بدھ، 21 اگست، 2013

خروج ! پہلی قسط


یہ ایک قوم کی کہانی ہے ۔ نام سے میں اور آپ سب واقف ہیں بنی اسرائیل۔ فلسطین و عراق میں بسی اس قوم کو حضرت یوسف علیہ السلام کہ دور میں جب عمالیق کے زیرحکمرانی ملک مصر میں پناہ ملی تو انہوں نے خوب ترقی کی ۔  عمالیق فراعنہ مصر نہ تھے جیسا کہ عام گمان ہے بلکہ یہ عرب چرواہوں کی ایک قوم تھی جس نے ملک مصر پر قبضہ کرلیا تھا ۔ جدید تحقیات میں ان کا نام ھائی کوسس کہ نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسی لیے قرآن پاک نے انہیں "فرعون" کہ بجائے "ملک" کہہ کر پکارا ہے 
ملک مصر میں یہ لوگ بہت بڑھے پھولے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی وجہ سے ان کو بہت عروج حاصل ہوا ، ملک مصر کا عملی نظام انہی لوگوں کہ ہاتھ میں تھا۔ اور ہر طرح کا فیصلہ یہی کرتے تھے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر سارے موخین متفق ہیں۔قرآن کریم میں اس کی طرف یوں اشارہ ہے 
وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ١ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَآءُ١ؕ نُصِيْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ۰۰۵۶وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا يَتَّقُوْنَؒ۰۵۷
اِس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یُوسُف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مُختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا،اور آخرت کا اجر اُن لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔(سورہ یوسف)
اور تاریخی گواہی اس پر بائبل کی ہے 

"اور اسرائیل کی اولاد برومند ،کیثر التعداد،فرواں اور نہایت زورآور ہوگئی "(بائبل ۔خروج -7)

یہ اپنے دور اقتدار میں اللہ تعالی کے احکامات پر کاربند تھے اور ایک شاندار و تابناک ماضی کے حامل۔ ان کے اندر حضرت ابرہیم کی پامردی ، حضرت اسحاق کی تابعداری ،حضرت یعقوب کے صبر اور حضرت یوسف کی پاکبازی کی داستانیں زبان زد خاص وعام تھیں اور یہ ان پر نازاں!
لیکن جلد ہی ملک مصر میں ایک قوم پرستانہ تحریک چلی اور ان بادشاہوں کو وہاں سے بے دخل کردیا گیا ۔ اور مصر کا پرانا قبطی النسل شاہی خاندان اپنا مذھبی  لقب "فرعون" کو اختیار کرتا ہوا دوبارہ تخت نشین ہوا۔ تخت نشین ہوتے ہی اس نے پرانے اقتدار کی ہر نشانی مٹانے کی کوشش شروع کردی جو کہ اس کا ہم مذہب بھی نہ تھا بلکہ اپنے دیوی دیوتا اپنے ساتھ لے کر آیا تھا ۔ عجب نہ تھا کہ بنی اسرائیل بھی اس ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنتے جو کہ اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہ چکے تھے ۔ شائد بطور وحی حضرت یوسف کو ان حالات کی پہلے ہی خبر دی گئی تھی اس لیے بائبل کہ مطابق انہوں نے اپنی وفات کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی تھی کہ جب تم ملک مصر سے نکلو تو میری ہڈیاں ساتھ لے جانا ۔ 
یہ دور استبداد ان پر کتنی دیر جاری رہا اس کا درست اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ لیکن مختلف تاریخی حوالوں سے ہم جو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی مدت ڈیڑھ سو سال سے لے کر چار سو سال تک رہی ۔ جس میں اس قوم پر اچھے دور بھی آئے اور برے بھی ۔ وقت کہ تھپیڑوں ،غیرملکی اقتدار اور حد سے زیادہ جبر و ستم نے ان کہ اندر سے حریت کی روح ہی کھینچ لی ، یہ قوم انتہائی سخت جان تھی اور اس وقت کہ اعداد و شمار کہ مطابق انتہائی کیثر تعداد میں ۔ بائبل حضرت موسی والے فرعون کی ان سے دشمنی کی وجہ ہی ان کی کثرت قرار دیتی ہے۔
تب مصر میں ایک بادشاہ ہوا جو کہ یوسف کو نہیں جانتا تھا اور اس نے اپنی قوم کہ لوگوں سے کہا کہ دیکھو بنی اسرائیل ہم سے زیادہ قوی ہوگئے ہیں ۔(بائبل ،خروج) 1
پھر ان کی حریت کچلنے کہ لیے یہ کیا کہ 

اس لیے انہوں نے ان پر بیگار لینے والے مقرر کردیئے جو ان سے سخت کام لے کر انہیں ستائیں ۔بائبل ۔خروج 11
لیکن یہ تدبیر ان کی آبادی گھٹانے کے لیے کارگر ثابت نہ ہوئی  
پر انہوں نے جتنا ان کو ستایا وہ اتنا ہی بڑھتے اور پھلیتے چلے گئے ،اس لیے وہ لوگ بنی اسرائیل کی طرف سے فکرمند ہوگئے اور مصریوں نے بنی اسرائیل پر تشدد کرکر کے ان سے کام کرایا۔( بائبل ۔خروج)

مجبورا فرعون نے خفیہ طریق پر ان کی نسل کشی کرنا چاہی 
تب مصر کہ بادشاہ نے عبرانی دایئوں سے جن میں سے ایک کا نام سفرہ اور دوسری کا فوعہ تھا باتیں کیں ۔اور کہا کہ جب تم عبرانی عورتوں کے بچہ جناو اور انکو پتھر کی بیٹھکوں پربیٹھی دیکھو تو اگر وہ بیٹا ہو تواسے مارڈالنا اور اگر بیٹی ہو تو وہ جیتی رہے ۔لیکن وہ دایئاں خدا سے ڈرتی تھیں (بائبل۔خروج 17)

قرآن پاک نے بائبل والے اس لمبے بیان کو ایک ہی آیت میں بیان کرکہ رکھ دیا
وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاَءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ۔(سورہ مائدہ)
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی۔ اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی 
یہاں سخت عذاب کا معنی ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ طریقے ایجاد کرنا جو کہ حریت ، فکر ، آزادی ، بلند کرداری ، کہ ہر اس مظہر پر ضرب لگانا ہے جو کہ حکمران جماعت کے لیے کسی بھی قسم کے خطرے کا باعث ہو۔ ان کی قومی فکر ، عقیدہ توحید ، رہن سہن کے طریق کار غرضیکہ ہر طرح کی اس اساس پر کاری ضرب لگائی گئی جو کہ حکمرانوں کے لیے کسی بھی طرح خطرہ ہو۔ ان سےبیگار لیا گیا جس سے ان کے اندر آزادی کی فکر ہی پیدا ہونی بند ہو گئی اور یہ اپنے آپ کو قبطی قوم کے غلام سمجھنے لگے ۔ ان کو ایسے شہروں کی تعمیر پر لگایا گیا جو کہ فراعنہ مصر کے رعب و جلال کے امین ہوں لیکن اپنے معماروں کے لیے جبر و دہشت کا ایک نشان ۔ اپنے رزق کہ حصول کے لیے یہ اس بیگار کے کرنے پر مجبور تھے جس نے ان سے وہ حس بھی چھین لی جو کے ان مظالم کہ خلاف آواز بلند کرتی۔ دو وقت کی روٹی اور جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے یہ اس کڑی محنت کو برداشت کرنے پر مجبور تھے ۔ ان کا طرز معاشرت و عقیدہ بھی اسی دور میں بدل گیا ۔حکمران جماعت کا ہر فیشن چاہے وہ عبادت کا طریق کار ہو یا رہن سہن کا ان کہ اندر در آیا، جادو گری ، کاہن سازی اور بچھڑے کی محبت اسی دور کی نشانیاں ہیں جو کہ انہوں نے اپنے حکمرانوں کی اطاعت میں قبول کیں تھیں اور یہ امراض غلامی کی وجہ سے ان میں پیدا ہوگئے تھے ۔ ان میں سب سے پہلا مرض جو کہ حکمرانوں کی اطاعت میں پیدا ہوا وہ عقیدے کا مرض تھا دور غلامی نے نہ صرف ان سے ان کا عقیدہ چھین لیا بلکہ حکمرانوں کہ عقائد کو ان کے اندر رائج کردیا۔ یہ ایک اللہ کہ تصور کو بالکل نہ بھولے تھا لیکن اس کی عبادت کہ تمام مظاہر حکمران طبقے کی نقالی میں ہی اختیار کرتے تھے ۔ قرآن پاک میں ان کی اس حالت کی نشاندہی یوں کی ہے  
اچھا، ان سے کہو: اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کے اُن پیغمبروں کو (جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے ) کیوں قتل کرتے رہے ؟ تمہارے پاس موسٰی ؑ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا۔ پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے ۔ پھر ذرا اس میثاق کو یاد کرو، جو طُور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو۔ تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا، مگر مانیں گے نہیں ۔ اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔ کہو: اگر تم مومن ہو تو یہ عجیب ایمان ہے، جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے ۔ (البقرۃ۔
دوسری جگہ اللہ تعالی ان کی حالت کی نشاندہی یوں کرتے ہیں 
وَ جٰوَزْنَا بِبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰى قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰۤى اَصْنَامٍ لَّهُمْ١ۚ قَالُوْا يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ١ؕ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ
بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر اُن کا گزر ہوا جو اپنے چند بُتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے، ”اے موسیٰ،ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے اِن لوگوں کے معبود ہیں۔ موسیٰ نے کہا”تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتےہو(سورہ اعراف)  

یہاں سے اس قوم کے عقیدہ توحید پر تربیت کا بالکل درست درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو کہ ابھی ابھی اپنے رب کا عظیم الشان معجزہ دیکھ کر آئی ہے اور حضرت موسی علیہ السلام جس کو توحید کی کھلی کھلی دعوت بھی دے چکے ہیں لیکن اس کہ باوجود غلامی کا ذھنوں پر ابھی تک اتنا اثر ہے کہ وہ بالکل نہیں جانتے کہ عبادت کا مفہوم کیا ہے! اسی غلامی کا اثر تھا کہ جب بھی کوئی بہکانے والا شعبدہ باز ان کہ پاس آیا تو اللہ کی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود انہوں نے اس کی پیروی کرنے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہ لگائی ۔ حضرت موسی علیہ السلام جب کوہ طور پر احکامات الہی وصول کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو سامری جیسے شعبدہ گر نے انہیں بچھڑے کہ پوجنے پر لگا دیا۔ یہ اس بات کی دلیل تھا کہ عقیدہ توحید ابھی ان کہ اذھان میں اپنی تفصیلات کہ ساتھ محفوظ نہ ہوا تھا ۔ یہ ان کے لیے بمثل اپنے حکمرانوں چند مراسم عبودیت کو بجا لانے کا نام تھا جس کے لیے کسی شریعت کی پیروی ضروری نہیں بلکہ جو بھی رائج الوقت طریق کار ہو اس پر عملدرآمد کرتے تھے ۔ حکمران اگر بچھڑا کی پوجا کرتے تھے تو یہ طریق ان کی فطرت میں بھی رچ بس چکا تھا وہ اسی طریق کو اللہ کے لیے اختیار کرنا چاہتے تھے جو کہ کفار کا ہے ،ان کی رسومات عبودیت ،ان کی فکر ، ان کی فہم ان کے اندر لاشعوری طور پر درآئی تھی ۔ جس کے باطل ہونے کا انہیں اندازہ نہ تھا۔ باطل قوموں کے ساتھ ایک انتہائی دیر تک رہنے والے تعامل نے ان سے اپنے عقیدے
کی سچی سمجھ بھی چھین لی تھی ۔

1 تبصرہ: