ہفتہ، 27 جولائی، 2013

روح سید قطب سے ایک خطاب !!


سید مجھے یاد ہے کہ جب نئی نئی مجھے توحید کی سمجھ آئی تھی ،قرآن کی روشن کرنوں نے میرے سینے کو منور کرنا شروع کیا تھا ،جہالت کہ اتھاہ اندھیروں سے نکل کر توحید کی روشنی میں ،میں نے راستہ دیکھنا شروع کیا تھا تو میں اپنے سالخوردہ سلفی استاد کو حیرت کی نظروں سے دیکھنا شروع کردیتا جب یہ لمبی داڑھی والا ہر معلوم سنت پر اپنی طاقت کہ مطابق عامل شخص آپ کا نام بڑے احترام سے لیتا ! میں نے ان دنوں گوگل پر نئی نئی آپ کی تصویر دیکھی تھی ،مجھے سمجھ نہ آتی تھی کہ میرے استاد جو ہر لمحہ ہمیں قال اللہ و قال الرسول کی دعوت و تعلیم دیتے ہیں اور ان کی دعوت توحید اتنی خالص ہے کہ بڑے سے بڑا نام جس کا دامن شرک سے یا بدعت سے منسوب ہو اس کہ رد سے نہیں بچ سکتا، بھلا اس کو آپ کو آپ کا داڑھی کہ بغیر ہونا اور سوٹ بوٹ میں ملبوس ہونا نظر نہیں آتا !!! یہ میرے استاد آپ کی بات بیان کرتے اور کسی اندرونی جذبے سے ان کا چہرہ دمکنے لگتا !
سید میں نے بڑے شوق سے آپ کی کتاب المعالم فی الطریق کا اردو ترجمہ جادہ منزل خریدا اور اسے پڑھنا شروع کیا ، سید میں سچی بتاوں اس کتاب کی مجھے سمجھ آئی ہو یا نہ آئی ہو مگر آپ کی زندگی کہ حالات پڑھ کر میں بھونچکا رہ گیا !!
آپ نے یہ سب کچھ کیسے کرلیا ؟ اعلی تعلیم ، شاعری ، مصنفی ، سفارت ، پھر راہ خدا میں پلٹنا ، اخوان کی قیادت ، جیل ،تشدد ، پامردی ، استقامت ، دین کی دعوت ،تفسیر ، اور پھر شہادت !!
میں جو سدا سے ایک سپر ہیرو کی تلاش میں تھا آپ کی صورت میں مجھے وہ مل گیا ، کبھی آپ کی تحریر اور کبھی تفسیر نے میری بہت سی جگہوں پر رھنمائی کی ۔ سید میں کبھی کبھار سوچتا تھا کہ میں آپ کو دیکھ نہیں سکا ،کاش کہ میں بھی آپ کہ زمانے میں ہوتا مجھے معلوم ہونا شروع ہوگیا کہ میرا بوڑھا عظیم استاد آپ کا نام عقیدت و احترام سے کیوں لیتا ہے ! میرا چہرہ بھی آپ کا نام زبان پر لاتے ہی دمکنا شروع ہوجاتا !!
مگر اب مجھے آپ سے نہ ملنے کو کوئی افسوس نہیں ہے ! میں مصر کی گلیوں میں ، سڑکوں پر ، چوراھوں پر لاکھوں سیدوں کو دیکھ رہا ہوں ! کسی کو گولی کھاتے ، کسی کو ہنٹر کھاتے ، کسی کو ڈنڈوں سے مضروب ، کسی نے اپنے وجود کہ اوپر پہنی شرٹ پر یہ بھی پینٹ کروا لیا ہے اسلام یا شہادت !!
آج چاروں طرف سید ہیں ،ان میں بے ریش بھی ہیں اور با ریش بھی ، ان میں سوٹڈ بوٹڈ ،ٹائی کوٹ پینٹ پہنے ہوئے بھی ہیں اور لمبی مصری عباوں میں ملبوس بھی ، ان میں افغانستان کہ سنگلاخ چٹانوں پر لڑنے والے جانثار بھی ہیں ، اور عراق ، شام ، لیبیا کہ صحراوں و میدانوں میں داد شجاعت دینے والے شیر بھی ، یہ جو آج مصری فوج کی گولیوں سے گرے ہیں یہ بھی سید ہیں ، یہ جو مسجد کہ پاس اکھٹے ہیں یہ بھی سید ہیں ، ہر کوئی جادہ و منزل کہ کسی باب پر ہے کوئی پہلے پر تو کوئی آخری پر مگر آج ان سب کہ چہرے دمک رہے ہیں !! میں ان کو دیکھتا ہوں تو میرا بھی چہرہ دمک اٹھتا ہے 

1 تبصرہ: