جمعرات، 12 ستمبر، 2013

شامی جہاد ! مغرب کی بے بسی




امریکی وزیر جان کیری نے 4 ستمبر کو جب شامی مزاحمت کی صرف 10 سے 25 فیصد تعداد کو "اسلامسٹ" قرار دیا تو بہت سے مبصرین کے لیے یہ بات ورطہ حیرت میں ڈالنے والی تھی ! کیا جان کیری امریکی سینٹرز کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ حالات واقعی ہی کچھ ایسے ہیں ! اس سوال نے امریکی حلقوں میں بھی ایک بحث کو جنم دیا ۔ یہاں تک کہ ایلزبتھ او بے نامی جس امریکن تجزیہ نگار کو جان کیری نے امریکی سینٹرز کو پڑھنے کا مشورہ دیا وہ بھی تنقید کی ذد میں آگئی (ایلزبتھ کو ڈاکٹریٹ کی جعلی ڈگری رکھنے کی بنا پر انسٹیوٹ آف سٹڈی آف وار سے فارغ کردیا گیا ہے )



جان کیری کا یہ دعوی جہاں امریکن ماہرین کو حیرت میں ڈال دینےوالا تھا وہیں پر دنیا بھر میں شامی مزاحمت سے حد درجہ واقف ماہرین کو بھی حیران کرنے والا تھا، جب کہ اس کے ساتھ جان کیری یہ بھی دعوی کررہے ہوں کہ شامی مزاحمت میں حصہ لینے والے مجاہدین کی کل تعداد 70،000 سے لے کر ایک لاکھ تک ہوسکتی ہے ۔ ایسے دعوی کے ایسی اہم شخصیت سے منظر عام پر آنے میں کیا راز پنہاں تھا یہ ایک معمہ ہے ۔ جس کی مختلف تاویلات کی جاسکتی ہیں 
قصہ جو بھی ہو لیکن مغرب شامی مزاحمت کو سمجھنے سے عاجز ہے اور اصطلاحات کا اطلاق اس کو اور الجھن میں ڈالنے والا ہے ۔ مجاہدین کو اسلامسٹ ، انتہا پسند ، القاعدہ ،وطن پرست کی اصطلاحات میں تقسیم کرنا اس کی اپنی اپچ ہے جس کا زمینی حقائق میں کوئی وجود نہیں پایا جاتا ۔ ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ زمین پر برسرپیکار گروہ طریق ہائے کار کے بارے میں اور اپنے نظریات میں کچھ اجتہادی اختلافات رکھتے ہیں ۔ کچھ کا نظریہ جہادکو صرف شام کی آزادی تک اور بشار کے خاتمے تک محدود رکھنا ہے اور کچھ اس کو عالمی جہاد کی صنف میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ لیکن موضوع زیر بحث یہ نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ یہ سب آزادی کے بعد شام میں کیا چاہتے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ ان سب کا مشترکہ نعرہ بشار سے چھٹکارے کے بعد اسلامی شریعت کے نفاذ کا ہے ۔اور یہ بات مغرب کو ڈرانے کے لیے کافی ہے ، اسی لیے وہ سعودی حکمرانوں کی بھی کوئی گارنٹی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
ہم اعداد و شمار کی زبان میں شامی مزاحمت کی بات کریں تو شام میں پایا جانے والا مغربی زبان میں سب سے زیادہ انتہا پسندانہ گروہ القاعدہ ہوگا ۔ جو کہ دو ناموں سے شام میں متحرک ہے 
جبھۃ النصرہ و دولۃ الاسلامیہ العراق و الشام ، ایک اندازے کے مطابق ان کے باقاعدہ فائٹرز کی تعداد 7000 سے لے کر 10000 تک ہے جو کہ شام کی تیرہ ریاستوں میں سے گیارہ ریاستوں میں سے پھیلی ہوئی ہے اس کے علاوہ ان سے منسلکہ چھوٹے گروہوں میں پائے جانے والے افراد کی تعداد 3000 سے لے کر 5000 تک ہے ان کو جمع کیا جائے تو یہ تعداد کسی بھی طرح دس ہزار سے لے کر پندرہ ہزار سے کم نہیں ہے ۔ یہ وہ تعداد ہے جس کو اقرار مغربی ذرائع ابلاغ و دفاع کے ماہرین کو بھی ہے ،ان کی اصل تعداد کتنی ہے یہ کوئی بھی نہیں جانتا !
شامی محاذ پر دوسرا سب سے بڑا اسلامی گروہ جو کہ ہر گز مغرب نواز نہیں ہے بلکہ اپنی تعلیمات و اعلانات میں جمہوریت کو یکسر مسترد کرتا ہے اور اسلامی امارات کے قیام کی بات کرتا ہے وہ "احرار الشام" ہے ۔ احرار الشام اس وقت "شامی اسلامی محاذ" کے نام سے ایک الائنس بھی تشکیل دیئے ہوئے ہے جس میں سب سے زیادہ تعداد "احرار الشام " کے فائٹرز کی ہے ایک مغربی محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد 15000 سے لے 20000 کے مابین ہے ۔ احرار الشام ، شام کے مقامی سلفیوں و جہادیوں پر مشتمل گروہ ہے ۔ جو کہ القاعدہ کے شانہ بشانہ ہر قابل زکر معرکے میں شریک رہا ہے اور ان سے مکمل ہم آہنگی رکھتا ہے ۔ اگر ان کی تعداد کو بھی اسلامی مجاہدین کی صنف میں داخل کیا جائے تو صورتحال کچھ یوں بنتی ہے 
جبھۃ النصرہ و دولۃ الاسلامیہ العراق و الشام اور ان کے اتحادی گروہ   کی تعداد 15000
احرار الشام کی تعداد ۔ 15000 سے 20000
کل اسلامی فائٹرز کی تعداد 30000 سے 35000
اگر جان کیری کی بتائی گئی مجاہدین کی تعداد کو درست مان لیا جائے تو یہ اسی مقام پر 10 تا 25 فیصد سے بڑھ کر 30 سے چالیس فیصد تک پہنچ جاتی ہے !
شام کے دیگر بر سر پیکار گروہوں میں سے ایک بڑا نام "صقر الشام" کا ہے جو کہ "شامی اسلامی آزادی محاذ" کا سب سے بڑا حصہ ہے ۔ اس کے فائٹرز کی تعداد ایک مغربی اندازے کے مطابق 8000 سے 9000 تک ہے ۔ صقر الشام اپنی تعلیمات میں اعلانات میں جمہوریت کو یکسر مسترد کرتا ہے اور اسلامی نظام کے قیام کا خواہاں ہے ۔ اس کے کمانڈر الشیخ ابو عیسی ہیں ۔ یہ گروہ القاعدہ و احرار الشام کے انتہائی قریب ہے ۔ جیش الحر کی مرکزی کمانڈ کے زیر تحت ہونے کے باوجود یہ زمین پر ان سے کوئی آرڈر وصول نہیں کرتا ، شیخ احمد ابو عیسی نے چند دن پہلے ہی مغرب نواز شامی ملٹری کونسل کو جس کا سربراہ احمد جبارا نامی ایک شخص ہے جو کہ ایک شامی مزاحمت پر مشتمل ایک ریاستی آرمی کی تشکیل کرنا چاہتا ہے ، منافقین کا لقب دیا ہے !
مغرب کی حیرت اب اور بڑھ جاتی ہے ، اسلامی فائٹرز کی تعداد اس اضافے کے بعد ایک دم 50،000 کے قریب پہنچ جاتی ہے یعنی کل  شامی مزاحمت کا پچاس فیصد یا اس سے زائد!
اب ان گروپس کی بات کریں جو کہ ان چارگروہوں کے مقابلے میں کم انتہا پسند سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ لوالاسلام ، لوالتوحید ، فاروق بٹالین وغیرہ تو ان کی تعداد کو اگر ملایا جائے تو یہ 24000 سے 26000  کی تعداد ہے ۔ الفاروق بٹالین حالیہ دنوں میں ترکی نواز ہونے کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھوچکی ہے لیکن ان گروپس کو ملائے بغیر شامی مزاحمت کی مکمل تصویر کشی کرنا ممکن نہیں ہے !
مغرب کی حیرت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب یہ گروہ مختلف مقامات پر مغربی جمہوریت یا اسلامی جمہوریت کی مکمل نفی کرتے ہیں اور اسلامی شریعت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں ! مغرب کے لیے اتنا ہی کسی کے اسلامی ہونے کےلیے کافی ہے ۔ اگر ان کی تعداد کو بھی اسلامی مزاحمت میں شامل کرلیا جائے تو کل تعداد تقریبا 70000 تک جا پہنچتی ہے !
فری سیرین آرمی جس کو عرف عام میں الجیش الحر بھی کہا جاتا ہے اور عام خیال یہی ہے کہ یہی وہ سیکولر و لبرلز کا گروہ ہے جو کہ مغرب کا پسندیدہ ہے لیکن یہ حالات کی واضح تصویر نہیں ہے ۔ الجیش الحر کی ایک قیادت جنرل سلیم ادریس وغیرہ بیرون ملک مقیم ہیں ، جو کہ شامی ملٹری کونسل نامی ایک ادارے کی سربراہی کرتے ہیں ۔ ان کو بطور مزاح زمین پر موجود الجیش الحر کے مجاہدین ہوٹل منیجمنٹ کے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔ یہ ان کا سیاسی چہرہ ہے اور ایک وہ گروہ ہیں جو کہ زمین پر برسر پیکار ہیں ۔ حالیہ دنوں میں حلب کے محاذ پر جب مجاہدین نے مینک نامی فوجی ایرپورٹ پر قبضہ کیا تو اس کے بعد ریلیز ہونے والی ویڈیوز میں شمالی حلب کے الجیش الحر کے کمانڈر القاعدہ کے کماندران اور دوسری مجاہد تنظیموں کے ساتھ تقریر کرتے نظر آئے ۔ جس پر مغرب نے کافی لے دے کی ۔ لیکن زمین پر موجود کمانڈرز کے کان پر بھی جوں نہ رینگی اور انہوں نے ببانگ دہل اس بات کا اعلان کیا کہ وہ مجاہدین کے ساتھ مل کر ہر قسم کی کاروایئوں میں حصہ لیں گئیں 
ان کے کئی کمانڈرز نے حالیہ بیانات میں جنگ کے بعد شام میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بات ہے ۔ بذات خود غوطہ دمشق کے کیمیائی حملوں کے بعد شامی ملٹری کونسل نے جو بیانات جاری کیے تھے ۔ وہ فرقہ وارانہ لہجہ لیے ہوئے تھے اور اس میں پہلی بار کھل کر نصیریوں و ایرانی رافضیوں کو نشانہ بنایا گیا !
مغرب کی یہ پریشانی بجا ہے ۔زمین پر ایک بھی گروہ ایسا نہیں پایا جاتا جو کہ حقیقی معنوں میں سیکولر یا لبرل کہلا سکے ۔ ان کے لیے سب سے موزوں گروہ الفاروق بریگیڈ تھا جو کہ اپنی مقبولیت کھوچکا ہے اور بالکل حالیہ دنوں میں مجاہدین کے اڈوں پر الیکڑوک چپز جو کہ ڈرون حملوں یا گائیڈڈ میزائل کے لیے مددگار ہوتی ہیں ،نصب کرتے پکڑا گیا ہے ۔ اور اب تقریبا تمام مجاہد تنظیموں کے غیض و غضب کا شکار ہے ۔ یاد رہے کہ یہ گروہ ترکی کا حمایت یافتہ ہے ۔ 
ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ مجاہد تنظمیوں کا ایجنڈا بعض مقامات پر مختلف ہے ، کچھ گلوبل جہاد کی حامی ہیں اور کچھ اس لڑائی کو صرف شامی تناظر میں دیکھتی ہیں لیکن نتیجے کے طور پر یہ سب اسلامی نظام کے نفاذ کی داعی ہیں ۔ اور جمہوریت کو یکسر رد کرتی ہیں ۔ شام کے محاذ پر مغرب کل بھی تنہا تھا آج بھی تنہا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں