جمعرات، 1 اگست، 2013

نو تیر رافضیوں کہ لیے اور ایک !!



ان کی سلطنت افریقہ سے لے کر فلسطین و مصر تک پھیل چکی تھی ،عباسی خلافت کی اندرونی الجھنوں کی وجہ سے کوئی ایسی امید نہ تھی کہ مستقبل قریب میں وہ ان کہ لیے کوئی خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں ،بازنطینی عیسایئوں کی طرف سے خطرہ ضرور لاحق تھا کہ عنقریب وہ اس پر حملہ کردیں گئیں لیکن یہ خطرہ ان کہ لیے ایک غیبی مدد کی مانند تھا جس کہ پردے میں وہ مسلم عوام کہ اوپر حکومت کرسکتے تھے اور وہ عیسایئوں کہ مقابلے میں ان کی حکومت قبول کرنے کہ لیے مجبور ہوتے ۔ 362 ہجری کا آغاز فاطمی رافضیوں کہ انتہائی عروج کا آغاز تھا ۔
مگر فلسطین کی وادیوں میں ایک شیر دھاڑ رہا تھا ۔
"اگر کسی شخص کہ پاس دس تیر ہوں تو اس پر لازم ہے کہ نو تیر فاطمیوں (رافضیوں ) کہ لیے ، اور ایک تیر رومیوں پر استعمال کرنے کہ لیے رکھے "
کون ہے یہ شخص ؟ فاطمی خلیفہ المعز کہ لہجے میں نفرت و حقارت تھی 
اس نفرت و حقارت کا مظاہرہ وہ اسی دن سے کرتا آیا تھا جب سے اس نے مصر و فلسطین کی حکومت سنبھالی تھی اور ملک شام پر نظریں جمائے بیٹھا تھا ، صحابہ پر سرعام منبروں پر تبرا ، نماز تراویح سے جبرا روکنا ، صلواہ التسبیح کا انکار ، اور ظہر کہ وقت قنوت پڑھنے پر جبرا مجبور کرنا اس کا طرہ امتیاز تھا ،مصر میں فاتحانہ داخل ہوتے ہی اس نے اپنے حسب و نسب کی بڑی تعریف کی تھی اور اپنے آپ کو آل فاطمہ سے منسوب کیا تھا ۔
حضور اس کا نام ابوبکر النابلسی ہے ، لوگ اسے بابن النابلسی کہہ کر بھی پکارتے ہیں ، حدیث و فقہ کا امام ہے اور زہد و تقوی میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے ۔ درباریوں نے ڈرتے ڈرتے عرض کی ۔
یہ کوئی بھی ہے اس کو باندھ کر میرے حضور حاضر کیا جائے ! المعز کہ لہجے سے ابھی بھی حقارت جھلک رہی تھی ۔ جو دل صحابہ سے بغض رکھتا ہو اس کو النابلسی کہ زہد و تقوی کی کیا پرواہ تھی ۔!!
کسی خیرخواہ نے امام وقت کو خلیفہ کہ ارادہ بد سے آگاہ کیا اور ان کو دمشق تک پہنچنے میں بھی مدد دی جو کہ ابھی المعز کہ قبضے میں نہیں آیا تھا ، مگر جلد ہی المعز کی فوجوں نے آگے بڑھ کر دمشق پر بھی قبضہ کرلیا اور علم کہ سورج کو پابجولاں المعز کہ دربار میں روانہ کردیا گیا !!
المعز نے امام کہ وجود پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ۔ اور چہرے کہ جلال کی تاب نہ لاتے ہوئے نظریں نیچے کر کہ بولا ۔ میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو کہ "اگر کسی شخص کہ پاس دس تیر ہوں تو وہ نو تیر ہمیں مارے اور ایک رومیوں کو ؟"
میں تو ایسا نہیں کہتا !! امام کہ لہجے میں ایک وقار تھا 
اچھا ! المعز نے سینے میں فرحت و راحت محسوس کی ، سوچنے لگا کہ شائد خوف کہ مارے فتوی بدلنے لگا ہے اب یہ اپنے کام کا بندہ بن جائے گا اور میں اس کو بھی اپنی خلافت کہ لیے ایک دلیل کہ طور پر استعمال کروں گا۔
پھر آپ کیا کہتے ہیں ؟ المعز کہ لہجے میں ایک دم احترام و اشتیاق در آیا
میں تو کہتا ہوں "اگر کسی کہ پاس دس تیر ہیں تو وہ نو تیر تم رافضیوں پر استعمال کرتے اور دسواں بھی تمھی پر استعمال کرے " امام کہ لہجے میں پہاڑوں جیسی استقامت تھی بلکہ پہاڑ بھی شائد ایسی استقامت نہیں رکھتے وگرنہ توحید کا بوجھ اٹھا لیتے جو کہ ان کہ اوپر بھی پیش کیا گیا تھا !! ضرور فرشتوں نے بھی اس استقامت پر حیرت بھری نظروں سے ایکدوسرے کو دیکھا ہوگا اور شائد خالق کائنات نے بھی فاتحانہ انداز میں فرشتوں کو دیکھا ہو کہ "دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ میں وہ جانتا ہوں جو کو تم نہیں جانتے " شائد ایسوں کہ لیے ہی اس نے آیت اتاری ہے کہ "میرے بندے وہ ہر گز تیری راہ  پر نہ چلیں گئیں "
المعز کا چہرہ غصے و نفرت کہ مارے سرخ ہوگیا ۔ استعجاب سے دریافت کیا ۔ایسا کیوں ؟
"کیونکہ تم نے دین کو بدل دیا ہے اور اس پر چلنے والے بندوں کو قتل کرتے ہو ،اور اس چیز (خلافت و حضرت فاطمہ کا نسب) کا دعوی کرتے ہو جو کہ تمھاری نہیں ہے ۔تم راہ ہدایت سے انحراف کرچکے ہو "
امام ابوبکر النابلسی تو گویا اس وقت ایمان کا کوہ گراں تھے 
المعز کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔ اندرونی رعونت در آئی حکم دیا کہ کل انہیں مصر کی گلیوں میں رسوا کرنے کہ لیے نکالا جائے ، اگلے دن ان کو صلیب دے کر کوڑے مارے جائیں اور تیسرے دن ان کی زندہ کھال اتاری جائے ۔
پہلے دن شہر میں تشہیر کہ دوران کسی پوچھنے والے نے امام رحمۃ اللہ سے پوچھا ۔ کہ یہ کیا ہے  ؟ کوہ استقامت بولا " یہ امتحان ہے "
دوسرے دن جب ہاتھ پاوں میں کیل ٹھونک کر صلیب پر ٹانگ دیا گیا تو اس نے پھر پوچھا ۔ اب سناو ؟ امام وقت پھر گویا ہوا" یہ تکلیف گناہوں کا کفارہ ہے "
تیسرے دن جب سر کی طرف سے کھال اتاری جانے لگی تو پھر دریافت کیا کہ سناو یہ کیا ہے ؟ !! عزیمت کی مثال پھر بولی " یہ درجات کی بلندی ہے "
شہر کہ مسلمان قصایئوں نے کھال اتارنے سے انکار کردیا تو ایک یہودی قصائی کو طلب کیا گیا۔ وہ کھال اتارتا گیا اور امام پڑھتا گیا 
کان ذلک فی کتاب مسطورا
اور یہ تو کتاب میں لکھا ہوا تھا
یہودی سر سے ہوتا ہو چہرے تک آیا اس نے یہ آواز سنی ، بے رحم جلاد کا دل بھی رحم سے بھر گیا اس نے کھال اتارنے کہ بہانے خنجر سینے میں پہلے بھونک دیا تاکہ امام کو اس دکھ و کرب سے نجات مل جائے !!
سننے والوں اور دیکھنے والوں نے بیان کیا کہ "امام کہ مردہ جسم سے بھی تلاوت قرآن کی آواز آرہی تھی "
کان ذلک فی کتاب مسطورا 
اور یہ تو کتاب میں لکھا ہوا ہے !!

اہل شام گھبرانا نہیں اور نہ ہی ڈرنا تم امام ابوبکر النابلسی رحمۃ اللہ کہ راستے پر ہو ۔ دس بھی ہیتھار تمھارے پاس ہوں تو ان رافضیوں پر چلا دینا چاہے امریکہ کہ حملے کا بھی ڈر ہو !!
کان ذلک فی کتاب مسطورا
اور یہ تو کتاب میں لکھا ہوا ہے 

(حوالہ جات)
 تاريخ الإسلام، للإمام الذهبي.
• العبر في خبر من غبر، للإمام الذهبي ( الجزء الثاني ).
• شذرات الذهب في أخبار من ذهب، ابن العماد الحنبلي. ( المجلد الثالث، ص: 153 ).
• البداية والنهاية، للإمام ابن كثير. ( الجزء الحادي عشر، ص: 241 ).
• الكامل في التاريخ، للإمام عز الدين ابن الأثير. ( المجلد السابع، ص: 344 ).
• المنتظم في التاريخ، للإمام أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزي.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں