اتوار، 18 اگست، 2013

نماز عید و گدھے !


آج کچھ گدھوں کو نماز کسی "مولوی" کہ پیچھے پڑھنی پڑ گئی !! حالانکہ یہ جنازہ بھی اس سے پڑھوانے کہ قائل نہیں ۔ اگر ان کو مرنے کہ بعد دو منٹ بولنے کہ لیے عطا کیے جاتے تو شائد یہ اپنی آل اولاد کی طرف حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتے کہ ان میں سے کوئی جنازہ پڑھوا سکتا!
یہ گدھے دوطرح کہ ہیں ۔ ایک بدیسی اور ایک دیسی ۔ بدیسی تو جیسا نام سے ظاہر ہے کہ بدیس میں پائے جاتے ہیں جو یہ نماز وغیرہ کی زحمت نہیں پالتے مگر یہاں جن گدھوں کی بات ہورہی ہے وہ دیسی ہیں ! یہ اکثر اوقات سوشل ، الیکڑونک و پرنٹ میڈیا پر پائے جاتے ہیں یا نجی محفلوں میں اپنے علم کا مظاہرہ کرتے ہیں ،ان کی ایک کیثر تعداد پر "میڈ ان ترکی" کا لیبل بھی لگا ہوتا ہے لیکن ہوتے دیسی ہی ہیں !
یہ پیدا ہوتے ہی گدھے تھے اس کہ بارے میں علم نہیں ہوسکا لیکن شعور کی منزلیں سنبھالتے ہی انہوں نے اپنے لیے "لبرل و سیکولرز" کا لاحقہ استعمال کیا ۔ عید کا چاند نظر آنے سے پہلے تک ان کی بھرپور کوشش رہی کہ چاند "سائنسدان" ہی دیکھیں ، اگر سائنسدانوں کو عید کی نماز پڑھانی آتی تو یہ نماز بھی انہی کہ پیچھے پڑھتے ! مگر ان کی شومئی قسمت کہ سائنسدانوں کو ابھی تک عید کی نماز نہ پڑھانی آئی اور چاند بھی مولویوں نے ہی دیکھا !!
رمضان کہ دنوں میں انہوں نے 'سحر و افطار" کہ مواقع پر بھرپور شرکت کی بہت سوں نے کسی بھی رمضان بازار یا بازار میں جائے بغیر مہنگائی و مسلمانوں کی بے حسی کہ خلاف بہت سے کالم لکھے یا تقریریں کیں ! یہ سال میں ایک بار کجھوریں خریدتے ہیں شائد وہ انہیں مہنگی لگیں ! زیادہ تر سحر کہ وقت "مشروب خاص ۔مشروب مغرب" سے شغل کرتے رہے اور کچھ نے روزہ کھلنے تک انتظار کیا ! مشروب خاص کی مستی میں رات کہ پچھلے پہر میں ان کہ قلم سے کچھ نادرونایاب تحریریں بھی برآمد ہوئیں جو کہ کافی لوگوں کی مستی کا سبب بنیں! پورے رمضان میں ان کو ایک ہی دینی نشریات اچھی لگیں اور وہ تھی "امان رمضان"!
بقیہ وقت یہ مولویوں کہ بارے میں لطیفے بنانے میں مصروف رہے ! یا دھشت گردی کا راگ الاپتے رہے ! یاد رہے کہ ان کہ نزدیک "دھشت گردی" کے مصداق صرف طالبان ہیں !
چاند رات ان کی "آذادی" کی رات تھی! جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پورے ملک میں "مشروب خاص۔مشروب مغرب" کی قلت پیدا ہوگئی !
ان میں سے زیادہ تر عید کی نماز اپنی نصیبوں جلی بیگم کی خشمگیں آنکھوں سے بچنے کہ لیے پڑھنے نکلے ! جس نے صبح کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی شور مچا دیا اٹھ جائئے "عید کی نماز تو پڑھ لیں"۔ بقیہ کو یہ مرحلہ درپیش ہوا کہ عید پر بچوں کہ لیے 'شلوار قمیض" سلوائی ہے اس کو پہننے کا موقع و محل بھی تو ہونا چاہیے !
یہ عید گاہ میں سب سے آخر میں پہنچنے والے تھے ، ان کی حالت دیدنی تھی ، کبھی اپنے بچوں کو نئے کپڑے پہنے دیکھ کر مسکراتے اور کبھی ان کا مولوی کی تقریر میں انہماک دیکھ کر سہم جاتے ! کیونکہ ان کا ہر کام گدھوں والا ہوتا ہے اس لیے انہوں نے بلاامتیاز ہر مسجد میں نماز عید پڑھی ! باربار گھڑی کو دیکھتے رہے اور یاد کرتے رہے کہ پوسٹر پر نماز عید کا وقت کہاں سے لے کر کہاں تک تھا! کچھ ناسمجھ و پینڈو ٹائپ مسلمانوں کی نادانیاں دیکھ کر یہ کف افسوس بھی ملتے رہے "کہ دیکھو یہ ہیں مسلمان"! لیکن اپنی جوتیاں انہوں نے گم ہوجانے کہ ڈر سے اپنی بغلوں میں داب رکھی تھیں ! 
مولوی صاحب نے خطبے کہ دوران جب فطرانے کا ذکر کیا تو ان کو ایکدم یاد آیا کہ اوہ یہ تو ابھی دینا تھا !! مگر پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ گھر کی نوکرانی یا نوکر کو ابھی ابھی جو عیدی وہ دے کر آئے ہیں وہ "فطرانہ ہی تو تھا" !! کمال کرتے ہیں یہ مولوی بھی !! اللہ کہ راستے میں دینا ہے چاہے "فطرانہ" دو یا "عیدی"!!
تقریر میں اگر کسی ملا نے شام ،عراق ، فلسطین ،افغانستان کا زکر کردیا تو یہ اس کو مضحکہ خیز نگاہوں سے دیکھتے رہے ! پاکستان میں لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ملا غیر ملکوں کی بات کررہا ہے ! گدھوں کی سوچ روٹی و ڈنڈے سے آگے نہیں بڑھتی !
نماز میں ان کو یہی وسوسہ لاحق رہا کہ ساتھ والا یہ نہ جان جائے کہ ان کو عید کی نماز نہیں پڑھنی آتی !! ہر تکبیر پر یہی سوچتے رہے کہ ہاتھ اٹھانے ہیں یا نہیں اٹھانے !! اس لیے کنکھیوں سے ساتھ والے نمازی پر نگاہ ٹکائے رکھی ! جو کہ اپنے سے ساتھ والے کو دیکھ رہا تھا !!
نماز کہ ختم ہوتے ہی ان کی ہڑبڑاہٹ دیدنی تھی ! سب سے پہلے غریبوں کہ ان غمخواروں نے یہ کوشش کی کہ غریبوں کی آنکھ بچا کر نکل جائیں !! گلے ملنے کی زحمت بادل نخواستہ برداشت کی اور گاڑی میں بیٹھ کر فورا ٹیپ ریکارڈر آن کردیا" عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملیے"!!
گھر تک پہنچتے پہنچتے یہ انسان سے پھر "گدھے" بن چکے تھے !!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں