آتا ھے  اور کچھ شک نہیں کہ  روئے زمین پر  اس وقت نصیریوں و رافضیوں سے بڑھ کر کسی کا شرک نہیں ھے ، اسی لیے  امام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ  نصیریوں کو  یہود و نصاری سے بھی بد تر کفار قرار دیتے تھے ! شائد یہی وجہ ھے کہ شامی جہاد سارے کا سارا سلفی  قیادت کہ زیر اثر ھے ، سیکولر و لبرل عناصر بیرون ملک  صرف چند  "سرکاری و قومی مفادات " کی میٹنگز تک محدود ہیں مگر میدانی حقیقتوں میں ان کا وجود کہیں بھی نہیں پایا جاتا ، اور جہاں جہاں  ان کا نام موجود ھے ھے وہ بھی اصل میں  ایک اسلامی چہرہ ھے  جو کہ وطنی عصبیت  میں جہاد کہ جذبے سے سرشار ھے مگر اس  کہ لیے تحریک  اسی مذھبی تعیلم سے پکڑتا ھے جو کو قرآن و سنت کا نام دیا جاتا ھے ، کسی بھی اور خطے میں جہاں کہ اسلام کہ نام پر کوئی تحریک  بپا کی گئی ھو یا جہاد کو شروع کیا گیا ھو  عوام کو  اسلام کی طرف اور  خاص طور پر سلفی اسلام کی طرف ویسے راغب نہیں کیا  جیسے کہ شام کہ اندر جہاد نے کیا ھے ۔ شائد ہم جدید تاریخ میں پہلی بار  ایک پوری قوم کو اسلام کہ لیے جان دینے پر آمادہ دیکھ رھے ھیں !

نسل انسانی اور اسلامی تاریخ کہ اس سب سے  شاندار معرکہ  میں ضرورت ا س امر کی ھے کہ  اس معرکہ پر بھرپور توجہ مرکوز رکھی جائے اور اس کہ احوال  کی زیادہ سے زیادہ خبر بہم پہنچائی جائے  تاکہ عامۃ المسلمین  بھی یہ جان سکیں کہ اسلام کی رفعتوں کہ جان  لڑا دینے والے یہ لوگ کون ھیں  جن پر ادھر کا" ڈالر نوش  میڈیا" بے  خبری کا پردہ ڈالنا چاھتا ھے اور کسی مخصوص ملکی مفاد کہ پیش نظر "علمائے قوم" کی زبانوں پر بھی اس معرکے کا قرار واقعی زکر  آنا ممنوع قرار پایا ھے اس لیے اوپر پیش کردہ  ایک تمہید کہ بعد  جو کہ اس معرکہ کی سمجھ آنے کہ لیے ضروری تھی  ارض شام میں بر سر پیکار تنظیموں کا  ایک مفصل تعارف پیش کیا جاتا ھے تاکہ ادھر کہ لو گ  بھی جان سکیں کہ سوا لاکھ سے زائد مظلوم مسلمانوں کا خون بہانے والے درندوں ٹکرانے والے شیر کون ہیں اور ان کا بیک گراونڈ کیا ھے 

دوسری قسط پڑھنے کہ لیے یہاں پر کلک کریں

بدھ، 17 جولائی، 2013

الپ ارسلان اور آج کہ حکمران !





سپاہی حیرت کہ عالم میں سلطان کو دیکھ رھے تھے اناطولیہ سے لے کر اصفہان تک بادشاہ ،ایک نڈر و دلیر حکمران آج ان کو ایک عجب خطاب کررھا تھا ، گھوڑے کی رکابوں میں پاوں پھنسائے ھوئے وہ ایک  شیر کی طرح تن کر کھڑا تھا ،اس کی گونج دار آواز سولہ ہزار کہ لشکر کہ ہر ۔سپاہی تک پہنچ رھی تھی 
ھماری تعداد تھوڑی ھے مگر میں اللہ پر توکل کرتے ھوئے دشمن پر اس وقت جھپٹنا چاھتا ھوں
 جب مسلمان نماز جمعہ کہ لیے کھڑے ھوں اور فتح کہ لیے دعائیں کر رھے ھوں!یا تو مجھے کامیابی مل جائے گی یا میں اللہ کی راہ میں مارا جاوں گا! جو میرے پیچھے آنا چاھتا ھے وہ شہادت کہ لیے لپکے ،اور جو جانا چاھتا ھے اس پر کوئی جوابدھی نہیں ! آج نہ کوئی سلطان ھے اور نہ کوئی فوج ،میں بھی تمھاری طرح کا ایک غازی ھوں جو میرا ساتھ دے گا اس کا انعام جنت ھے اور جو نہ دے گا تو جھنم کی آگ اور ذلت اس کو لیپیٹ لے گی"



یہ تقریر نہ تھی ایک روح تھی جو کہ سپاہیوں کہ بدن میں سرایت کرگئی ، آذربائیجان سے روانہ ھوتے وقت ہی انہیں علم تھا کہ سلطان اپنی وصیت کرچکا ھے کہ میں اللہ کہ راستے میں جارھا ھوں اگر شہید ھوگیا تو میرا بیٹا ملک شاہ میرا وارث ھوگا۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ بازنطینی سیزر کی معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے سلطان الپ ارسلان کو اتنا وقت نہیں ملا کہ فوجیں مہیا کرلیتا ، اس لیے چار ھزار فوجیوں کو ہی ساتھ لے کر تین لاکھ بازنطینوں کہ لشکر کا مقابلہ کرنے چل پڑا ھے ! نظام الملک نے بارہ ھزار گھڑ سواروں کا لشکر پیچھے سے روانہ کیا تھا جو کہ ملازکرد کہ میدان میں ان سے آن ملا ھے ! 

ان سے نے یکجان ھوکر کہا کہ "سلطان ہم آپ کہ ساتھ ھیں جو چاھے کیجیے جیسا چاھیے حکم دیجیے واللہ ہمیں پیٹھ دکھانے والوں میں سے نہ پائیں گئیں"
اس وقت کی مسلم دنیا کہ سب سے نڈر سپہ سالار الب ارسلان نے تیر و کمان وجود سے الگ کردیئے ، تلوار و نیزہ اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا گھوڑے کی دم سے اپنے آپ کو باندھ لیا اور میدان جنگ کی طرف روانہ ھوگیا ، سلطان اس جنگ کو تیاری نہ ھونے کی وجہ سے ٹالنا چاھتا ھے اس کا اصل ھدف فاطمی رافضی تھے جو کہ مصر میں حکمران تھے ،مگر اس کو بے خبر پاکر سیزر رومانوس تین لاکھ کا لشکر جرار لے کر مسلم سرزمینوں پر چڑھ آیا تھا ،سلطان رومانوس کہ پاس سفارت بھیج چکا تھا جسمیں اسے صلح کہ معاہدے پر جمے رھنے کی تلقین کی تھی اور اسے مال و اسباب دینے کا وعدہ بھی ! مگر متکبر سیزر نے جواب دیا تھا کہ معاہدہ اب سلطان کہ دارلحکومت رے میں ہی ھوگا !!
مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی سے فارغ ھوئے ،آج کا خطبہ سلطان کا خطاب ہی تھا اور بعد از نماز جمعہ ترکی کی سرسبرشاداب جھیل وان کہ شمال میں واقع ملاکرزد کہ میدان میں عیسائی لشکر سے ٹکرا گئے ! مسلم سرزمینوں پر اللہ کی بارگاہ میں اٹھے ھوئے لاتعداد ہاتھ سلطان الپ ارسلان کی فتح کی دعا کررھے تھے !!
سلطان کی تقریر سے مہمیز شدہ سپاہی چیتے کی طرح لپکے اور بجلی کی طرح سیزر کہ لشکر بے کراں میں گھستے چلے گئے ! یہ صف بندی و حکمت عملی کا وقت نہیں تھا دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ھوتا تھا ، گھوڑوں کی سموں سے اٹھنے والی گرد کی ایک دبیز تہ نے مسلم لشکر کو نظروں سے اوجھل کردیا ، تلواروں کی جھنکار اور لشکروں کہ نعروں نے جھیل وان پر بیٹھے پرندوں کو بھی خوفزدہ کردیا ،مسلم لشکر اس کیل کی مانند تھا جس کو ایک سخت پتھریلی دیوار میں ٹھونکنے کی کوشش کی جارھی ھو ! گرد کہ بیٹھتے ہی جو منظر عقل کی سمجھ میں آنے والا تھا وہ لشکر اسلام کا عسیائی لشکر جرار میں ھمیشہ ھمیشہ کہ لیے غرق ھوجانا تھا !!
مگر جب گرد تھمی تو جنوں نے ایک عجب منظر دیکھا رومی لشکر اس دریا کی مانند تھا جس کو عصائے موسی کی ایک ہی ضرب نے درمیان میں سے پھاڑ دیا ھو اور اس کہ دونوں اطراف میں سیزر کہ لشکریوں کی لاتعداد لاشیں بکھری پڑی تھیں !!
سیزر کو ایک غلام نے پکڑ لیا ، سلطان کہ سامنے پیش کیا گیا ، سلطان نے پوچھا کہ اگر میں اس حالت میں ھوتا تو تم میرے ساتھ کیا سلوک کرتے ! نڈر سیزر نے جواب دیا کہ تمھیں قتل کروا دیتا ، اولعزم سلطان ھنسا اور کہا کہ میں تم سے اس سے بھی برا سلوک کروں گا جاو میں تمھیں معاف کرتا ھوں !!!
سیزر فدیے کی ادائیگی کہ بعد اپنے ملک پہنچا جہاں اس ذلت آمیز شکست کی وجہ سے اس کہ اہل ملک نے اس کی آنکھیں میں گرم سلائی پھیر دی جس کی ازیت کی وجہ سے وہ کچھ ہی عرصے بعد مرگیا !!
جمعے روز ہی آتے ھیں ، ہاتھ بھی لاتعداد خدا کی بارگاہ میں اٹھتے ھیں ! مگر ان سپہ سالاروں میں کوئی الپ ارسلان نہیں ھے ان حکمرانوں میں کوئی غازی نہیں ھے جو کہ اپنی مسند سے اترے اور پکار کرکہے کہ میں تو چلا جنت کہ راستے پر جس نے میرے پیچھے آنا ھے آجائے ! ھے کوئی یہ مقام لینے والا ؟ واللہ امت میں سے ایک بھی اپنے پیچھے نہ رھے گا اور جو رہ گیا وہ ہاتھ اٹھائے رکھے گا جب تک کہ فتح کی بھیک ان اٹھے ہاتھوں میں نہیں ڈال دی جاتی !!