جمعرات، 12 ستمبر، 2013

القاعدہ کا فتح کا بیس سالہ منصوبہ !

"
"  سن 2005 کے اختتام پر ایک اردنی صحافی فواد حسین کی ایک عربی کتاب منظر عام پر آئی جس کو عربی روزنامہ القدس عربی نے چھاپا - کتاب کا نام تھا 
الزرقاوی ۔ القاعدہ کی دوسری نسل 
" Al-Zarqawi . Al-Qaeda Second Generation
اپنی طباعت کے موقع پر یہ کتاب کوئی خاص اہمیت حاصل نہ کرسکی گوکہ فواد حسین معصب الزرقاوی کے ساتھ اردنی جیل میں کچھ وقت گزار چکے تھے ۔ اور اپنے دعوی کے مطابق القاعدہ کی لیڈر شپ سے رابطہ رکھتے تھے ۔ لیکن عرب بہاریہ کے بعد ایک دم یہ کتاب مغربی تجزیہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن گئی ۔ خاص طور پر جس بات نے ان کی توجہ مرکوز کی وہ "القاعدہ کا فتح کا بیس سالہ منصوبہ" تھا جس کا دعوی جہادی ذرائع سے اس کتاب میں کیا گیا ۔ اس کتاب کے یہ مندرجات حیران کن طور پر کچھ ہی سالوں میں سچے ثابت ہوئے ۔ جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتے 
ہیں ۔ مصنف نے القاعدہ کے منصوبے کو سات حصوں یا مراحل میں تقسیم کیا ہے 
"

"

"  2003پہلا مرحلہ ۔ بیداری ،مدت 2000 تا

" اس عرصہ کے دوران امریکہ کو اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ اسلامی دنیا پر جنگ کا اعلان کردے ،9/11 اس سلسلے کی ایک کڑی تھی ۔ جس کا مقصد امریکہ کو مسلم دنیا کے ساتھ جنگ میں گھسیٹنا اور مسلم عوام کو بیدار کرنا تھا ۔ یہ مرحلہ انتہائی کامیابی سے حاصل کرلیا گیا اور امریکہ اور اس کے اتحادی مسلم دنیا کے ساتھ ایک جنگ میں ملوث ہوگئے اور آسان شکار ثابت ہوئے ۔ سن 2003 میں بغداد پر حملے نے مسلم دنیا میں اور اضطراب پیدا کردیا اور مسلم دنیا مغربی سازش کے خلاف بیدار ہونا شروع ہوئی ۔
"

" دوسرا مرحلہ- فریب توڑنا   ،مدت 2003 تا 2006

" فاضل مصنف نے جس وقت یہ کتاب لکھی اس وقت یہ مرحلہ چل رہا تھا ، مصنف کے مطابق اس 
مرحلے کے دوران اسلامی دنیا کو مغربی سازشوں سے خبردار کرنا تھا ۔ اور القاعدہ کو ایک جماعت سے ایک فکر کا روپ دینا تھا ۔ مصنف کے مطابق اس عرصہ کے دوران عراق اس جنگ کا محور بننا تھا ، جہاں پر ایک ایسی فوج کی تشکیل کا کام سرانجام دینا تھا جو کہ دوسرے عرب ممالک تک اثر رسوخ رکھتی ہو 
" القاعدہ نے یہ مرحلہ بھی بڑی کامیابی سے حاصل کرلیا ،عراق میں القاعدہ کی نئی شاخ وجود میں آئی اور 2006 کے اختتام تک یمن میں بھی القاعدہ وجود میں آچکی تھی ، اسی اثنا میں کئی اور گروپس نے القاعدہ کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا اور یہ تنظیم پورے عرب میں پھیل گئی ۔اس کو عربی جزیرہ نما میں القاعدہ کا خطاب اس وقت ملا جب یمنی برانچ نے سعودی برانچ کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا ۔ سن 2007 ہی کی شروعات میں الجیریا کی تنظیم کی شمولیت کے ساتھ ہی اس کو القاعدہ ان اسلامک مغرب کا نام دے دیا گیا 
"

تیسرا مرحلہ - بغاوت،مدت 2007تا 2010 

" یہ مرحلہ بہت اہم ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ اس کی ٹائمنگ کتاب کے منظر عام پر آنے سے بعد کی ہے ۔ یہ کتاب سن 2005 میں لکھی گئی ۔اس کے مطابق اس مرحلے میں 
شام رسول اللہ کی پیشین گویئوں کی روشنی میں مرکزی مقام تھا جہاں پر ایک جہادی تحریک کو کھڑا کرنا تھا، اس کے علاوہ اسرائیل ، ترکی و اردن پر حملے بھی منصوبے میں شامل تھے ۔ ان حملوں کا مقصد مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کا درجہ حاصل کرنا تھا ۔
لیکن یہ مقاصد اس دور میں حاصل نہ کیے جاسکے ، عراق جنگ کے دوران شام میں القاعدہ کو اڈے بنانے کی اجازت تھی ۔ لیکن عراق رافضیوں کے ہاتھوں لگتا دیکھ کر شامی حکومت نے وہ اڈے فورا ہی بند کروا دیئے اور جہادی عناصر کو مجبورا عراق میں ہجرت کرنا پڑی ۔ اسرائیل پر کچھ راکٹ تو فائر کیے گئے لیکن وہ کوئی قابل زکر نقصان نہ پہنچا سکے ۔ بلکہ حماس کو القاعدہ کے خلاف صف آرا ہونے پر مجبور کردیا ، یہی حال اردن میں ہوا جہاں کی انٹلیجنس کی کاروائی سے القاعدہ کا سیل گرفتار ہوا اور عقوبت خانوں میں پہنچا دیا گیا 
" لیکن یہ مرحلہ مکمل ناکامی کا مرحلہ نہیں تھا ۔انہی خطوں میں القاعدہ اپنی خاموش موجودگی قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی اور ان حکومتوں کا بغص بھی کھل کر سامنے آگیا
"

" چوتھا مرحلہ ۔عرب بہاریہ ،مدت -2010 تا 2013

" القاعدہ کے اندازے کے مطابق اس عرصے کے دوران عرب کے غدار حکمرانوں کے خلاف بغاوتیں ہوجائیں گئیں اور ان کے اقتدار چھین لیے جائیں گئیں ۔ اسی دوران امریکہ پر سائبر حملے بھی کیے جائیں گئیں 
جہاں تک اندازے کی بات ہے تو القاعدہ کا یہ اندازہ حیرت انگیز حد تک درست نکلا اور اسی دوران ،تیونس ، مصر  ،لیبیا و شام کی بغاوتیں رونما ہوئیں ۔ گوکہ ان بغاوتوں میں القاعدہ کی فکر کا کردار اتنا زیادہ نہ تھا لیکن یہ اس کی مقصد کی برآواری کے لیے بہت مفید ثابت ہوئیں ، ان عرب بغاوتوں کا سب سے زیادہ فائدہ القاعدہ ہی نے اٹھایا شمالی افریقہ میں اس کی اتحادی جماعت انصار الشریعہ دعوت و تبلیغ کے زریعے اپنا پیغام پھیلانے میں کامیاب رہی اور ایک معاشرتی تنظیم کا روپ دھارنے میں کامیاب بھی ۔ 
" عراق سے حاصل کیے گئے تجربے کو اس نے شام میں بڑی کامیابی سے استعمال کیا اور طاقت کے اندھا دھند استعمال کی بجائے حکمت و تدبر اختیار کرکے مسلم معاشرے میں اپنی جگہ بنائی ۔ شامی بغاوت سے اس کو کافی عرصہ بعد ایک نئے ملک میں اپنے اڈے بنانے کا موقع ملا جو کہ اسرائیل و ترکی کی عین سرحد کے اوپر ہیں ۔ مجموعی طور پر اس مدت کے ہدف باآسانی حاصل کرلیے گئے ۔
"

" پانچواں مرحلہ ۔ خلافت ،مدت 2013 تا 2016

" القاعدہ کے مطابق یہ عرصہ اسلامی خلافت کے قیام کا عرصہ ہوگا ۔ جس میں دشمن قوتوں کو اس حد تک شکست دی جاچکی ہوگی کہ وہ اسلامی خلافت کے قیام کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکیں گئیں ۔ مغربی اثر و رسوخ مسلم خطوں پر سے کم ہوچکا ہوگا اور اسرائیل کمزور ہوچکا ہوگا یا صرف اپنے آپ کو بچانے کی تیاریوں میں !
" یہ مرحلہ مستقبل سے متعلقہ ہے ۔ لیکن ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی خلافت کے قیام کی آواز جتنی اب زور دار ہے پچھلی صد سالہ تاریخ میں کبھی بھی اتنی زور دار نہیں رہی ۔ شام ،افغانستان ، یمن ، عراق میں جاری جہاد نے اس کے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے اور بذات خود امت کی مختلف جماعتوں کے اندر ایک جھنڈے و لیڈر کے تلے کھڑے ہونے کی خواہش کو بڑھاوا دے دیا ہے ۔ امریکی اثر و رسوخ کی گرفت عرب خطوں پر ویسی نہیں رہی جیسی کے چند سال پہلے تک تھی ۔ وہ اس محاذ پر پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے ۔ اسرائیل کمزور ہوا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل ایک دفاعی پوزیشن اختیار کرتا جارہا ہے 
" چھٹا مرحلہ ۔ کھلا مقابلہ ۔مدت - 2016 تا 2020
"
" کتاب کے مصنف کے مطابق القاعدہ اس عرصے کو لادینوں و کفریہ طاقتوں کے ساتھ کھلے مقابلے کا دور کہتی ہے ۔ جس میں یہ سب مل کر اسلامی خلافت کے مقابلے میں صف آرا ہوجائیں گئیں ،اور ایک ہولناک جنگ کا آغاز ہوجائے گا جو کہ مسلمانوں کی فتح پر منتج ہوگی 
اگر القاعدہ کا خلافت قائم کرنے کا منصوبہ پورا ہوجاتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ یہ مرحلہ آکر رہے گا ۔ اور پورا عالم کفر بمعہ رافضی اس خلافت کے ساتھ کھلی جنگ چھیڑ دیں گئیں ۔ یہ کب ہوگا اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ایسا ہونا یقینی ہے 
ساتواں مرحلہ ۔ مکمل فتح ،مدت 2018 تا 2020
"
مصنف کے دعوی کے مطابق القاعدہ کو یقین ہے کہ 2020 تک کفریہ طاقتوں کو مکمل شکست دی جاچکی ہوگی اور اسلامی خلافت اپنی شان و شوکت سے قائم ہوگی 
" اللہ کرے کہ یہ مرحلہ ہماری زندگیوں میں ہی آجائے اور ایک بار پھر ہم اسلام کے نظام کو پوری شان و شوکت سے حکمرانی کرتا دیکھ سکیں ۔ اور مستقبل کا درست حال تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے
" ہم حتمی طور پر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ واقعی ہی القاعدہ کا منصوبہ ہے کہ نہیں لیکن اس کتاب کے مندرجات ناقابل یقین حد تک ان مراحل کی نشاندہی کرتے ہیں جن کا تذکرہ کیا گیا ہے 
"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں