اتوار، 21 جولائی، 2013

آخری مورچہ !


   
3 سبتمر 1260-
میدان – عین جالوت ۔ گلیل
موجودہ ۔ ریاست اسرائیل
سیف الدین قظز آپ کہاں ھو !!

عیسائی بچے ان کو حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھ رھے تھے ، گرجے کی دعاوں میں آج مسلمانوں کی فتح کہ لیے دعائیں بھی شامل تھیں،عیسائی دوشیزائیں سفید گھوڑوں پر سوار ان شامی و مصری جوان رعنا چہروں کو دیکھ کر عجب سی کیفیت سے گزرتیں جو کہ ان کہ علاقے میں سامان رسد خریدنے کہ لیے رک گیا تھا ،
عیسائی سردار کو یہ تشویش تو تھی کہ کیا یہ مصری و شامی لشکر اپنا وعدہ پورا کرے گا اور اس کہ خطے سے صرف رسد کی خریداری کر کہ گزر جائے گا مگر اس سے زیادہ فکر اسے اس بات کی تھی کہ خدا اس لشکر کو فتح یاب کرے جو کہ نسل انسانی پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی قیامت تاتاریوں سے مقابلہ کرنے کہ لیے جارھا ھے ،جس نے مسلمانوں کی سلطنتوں کہ ٹکڑے ٹکڑے کردیئے تھے ! اور اگر اس معرکہ میں بھی وہ شکست کھاجاتے ھیں تو ان کہ پاس عرب کہ صحراوں کہ علاوہ سر چھپانے کو کوئی جگہ نہ ھوگی! اور تاتاریوں کا اگلا نشانہ عیسائی سلطنطیں ھوں گئیں !
 
مصر و شام اسلام کہ آخری مورچے تھے !!
عین جالوت کہ مقام پر یہ معرکہ شروع ھوا، تاتاریوں کا حملہ بلا خیز تھا ،مگر شامی چھلاوہ بیبرس طرح دیئے جارھا تھا ، تاتاری سردار قط بوغا کو اپنی فوجوں کہ مہارت و بے رحمی پر یقین تھا ، وہ شیر کی طرح آگے بڑھا ، بیبرس مقابلے کہ لیے آگے بڑھا مگر عین ٹکراو کہ وقت جھکائی دے گیا ، تاتار کو لگا کہ مسلمان اس کی افسانوی ھیبت سے ڈر کر میدان چھوڑ رھے ھیں ، تعاقب شروع ھوگیا ، بیبرس ایک چھلاوہ بنا ھوا تھا ان کو عین جالوت کہ پہاڑی سلسلے تک گھیر لایا ، مسلمان اللہ اکبر کہ نعروں کی گونج میں پلٹے اور اصل مقابلہ شروع ھوگیا ، قط بوغا فورا سمجھ گیا کہ آج تاتار کی چال انہی پر پلٹ گئی ھے،
ادھر سے سیف الدین قطز کی فوجیں گھات لگائے ھوئے شیر کی طرح دھاڑتی ھوئی جنگل سے نکل کر آگے بڑھیں، یہ مصری جوان جن کی جوانمردی کہ قصے افسانوں کی زنیت تھے عقاب کی طرح جھپٹے !
مگر تاتار نے جی جان سے مقابلہ کیا ، نرغے میں آئے ھوئے شیر کی طرح چاروں طرف کا حملہ ، مسلمانوں کا بایاں بازو برباد کرکہ رکھ دیا ، شکست کہ آثار ظاہر ھونے لگے ، بزدل پیٹھ دکھا کر بھاگنے لگے !!
ان بھاگتے ھوئے فوجیوں نے ایک عجب منظر دیکھا ، ایک اکیلا شخص جس کہ چہرے پر حفاظتی خود بھی نہ تھا ان کی مخالف سمت میں تاتاریوں کہ لشکر کی طرف دوڑتا ھوا جارھا تھا ،چہرے پر اعلی نسبی کی علامات ، ہاتھ میں چمکتی تلوار ، زبان پر نعرہ مستانہ " او اہل اسلام ، او اہل اسلام ، اسلام کی مدد کرو"
مصری شاھینوں نے پہچاننے میں کوئی غلطی نہ کی یہ کوئی اور نہیں خود ان کا امیر "سیف الدین قطز" تھا وہ چمکتی ھوئے بجلیوں کی طرح اپنے امیر کہ پیچھے لپکے جو کہ تاتار کی صف میں اکیلا ہی تلوار چلا رھا تھا ،اور تاتاریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا! قط بوغا لڑائی میں مسلمانوں کہ ہاتھوں مارا گیا اور پورے شام سے تاتاریوں کا صفایا کردیا گیا ۔ وقت کہ مورخ نے اس معرکے کو تاریخ کی چند فیصلہ کن و عہد ساز جنگوں میں قرار دیا
!

سیف الدین قطز آپ کہاں ھیں ؟ کوئی ھے مصر میں ، شام میں ، لیبیا میں ، پاکستان میں ، ملائیشا میں ، سعودیہ میں ، انڈونیشا میں ، قطر میں ، یمن میں جو کہ اپنے چہرے سے "ہر منافقت کا خود اتار پھینکے" اور پکار کر کہے او مسلمانوں ، او مسلمانوں ، اسلام کی مدد کرو !! کوئی ھے ؟؟؟؟؟؟؟؟
Top of Form
Bottom of Form

2 تبصرے: