جمعرات، 22 اگست، 2013

خروج! دوسری قسط


دوسرا مرض جو کہ دور غلامی کی وجہ سے ان کے اندر در آیا تھا وہ حریت و پامردی کا فقدان تھا۔ یہ آزادی و صبر کی ہر کوشش یا نصیحت کو مزید مصیبت لانے کا سبب جانتے تھے۔ حریت و آزادی خواہش کی کمی کا یہ عالم تھا کہ جب موسی علیہ السلام نے فرعون کہ ظلم و ستم کہ مقابلے میں ان کو ثابت قدم رہنے کی نصیحت کی تو ان کا جواب تھا 
قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْا١ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ١ۙ۫ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ۰۰۱۲۸قَالُوْۤا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا١ؕ قَالَ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ يَسْتَخْلِفَكُمْ۠ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَؒ۰۰۱۲۹
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ” اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو وہ چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انہی کے لیے ہے جو اُس سے ڈرتے ہوئے کام کریں۔“اس کی قوم کے لوگوں نے کہا”تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتےتھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں۔“ اس نے جواب دیا” قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا ربّ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟“  (سورہ اعراف)



غور کیجیے ایک شخص جو کہ اللہ کی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا ہے اور ابھی کچھ دن پہلے ہی فرعوں مصر کے جادوگروں کو عظیم الشان معرکے میں ہرا چکا ہے ۔ اس کو بھی قوم کہہ رہی ہے کہ تیرے آنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا پہلے بھی ستائے جارہے تھے اب بھی ستائے جارہے ہیں !!
یعنی اس دعوت کا ، اس خلافت ارضی کے ملنے کا اور رب کے منتخب کردہ گروہ ہونے کا انہیں بالکل کچھ احساس نہ تھا بلکہ مطلوب یہ تھا کہ جلد از جلد کوئی معجز نما چیز رونما ہو جو کے ان کی دنیاوی مشکلات کو دنیاوی راحت سے بدل دے ! یہ ایک قوم کی زھنی پستی کی اعلی ترین مثال ہے جو کہ دور غلامی کہ جبر سے اس میں پیدا ہوگئی ہو ! وہ دنیاوی کامیابی کو بھی اسی پیمانے پر تولتا ہو جو کہ اس کہ حکمرانوں کا پیمانہ ہو ، دنیاوی عیش و آرام و جاہ و جلال۔
بائبل اس کی تفصیل کو یوں بیان کرتی ہے کہ جب حضرت موسی نے فرعون سے بنی اسرائیل کو چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا اور معجزے دکھلائے تو اس نے بنی اسرائیل پر بیگار کو دوگنا کردیا تاکہ وہ موسی کی باتوں پر کان نہ دھریں ۔ اور اپنے کام میں ہی مصروف رہیں اس لیے تعمیرات کے لیے اینٹیں بنانے کا کام جب کا میٹریل پہلے وہ خود فراہم کرتا تھا اس میٹریل کی تلاش کا کام بھی انہی کو سونپ دیا گیا ۔ ہرچند کے بنی اسرائیل نے بہت التجا کی لیکن فرعون نے ایک نہ سنی ۔ ایسا کرنے کے پیچھے فرعون کی ذھنیت کیا تھی یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہے 
اور فرعون نے یہ بھی کہا کہ دیکھو یہ لوگ ملک میں بہت زیادہ ہوگئے ہیں اور تم انکو انکے کام سے بٹھاتے ہو ! اور اسی دن فرعون نے بیگار لینے والوں اور سرداروں کو جو کہ لوگوں (بنی اسرائیل) پر تھے حکم کیا کہ اب آگے تم ان لوگوں کو اینٹیں بنانے کے لیے بھس نہ دینا جیسے کہ اب تک دیتے رہے ہو وہ خود ہی جاکر اپنے لیے بھس بٹوریں اور اینٹیں ان سے اتنی ہی بنوانا جتنی کہ وہ اب تک دیتے رہے ہیں (یعنی پروڈکشن میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے)۔ تم اس میں سے کچھ نہ گھٹانا کیونکہ وہ کاہل ہوگئے ہیں اور اسی لیے چلا چلا کر کہتے ہیں کہ ہم کو جانے دیا جائے تاکہ ہم اپنے خدا کہ حضور قربانی کریں "سو ان سے زیادہ سخت محنت لی جائے تاکہ اپنے کام میں مشغول رہیں اور جھوٹی باتوں سے دل نہ لگائیں " (بائبل ،خروج ۔5-10)
غور کیجیے تو صاف علم ہوجائے گا کہ یہ وہی پرانا فرعونی ہتھکنڈہ ہے جو کہ آج بھی بڑی ہوشیاری سے استعمال کیا جارہا ہے فرق صرف اتنا ہے فرعون نے جبر و تشدد سے کام لیا ،اب اجسام کو تعشیات کا عادی بنایا گیا ہے اورپھر ان غلام روحوں کو ان جسمانی ضرورتوں کے پورا کرنے کے اس مایہ جال میں پھنسایا گیا ہے جس میں ان کو وقت بالکل ہی دستیاب نہ ہو ۔ جسم و جان کی ضرورت ہر ضرورت پر مقدم کردی گئی ہے ۔ انسانیت کو معشیت و خاندان کہ نام پر کولہو کا بیل بنایا گیا ہے ۔ اور اس سارے عمل کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ "یہ کہیں فضول باتوں پر کان نہ دھرے اور ایک اللہ کی عبادت کا مطالبہ نہ شروع کردے " کچھ عجب نہیں کہ موجودہ انسانی استیصال کے معمار یہود نے یہ چال اپنے پرانے آقاوں فراعنہ مصر سے ہی سیکھی ہو جس کی گواہی ان کی اپنی کتابوں میں موجود ہے ! اسی چال کو سیکھنے کا شناخسانہ ہے کہ جب بھی قوم کی توجہ ایک اللہ کی طرف مبذول پائی گئی اس کو جلد از جلد کسی معاشی بدحالی کا شکار کردیا گیا۔ آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے تعاون سے ہر اس قوم پر جس کے اندر زرا سا بھی یہ شائبہ ہو کہ یہ اللہ کی بات کہیں سننے نہ لگ جائیں اور ایک اللہ کی عبادت کا مطالبہ نہ شروع کردیں ،ان پر بیگار کو فورا دوگنا کیا گیا ۔ اس سے بھی اگر موجودہ نتائج حاصل نہ ہوسکے تو پھر پانی ،بجلی ،گیس کا بحران پیدا کردیا کہ جاو پروڈکشن بھی اتنی ہی دینی ہے اور اب ان چیزوں کو بنانے کے لیے جو میٹریل چاہیے وہ بھی تم نے خود ہی دستیاب کرنا ہے ۔ہاں قرضہ دوگنا ہوگیا ہے ! فرعون کی اور اس کی فکری اولاد یہود کی ذھنیت آج تک نہیں بدلی! 
یہ قوم بجائے کہ ان حالات پر صبر کرتی اور موسی علیہ السلام کی نصیحت پر کان دھرتی جس کا تذکرہ اللہ نے قرآن میں کیا ہے ۔ یہ موسی کو ہی تمام مصائب کا زمہ دار قرار دینے لگی !
بائبل قرآن کہ ان الفاظ کو مفہوما یوں بیان کرتی ہے 
اور جب وہ فرعون کے پاس سے نکلے آرہے تھے تو انکو موسی و ہارون ملاقات کے لیے راستے میں کھڑے ملے ۔تب انہوں نے ان سے کہا کہ خداوند ہی دیکھے اور تمہارا انصاف کرے کیونکہ تم نے ہمکو فرعون اور اسکے خادموں کی نگاہ میں ایسا گھناونا کیا ہے کہ ہمارے قتل کے لیے انکے ہاتھ میں تلوار دے دی ہے (بائبل ۔خروج 20-22)
بائبل ان کی بے حمیتی کے ایک اور واقعے کو بھی تفصیل سے بیان کرتی ہے جس تذکرہ اہل عبرت کے لیے کافی ہوگا۔ جب فرعون کے لشکر نے ان کا پیچھا کیا تو باوجود تعداد میں کیثر ہونے کے یہ اسقدر خوفزدہ ہوئے کہ کہنے لگے 
تب بنی اسرائیل نے نظر اٹھا کر دیکھا کہ مصری ان کا پیچھا کیے چلے آرہے ہیں اور وہ نہایت خوفزدہ ہوگئے تب بنی اسرائیل نے خداوند سے فریاد کی اور موسی سے کہنے لگے کہ کیا مصر میں قبریں نہ تھیں جو تو ہمکو وہاں سے مرنے کے لیے بیاباں میں لے آیا ہے۔تونے ہم سے یہ کیا کیا کہ ہمیں مصر سے نکال لایا۔کیا ہم تجھ کو مصر میں کہتے نہ تھے کہ ہمیں مصر میں رہنے دے تاکہ ہم مصریوں کی خدمت کریں ۔کیونکہ ہمارے لیے مصریوں کی خدمت کرنا بیاباں میں مرنے سے بہتر ہے ۔(بائبل ۔خروج 11-12)
یہ بدنصیب و غلام قوم جس کے اندر طویل غلامی نے بے حمیتی پیدا کردی تھی، اللہ کے روشن معجزات دیکھنے کے باوجود مصیبت پڑنے پر اس بات پر آمادہ تھی کہ بدترین غلامی قبول کرلے لیکن کوئی جدوجہد نہ کرے !بلکہ الٹا اپنے نجات کنندگان کو ہی تمام مصائب و آلام کا زمہ دار قرار دے دے ۔ جو کہ ان کو رحمت الہی کی امید و صبر کی تلقین کرتے رہے ہوں۔ 
یہ نفسیات صرف بنی اسرائیل تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر غلام قوم میں یہ جراثیم پایا جانا لازمی ہے کہ وہ آزادی کے اوپر اپنی موجودہ غلامی کی حالت کو ترجیح دے ۔اور جسم و جان کے رشتے کے مربوط رہنے کو ہی آزادی سمجھے!یہ تن آسانی نہیں ہے کیونکہ مشقت بھراکام تو حکمران ان سے خوب لیتے ہیں اور نہ ہی تعشیات کا عادی ہونا بلکہ اس جذبے کا ہی سرے سے ختم ہوجانا ہے جو کہ اپنی حالت کو بدلنے کی خواہش رکھتا ہو،مجوزہ حکومتی نظام کے تحت جو کے چاہے اللہ سے مکمل بغاوت پر ہی استوار ہو اس کے زیر اثر زندگی گزارنا اس کو آزادی کی راہ میں تکلیف اٹھانے سے زیادہ محبوب ہوجائے ! اس نفسیات کی تشکیل میں بنیادی کردار اسی جذبہ حریت کا کچلنا ہے جو کہ حکمرانوں کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے فرعون سے یہ داو اس کے فکری جانشنیوں یہود نے سیکھا اس نے جبر و تشدد کے زریعے اور خوف کے زریعے ان کہ اس جذبے کو کچلا۔ اور فرعون کہ فکری غلاموں نے اس کو کچلنے کے لیے بھی اسی جبر وتشدد سے کام لیا ۔جذبہ حریت و حمیت کو دہشت گردی کا لقب دیا ۔اور غلام قوموں کہ اندر یہ خیال راسخ کردیا کہ تمہیں بچانے کی بات کرنے والے تمہیں مروادیں گئیں !اور تمہیں پتھر کے زمانے میں واپس دھکیل دیں گئیں 
ان دور غلامی کا تیسرا وار ان کے جذبہ شہادت و جہاد پر تھا ۔وہ جذبہ جو کہ بلاامتیاز رنگ و نسل و مذہب کسی قوم کو کسی کی غلامی سے آزاد کروانے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے اور انسان ایک بلند تر مقصد کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی دینے پر تل جاتا ہے اس دور غلامی نے وہ ان میں سے ختم کردیا، نامردی و بزدلی پاوں کی زنجیر تھی ، دنیا کی تعشیات کو للچائی نظروں سے دیکھتے تو تھے لیکن اللہ نے ان کو حاصل کرنے کے لیے جو جدوجہد و جہاد فرض کیا تھا اس سے بالکل گریزاں تھے ۔ بلکہ چاہتے تھے کہ کسی طریق سے یہ تمام نعمتیں ان کو بغیر کسی کوشش کے مل جائیں ۔ قرآن ان کی بزدلی کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے 
﴿5:20﴾ يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ ﴿5:21﴾ قَالُوا يَا مُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ ﴿5:22﴾ 
﴿5:22﴾ قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ﴿5:23﴾ قَالُوا يَا مُوسَى إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ ﴿
اے برادران قوم ! اس مقدّس سرزمین میں داخل ہوجاوٴ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے، پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے“۔ انہوں نے جواب دیا ”اے موسیٰ ؑ ! وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں، ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ ہاں اگر وہ نکل گئے تو ہم داخل ہونے کے لیے تیار ہیں(سورہ اعراف) “
۔ اُن ڈرنے والوں میں دو شخص ایسے بھی تھے،جن کو اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ”اِن جبّاروں کے مقابلہ میں دروازے کے اندر گُھس جاوٴ، جب تم اندر پہنچ جاوٴ گے تو تم ہی غالب رہوگے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو“۔ لیکن اُنہوں نے پھر یہی کہا کہ ”اے موسیٰ ؑ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں۔ بس تم اور تمہارا رب، دونوں جاوٴ اور لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں(سورہ اعراف)“
بائبل ان کی بے حمیتی و جہاد سے دامن کشی کا نقشہ یوں کھنیچتی ہے 
"لیکن جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زورآور ہیں۔۔۔۔۔۔ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ ان لوگوں پر حملہ کریں۔۔۔۔۔۔ وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ بڑے قدآور ہیں اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دیکھا جو جبّار ہیں اور جبّاروں کی نسل سے ہیں، اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹِڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے"۔ یہ بیان سُن کر سارا مجمع چیخ اٹھا کہ " اے کاش ہم مصر میں ہی مر جاتے! یا کاش اس بیابان ہی میں مرتے، خداوند! کیوں ہم کو اس مُلک میں لے جاکر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے؟ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچّے لوٹ کا مال ٹھریں گے۔ کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہوگا کہ ہم مصرکو واپس چلے جائیں"۔ پھر وہ آپس میں کہنے لگے کہ آؤ ہم کسی کو اپنا سردار بنالیں اور مصر کو لوٹ چلیں۔ اِس پر اُن بارہ سرداروں ميں سے، جو فلسطین کے دورے پر بھیجے گئے تھے، دوسردار، یُوشع اور کالِب اُٹھے اور انہوں نے اِس بُزدلی پر قوم کو ملامت کی۔ کالب نے کہا ”چلو ہم ایک دم جا کر اس ملک پر قبضہ کر لیں، کیونکہ ہم اس قابل ہیں کہ اس پر تصّرف کریں“۔ پھر دونوں نے یک زبان ہو کر کہا ” اگرخدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم کو اس ملک میں پہنچائے گا ۔۔۔۔۔۔ فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اِس ملک کے لوگوں سےڈرو ۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے ساتھ خداوند ہے سو ان کا خوف نہ کرو“۔ مگر قوم نے اس کا جواب یہ دیا کہ ” اِنہیں سنگسار کردو(بائبل ،خروج)“
دور غلامی نے ان کے اندر وہن پیدا کردیا تھا جو کہ ہر غلام قوم کی سرشت کا ایک بنیادی جز ہوتا ہے، جبر و تشدد کے ساتھ اس کو جس چیز کا عادی بنایا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ اس میں احتجاج کا بھی خیال کبھی پیدا نہ ہو اور اگر کہیں ایسا مظہر وقوع پذیر ہوجائے تو اس کو ایسی بے دردی سے کچل دو کہ دوبارہ کوئی اس کی جرآت کیا اس کی طرف خیال بھی نہ کرے ۔ ان کو امن پسندی کی وہ بنیادی تعلیم دو کہ یہ ایکدوسرے کو تو قتل کرتے پھریں یا جس کو حکمران طبقہ چاہے ۔لیکن بذات خود طاغوت کی طرف ہاتھ اٹھانے کے تصور سے ہی ان کی روحیں کانپ جائیں ،اور ان کی دلیل یہی ہو کہ 
"اس بستی کے لوگ بہت زورآور ہیں"
یہ جذبہ امن پسندی نہیں ہے بلکہ انسان کو اس بنیادی صفت سے محروم کرتا ہے جو کہ جان و مال کے نقصان سے بے نیاز ہوکر ظالموں و جابروں کے خلاف خم ٹھونک کر میدان عمل میں آجائے اور صرف ایک اللہ کی مدد و وعدے کا یقین رکھے۔ اور یہ مدد کا وعدہ محض لفاظی نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے وہ ایک اکیلے مرد کو تن تنہا فرعون اور اس کہ  درباریوں کو اللہ کے سہارے للکارتے دیکھ چکے تھے اور شق بحر جیسا عظیم الشان معجزہ ان کی آنکھوں کے سامنے رونما ہوچکا تھا۔لیکن دلوں میں ایمان کامل نہ ہونے کی وجہ سے اور حکمرانوں کے قوی ہونے کا خوف ان کے اعصاب پر پوری طرح چھایا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ میدان جہاد میں کودنے سے گریزاں تھے۔ بلکہ جو قلیل اشخاص ان کو اس بات کی دعوت بھی دیتے تھے ان کو سنگسار کرنے کے درپے!یہ نام نہاد امن پسندی انسان کو انسان کا غلام بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ،حکمران چاہے کسی قوم کو کولہو کا بیل بنادیں اس کی معاشرت ،اس کا دین اور کے رسوم ورواج سب کچھ چھین لیں ماسوا اس کو کھلے عام قتل کرنے کے ،تو یہ امن پسند ذھنیت پھر بھی پرامن رہنے کا سبق ہی دے گی ! یا اس حد تک زور آور بن جانے کا جہاں پر دشمن کا مقابلہ کیا جاسکے !ہم بھول جاتے ہیں کہ جس نے آسمانی صحائف نازل کیے ہیں اسی نے انسانی نفسیات کی بھی تشکیل کی ہے اس لیے وہ اس کی ہر جہت سے واقف ہے اور بزدلی کے مکاتب میں پروان چڑھنے والی ہر فکر کی خبر اپنے مسلمان بندوں کو دے چکا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں