منگل، 27 اگست، 2013

خروج ! تیسری قسط


اس مظلوم قوم کی اس حالت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ حکمران طبقے نے اس کو گروہوں و طبقات میں بانٹ رکھا تھا جو طبقہ یا گروہ اس کی مکمل وفاداری کا عہد کرتا اور اس کی غلامی کا جوا اپنے گلے میں ڈالنے کے لیے تیار ہوتا اس کو یہ اپنا مقرب بنالیتا۔ قرآن پاک میں اس بات کا اشارہ یوں ہے 
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَآىِٕفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ يَسْتَحْيٖ نِسَآءَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۰۰۴
واقعہ یہ کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔  ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کر تا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔
وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ۰۰۱۱۳قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ۠
چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے۔
اُنہوں نے کہا ” اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟“
فرعون نے جواب دیا”ہاں! اور تم مقربِ بارگاہ ہو گے۔(سورہ اعراف) “



ہمیں اس بات کو ماننے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ فرعون کہ فکری جانشینوں پر یعنی قوم یہود پر جہاں یہ حربہ خود بھی کارگر ہوا وہیں پر انہوں نے یہ حربہ دوسری اقوام پر بھی بہت کامیابی سے استعمال کیا ۔  امت مسلمہ کو فرقوں و گروہوں میں تقسیم کرنے سب سے پہلا سہرہ انہی کے سر جاتا ہے روافض جیسا بدترین فتنہ انہی کی پیداوار ہے جس نے مسلمانوں کے عقائد و نظریات کہ اندر بدترین تغیر پیدا کیا ،اور موجودہ دور کے اندر ہر وہ "جادوگر" ان کی نظر میں معزز ٹہرا جس نے الفاظ و تاویلات کی جادوگری سے حق کو باطل کردکھانے میں یا حق کو مشکوک قرار دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرچھوڑی ہو۔ ہر مغرب نواز عالم سوءان کے مقربین میں سے شمار ہوگا ۔ امت کی نظر میں چاہے شیخ الاسلام کوئی بھی ہو ان کی نظر میں شیخ الاسلام یہی ہوں گئیں !
لیکن ہمارے اس مضمون کا مقصد بنی اسرائیل کی اخلاقی یا نفسیاتی حالت کا جائزہ لینا ہی نہیں ہے بلکہ اس پورے الہی پروسیس کو سمجھنا ہے جس کی بنیاد پر یہ سب کچھ ظہور پذیر ہوا۔ یہ بات تعجب میں ڈالنے والی ہے کہ آخر اللہ نے اس انتہائی بگڑی ہوئی مزاج کی حامل قوم کو اپنے زمانے کی چنی ہوئی قوم کیوں قرار دیا اور انہیں فرعون مصر کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کی کیوں سوچی۔! ہم اس بات کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کرسکتے کہ یہ اس کا ان کہ آباواجداد سے کیا گیا وعدہ تھا جو کے اس نے حضرت ابراہیم و اسحق و یعقوب سے کررکھا تھا ،کیونکہ ان سے پہلے وہ یہ اعلان کرچکا تھا کہ "اس کا وعدہ ظالموں کے لیے نہ ہوگا"
بنی اسرائیل اپنی انتہادرجہ کوتاہیوں کے باوجود اس دین کی وارث تھی جس میں ایک الہ کا  تصور پایا جاتا تھا ،انبیا کی پامردی ،راہ حق میں ان کی استقامت ،شاندار ماضی چاہے قصے کہانیوں تک ہی محدود رہ گئے تھے لیکن ایک یہی قوم ان کی نام لیوا تھی ۔ مصیبت کہ وقت بھی اگر وہ کسی کو پکارتے تھے تو وہ اللہ ہی کی ذات تھی، یہ پکارنا چاہے عقیدے کی پختگی نہ ہونے کی وجہ سے اخلاص سے خالی تھا ،لیکن اللہ کا نام لینے والی اگر کوئی قوم دنیا میں پائی جاتی تھی تو وہ یہی تھی ۔ اس قوم سے سب سے قوی امید تھی کہ اگر دور غلامی سے نکل آئیں اور کسی خطے میں سکھ کا سانس لے سکیں تو وہ سلطنت بپا کردیں جو کہ روئے زمین پر اللہ کے جلال و حکم کی مظہر ہو۔ یہ اللہ تعالی کے معجزات کو پہچانتی تھی ۔بے حمیتی ،بدعقیدگی و بزدلی اور انتہا درجے کی غلامی نے ان میں بگاڑ ضرور پیدا کردیا تھا لیکن رب کی حکمت یہی ٹہری کہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان کی تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں آزادی بھی عطا کی جائے ۔ اس بگڑی ہوئی قوم کے ساتھ ہمدردی کی تصویر اللہ تعالی یوں کھینچتے ہیں 
اختصار کے لیے صرف ترجمے پر اکتفا کیا جارہا ہے 
اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی۔ اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہو گی، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی۔ (البقرۃ۔ ۔ ۔ ۴۸)
یادکرو وہ وقت جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی__ انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔ (البقرۃ۔ ۔ ۔ ۴۹)
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑکر تمہارے لیے راستہ بنایا، پھر اس میں سے تمہیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا۔ یاد کرو، جب ہم نے موسیٰ ؑکو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بلایا، تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبود بنا بیٹھے ۔ اس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی، مگر اس پر بھی ہم نے تمہیں معاف کر دیا کہ شاید اب تم شکر گزار بنو۔ (البقرۃ۔ ۔ ۔ ۵۲)
یاد کرو کہ (ٹھیک اس وقت جب تم یہ ظلم کر رہے تھے ) ہم نے موسیٰ ؑکو کتاب اور فرقان عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پا سکو۔ یادکرو جب موسیٰ ؑ(یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا، تو اس) نے اپنی قوم سے کہاکہ ’’لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو، اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے ‘‘۔ اُس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ (البقرۃ۔ ۔ ۔ ۵۴)
ان آیات میں اللہ تعالی کے اس خصوصی لطف وکرم کا تذکرہ ہے جو کہ انہوں نے ان کی بداعمالیوں کے باوجود ان کے ساتھ روا رکھا۔ کیونکہ یہ قوم کلمہ الہی کی بنا پر لطف الہی کی مستحق تھی یہاں تک کے وہ وقت آگیا کہ اس قوم نے اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے خود ہی اپنے مقدر پر بدنصیبی کی مہر لگادی!
مالک ارض وسما جن کے پاس ہرچیز کا علم تھا اس بات کو جانتے تھے کہ یہ قوم اپنی بداعمالیوں سے باز نہیں آنے والی مگر یہ لطف و کرم کا معاملہ پھر بھی ان کے ساتھ اس لیے روا رکھا گیا کہ ان کے لیے کوئی دلیل باقی نہ رہے اور حجت اتمام ہوجائے ،مالک کو معلوم تھا کہ غلامی کا دور ختم کیے بغیر ان پر حجت اتمام نہ ہوگی اس لیے حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون سے جو دو ابتدائی مطالبات کیے ان میں سے ایک اس کو ایمان لانے کی دعوت تھی اور دوسرا بنی اسرائیل کو آزاد کردینے کی ! ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ حضرت موسی نے آزادی کے نام پر دعوت موقوف کردی ہو بلکہ یہ دعوت پوری طرح کھول کر دی گئی ، لیکن ساتھ ہی اللہ کو اس امر کا بھی احساس تھا کہ دور غلامی ختم ہوئے بغیر ان کی تربیت ممکن نہیں ہے ۔قرآن پاک میں کہیں ان دونوں مطالبات کا اکھٹا زکر ہے اور کہیں موقع و محل کے لحاظ سے ایک ہی مطالبے کا زکر کیا گیا ہے جو کہ بنی اسرائیل کی رہائی کا تھا
وَ قَالَ مُوْسٰى يٰفِرْعَوْنُ اِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ۰۰۱۰۴حَقِيْقٌ عَلٰۤى اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِيَ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَؕ
موسیٰ نے کہا”اے فرعون میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا گیا ہوں، میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریّت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تُو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔(سورہ اعراف)“ 
حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کو جو دعوت پیش کی گئی اس کہ دو نکات تھے فرعون خود ایمان لے آئے یا اگر یہ نہیں بھی کرنا چاہتا تو بنی اسرائیل کو رہائی دے دے تاکہ وہ اپنے رب کی عبادت جیسے کرنا چاہتے ہیں ویسے کرسکیں ۔
بائبل فرعون کو توحید کی دعوت کا بیان نہیں کرتی لیکن بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ پوری شدومد سے بیان کرتی ہے اور اس کی وجہ بھی بتاتی ہے 
تب خداوند نے موسی سے کہا کہ فرعون کا دل متعصب ہے وہ ان لوگوں کو جانے نہیں دیتا ۔اب تو صبح کو فرعون کے پاس جانا وہ دریا پر جائیگا،سو تو لب دریا اس کی ملاقات کے لیے کھڑے رہنا اور جو لاٹھی سانپ بن گئی ہے اس کو ہاتھ میں لے لینا ۔اور اسے کہنا عبرانیوں کے خدا نے مجھے تیرے پاس یہ کہنے کو بھیجا ہے کہ میرے لوگوں کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میں میری عبادت کریں اور اب تک تونے یہ بات نہیں سنی۔(بائبل ،خروج 15-16)
فرعون سے یہ رہائی کا مطالبہ اسی لیے تھا کہ غلامی میں تربیت ممکن نہیں ہوتی ، شریعت جو کہ بنی اسرائیل کو سونپی جانے والی تھی اور جس ارضی خلافت کے یہ وارث بننے والے تھے اس کے لیے ضروری تھا کہ آزادی جیسے نعمت سے یہ بہرہ مند ہوں اور آسمانی شریعت کے تمام اجزا پر عمل کرسکیں اور اس کی فیوض وبرکات کو سمیٹ سکیں، اس آزادی کا مطالبہ پوری بنی اسرائیل کی قوم کے لیے تھا نیک و بد کی تمیز کے بغیر،اور نہ ہی ایک تربیت یافتہ گروہ کے لیے ۔ یہاں پر ایک بنیادی فرق تھا حضرت موسی کا ظہور خالص مشرکین کی طرف نہ ہوا تھا بلکہ اس قوم کی طرف تھا جو کہ اصل میں کلمہ توحید کی ہی دعوے دار تھی ،کلمہ توحید کی روشنی غلامی نے کم ضرور کردی تھی لیکن یہ اسی کے نام لیوا تھے۔ یہ بعنیہ وہی حالت ہے جس سے آج کل امت مسلمہ عوامی لیول پر دوچار ہے ،غلامی کے ایک طویل دور نے ان سے یہ سمجھ چھین لی ہے لیکن یہ آج بھی اسی کلمہ کی دعوے دار ہے جو کہ خالص توحید کی گواہی دیتا ہے ۔
اس خصوصی الفت کی ایک اور بھی وجہ تھی کہ بنی اسرائیل میں ابھی بھی کچھ وفادار ایسے موجود تھے جو کہ دن رات مالک کے نام کی مالا جپتے تھے اور اللہ پر سچا ایمان رکھتے تھے ۔ ان کی تعداد چاہے قلیل تھی لیکن ان کی موجودگی رب کہ عذاب کو روکے ہوئے تھی 
وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰۤى اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ يَعْدِلُوْنَ
اموسٰی کی قوم میں ایک گروہ  ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کر تا تھا(سورہ اعراف)
ان میں صاحبان عزیمت و جہاد اگرچہ بہت کم تھے لیکن بالکل ختم نہ ہوئے تھے 
قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ
اُن ڈرنے والوں میں دو شخص ایسے بھی تھے،جن کو اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ”اِن جبّاروں کے مقابلہ میں دروازے کے اندر گُھس جاوٴ، جب تم اندر پہنچ جاوٴ گے تو تم ہی غالب رہوگے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو“
زرا اندازہ لگایئے ،بائبل کے بیان کہ مطابق اس عورتوں و بچوں کو نکال کر اس چھ لاکھ کی جمعیت میں سے صرف دو افراد ایسے تھے جو کہ جذبہ جہاد سے سرشار تھے اور اپنے رب کی مدد کا یقین رکھتے تھے ۔ 
بائبل کے بیان کہ مطابق اس واقعے کے بعد کچھ اور بھی مجاہدین ان کے ساتھ شامل ہوئے جو کہ صحرا نوردی کے دوران بنی اسرائیل کے دشمنوں سے لڑتے رہے 
تب عمالیقی آکر رفیدیم میں بنی اسرائیل سے لڑنے لگے اور موسی نے یشوع سے کہا کہ ہماری طرف کے کچھ آدمی چن کر لے جا اور ان عمالیقیوں سے لڑ۔(بائبل ،خروج )
یہ کچھ آدمیوں کا گروہ جن کا سینہ اللہ نے ایمان سے منور کیا ہوا تھا اپنے رب کے راستے میں جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ یہی گروہ ملک فلسطین کو فتح کرنے کا سبب بنا اور جن جن لوگوں نے نامردی دکھائی تھی ان کو بطور سزا صحرائے سینا کی دشت گردی کہ دوران ہی موت آگئی ۔
بنی اسرائیل انتہادرجے کے خطاکار ہونے کہ باوجود غلطی کا احساس ہوجانے پر اللہ ہی کی طرف پلٹتے تھے اس کی طرف قرآن یوں اشارہ کرتا ہے 
یاد کرو کہ (ٹھیک اس وقت جب تم یہ ظلم کر رہے تھے ) ہم نے موسیٰ ؑکو کتاب اور فرقان عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پا سکو۔ یادکرو جب موسیٰ ؑ(یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا، تو اس) نے اپنی قوم سے کہاکہ ’’لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو، اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے ‘‘۔ اُس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ (البقرۃ۔ ۔ ۔ ۵۴)
یہ آیت ان کی توبہ کی طرف اشارہ کرتی ہے بائبل کے بیان کے مطابق انہوں نے بچھڑا بنانے والوں کو اس کی پوجا کرنے والوں میں سے تین ہزار بندوں کو قتل کیا جسمیں ان کے قریبی عزیز و رشتہ دار بھی شامل تھے ۔لیکن جب ان کی بدنصیبی حد سے بڑھی تو انہوں نے اللہ کی طرف پلٹنا بھی بند کردیا بلکہ حق کو پہچان کر اس کا انکار کرنے لگے ۔ حضرت عیسی کے خلاف روم کی عدالت میں جس شخص نے اپنی دانست میں الہامی گواہی تھی وہ یہود کا اس زمانے کا سب سے بڑا ربی تھا، جس کہ متعلق ان کا گمان تھا کہ اس پر وحی آتی ہے !! حالانکہ وہ حق کو پہچان چکا تھا۔ یہی حالت ان کی رسول اللہ کے انکار کے وقت تھی ۔
اسی لیے اللہ نے حضرت موسی کو روشن نشانیاں دے کر فرعون کی طرف بھیجا تاکہ وہ ڈر مان کر ایمان لے آئے یا کم از کم اللہ کی منتخب کردہ قوم کو آزاد کردے۔ موسی علیہ السلام کو فرعون کی طرف آنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے جس کو نظر انداز کردیا جائے یا سرسری نظر ڈال کر آگے بڑھ جایا جائے ۔ یہ ایک بدنصیب و مظلوم قوم کے نمائندے تھے جو کہ وحی الہی کی بنیاد پر فرعون کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ،فرعون کے پاس جانے سے پہلے یہ اپنی قوم میں سے کوئی جتھا یا جمعیت تیار نہیں کرتے جو کہ فرعون کے دربار میں ان کا ساتھ دے بلکہ تن تنہا اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو لے کر فرعون کو للکارنے پہنچ جاتے ہیں ،لہجہ بحکم الہی نرم ہے لیکن انداز فیصلہ کن ہے ،آج فرعون کے دربار میں ایک لرزہ طاری ہے ،غلام قوم کا ایک شخص ایک معمولی سی چھڑی کے سہارے آزادی کا مطالبہ کررہا ہے اور ان کے خداوں کا انکار بھی ! فرعون وقت کے لیے عام سی بات تھی کہ وہ ان کو اللہ کے راستے میں شہید کردیتا لیکن وقت کا جابر اس بات کو اچھی طرح جانتا تھا کہ اس شخص کے لہجے میں کوئی انہونی بات ہے اور کچھ بعید نہیں کہ ایسے اوللعزم شخص سے معاشرہ بھی متاثر ہوچکا ہو ،اس لیے اس نے اور اسکے درباریوں نے بہتر یہی سمجھا کہ پہلے اس شخص کو اسی کی بنیادوں پر جھوٹا قرار دیا جائے تاکہ معاشرے میں اس کا اثر نفوذ بھی ختم ہوجائے اور ہم اس کہ جھوٹا ہونے کا پروپیگنڈہ کرسکیں ۔انہوں نے پہلے اخلاقی ماردینے کی کوشش کی "تو وہی تو نہیں جس نے ہمارے محل میں پرورش پائی ہے"
موسی علیہ السلام نے چند لفظی جواب دیا "کہ کیا اس احسان کے بدلے جو تونے میری زات پر کیا ہے پوری قوم کو غلام بنا کر رکھنا چاہتاہے " یہ حربہ کارگر نہ ہوا تو پھر جادوگر بلائے گئے تاکہ اپنے شعبدوں سے وہ موسی کو جھٹلا دیں اور یہ ثابت کردیں کہ جیسا کچھ موسی کے پاس ہے ویسا تو ہمارے پاس بھی ہے پھر فرق کیسا!! لیکن حکمت الہی کا معجزہ رونما ہوا، اور جو ہرانے آئے تھے وہ مطیع و فرماں بردار ہوئے اور قتل کردینے کی دھمکیوں سے بھی نہ ڈرے ۔جب یہ بھی کارگر نہ ہوا تو پھر اس ذات کا ہی انکار کردیا جو کہ موسی کو یہ تحرکہ دیئے ہوئے تھی ! آج موسی علیہ السلام ایک تمثیل ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صرف اور صرف وحی الہی کی بنا پر اپنے وقت کے فرعون کے سامنے تن تنہا کھڑا ہوجائے اور کوئی بھی لالچ ،خوف ،یا سزا اس کو اس راستے سے نہ ہٹاسکے ۔ موسی علیہ السلام ہر تن تنہا کہ لیے روشنی کا مینارہ ہیں اور فرعون ہر وقت کے فرعون کی زندہ مثال جس کو اپنے لشکروں یا اسباب پر تکبر ہو!
حضرت موسی نے باوجود اپنی قوم کی بداعمالیوں و بد عقیدگیوں کے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا،بلکہ ان کے لیے دعوت و جہاد میں مشغول رہے ،عذاب الہی کاکوڑا جب بھی ان کی پشت پر برسنے لگا ان کے لیے دعا گو ہوگئے ،توحید کے احکامات کو ان کے اندر جاری و ساری کیا اور ہر طرح کہ منافق کا سامنا بھی ۔ 
آج امت مسلمہ کچھ ایسے ہی دور سے گزر رہی ہے ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن پاک پر غور کریں اور جاننے کی کوشش کریں کہ حضرت موسی کا واقعہ سب سے زیادہ بار کیوں بیان کیا گیا ہے اور باربار بنی اسرائیل کی داستان ہمیں کیوں سنائیں گئی ہے ۔شعور کی آنکھ کو کھول کردیکھیں تو امت مسلمہ کی سب سے زیادہ مشابہت بنی اسرائیل کے ساتھ ہی ہے ،ایک شاندار ماضی کے بعد ایک طویل دور غلامی ۔جس نے اس سے عقیدہ ،طرز معاشرت ،رسوم رواج ،حمیت ،غیرت ، حق کے راستے میں پامردی جیسی صفات سے محروم کردیا ہے۔ ذلت ،گمراہی بے حسی و بزدلی اس کے پاوں کی زنجیر بن گئے ہیں ۔آج ان میں اپنے سچے بہی خواہوں کو سنگسار کرنے والے بھی ہیں اور برا بھلا کہنے والے بھی ، ان کے دلوں میں جھانک کر اگر ہم دیکھ سکتے تو نہ جانے کتنے بچھڑے نظر آئیں ،انہی میں امن کے نام کی مالا جپنے والے اور غلامی کے لیے راہ ہموار کرنے والے بھی شامل ہیں ،اور دین کے نام پر شعبدہ بازی کرنے والے جادوگر بھی ، ان میں فرعون عصر کے مقربین بھی ہیں اوربے حمیت بھی، یہ فرقوں و گروہوں میں بٹی ہوئی امت مرحومہ طاغوت کی سازش کا شکار ہے اور دورغلامی کے عذاب کا۔اس میں فساق بھی ہیں اور فجار بھی ۔ بہت سوں کی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ بچھڑے کو پوجے جانے کی پاداش میں اپنوں کے ہاتھوں قتل ہوجائیں ۔
 لیکن یہ آج بھی اللہ کی منتخب قوم ہے ۔ اس کی صفوں میں ہی وہ موسی ہیں جو کہ تن تنہا ہونے کے باوجود وقت کے فرعون کو للکار رہے ہیں ،اور اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں ،انہی کے پاس وحی الہی کا وہ سرچشمہ ہے جس کی روشنی میں وہ الہی سلطنت بپا ہوسکتی ہے جو کہ اللہ کے جلال و حکم کی مظہر ہو۔ ان میں غلام قوموں کی سب صفات پیدا ہوگئی ہیں لیکن آج بھی ان کے دل نشانات الہیہ کو پہچانتے ہیں یہ بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ رب کے سچے بندے کون ہیں اور شعبدہ باز کون ،لیکن وقت کے فرعونوں نے ان کے عمل پر پہرا بٹھارکھا ہے ان کو حالات کے جبر کا شکار کردیا ہے جس سے ان کے دلوں میں وہن پیدا ہوچکا ہے !یہ کولہو کا بیل بننے کے باوجود اس غلامی پر آمادہ ہیں یہ سب باتیں درست ہیں لیکن وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب کوئی ضرب کلیمی فرعون کے فکری وارثوں کا پھیلایا ہوا یہ طلسم توڑ دے اور یہ امت پھر سے اپنے راستے کی طرف گامزن ہو۔ بحرقلزم کا سینہ آج بھی چاک ہونے کو تیار ہے ،ضرب کلیمی جہاد کی صورت میں فرعون کے تکبر کا سر آج بھی توڑ رہی ہے ،امت کو احساس زیاں ہو یا نہ ہو کچھ شوریدہ سر آج بھی آواز لگا رہے ہیں "اس بستی میں داخل ہوجاو تم ہی فتح یاب رہو گئے اگر ایمان والے ہو"
 یہی ہماری امت ہے ،یہی امت محمدیہ ہے ،یہی امت وسط ہے اسی کے لیے آزادی ہے اسی کے لیے ہمدردی ہے ،اسی کے لیے ضرب کلیمی سے کفر کا سینہ پھر چاک ہونے والا ہے ،یہی وہ سلطنت بپا کرنے والے ہیں جو کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے جلال و حکم کی مظہر ہو ۔ یہی خلافت ارضی کے وارث ہیں ،انہی میں وہ گروہ ہے جو کہ حق کے درست درست راستے پر گامزن ہو اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈرے۔جو ان کی باتوں سے گھبرا کر توحید کی سچی دعوت کو معطل نہ کردے اور نہ ہی ان کے فکری مزاج کو نظرانداز کرے جو کہ دور غلامی نے ان میں پیداکردیا ہے 
اس امت کو آج پھر طاغوت کے شکنجے سے رہائی کا مرحلہ درپیش ہے تاکہ یہ اپنے رب کی عبادت اس طرح کرسکے جیسے کہ اس کا حق ہے ۔یہ جیسے بھی ہیں کسی فرعون کو یہ حق نہیں ہے کہ ان پر ظلم و زیادتی کا بازار گرم کرسکے اور انہیں اپنا غلام بنائے ۔وقت کہ فرعون اگر اپنے تکبر میں مست ہیں تو موسی علیہ السلام کے جانشین بھی اپنی دھن کے پکے ! لازم ہے کہ پیعمبروں کے وارث علماء موسی علیہ السلام کی سنت کی پیروی میں مردانہ وار اٹھیں اور فرعون وقت کو ایمان لانے کی اور امت کو آزاد کردینے کی دعوت دیں ۔ یہ موسوی ہاتھ جہاد کا عصا بھی تھامے ہوں تاکہ نافرمانی کی صورت میں فرعون کو عذاب سے بھی دوچار کریں ۔اور مقابلے کی صورت میں کفر کے سمندر کا سینہ چاک بھی۔ یہ یقینی بات ہے کہ عنقریب "یہ امت بھی خروج کرے" اپنے رب کے لیے ،اپنے رب کی عبادت کے لیے ۔ تاکہ اس رب العلمین کہ جاہ و جلال والی سلطنت کا ظہور دوبارہ روپذیر ہو 
اور امت بلا خوف و خطر اس میں اپنے رب کی شریعت کے احکامات بجالائے۔

اہم نوٹ۔۔۔
(مضمون میں شامل بائبل کے تمام حوالہ جات تاریخی مآخذ کے طور پر لیے گئے ہیں نہ کہ کسی 
شرعی حکم کے استخراج کے لیے،اور نہ ہی قرآن پاک کی تفسیر کے لیے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں