جمعہ، 11 اکتوبر، 2013

معرکہ کلیسا و الحاد !

باب 1

تثلیث۔

"باپ خدا ہے ، بیٹا خدا ہے ،روح القدس بھی خدا ہے ۔تین پر بھی وہ تین خدا نہیں ہیں بلکہ ایک خدا ہے "(برٹانیکا مطبوعہ 1960 جلد 22)
باپ ،بیٹااور روح القدس مل کر ایک خدائی وحدت تیار کرتے ہیں جو اپنی ماہیت اور حقیقت کے اعتبار سے ایک اور ناقابل تقسیم ہیں اس وجہ سے وہ تین نہیں ایک خدا ہیں (سینٹ آگسٹائن،On the Trinty)
دنیا کا سب سے مشکل سوال یہ ہے کہ خدا تین میں ایک کیسے ہے یا ایک میں تین کیسے (نطشے)

اسکندریہ میں اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس کے بہترین آداب و رہن وسہن اہل شہر کے لیے باعث کشش تھے۔ اس کا لیبیائی بدن ،احسن الکلامی ہر سننے والے اور دیکھنے والے کی توجہ کھینچ لیتں۔ وہ جھک کر بھی چلتا اس کی چال میں ایک بانکپن محسوس ہوتا۔ یہ آریوس تھا ،سینٹ لوسین کے مکتبے کا سب سے ہونہار شاگرد،اوراس کی تعلیم کا وارث۔لیکن اس نے نوزائدہ عیسائی ریاست میں ایک زلزلہ پیدا کردیا ، اسکندریہ کے بطریق اعظم الیگزنڈر کو عین اس وقت ٹوکا جب کہ وہ مسیح اور باپ کے ایک ہونے کا خطبہ دے رہا تھا۔
"دنیا میں ایک وہ بھی وقت تھا کہ جب بیٹا نہ تھا ،صرف باپ تھا ،باپ نے بیٹے کو تخلیق کیا ،پیدا نہیں کیا ، لیکن یہ تخلیق اس نے اپنے جوہر سے کی اور پھر اسے سے بیٹے سے سب کچھ خلق ہوا۔باپ ازل سے ہے بیٹا حادث ہے" ۔
آریوس کا دعوی چند لفظی و حتمی تھا،لیکن یہ عیسایئت کی پوری بنیاد ڈھانے کے مترادف تھا۔ آریوس اس عقیدے کا بانی نہ تھا پال آف سموسٹا اور لوسین مسیح کے خدا کا جسمانی بیٹا ہونے کا اور اس کے قدیم ہونے کا پہلے انکار کرچکے تھے ، لیکن آریوس نے اس انکار کو نیا رنگ و زوردار انداز دے دیا تھا،عیسائی دنیا جو کہ مسیح کو خدا میں سے خدا ماننے پر مصر تھی بھلا اس عقیدے کو کیوں برداشت کرسکتی تھی ! یہ عقیدہ مسیح کے خدا ہونے کا سیدھا سیدھا انکار تھا

عیسائی دنیا کو "دیوکلتانیوس" کے قتل عام کےبعد سکون کا زمانہ میسر ہوا تھا، اس قتل عام کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا، مسیحی شہدا کی یادیں اور ان کی کہانیاں ابھی کل کی بات تھی ۔مائیں بچوں کو یہ واقعہ بڑے فخر سے سناتیں کہ کیسے عیسایئوں نے رومی معبودوں کی پوجا اور ان پر چڑھاوا چڑھانے سے انکارکردیا ،جس کی پاداش میں ان کا قتل عام کیا گیا ،لیکن عیسائی اتنی طاقت میں تھے کہ انہوں نے قیصر دیوکلتانیوس کا محل جلا دیا۔ قیصر نے جب اپنے گھر میں نظر کی تو خود اپنی بیٹی و بیوی کو عیسائی پایا۔ رعایا کا تناسب بدل چکا تھا،کل تک جو مذہب صرف "حق تعالی ،حق ذات وحق العباد" کی تبلیغ کرتا تھا آج رعایا کا کیثر حصہ اس کو قبول کرچکا تھا۔ رومی قیصر نے مذہب بدلنے سے بہتر یہی سمجھا کہ حکومت اپنے سے اچھے کے حوالے کردے ۔قسطنیطین اول  بادشاہ بن گیا۔
ہمیں یہ علم نہیں کہ قسطنطین کن مبلغین کی تبلیغ سے متاثر ہوا ، خود اس کے بیان کے مطابق ایک خواب اس کی تبدئیلی مذہب کا باعث بنا، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ رعایا کا عمومی مذہب عیسایئت ہوچکا تھا اور اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ تھا کہ اس مذہب کو قبول کرلے ۔عیسایئت تقریبا ڈھائی صدی کے بعد حکومت و سکھ کا دور دیکھنے والی تھی ،لیکن بادشاہ کو ایک شاہی دین درکار تھا ،ایسا دین جو کہ رومۃ الکبری کے بادشاہوں سے منسوب الوہیت کے مقاصد کی بارآوری کرتا ہو،وہ عیسائی فرقوں کے اختلافات سے بخوبی آگاہ تھا،گوکہ اس نے معبودان باطلہ کی پوجا پر عیسایئوں کے دباو پر پابندی لگادی تھی اور معبد خانے تباہ کردیے تھے لیکن اسی وقت اس نے دوسرے مذاہب معبد خانے تعمیر بھی کروائے تھے ۔اس نے سپاہیوں کو ڈھالوں پر صلیب کا نشان بنانے کا حکم تو دیا لیکن سورج دیوتا کی پوجا بھی اعلانیہ جاری رکھی،فشر لکھتا ہے ۔
"عیسائی جس خدا کی عبادت کرتے تھے وہ خلوص نیت سے اس پر ایمان رکھتا تھالیکن بعد میں اس کے متعدد اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ پرانے عقائد اس کے ذہن میں گھسے بیٹھے تھے اپالو دیوتا کی پوجا اس سےمکمل طور پر چھوٹ نہ سکی تھی کئی مواقع پر اس نے بت پرست کاہنوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا۔(تاریخ کلیسا)
لیکن اج قسطنطین کو ایک اہم معاملہ نبٹانا تھا ، آریوس کے خلاف شکاتیں درجہ اتم پر پہنچ چکی تھیں ،اس بے مثل خطیب و لاثانی عالم نے مسیح کے قدیم ہونے کا انکار کردیا تھا،اور باپ و بیٹے کو الگ الگ قرار دے دیا ۔ اسکندریہ کا بطریق اسکندر اس کی جان کو آیا ہوا تھا ،ان دونوں کے مباحثوں نے عام عوام کو بھی ان کی طرف بہت حد تک متوجہ کردیا جس کی وجہ سے آریوس کا سیدھا سادہ و آسان سا عقیدہ لوگوں کےاذہان میں اتر آرہا تھا۔۔قسطنطین نے بہ امر مجبوری عیسائی دنیا کے اس تفرقے کو دیکھتے ہوئے 325 ء  میں نیقہ کا اجلاس بلایا۔
بعد کی تفصیلات اتنی اہم نہیں ہیں ، آریوس اور اس کے حامی اجلاس میں موجود تھے،بحث چلتی رہی بعض مقامات پر یہ بحث اتنی گرم ہوئی کہ ایک پادری نے آریوس کو مکہ مار کر زمین پر گرادیا، بادشاہ چپ سادھے یہ بحث سنتا رہا لیکن اکثریت مسیح کی الوہیت کے حق میں تھی ۔ آریوس اور اس کے حامیوں کو جلاوطن کردیا گیا ،اور اس کی تحاریر ضبط کرلیں گئیں حکم شاہی کے تحت اس کی کتابوں پر پابندی تھی اور انہیں جلانے کا حکم! لیکن قسطنطین موقعے سے فائدہ اٹھا کر ایک متفقہ عقیدہ بھی منظور کروا لینا چاہتا تھا تاکہ عیسائی دنیا میں پڑنے والے تفرقے سے نجات مل جائے ۔کونسل آف نیقہ نے عیسائی دنیا کا پہلا عقیدہ منظور کرلیا۔
میں ایک قادر مطلق خدا باپ پر ایمان رکھتا ہوں ، جو آسمان و زمین اور تمام دیکھی و ان دیکھی اشیا کا خالق ہے ۔ اور ایک خداوند یسوع مسیح پر جو خدا کا اکلوتا مولود بیٹا ہے تمام دنیاوں سے پیشتر باپ سے مولود ۔(خدا سے خدا)نور سے نور،حقیقی خدا سے حقیقی خدا،مصنوع نہیں مولود۔ اس کا اور باپ کا ایک ہی مادہ و جوہر ہے اس کے وسیلہ سے کل چیزیں بنیں۔ وہ ہم آدمیوں کے لیے اور ہماری نجات کے واسطے آسمان پر سے اتر آیا ،اور روح القدس کی قدرت سے کنواری مریم سے مجسم ہوا اور انسان بنا ۔ اور نیطس پیلاطس کے عہد میں ہمارے لیے مصلوب مصلوب بھی ہوا۔ اس نے دکھ اٹھایا اور دفن ہوا ۔ اور تیسرے دن پاک نوشتوں کے مطابق جی اٹھا ۔اور آسمان پر چڑھ گیا ،اور باپ کی داہنی طرف بیٹھاہے ۔ وہ جلال کے ساتھ زندوں اور مردوں کی عدالت کے لیے پھر آنے والاہے اس کی سلطنت ختم نہ ہوگی ۔
اور میں (ایمان رکھتا ہوں) روح القدس پر ،جو خداوند اور زندگی بخشنے والاہے جو باپ سے (اور بیٹے) سے صادر ہے ۔اس کی باپ و بیٹے کے ساتھ پرستش اور تعظیم ہوتی ہے وہ نبیوں کی زبان بولا۔ اور میں (ایمان رکھتا ہوں) ایک پاک عام اور رسولی کلیسا پر ۔ میں بپتسمہ کا جو گناہوں کی معافی کے لیے ہے اقرار کرتا ہوں اور مردوں کی قیامت اور آئندہ جہاں کی حیات کا انتظار کرتا ہوں ۔(دیکھیے پروفیسر فشر کی تاریخ کلیسا)
قسطنطین کو کبھی علم نہ ہوسکا کہ وہ عقل انسانی کی تاریخ کا سب سے مشکل عقیدہ مرتب کرنے کا زمہ دار ہے ، جو کہ چند صدیوں میں ہی عقل انسانی کو ایسا عاجز کردے گا کہ یورپ کا بیشتر حصہ اللہ کے وجود کا ہی انکاری ہوجائے گا ۔ ارتداد کی بنیاد عیسایئت نے خود اپنے ہاتھوں سے ہی رکھ دی تھی !نطشے نے کچھ صدیوں بعد کہا "کہ دنیا کا سب سے مشکل سوال یہ ہے کہ خداتین میں سے کیسے ہے اور ایک میں تین کیسے ہے"،کلیسا کے معماروں نے جس آریوس کو فلسطین کے وادیوں میں بھٹکنے پر مجبور کردیا تھا،اور آخر کار قسطنطنیہ میں ایک دردناک موت اس کا مقدر ٹہری ،دس صدیوں بعد اس کا بھوت تثلیث کے سر پر منڈلانے لگا۔ اس بار بادشاہ قسطنطین نہ تھا بلکہ عقل تھی جو کسی کو جلاوطن نہیں کرتی ۔کافی عرصے بعد کلیسا نے بھی اپنی لاچارگی کا اظہار یوں کیا
  "یہ حقیقت ہے کہ واحد خدا میں تین شخص ہیں ہمارے عیسائی ایمان کا بڑا بھید ہے ۔ "ہم اس بھید کو نہیں سمجھ سکتے" اگر ہم پر یہ بھید ظاہر نہ ہوتا تو ہم اس سے بالکل بے خبر ہوتے ۔ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے "اقدس تثلیث" سے کیا ہے اس لیے ضرور ہے کہ کہ ہر وقت اس کی تعریف کریں اور ہر نعمت کے لیے اس کا شکر ادا کریں ۔ ہم خدا باپ کا شکر ادا کریں کیونکہ اس نے ہمیں پاک کیا"۔(کیتھولک کلیسا کی مسیحی تعلیمات۔مطبوعہ 1981)

باب 2

سینٹ آگسٹائن۔ازلی گناہ 

عیسائی علم و عقائد میں "کفارہ" سے مراد یسوع مسیح کی وہ قربانی ہے جس کے زریعہ ایک گناہ گارانسان یک لخت خدا کی رحمت کے نزدیک ہوجاتا ہے ۔ اس عقیدے کی پشت پر دو مفروضے کارفرما ہیں ۔ ایک تو یہ کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے انسان خدا کی رحمت سے دور ہوگیا تھا دوسرے یہ کہ خدا کی صفت کلام (بیٹا) اس لیے انسانی جسم میں آئی تھی کہ وہ انسان کو دوبارہ خدا کی رحمت کے قریب کردے(انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا)

یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اس عقیدے سے زیادہ کوئی بھی چیز عقل انسانی کے لیے حیران کن نہیں کہ سب سے پہلے انسان(حضرت آدم) کا کیا گیا گناہ ہم سب میں سرایت کرگیا ہے ! ازلی گناہ کی یہ منتقلی ہمیں نہ صرف کے ناممکن لگتی ہے بلکہ صریح ناانصافی بھی ہے ۔ (Blaise Pascal)

اس سے ہماری پہلی ملاقات  پانچویں صدی عیسوی کے آغاز میں روم میں ہوتی ہے ،ایک انتہائی تعلیم یافتہ  انگلش راہب۔ جو کہ قانون و فلسفے کی اعلی تعلیم کے حصول کے بعد ایک دم دنیا ترک کر کے یسوع مسیح کے لیے وقف ہوگیا، تاریخ نے اسے پیلاگییس(Pelagius) کا نام دیا ہے ، یہ قانون پڑھا ہوا راہب جب عیسائی دنیا کی بگڑتی ہوئی اخلاقی حالت کو دیکھتا تو پریشان ہوجاتا، اصلاح کی کوشش کرتا تو گناہ گاروں کے بہانوں کو سن کر اس کا اضطراب اور بڑھ جاتا۔" کیا کریں ہم کمزور ہیں""ہم انسان ہیں" ہمیں بنایا ہی ایسے گیا ہے " ہم گناہ سے نہیں بچ سکتے "ہم بچنے کے قابل نہیں ہیں ۔
یہ سراسر پاگل پن ہے،راہب چلاتا،تم اپنے گناہوں کا الزام خدا کو دیتے ہو ! کیا تم سمجھتے ہو کہ اس نے جو بنایا ہے اور جس کا اس نے حکم دیا ہے وہ اس کو نہیں جانتا!ایسا کہنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ خدا ان خامیوں سے واقف نہیں ہے جو کہ اس نے خود بنائی ہیں ،اس نے انسان پر ایسی شریعت لاگو کی ہے جس کے پیروی انسان کرہی نہیں سکتا! پیلا گییس نے جب اپنے ساتھی راہب کو آگسٹائن کی یہ دعا پڑھتے سنا تو حیرت کے مارے اس کا برا حال ہوگیا،
اے خدا ! طاقت  بھی دے دو جس کا حکم دیا ہے ،اور حکم دو اس کا جس کی توفیق دی ہے!
کیا مطلب ہے اس کا؟ وہ حیران تھا۔
کیا خدا نے اس کا حکم دیا ہے جس کی توفیق ہی نہیں دی ؟ اب تو ہر گناہ گار ،ہر خطاکار کے ہاتھ میں تم نے ایک بہانہ دے دیا کہ وہ جب بھی گناہ کرے تو اس کو درست ثابت کرنے کےلیے کہہ دے کہ اسے تو نیکی کرنے کی توفیق ہی خدا کی طرف سے عطا نہیں ہوئی !!اگر توفیق ہی عطا نہیں ہوئی تو سزا کس لیے !! راہب کے ذھن و زبان پر سینکڑوں سوال مچل جاتے ۔
ایسا ہرگز نہیں ہے ! پیلاگییس اپنے شاگردوں کو بتاتا 
ہمیں دونوں چیزیں عطا ہوئی ہیں ۔نیکی کرنے کی استعداد بھی اور برائی کرنے کی بھی ،اور ساتھ میں ان کو کرنے کی آزادی بھی ،ہمیں خدا نے شروع دن سے ہی گناہ گار نہیں بنایا بلکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ معصوم ہے اس کی فطرت گناہ گار نہیں ہے اس کو خدا نے اسی طرح بنایا ہے جیسے کہ آدم کو بنایا تھا۔ اس کی فطرت داغدار نہیں کی ہاں برائی اور اچھائی کرنے کی صلاحیت ودیعت کی ہے۔اور یہ صلاحیتیں اس کی نعمت ہیں ،ایسا کہنا کہ خدا نے انسان کو کمزور یا برا بنایا ہے اس لیے وہ نیکی کر ہی نہیں کرسکتا غلط ہے اور اس کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ خدا کی شریعت کی پیروی کر ہی نہیں سکتا !!جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اس کے زمہ دار ہم خود ہیں ،ہمارے اندر صلاحیت موجود ہے کہ ہم گناہ نہ کریں یا اس سے بچ جائیں 
استاد پھر خدا کی رحمت سے کیا مراد ہے ؟ شاگرد پوچھتے 
خدا کی رحمت سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے ،اور نیکی کرنے میں تمہاری مدد کرتا ہے پیلا گییس کا جواب حتمی ہوتا ۔
لیکن استاد کلیسا تو کہتی ہے کہ انسان ازلی گناہ گار ہے ، یہ گناہ آدم کے ساتھ ہی زمین پر اتر آیا تھا ، آدم لافانی بنائے گئے تھے لیکن ممنوعہ شجر کہنے کی وجہ سے گناہ کےمرتکب ٹہرے اور اسی لیے لافانی سے فانی ہوگئے اور موت ان کا مقدر ٹہری ۔اور یہ گناہ ان کی سرشت میں تھا جو کہ انسانوں کو وارثت میں ملا، پوری انسانیت گناہ گار پیدا کی گئی ہےاور موت کی حقدار، اور یہ گناہ مٹ نہ سکتا تھا اگر یسوع مسیح صلیب پر قربانی نہ دیتا ۔شاگردوں کا استعجاب اور بڑھ جاتا!
انسان ازلی گناہ گار نہیں ہے ! پیلا گییس پورا زور لگاتا۔ خدا نے آدم کو گناہ گار پیدا نہیں کیا معصوم پیدا کیا ہے ،اور جب اس نے معافی طلب کی تو گناہوں سے ایسے پاک ہوگیا جیسا کہ شجر ممنوعہ کو کھانے سے پہلے تھاخدا نے اس کو لافانی نہیں بنایا تھا یہ غلطی آدم تک محدود تھی اور اس کی سزا بھی ۔ ہمیں وراثت میں نہیں ملی ہمیں وراثت میں وہی معصوم فطرت ملی ہے جس پر آدم کو پیدا کیا گیا تھا لیکن اپنی سرشت کی وجہ سے اور معاشرے کی وجہ سے ہم برائی کربیٹھتے ہیں اور پھر اس کی رحمت کے طلبگار ہوتے ہیں ۔اپنی غلطی کے لیے اسے قصور وار نہیں ٹہرا سکتے جو کہ ہم نے خود اپنی مرضی سے کی ہے ! یسوع مسیح نے بھی دکھ جھیلے ہیں تاکہ ایک مثال قائم کردے کہ جو کچھ بھی تم کرو گئے اس کے لیے آزمائش بھی جھیلنی ہوگی جب ازلی گناہ ہی کوئی وجود نہیں رکھتا تو پھر یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ یسوع مسیح ہمارے گناہوں کے لیے صلیب پائی ہو ! 

شمالی افریقہ کے ساحلی شہر عنابہ میں ٹھنڈی ہوائیں جب لوگوں کے جسموں کو چھوتیں تو ایک درجہ فرحت کا احساس ہوتا،لوگ اپنے شہر کے باغوں میں لدے ہوئے پھلوں کو فخر کی نظر سے دیکھتے جن کی لذت پورے افریقہ میں مانی جاتی تھی ۔اگر ان کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو ان کی نظریں شہر کے سب سے معزز و پارسا شخص کی طرف اٹھتیں جس کے وقار بھرے چہرے پر ہر وقت غوروفکر غالب رہتا ،اور جو اپنے مطالعے والے کمرے میں زیادہ تر کچھ لکھتا رہتا،روما کی عیسائی سلطنت بکھرنے والی تھی مغرب کی وحشی اقوام اس پر حملہ آور ہوچکی تھیں،سلطنت میں افواہیں گرم تھیں کہ یہ زوال عیسائی مذہب کی وجہ سے آیا ہے لوگ چہ مہ گوئیاں کررہے تھے ،ایمان ڈانوں ڈول ہورہے تھے ۔ لیکن یہ متین شخص کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ یہ ایک خواب کا معمار تھا، ایک شہر کا خواب،خدا کا شہرجس پر رومن کلیسا کی حکمرانی ہو ،اور تمام زمینی حکمران اس کے تابعدار۔ اسی زمانہ میں اسے نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف "سٹی آف گاڈ" لکھی۔ اسی خواب نے رومن کلیسا میں تمام دنیا پر حکومت کرنے کی خواہش کو جنم دیا اورچرچ کو ایک مذہبی ادارہ بنادیا جو کہ ریاست کے معاملات میں بھی دخیل ہو۔
سینٹ آگسٹائن کی ماں ایک سچی مسیح تھی ،لیکن اس کا باپ ایک کافر ،جس نے بستر مرگ پر عیسایئت کو قبول کیا ،آگسٹائن کی بے چین روح کو اس کی سادہ ماں کے علم نے مطمئن نہ کیا ،لیکن ماں کا اطمینان اس کو بھا گیا،جوان آگسٹائن کو کچھ سوالوں کا جواب چاہیے تھا وہ کارتھیج کو چلا گیا ۔ یہاں زندگی کا ایک نیا آغاز تھا اس نے ایک داشتہ رکھ لی جس سے اس کا ایک بیٹا پیدا ہوا،اس کے مضطرب و متجسس ذھن کو مانی چئین مذہب بہت بھایا جو کہ فلسفے سے بحث کرتا تھا اور سوالوں کو عقل کے ساتھ سلجھانے کی کوشش۔ اس کی والدہ سینٹ مونیکا گو کہ کافی پریشان ہوئی لیکن آگسٹائن نے عیسایئت چھوڑ کر مانی چئینت اپنا لی ،کارتھج میں ایک نئی زندگی تھی چاروں طرف خوبصورت عورتیں اور ان کے ساتھ جنسی تعلقات کے قصوں کی بھرمار، جوان آگسٹائن کے زبان سے انہی دنوں میں اپنا مشہور مقولہ نکلا۔
اے اللہ مجھے ہدایت دے دے ،لیکن ابھی نہیں
تعلیم کی تکمیل کے بعد آگسٹائن اٹلی کے شہر میلان جاپہنچا جس کا اسقف اس وقت کا مشہور عیسائی عالم امبروز تھا۔جس کا دعوی تھا کہ یسوع مسیح نے اس کو خود مل کر عیسایئت کی تبلیغ کی تلقین کی ہے !آگسٹائن کو گویا امبروز کی صورت میں اپنےناآسودہ روحانی جذبات کا جواب مل گیا ۔ وہ امبروز کے دروس کا دیوانہ بن گیا ۔انسان گناہ کیوں کرتا ہے ؟ خدا نے دنیا کیسے بنائی ؟خدا اور بندے کے درمیان ربط کیا ہے ؟ امبروز کے پاس ان سوالوں کی تسکین ہونے لگی ،امبروز کے پاس لمبے چوڑے فلسفے نہ تھے بلکہ ایک سیدھا سادا ایمان تھا ۔آگسٹائن کے فلسفہ بھرے ذہن کو اس ایمان نے متاثر کیا،اس نے عیسائی مذہب کو دوبارہ قبول کرلیا اور اس کا پرجوش مبلغ بن گیا ،یہ عیسایئت کا امام غزالی تھا جو فلفسہ، منطق وغیرہ کی مباحث سے گزر کر مضطرب ذہن کے ساتھ تصوف کی طرف مائل ہوگیا۔ لیکن عقیدے کی گنجلک کے سبب وہ کبھی بھی امام غزالی جیسی وسعت نظر کا قائل نہ ہوسکا۔اس کو اپنے زندگی بھر کے گناہوں کے کرنے کا سبب سمجھ آگیا۔انسان ازلی گناہ گار ہے وہ گناہوں سے بچنا بھی چاہے تو نہیں بچ سکتاکیونکہ اسے ایک ہی چیز کی آزادی دی گئی ہے گناہ کرنے کی آزادی اور اس کی نجات اسی میں ہے کہ مسیح پر ایمان لے آئے ۔خدا کے بیٹے پر جس کو خدا نے انسانی صورت میں زمین پر بھیج کر اور مصلوب کروا کر اہل عالم کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ہے ۔انسان گناہ گار ہے ازلی گناہ گار۔اس تجربے نے اس میں یہ سوچ راسخ کردی کہ علم صرف ایمان سے ہی حاصل ہوسکتا ہے اور کتاب مقدس کے علاوہ کسی بھی قسم کے علم کی ضرورت نہیں ہے۔ مائی چیین مذہب کے ایک عالم فاسٹس  سے اس کا مناظرہ بھی ہوا جس نے ا س پر اس کے عقائد کی کمزوری ثابت کرنے کی بے سود کوشش کی ، لیکن الہیات کی دنیا میں ڈوبے ہوئے اس فلاسفر کو اس کے عقلی دلائل کی کچھ سمجھ نہ آئی ،پیلا گییس کا فلسفہ سینٹ آگسٹائن پر بجلی بن کر گرا ، یہ تو کلیسا کی بنیاد گرانے کے مترادف ہے ! اور یسوع مسیح کے مقام کو گھٹانے کے مترادف! انسان ہر حال میں خدا کی رحمت کا محتاج ہے نیکی بھی توفیق الہی کے بغیر نہیں کی جاسکتی ، یہ سچ ہے کہ نیکی و بدی دونوں ہمارے اندر ودیعت ہیں لیکن آدم کے گناہ کی وجہ سے بدی کو غالب کردیا گیا ہے اب ہم نیکی نہیں کرسکتے جب تک کہ خدا پر ایمان نہ لائیں کیونکہ گناہ ہمیں وراثت میں ملا ہے ہماری فطرت ہی گناہ گار بنائی گئی ہے ! پیلا گییس کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہم اپنی خواہش سے بھی نیکی کرسکتے ہیں !!یہ خداوند کے ہمارے گناہوں کے لیے مصلوب ہونے کا بھی انکار کررہا ہے حالانکہ ہم مجبور محض ہیں !
زندگی کے بقیہ سال وہ اسی ازم کی تبلیغ میں مصروف رہا،اس ازلی گناہ کی ذلت سے بچنے کے لیے اس نے مجرد زندگی اختیار پر بہت زور دیا اور جنس مخالف سے ہر صورت بچنے کی تلقین ،اس کی تعلیمات کی بدولت ہی کلیسا میں رہبانیت کا موجودہ تصور در آیا،یقیقنا سینٹ آگسٹائن نے کبھی نہ سوچا ہوگا کہ اس کی یہ تعلیم کلیسا کے اپنے اندر اس قدر فحاشی و عریانی کو جنم دے گی جس کے آگے پیرس کے رنڈی خانوں کے تذکرے ہیچ ہوں گئیں۔ سینٹ آگسٹائن نے ہی ایمان کے لیے عقل کی شرط کو مفقود الخبر قرار دیا ۔ تم پہلے ایمان لے آو پھر سوچو کہ تم کس چیز پر ایمان لائے ہو!اس نے اپنی ساری زندگی درویشانہ گزاری ،عنابہ میں اپنی ساری چیزیں غریبوں میں بانٹ دیں اور اپنے مکان کو مکتب میں بدل دیا یہ عیسائی تاریخ کا سب سے بڑا فلاسفر ہے۔لیکن اس مضطرب سکالر نے پیلا گییس سے ملنے کے باوجود انسان میں ارادے کی آزادی کی نفی کردی ! اور پیلا گییس کو روما کے پوپ کے طرف سے بدعتی قرار نہ دینے کے باوجود کارتھج میں خود ایک کونسل منعقد کرکے بدعتی قرار دے دیا اور پیلاگییس کو جان بچانے کےلیے اسکندریہ کی طرف بھاگنا پڑا!آج ہمارے پاس اس کی تحاریر میں سے جو کچھ بھی موجود ہے وہ اس کے مخالفین ہی کی تحاریر میں اس کے تذکرے ہیں ! ہم شائد کبھی نہ جان سکیں کہ پیلا گییس کا اصل عقیدہ کیا تھا کیا اس نے واقعی ہی خدا کی رحمت کا بھی انکار کردیا تھا !!؟
ان دونوں عبقریوں کو آخری وقت تک اپنے تحریف شدہ صحائف اور ان کی غلط تفسیر کی وجہ سے اصل بات کا علم نہ ہوسکا، ایک نے اگر ارادے کی نفی کردی تو دوسرے نے توفیق الہی کا مفہوم درست نہ سمجھا یہ دونوں ہی اس روشنی سے محروم رہے جو کہ ان سے دو صدیوں بعد جزیرہ نمائے عرب میں پھیلنے والی تھی اور ارادے کی آزادی کی ساتھ ساتھ توفیق الہی و رحمت باری تعالی کا درست مفہوم بھی بیان کرنے والی تھی! 
430 ء میں جب آگسٹائن عنابہ میں اپنے بستر پر بھوک و فاقہ کشی کی بدولت دم توڑ رہا تھا تو اس کے شہر کا "وینڈال" قوم نے محاصرہ کیا ہوا تھا جس نے اہل شہر تک راشن یا خوراک پہنچنے کا ہر راستہ بند کردیا تھا۔اس کی لمبی بددعائیں بھی آریوس کے ہم مذہبوں کو اس شہر پر قبضہ کرنے سے نہ روک سکیں ۔ الہیات کا یہ عبقری اپنی موت سے پہلے پہلے کلیسا و عقل میں اتنا تضاد پیدا کرگیا تھا جو کہ کلیسا کو بہت جلد دور تاریک میں دھکیلنے والا تھا۔ سولہویں صدی عیسوی میں جب اس کیتھولک کلیسا کے ایک آرچ بشپ نے مارٹن لوتھر کو کہا کہ پہلے تم ایمان لاو پھر سوچو تو وہ اس کا منہ حیرت سے تک رہا تھا!اٹھارویں صدی عیسوی میں یورپ میں جب بے دینی کی لہر چلی تو لوگ کلیسا کی رہبانیت کا مذاق اڑانے کے لیے گلیوں بازاروں میں بدکاری کررہے تھے۔
آگسٹائن کی تھیوری تصوف کے میدان میں تو چل سکتی تھی حقیقی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ڈاکٹر ولیم ڈریئپر کے الفاظ میں
"سائنس و مذہب میں جو نزاع پیدا ہوا اسے کے بانی و مبانی یہی شخص ہیں ۔ان بزرگوار نے علوم انسانی کی کی قسمت کا فیصلہ جو اس کے بس کی بات نہ تھی کلیسا کے حوالے کرکے اس پر ایک جابرانہ حکومت قائم کردی" (معرکہ مذہب و سائنس)


باب 3

اسکندریہ کا اسقف اور کنواری مریم ۔

بحیرہ روم کی لہریں اس کے ساحلوں سےٹکراتیں اور اس کی عظیم الشان عمارتوں پر نظر ڈال کر عقیدت سے پیچھے ہٹ ،جاتیں ۔راتوں کی تاریکی میں یہ کوہ نور ہیرے کی طرح جھلملا اٹھتاسکندر مقدونی نے اس کو خوبصورت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ،قلو پطرہ  ،مارک انتونی اور جولیس سیزر کی داستانوں نے اس کی داستانوں میں طلسمی رنگ بھر دیا تھا،ساحل سمندر کے قریب ایک چوٹی پر ایستادہ لائٹ ہاوس عجائبات عالم میں شامل تھا جس کو چوہویں صدی کے ایک زلزلے نے تباہ کرڈالا۔دنیا بھر سے لوگ اس کو دیکھنے کے لیے دوردراز کا سفر کرتے جو مصر میں رومی شہنشاہوں کا صوبائی دارلحکومت تھا،اس کی بندرگاہ اس وقت کی معلوم دنیا کی شائد سب سے بڑی بندرگاہ تھی جس میں بارہ ہزار جہاز بیک وقت لنگرانداز ہوسکتے تھے ۔علم و حرفت کا سب سے بڑا مرکز،اسکندریہ میں تمام مذاہب عالم کے لوگ آباد تھے،حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دو صدیوں بعد اس شہر کو فتح کیا تو حضرت عمر کی خدمت میں اس شہر کی خوبصورتی کا بیان کچھ یوں ایک خط میں لکھ بھیجا۔
"اما بعد میں نے ایک ایسا شہر فتح کیا ہے جس کی تعریف نہیں بیان کی جاسکتی زیادہ سے زیادہ بس میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے یہاں چارہزار عمارتیں اور اتنے ہی حمام پائے ہیں اس شہر میں چالیس ہزار یہودی آباد ہیں جن پر جزیہ عائد کیا گیا ہے اور چار سو شاہی رقص گاہیں ہیں"
اسکندریہ کا یہ شہر روما کی سلطنت کا ہیرا تھا، قسطنطین کے عیسایئت قبول کرتے ہی عیسایئت اس شہر میں بھی پھیل گئی ،شہر کی ایک طرف اگر سینٹ مارک کا مقبرہ عیسائی زائرین کے لیے روحانی کشش کا سبب تھا تو دوسری طرف یہودیوں کی عبادت گاہیں، شہر کا اسقف اعظم سینٹ سائرل۔ جو کہ اپنے چچا کی وفات کے بعد اس عہدے پر پہنچا تھا شہر کے کلیسا میں اپنے دورس کا جادو جگاتا اور اس کے حلقہ درس کے بالکل سامنے افلاطونی سکول کی ممتاز ریاضی دان و فلاسفرحسین و جمیل "ہپاشیا" فلسفہ و منطق کے گنجلک مسائل کو آشکار کرتی ،روحانی سکون کے حاملین کو سینٹ سائرل کے خطبات میں سکون ملتا اور عقل کی گھتیاں سلجھانے والے "ہیپاشیا" کی مکتب گاہ کا رخ کرتے ۔
سائرل ایک سمجھدار مگر بے رحم انسان تھا،اس نے گدی سنبھالتے ہی نبطی عیسایئوں کو دیس نکالا دے دیا اور ان کی کتابوں و تبلیغ پر پابندی لگادی ،اس کا دوسرا کارنامہ اسکندریہ کے سارے یہودیوں کو اسکندریہ سے نکال دینا تھا جن پر عیسایئوں کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا، اس کے ان اقدامات نے پورے شہر میں اضطراب کی لہر دوڑا دی اور شہر کا ایک اعلی عہدے دار اس کے ان اقدامات کے خلاف کھڑا ہوگیا ،ہپاشیا بھی اس جرائم  پر چیخ اٹھی جس پر سائرل کے حکم پر ایک عیسایئوں کے ایک گروہ نے اس کو گلی میں اٹھا کر ایک چرچ میں لے جاکر برہنہ کیا اور پھر اس کے جسم کا ایک ایک حصہ کاٹ کر سمندر برد کردیا۔ ہپاشیا کے مرتے ہی اسکندریہ سے منطق ،فلسفہ و ریاضی کا ایک دور ختم ہوگیا۔انیسویں صدی میں سائرل کا نام جاننے والے بہت ہی کم تھے لیکن الحاد کے علمبردار ہپاشیا کی یاد میں یورپ کے تھیٹروں میں ڈرامے چلا رہے تھے ۔
مذہبی جنونیت کے اس دور میں اور ایک واضح شریعت کی غیرموجودگی میں سائرل پر ان اقدامات کا کوئی اثر نہ ہوا ۔لیکن عیسائی بنیادوں کو ایک اور زلزلہ ہلا رہا تھا جس کا نام "نسطور"تھا۔جس نے کنواری مریم کو خدا کی ماں ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اسکندریہ کا پوپ قسطنطنیہ کے آرچ بشپ کے اس قدم کو عیسایئت پر حملہ سمجھ رہا تھا اور روما کا گرینڈ پوپ اپنے محل میں بیٹھ کر اس قضیے کے نمٹ جانے کا منتظر۔مقدس مریم کے تقدس کا مسئلہ عیسائی مذہب میں مختلف فیہ نہ تھا، ان کی تصویریں و مجسمے لوگوں کے گھروں اور بعض کلیساوں کی زنیت تھے لیکن انہیں پوجا نہ جاتا تھا ۔بت پرستی عیسایئت میں منع تھی اللہ کو ایک ماننے والے کا دعوی کرنے والے ان لوگوں کو کبھی بھی یہ علم نہ ہوا کہ تثلیث کے پردے میں انہوں نے جو عقیدہ گھڑا ہے وہ ان کو بت پرستی تک لے جائے گا۔نسطور کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر مریم انسان ہیں اور یسوع مسیح خدا ہیں تو پھر ایک انسان خدا کو جنم نہیں دے سکتا، اس لیے ضروری یہ ہے کہ ماناجائے کہ مریم نے جس کو جنم دیا وہ خدا نہ تھا اس لیے مریم کو "خداکی ماں " کا لقب دینا درست نہیں ۔ مسیح ایک جامہ تھا جو کہ خدا نے  بعد میں پہنا ،جس میں انسانی و خدائی صفات دونوں اکھٹی تھیں ،جو ہمارے ساتھ پلا بڑھا،کھایا پیا ، مصلوب ہوا ، دکھ جھیلا وہ اس کا انسانی روپ تھا کیونکہ یہ صفات خدا کو زیبا نہیں ،اور جس نے معجزات دکھائے ،آسمان کی طرف صعود کیا وہ خدا تھا۔
سائرل کا مسئلہ یہ تھا کہ یسوع مسیح شروع سے ہی خدا تھااس کا جنم بھی خدا کے طور پر ہوا،یہ ایک ہے دو صفات کا حامل نہیں صلیب پر بھی خدا ہی کو مصلوب کیا گیا تاکہ وہ دکھ اٹھا کر بنی نوع انسان کے گناہوں کا مداوا کرسکے ۔ سائرل کا قدم حتمی تھا اس نے سارے مصر کے کلیساوں کو خط لکھ دیئے کہ نسطور بدعتی کی بات نہ سنی جائے ، ان خطوط کی خبر نسطور تک قسطنطنیہ میں پہنچ گئی اس نے ان کے خلاف لیکچرز دینے شروع کردیئے ۔سائرل کا کوئی بھی اقدام اس بلند حوصلہ شخص کو اس کے عقیدے سے نہ ہٹا سکا۔سائرل نے مجبور ہوکر بادشاہ وقت تھیوڈوس دوئم کو اس کے خلاف ایک کونسل بپا کرنے کا کہا ۔ یہ کونسل 431 ء میں افسیس کے مقام پر منعقد کی گئی۔ جو کہ خود  کنواری مریم کو "خدا کی ماں " کہنے والوں کا ایک بہت بڑا گڑھ تھا۔سائرل نے بہت چالاکی سے کام لیا اس سے پہلے کہ انطاکیہ و شام سے نسطور کے حامی پادری کونسل میں پہنچتے اس نے کونسل کا انعقاد کردیا ، نسطور نے اس سازش کو بھانپ کر کونسل میں شرکت سے انکار کردیا اور اس کی غیر موجودگی میں اس پر مقدمہ چلا کراسے بدعتی قرار دے دیا گیا !
لیکن نسطور کی قسمت ابھی اچھی تھی اسی اثنا میں اس کے حامیوں کی تعداد "جان آف انطاکیہ" کی قیادت میں افسیس پہنچ گئی ،ان کو جب علم ہوا کہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی کونسل منعقد کی جاچکی ہے تو انہوں نے انتقاما اپنی کونسل منعقد کی جس میں سائرل کوایک ایسا خوفناک عفریت و  بدعتی قرار  دیاجو کہ چرچ کی تباہی کے لیے دنیا میں آیا ہے ، اور اسے پوپ کے عہدے سے برخاست کردیا۔ شاہ تھیوڈوس دوئم گوکہ نسطور کا حامی تھا لیکن سائرل کو روما کے پوپ اعظم کی حمایت حاصل تھی ۔دونوں جماعتیں فیصلے کے لیے بادشاہ کی طرف متوجہ ہوئیں جس کے درباریوں کو سائرل پہلے ہی رشوت دےچکا تھا۔بادشاہ نے مجبور ہوکر نسطور کو آرچ بشپ کے عہدے سے ہٹا دیا اور اس کی درخواست پر اسے اپنے وطن انطاکیہ جانے کی اجازت مل گئی ۔ لیکن سائرل کے انتقام کی آگ ابھی نہ بجھی تھی اس نے بادشاہ کے درباریوں کو پھر ابھارا جنہوں نے بادشاہ کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ نسطور ملحد کو مصر کے صحرائی علاقوں کی طرف جلاوطن کردے اور اس کے سارے حامیوں کو کلیسا کے عہدوں سے برطرف کردیا گیا ،نسطور بعض مورخین کے مطابق اسی جلا وطنی کے عالم 450 ء میں وفات پاگیا اور راسخ العقیدہ عیسایئوں نے داستان گھڑی کہ اس کی زبان میں کیڑے پڑ گئے تھے۔سائرل نے اس کے بعد اپنی موت (444ء) تک اس تبلیغ میں کوئی دقیقہ کوشش نہ چھوڑی جو کہ ثابت کردے کہ کنواری مریم "خدا کی ماں" ہے ۔
سائرل جیسے سکالر کا ارادہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن عیسائی دنیا جس کے اندر مریم پرستی چوتھی صدی ء سے بت پرست قوموں کی وجہ سے سرایت کرچکی تھی اور وہ پانچویں صدی کے آغاز پر ہونے والے اس معرکے کو دم  سادھے دیکھ رہی تھی اس کو اس کا ایک مذہبی جواز بھی مل گیا ۔ نسطور نے بنیاد پرستوں کو ناراض کردیا تھا کنواری مریم جو کہ ابھی تک عزت و احترام کا ایک نشان تھی اس کو پوجا نہ جاتا تھا  گوکہ بعض جگہوں پر یہ قبیح رسم بھی جاری تھی لیکن اس کو کلیسا کی حمایت حاصل نہ تھی آگے جو کچھ ہوا اس کا حال ہم آپ کو عیسائی علماء کی تحاریر سے سناتے ہیں ،
فادر ہیرس لکھتے ہیں
"نسطوری بدعت افسیس کونسل منعقدہ 431 ء میں رد کی گئی ،اس کے ردعمل میں لوگوں نے خدا کی ماں کی تکریم شروع کردی جوں جوں عیسی کے خدا ہونے کا عقیدہ قائم ہوتا گیا اور اس کی انسانیت دھندلاتی گئی 'بابرکت کنواری کے رحم اور ملاطفت کے عقیدہ میں اضافہ ہوتا چلا گیا ،اس کی تصاویر ہر جگہ نظر آنے لگیں اس سے متعلق کہانیاں شوق سے سنی جانے لگیں آہستہ آہستہ اس کی زندگی و موت کے بارے میں روایات تحریر ہوئیں ،جعلی بیانات کی خاصی مقدار اکھٹی ہوگئی اس کے لیے نئے نئے خطابات وضع ہوئے ،خدا کی ماں کا خطاب اکثر مستعمل تھا زبردست مخالفت کے باوجود مریم کے صعود آسمانی کی کہانی رواج پاگئی جسے کلیسا نے بدستور درست مان لیا ،یہ کہانی آسمانوں میں کنواری مریم کی فضلیت کی بنیاد بن گئی جو فی زمانہ کیتھولک کلیسا عموما مانتی ہے مقدسہ مریم کو آسمان پر پہنچا کر پادریوں نے اسے ملکہ آسمانی قرار دیا اور اسے پوجنے لگے ۔(رومن کلیسا کی ہندوستان میں تعلیمات و طریق کار۔جائزہ از ریورنڈ ڈبلیو پی ہیرس)
تاریخ کلیسا کا تیسرا دور 313 ء تا 590 ء، مریم پوجا عام ہوگئی اس کے سدا کنواری رہنے کے متعلق عقیدہ عیسایئوں میں زور پکڑ گیا نسطوری بحث کے دوران اس نے "خدا کی ماں" کا لقب پایا پجاریوں کے دلوں میں سب ولیوں سے اونچے مقام پر فائز ہوئی ۔راہب ،مریم پوجا کی ترویج کے بالخصوص مشاق تھے ،عیسائی عوام اس کی اور اس کے بعد اولیا کی سفارش کے آرزو مند تھے ،مسیح سے ایسی جسارت نہ کرتے تھے جس کی شان بڑھاتے بڑھاتے اسے انسانیت سے محروم کرچکے تھے ۔(تاریخ کلیسا از پروفیسر فشر)    
بات صرف کنواری مریم تک محدود نہ رہی بلکہ اولیا تک کی پوجا کی جانے لگی
"کلیسا کی روحانی حالت بہت بگڑ گئی ایسی کے بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے عیسائی بت خانوں میں جاکر نمازیں ادا کرنے لگے دیوتاوں کے لیے پروہت کا کام بھی شروع کردیا رومی دیوتاوں کی قربانیوں میں بھی شریک ہونے لگے عیسائی عورتوں نے پجاریوں سے شادی کیں ناپاکی بہت بڑھ گئی (تواریخ کلیسا از فادر ہیرس)
سائرل کی گمراہی نے مریم پوجا کا روپ دھار لیا ،اور نسطور سولہویں صدی عیسوی میں لوتھر کی شکل میں دوبارہ زندہ ہوگیا جس نے مریم پوجا کا انکار کردیا اور ان کی اور حضرت مسیح کی تصاویر و مجسموں کو بت پرستی کے برابر قرار دے دیا۔ اس بار کلیسا کسی کو صحرا میں مرنے کے لیے نہ بھیج سکا اور گھٹ گھٹ کر اپنے پیروکاروں کے گھٹنے کا تماشہ دیکھتا رہا ۔الحاد نے جب ان عقیدوں پر حملے کیے تو مقدس مریم کو الوہیت کے مرتبے سے تو ہٹایا ہی ،لیکن یہودیوں کی طرح  بدکاری(نعوذبااللہ) کا مرتکب بھی ٹہرا دیا ۔ کلیسا کو آج تک احساس نہیں ہوسکا کہ اس الحاد و کفر کی بنیاد سینٹ سائرل نے بہت پہلے اسکندریہ میں رکھ دی تھی ۔

صحرا کا راہب۔

ان کا ظہور مصر میں ہوا ،ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہوتیں، جسم پر تھکن کے آثار،گندے وجود و کپڑے جو اس بات کی چغلی کھارہے ہوتے کہ انہوں نے کئی ماہ سے پانی کا منہ تک نہیں دیکھا،فاقہ کشی سے وجود سوکھ کر کانٹا بن گیا ہوتا ،یہ بستیوں سے دور رہتے اور جو بھی ان کے قریب جاتا اس کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرتے ۔ دن میں یہ گلیوں و بازاروں میں باآوز بلند نعرے بلند کررہے ہوتے ۔ 'خداوند یسوع مسیح پاک ہے' جو نجات چاہتا ہے وہ یسوع کے پاس آئے " اور رات ہوتے ہی یہ صحراوں یا ویرانوں میں گم ہوجاتے ۔ ان میں سے بعض بہت سالوں تک منظر عام سے غائب ہوجاتے اور جب لوگوں کو ان کے مرنے کا تقریبا یقین ہوجاتا تو پھر کہیں سے خبر ملتی کہ اس نے اپنے آپ کو کسی صحرائی خانقاہ کے ایک کمرے میں بند کررکھا ہے جہاں کی سختیوں سے اس کا جسم سوکھ کر کانٹا بن چکا ہے لیکن خداوند یسوع مسیح کی طاقت سے وہ ابھی تک زندہ ہے ، بعض اپنے آپ کو رسیوں سے جکڑ لیتے یا راتوں کو اپنے آپ کو کسی ستون کے ساتھ باندھ لیتے تاکہ سو نہ سکیں ،اگر کیڑے مکوڑے انہیں کاٹتے تو یہ انہیں اپنے بدن سے نہ ہٹاتے ،بیماریاں ان کو بے حال کردیتی لیکن یہ کسی بھی قسم کی دوا نہ لیتے ۔ ان کا محبوب مشغلہ کسی محدود جگہ پر اپنے آپ کو بند کرکے گھنٹوں آسمان کو تکتے رہنا تھا۔ یہ بیماروں و کوڑھیوں کے پاس بلاجھجک چلے جاتے اور ان کو مسیح کی نجات اخروی کا مثردہ سناتے ،ان کا لباس ٹاٹ کا ہوتا یا یہ وجود پر ایک کپڑا سا ڈالے رکھتے  جو کہ ان کے مرنے پر ان کے ساتھیوں میں تقسیم کردیا جاتا ،یہ گرمیوں میں بھی گرم پانی پیتے ان میں سے بعض تو شبنم کو بطور پانی کے استعمال کرتے تاکہ دنیا کے حرام سے محفوظ رہ سکیں ،صرف اپنے ہاتھ پکا کھانا ان کے زیر استعمال ہوتا،جو شخص بھی ان کے اندر شامل ہوتا اس کی باقاعدہ جبہ پوشی ہوتی اور اسے خرقہ عنایت کیا جاتا۔شادی و خاندانی زمہ داریوں سے یہ کوسوں دور بھاگتے تھے ،ان میں سے بعض اپنے بچوں کو موت کے منہ میں چھوڑ کر اس صحرا میں آگئے تھے ،بعض کے بوڑھے والدین جب ان کی تلاش کرتے کرتے ان تک پہنچتے تو یہ ان سے ملنے سے انکار کردیتے اور وہ بیچارے ان کی خانقاہ کی چوکھٹ پر دم توڑ جاتے لیکن ان کے دلوں میں کوئی رحم نہ پیدا ہوتا۔
ضعیف الاعتقاد لوگوں میں ان کے متعلق عجب کہانیاں مشہور تھیں ،کچھ کے متعلق مشہور تھا کہ شیطان اس کو خود ورغلانے آیا تھا لیکن وہ ورغلایا نہ جاسکا، کسی کے متعلق مشہور تھا کہ شیطانی قوتوں نے بچھووں ،جنگلی جانوروں ، جووں کی صورت میں اس پر حملہ کیالیکن اس نے خداوند کی طاقت سے ان پر فتح پائی ،بعض کے متعلق یہ مشہور تھا کہ کئی درجن کنواریاں برہنہ ہوکر اس کے سامنے آئیں لیکن وہ اس مرد درویش کو بہکانے میں ناکام رہیں ، لوگ ان کے سحر کا شکار ہونے لگے ،یہ مسیح کے راہب تھے جو کہ اسی کی طرح دکھ اٹھانے دنیا ترک کررہے تھے اور اپنے وجود کو تکالیف و مشکلوں میں ڈال کر خداوند یسوع مسیح میں جذب ہوجانا چاہتے تھے ۔ بادشاہ ان کی دعاوں کے طلبگار رہتے کیونکہ ان کو مستقبل کے متعلق بتایا جاچکا تھا ،لوگ ان کے نام لے کر مختلف آفتوں سے پناہ طلب کرتے ان میں سے ہر ایک درویش کسی ایک تکلیف ،دکھ یا مصبیت کے ساتھ منسوب تھا ۔
یہ سینٹ انتھونی  (انطونیوس)کے پیروکار تھے ، یہ سادہ مزاج شخص مصر کے ایک گاوں میں251ء میں  پیدا ہوا اس کے والدین 18 سال کی عمر میں وفات پاگئے، چند سالوں بعد اس نے عیسایئت قبول کرلی اور مسیح کے سچے راستے پر چلنے کے لیے صحرا کا رخ کیا ،اس نے اپنی اکلوتی بہن کو بھی ایک خانقاہ میں دوسری راہباوں کے ساتھ چھوڑ دیا تاکہ وہ بھی مسیح کے سچے راستے پر چل سکے ۔لیکن یہ صحرا نوردی اختیار کرنے والا پہلا راہب نہیں تھا یہ جب مصر کے صحرائے سینا میں پہنچا تو اس سے پہلے بہت سے لوگ وہاں پر جسمانی وجود سے نجات پانے کے لیے موجود تھے ،لیکن انتھونی نے اپنے ہم عصر تمام راہبوں پر فوقیت پائی اور تاریخ میں سینٹ انتھونی دی گریٹ کے نام سے مشہور ہوا،اس کو راہبوں کے مشرقی سلسلے کا بانی سمجھا جاتا ہے ،جوکہ شا م، مصر و اردن میں بہت مقبول ہوا،مغربی کلیسا میں یہ رحجان بہت بعد میں مقبول ہوا لیکن انتھونی کی حد تک اس نے ایک فلسفے یا تعلیم کا جامہ نہ پہنا تھا ،اناتھیوسس نے جو کہ بعد میں اسکندریہ کا پوپ بھی بنا اور انتھونی کا ہم عصر ہے  اس کی کہانی بیان کی جو کہ بہت مقبول ہوئی اور یہ ازم عیسائی سرزمینوں میں پھیلتا چلا گیا ،سینٹ باسل نے اسے ترکی تک پہنچایا،مارٹن آف تورس نے فرانس میں پھیلایا،پانچویں صدی ء میں سینٹ آگسٹائن نے شمالی افریقہ میں خانقاہ قائم کی اور اس کے باقاعدہ  اصول و ضوابط لکھے ،یورپ میں یہ چھٹی صدی عیسوی میں پہنچا جب سینٹ بنیڈکٹ آف نورسیا نے اپنی خانقاہ کی بنیاد وہاں پر رکھی ۔انگلش سرزمینوں میں یہ مقبول ہوا لیکن وہاں پر اس کی صورت اکیلے رہنے کی نہ تھی بلکہ یہ لوگ خانقاہوں میں رہتے ، نوجوان لڑکیاں جو کہ اپنے آپ کو یسوع مسیح کی خدمت کے لیے وقف کردیتیں ان کے لیے الگ خانقاہیں ہوتیں۔یہ خانقاہیں غریبوں کو کھانا کھلاتیں ، زخمیوں و بیماروں کی دیکھ بھال کرتیں ،ان کو شادیاں کرنے کی اجازت نہ ہوتی،اور یہ معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارتے ۔ انہی خانقاہوں سے عیسائی مشنزیز کا وجود عمل میں آیا ،اور عیسائی دنیا کے چند ظالم ترین فرقے بھی ،صلیبی جنگوں کے دوران انہی خانقاہوں کے راہب مسلمانوں کے خلاف ایک مجنونانہ مذہبیت کے جذبے سے سرشار ہوکر لڑے ،ٹمپلرز اور ہاسپٹلرز ایسے ہی  فرقوں کی مثالیں تھیں جنہوں نے تجرد سے فوجی تجرد کی شکل اختیار کی ۔ان میں سے ہر خانقاہ کسی ولی سے منسوب ہوتی جو اس کے لکھے ہوئے طریقت کے طریقے کی پیروی کرتی اور ان میں آپس میں بھی اختلاف پایا جاتا۔
اس تجرد والی زندگی نے گو کہ عیسایئت کے پھلنے پھولنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ،لیکن اس کے غلبے سے یہ خیال بھی پروان چڑھ گیا کہ عیسایئت کا اصلی راستہ یہی ہے اور ان خانقاہوں کے اندر گناہوں کے ایسے مظاہر نے جنم لیا جن کی مثال اس سےپہلے نہ ملتی تھی ، عیسایئت کے عقل سے بلند عقیدے کے لیے یہ طرزعمل بہت موزوں تھا، ایک مجنونانہ قسم کی راہبانیت ،جس میں سوال پوچھنے کی اجازت نہ ہو بلکہ وضع کردہ طریقے پر جسمانی آلائشوں سے نجات پانے کے لیے عمل کیا جائے ،ان میں باقاعدہ خرقہ پوشی ہوتی اور ایک مخصوص قسم کا لباس پہننے پر لوگوں کو رضامندی ظاہر کرنی پڑتی ،ابتدائی تین صدیوں میں یہ باقاعدہ کوئی فلسفہ نہ رکھتا تھا لیکن بعد میں کچھ پڑھے لکھے ولیوں نے اسے باقاعدہ ایک علم کی شکل بھی دے دی ، زہد فلسفے کا رنگ اوڑھ کر باطنیت کی صورت میں جلوہ گر ہوگیا،عیسائی کلیسا کواس کے کوئی مسئلہ نہ ہوا یہ ان کی انحراف شدہ کتابوں میں اور ان کی  کلیسا کی تعلیمات میں موجود تھا،بلکہ یہ پوپ کی ایسی فوج تھی جس کو وہ کسی بھی وقت حرکت میں لاسکتا تھا ،یہ اس کی روحانی قوت کی سب سے بڑی دلیل تھی ان خانقاہوں میں رہنے والے لوگ انجیل مقدس و دوسرے آسمانی صحائف کو روز پڑھتے لیکن اس کا مطلب یا مفہوم نہ جانتے ہوتے ۔یہ تقریبا تصوف کی وہی صورت تھی جس نے اسلامی دنیا میں بھی جنم لیالیکن اس کا فلسفہ کبھی بھی ان سرزمینوں پر پھل پھول نہ سکا کیونکہ اللہ کی کتاب و رسول کی سنت اپنی اصل شکل میں موجود تھی ۔
الحاد کو جس عیسایئت سے پالا پڑا وہ انہی عیسائی صوفیوں کے معجزات و کرامات کی کثرت تھی ،یہ عیسائی دنیا میں اتنے مقبول تھے کہ وہ کسی علمی مسئلے کی بحث کے دوران ان کو بطور استدلال پیش کرتے تھے ،کسی بندے کے سچا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی سمجھ لیا جاتا تھا کہ اس نے یسوع مسیح ،سینٹ پیٹر یا پال کو خواب میں ،یا بیداری کے عالم میں یا کسی پہاڑی یا دریا کے کنارے پر اپنے آپ سے مخاطب پایا اور اس نے انہیں فلاں فلاں کام کے کرنے کا حکم دیا ہے ،اولیا کے مکاشفات ، خواب  وغیرہ دلائل کی صورت اختیار کرگئے ،سینٹ انتھونی آریوس کے دین کے پھیلنے کی اطلاع پاکر اپنی تجرد کو چھوڑ کر اسکندریہ آیا اور صرف اپنی روحانی قوت کے بل بوتے پر اس فتنے کو روک دیا !! ایسی کہانیوں کی عیسائی مذہب میں کمی نہ تھی اور ان کو جھٹلانے میں الحاد کو ایک منٹ کا بھی تذبذب لاحق نہ ہوا، لیکن حضرت عیسی کے مذہب کی غلط تشریح کی وجہ سے اس کی بنیادیں کلیسا نے خود انجیل و بائبل میں ڈھونڈ نکالی تھیں ،الحاد کے پاس اور کوئی راستہ نہ بچا کہ وہ مکاشفات کے ساتھ ساتھ وحی کا انکار بھی کردے جس کو کلیسا خود داغدار کرچکا تھا۔      
 (عیسائی رہبانیت کے متعلق اور جاننے کے لیے سید مودودی کا یہ مضمون ضرور پڑھیے)


باب 4 (زیر تکمیل)

رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے ہیں,اور اپنی اِس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے.سورہ الروم

جوان و باہمت ہرقل کے چہرے پر تفکر کی لکیریں واضح تھیں ، فوکاس مارا جاچکا تھا لیکن ہرقل جانتا تھا کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ، فوکاس تو چھوٹی رکاوٹ تھی جو کہ جلد یا بدیر خود ہی راستے سے ہٹ جانی تھی لیکن اصل خطرہ کسری کا تھا۔ ہرقل کو اچھی طرح معلوم تھا کہ رومی شہنشاہ مارئیس نے خسرو دوئم کو اقتدار واپس لینے میں مدد کی تھی اور وہ مارئیس کو اپنا روحانی باپ کہتا تھا ۔ گوکہ فارس کی اور روم کی سلطنتوں کی دشمنی مسلمہ تھی لیکن مارئیس نے عین بغاوت کے وقت خسرو کی مدد کرکے اس دشمنی کو وقتی طور پر دوستی سے بدل دیا تھا ۔فوکاس نے جیسے ہی رومن بادشاہ مارئیس کے خلاف بغاوت کی اور اس کو اس کے بیٹوں سمیت تہ و تیغ کردیا اسی وقت سے خسرو کے غیض و غضب کی کوئی انتہا نہ رہی تھی ،مارکوئیس کے ایک وفادار کمانڈر نے ایک لڑکے کو شاہی لباس پہنا کر خسرو کی خدمت میں بھیج دیا تھا کہ یہ مارئیس کا بیٹا ہے ،تجھ پر فرض ہے کہ اس کی اسی طرح مدد کر جیسے کہ اس کے باپ نے تیری مشکل وقت میں کی تھی ۔خسرو اس کو تائید غیبی سمجھ رہا تھا وہ کب سے رومی سلطنت پر نظریں جمائے بیٹھا تھا لیکن مارئیس کی مروت اس کے قدم روکے ہوئے تھی ،لیکن اب اس کے پاس ایک اخلاقی و قانونی جواز تھا ۔روم کی سلطنت کو فتح کرکے اس کے اصل حقدار کے حوالے کرنا،خسرو نے اپنی فوجوں کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا،اور جلد ہی اس کی فوجوں نے رومی سلطنت کے قرب و جوار پر قبضہ کرلیا،الرھا کا شہر جس کے بارے میں عیسایئوں کا دعوی تھا کہ یسوع مسیح خود اس کی حفاظت فرمائیں گئیں پہلے ہی ہلے میں روند دیا گیا !
لیکن اس پیش قدمی کے اور آگے بڑھنے سے پیشترہی  روم میں تبدئیلی واقع ہوچکی تھی ، خسرو کی فوجیں پہنچنے سے پہلے کارتھج کے گورنر کا بیٹا ہرقل فوجیں لے کر پہنچ گیا۔ فوکاس نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن قابل ذکر حمایت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی فائدہ نہ ہوا، فوکاس کو اسی بےدردی سے قتل کردیا گیا جس سے اس نے مارئیس کو قتل کیا تھااور لوگوں نے  کارتھج (افریقہ)سے ان کی مدد کو آنے والے ہرقل کو نیا آگسٹس مقرر کردیا  ۔ ہرقل اب پورے روم کا بادشاہ تھا ، اس بیدار مغز حکمران کو علم تھا کہ خسرو اس خبر کو سن کر بھی نہ رکے گا کہ اس کہ محسن کے قاتل اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں بلکہ اس کو سنہری موقع جان کر حملہ کرکے رہے گا ،ہرقل کے پاس مکمل اطلاعات تھیں لیکن وہ جانتا تھا کہ اندرونی بغاوتوں و لوٹ مار کی وجہ سے اس حملہ کو روکنا ممکن نہ ہوگا ،فوج بہت کمزور ہوچکی تھی اور اس کی متعد بہ تعداد آپس میں لڑکر برباد ہوچکی تھی ، ہرقل نے اپنے آپ کو تقدیر کے حوالے کردینے کا فیصلہ کیا ، لیکن یہ سخت حالات بھی اس کو "اپنی سگی بھانجی مارٹینا کے ساتھ شادی سے نہ روک سکے "۔چرچ نے  واویلا تو مچایا لیکن آخر کار قسطنطنیہ کے پوپ نے خود اس شادی کی تقریبات کا انعقاد کیا ،ہرقل نے اپنی بدقسمتی کی بنیاد خود اپنے ہاتھوں سے 613 ء میں رکھ لی ۔
خسرو کا حملہ 614 ء میں شروع ہوا ، یہ ایک طوفانی حملہ تھا جو کہ اپنے راستے میں آنے والی رومن فوجوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑاتا لے گیا ،615 ء تک یہ شام پر مکمل قبضہ کرچکا تھا دمشق و یروشلم  روم کے ہاتھوں سے نکل چکے تھےاور ان کی آبادی قتل کی جاچکی تھی ، یروشلم و اسکندریہ کا کلیسا ایرانی فوجوں نے اپنے پاوں تلے روند ڈالا اور راستے میں آنے والے ہر عیسائی کو بلا امتیاز تہ و تیغ کردیا ، اس قتل عام میں یہودی ان کے ساتھ تھے جو کہ کب سے عیسایئوں کے ہاتھوں غیر انسانی سلوک کا سامنا کررہے تھے ، کلیسا پر سب سے بڑا پہاڑ یہ ٹوٹا کہ "صلیب مقدس" یروشلم میں ایرانی فوجوں نے چھین کر اس کو ایران  کے شہر مدائن منتقل کردیا ،عیسائی دنیا حیرت سے یہ مناظر دیکھ رہی تھی کہ ان کے مقدس مقامات بھی ایرانی فوجوں کی یلغار سے بچ نہ سکے تھے ، ان کے تقدس و ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے ،افسانے ہی ثابت ہوئے ، کلیسا ان تمام مشکلات کا زمہ دار ہرقل کی اپنی بھانجی سے  ناجائز شادی کو قرار دے رہی تھی اور ہرقل قسطنطنیہ میں چھپا ہوا صلح کی کوششیں کررہا تھا۔ایرانی فوجیں شام کی تسخیر کے بعد مصر کے لیے پر تول رہیں تھیں ، روما کی سلطنت پر اس کے قیام سے لے کر اب تک ایسا مشکل وقت کبھی نہ آیا تھا
لیکن عرب کے ریگستانوں میں ایک تن تنہا ، بلند حوصلہ ، باوقار و پر عزم شخص محمد ؐ ایک عجیب و غریب پیشین گوئی کررہے تھے
” قریب کی سر زمین میں رومی مغلوب ہوگئے ہیں ، مگر اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر اندر ہی وہ غالب آجائیں گے ، اور وہ دن وہ ہوگا جب کہ اللہ کی دی ہوئی فتح سے اہل ایمان خوش ہورہے ہونگے۔(سورہ روم)
عرب کے متکبر سرداروں نے اس پیشین گوئی کو حیرت سے سنا اور طنزا ہنس دیئے ، یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے ، رومی فوج تباہ ہوچکی ہے اردن،شام ، فلسطین اس کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور مصر کے درودیوار پر ایرانی فوجیں دستک دئے رہی ہیں ،اور یہ کہہ رہے ہیں کہ عنقریب ان کو شکست ہوجائے گی !!رومیوں کو فتح کیا ہونی ہے بہرحال ہم ان مسلمانوں کو ایسے ہی شکست دے کر ان کے گھروں سے نکال دیں گئیں جیسا کہ ایرانیوں نے رومن عیسایئوں کو نکالا ہے
لیکن شمع رسالت کا ایک پروانہ ایسا بھی تھا جو کہ سینہ پھیلائے یہ کہہ رہا تھا کہ ہاں ایسا ہوکر رہے گا ، یہ زبان رسالت سے نکلا ہے اور یہ لکھا جاچکا ہے !! ابی بن خلف سے یہ برداشت نہ ہوا فورا صدیق اکبر سے شرط لگانے پر تیار ہوگیا ،
تو لگاتے ہو شرط؟ ابی بن خلف کے انداز میں چیلنج تھا
ہاں لگا لو! صدیق اکبر بے نیازی سے بولے
چلو طے ہوا کہ اگر رومی تین سال میں غالب آگئے تو دس اونٹ میں دوں گا اور نہ آئے تو دس اونٹ تم دے دینا ،ابی بن خلف استفہامیہ انداز میں بولا
مجھے منظور ہے ! صدیق اکبر کے لہجے میں پورا یقین تھا
محمد ؐ کو خبر ملی ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ شرط کی مدت بڑھا لو اور اونٹوں کی مقدار بھی  100 کرلو ، تین سےدس سال تک کی مدت مقرر کرو ،صدیق اکبر نے سر تسلیم خم کیا !شرط طے ہوگئی
ایرانی فوجیں 619 ء تک مصر کو بھی روند چکی تھیں اور قسطنطنیہ کے دروازوں پر دستک دے رہی تھیں ،ہرقل نے صلح کی آخری کوشش کی لیکن خسرو کا جواب بہت ہی ہتک آمیز تھا

” سب خداوٴں سے بڑے خدا، تمام روئے زمین کے مالک خسرو کی طرف سے اس کے کمینہ اور بے شعور بندے ہرقل کے نام،
تم ابھی تک کیوں اپنے آپ کو بادشاہ کہلواتے ہو اور ہمارے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے ؟ کیا میں نے رومیوں کو تباہ نہیں کردیا ؟تمہارا کہنا ہے کہ خدا پر تمہارا ایمان ہے !اس خدا نے میرے ہاتھوں سے اسکندریہ (مصر)، یروشلم(شام) ،اور قیصریہ  (ترکی)کو کیوں نہیں بچایا؟ اور کیا میں قسطنطنیہ کو تباہ  نہ کروں گا؟ لیکن میں تمہارے قصور معاف کرنے پر تیار ہوں اگر تم میرے حضور اپنے بیوی بچوں سمیت حاضرہوجاو،میں تمہیں جائداد بخشوں گا،اور مال و دولت سے نوازوں گا۔خبردار یسوع مسیح پر اعتبار نہ کر بیٹھنا جو کہ اپنے آپ کو یہودیوں کے ہاتھوں مصلوب ہونے سے بھی نہ بچا سکے ! اگر تم زمین کی گہرایئوں میں جا چھپو گئے تو میں تمہیں وہاں سے بھی کھوج نکالو گا"
عیسایئت کے ایوانوں پر ایک لرزہ طاری تھا اسقفوں نے گرجوں کی گھنٹیاں بجائیں ، راہب اپنی گوشہ نشنیوں سے دیوانہ وار نکلے ، اور گلیوں بازاروں میں خداوند یسوع مسیح اور کنواری مریم کے نام کی دہائی دینے لگے ، پوپ نے چر چ کا سارا پیسہ سود پر ہرقل کے حوالے کردیا ،پادری و راہب سلطنت کے دوردراز گوشوں میں منادی کرتے ہوئے روانہ ہوئے کہ جنگ کے لیے تیار ہوجاو ،عالم مسیحیت پر حملہ ہوگیا ہے ،عورتیں اپنے نوجوان بچوں کو جنگ کے لیے بھیجنے لگیں ، لوگ کلیساوں میں جمع ہوتے اور صلیب مقدس کے چھینے جانے کو اور یروشلم کے سب سے مقدس کلیسا کے برباد ہوجانے پر آنسو بہاتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ،عربوں کے عیسائی قبیلے بھی آکر آکر جنگ کی تیاری کرنے لگے جس کو بظاہر جیتنے کا کوئی امکان نظر نہ آتا تھا ، لیکن اولعزم ہرقل آخری جوا کھیلنے پر تیار تھا ۔ مورخین بیان کرتے ہیں کہ ہرقل نے ایک خواب دیکھا تھا جس میں ایک شخص نے آکر اسے تلقین کی تھی کہ ایرانیوں کے مقابلے کے لیے نکلو فتح تمہارا مقدر ہوگئی ۔ ہرقل جو کہ ستاروں کی چالوں اور خوابوں پر بہت یقین رکھتا تھا اس ناقابل یقین نظر آنے والی مہم کے لیے تیار ہوگیا ،اس نے سلطنت کے بہترین لڑاکا چنے اور ان کو دو سال تک بہترین جنگی تربیت کروائی جس میں رومن فوجوں کے لڑنے کی ترتیب تک بدل دی گئی ۔یہ ایک نئی فوج تھی مذہبی جذبے سے معمور اور بہترین تربیت یافتہ
ہرقل کا حملہ 622 ء میں شروع ہوا ، رسول اللہ کی پیشین گوئی پر ابھی سات سال بھی نہ گزرے تھے ،ہرقل کی تربیت یافتہ فوج نے آرمینیا کے راستے ایران پر حملہ کرنے کا دھوکا دیا ، خسرو کی فوجوں کو جو کہ رومی سلطنت کے اندر گھس چکی تھیں مجبورا ہرقل کی فوجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پلٹنا پڑا، مقابلہ زور دار تھا لیکن ہرقل نے خسرو کی فوجوں کو"اسوس کی پہلی لڑائی" میں تباہ کرکے رکھ دیا ،ہرقل نے قسطنطنیہ پر ایرانیوں کے حملے کو ان کی توجہ بانٹ کر روک دیا تھا ، لیکن ہرقل ابھی فیصلہ کن جنگ نہ لڑنا چاہتا تھا اس لیے وہ قسطنطنیہ کو واپس ہوگیا جہاں پر اس فتح کے لیے اس کا کسی ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا ، عین اسی سال  رسول اللہ  کو اللہ کی طرف سے پہلی مدد ملی تھی اور  انصار مدینہ ،رسول اللہ کا استقبال کررہے تھے ،ہجرت مکمل ہوچکی تھی ۔
عالم عیسایئت کی ٹوٹی ہوئی امیدیں پھر جڑنی لگیں ۔ ہرقل کا دوسرا حملہ 624 ء میں شروع ہوا ، اس بار اس نے پھر ایران پر حملہ کرنے کا جھانسہ دیا ، خسرو کی فوجیں اس دفعہ تیار تھیں اس نے تین فوجیں روانہ کیں تاکہ وہ ایک جگہ مل کر ہرقل کی فوجوں کو تباہ کردیں ، لیکن ہرقل بہت چالاک ثابت ہوا ،اس نے ان فوجوں کے روم کے محاذ سے  ایران کے دفاعی محاذ پر پہنچنے سے پہلے پہلے حملہ کردیا اس بار ہرقل نے پیش قدمی روکی نہیں بلکہ کسری کی سلطنت کے عین قلب میں آذربائجان کے راستے  داخل ہوگیا اور خسرو کے آبائی علاقے ارمیاہ کو پاوں تلے روند دیا ،آتش کدہ ایران جو کہ تخت سیلمان کے علاقے میں تھا اس کو تباہ کرکے بجھا دیا ،یہ صلیب مقدس کا بدلہ تھا کسری کی فوجوں کو عبرت ناک شکست دی اور وہ خود اپنے ہی ملک میں تتر بتر ہوں گئیں ، اسی اثنا میں روم پر حملہ آور ایرانی فوج اور خسرو کی طرف سے بھیجی گئی دو اور فوجیں بھی ہرقل کے مقابلے کے لیے پہنچ گئیں ،ان کا ارادہ تھا کہ ہرقل کو تین طرف سے گھیر لیا جائے لیکن ہرقل کی بہترین  حکمت عملی کی وجہ سے یہ فوجیں کبھی بھی آپس میں مل  نہ پائیں ،اور ہرقل نے انہیں ایک ایک کرکے شکست دی ، خسرو کے بہترین کمانڈرز اس جنگ میں مارے گئے اور ایک کو اس حال میں فرار ہونا پڑا کہ اس جسم پر تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے بھی نہ تھے اور اس کا سارا حرم ہرقل کے قبضے میں تھا ، رسول اللہ کی پیشین گوئی تو 622ء میں ہی پوری ہوچکی تھی لیکن جھوٹ کی بنیاد پر بنا کلیسا آج تک اس کو ماننے سے انکاری ہے !
یہی وہ وقت و سال تھا جب کہ بدر کے میدان میں ابھرنے والا سورج ایک عجب منظر دیکھ رہا تھا تین سو تیرہ بے سروسامان متکبرین مکہ کے سامنے صرف ایک اللہ کے سہارے مقابلہ کرنے کے لیے کھڑے تھے ،اور شام کے وقت غروب ہوتے ہوئے سورج نے دیکھا کہ مشرکین مکہ کی لاشیں بدر کے کنویں میں گری پڑی ہیں اور مسلمان فتح کی خوشی میں اللہ کے نام کی تکبیرات بلند کررہے ہیں ، سورہ الروم کی دونوں پیشین گوئیاں حرف بحرف پوری ہوچکی تھیں
خسرو کی فوجوں نے ایک آخری کوشش 626 ء میں کی اور قسطنطنیہ کا سخت محاصرہ کرلیا لیکن یہ محاصرہ سود مند ثابت نہ ہوا اور ایرانی فوجوں کو اہل شہر کی سخت مزاحمت کی وجہ سے ناکام لوٹنا پڑا ، اس کے جواب میں ہرقل نے 627 ء میں کسری کی سلطنت پر فیصلہ کن حملہ کیا اور اس کے جنگ نینوی میں کسری کی فوجوں کو عبرت ناک شکست ہوئی ، خسرو دشت گرد کو چھوڑ کر سلطنت کے اندرونی علاقوں کی طرف بھاگ گیا ، اس بار ہرقل نے اسے تحقیر بھرا خط لکھا لیکن ہرقل اس جنگ کو ختم کرنا چاہتا تھا اس لیے اس نے پیش قدمی نہ کی ، 628 ء میں خسرو کو اس کے بیٹھے قباد نے مارڈالا اور رسول اللہ کے خط کو پھاڑنے کی پاداش میں یہ ظالم اپنے انجام کو پہنچا ، قباد نے فورا ہرقل سے صلح کی درخواست کی اور صلیب مقدس کو واپس کردیا ہرقل نے بخوشی یہ درخواست قبول کرلی اور 628 ء میں صلیب مقدس کو خود اپنے ہاتھوں سے یروشلم میں نصب کرنے گیا ۔
کچھ سال بعد ہرقل نے جب یروشلم میں یہودیوں کے قتل عام کا حکم دیا تو اس کی وجہ ایک خواب تھی جس میں اس نے دیکھا کہ ایک ختنہ کی ہوئی قوم اس کی سلطنت کو تباہ کردے گی ، لیکن ہرقل اس بار خواب کی درست تعبیر نہ کرسکا اور یہ سمجھا کہ شائد وہ قوم یہودی ہیں ، لیکن عرب کے صحراوں سے اٹھنے والا توحید کا طوفان جب تثلیث کے اس حکمران کے لشکر سے ٹکرایا تو پھر اس کو معلوم ہوا کہ خواب کی اصل تعبیر کیا تھی ! توحید کے تند و تیز جھکڑ کے سامنے تثلیث کا یہ نگہبان اپنی بہترین فوج اور مذہبی جو ش و جذبے کے باوجود نہ جم پایا ،اور شام کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہتے ہوا رخصت ہوا،قسطنطنیہ کے محل میں اس کی موت یوں ہوئی کہ اس کے رطوبت خارج کرنے والے اعضا مڑ گئے جس کی وجہ سے اس کا پیشاب اس کے منہ پر گرتا ! کلیسا نے اس مرض کو اس کی اپنی سگی بھانجی کے ساتھ شادی کا عذاب قرار دیا جس سے اس کے پانچ جیتے بچے تھے ، ہرقل کے مرتے ہی رومی تاریخ کا ایک اہم باب بند ہو گیا اور اس کی موت کے کچھ ہی عرصے بعد اس کی محبوب بھانجی بیوی کو بمعہ اس کے پانچوں بچوں کے ناک و زبانیں کاٹ کر جزیرہ رہوڈس کی طرف جلاوطن کردیا گیا ۔
ہرقل کو فتح صدیق اکبر کی شرط کی وجہ سے ملی تھی اور اس کو سزا ایمان کو سمجھ کر پھر بھی نہ قبول کرنے کی وجہ سے ملی تھی ۔          

 


باب 5

دور پاپایئت ۔

پاپائے روم یا پوپ کے عہدے کی تاریخ ڈیڑھ ہزار سال پرانی ہے۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسی کے مصلوب ہونے اور ان کی حیات نو کے بعد ، کئی سو سال تک مسیحیت کا کوئی مرکزی نظام نہیں تھا۔اس زمانے میں مسیحیت کے پانچ اہم مراکز تھے۔ یروشلم ، اسکندریہ، انتاکیہ ، قسطنطنیہ اور روم۔ روم کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل ہوئی کہ یہ سلطنت روما کا دارالحکومت رہا ہے اور روم کے بشپ کو یورپ کے عیسائیوں میں اہم مذہبی حیثیت حاصل تھی۔شہنشاہ کانسٹنٹائن کے زمانہ میں روم کے بشپ کو پاپائے روم یا پوپ کہا جانے لگا۔ شہنشاہ کانسٹنٹائن جب اپنا دارالحکومت روم سے قسطنطنیہ لے گیا تو پوپ کا مرکز روم ہی میں رہا اور یوں پوپ اور مملکت کے درمیان ایک واضح حد فاصل قائم ہوگئی اور پوپ کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہوگئی۔پوپ کو حضرت عیسی کے حواری سینٹ پیٹر کا جانشین تصور کیا جاتا ہے اور روم میں مسیحیت کے مرکز کے قیام کے لیے انجیل سے یہ توجیح پیش کی جاتی ہے کہ حضرت عیسٰی کا یہ قول تھا کہ ’میں ایک چٹان پر اپنا کلیسا تعمیر کروں گا‘ اور چونکہ پیٹر کے معنی چٹان کے ہیں لہذا یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسی کا اشارہ سینٹ پیٹر کی جانب تھا۔یہ بھی روایت ہے کہ سینٹ پیٹر روم آئے تھے اور یہیں انہوں نے جام شہادت پیا تھااور ویٹیکن میں سینٹ پیٹرس بیسیلیکا گرجا گھر کے نیچے دفن ہیں۔ چنانچہ اس بناء پر روم کو مسیحیت اور پوپ کا مرکز بنایا گیا۔
پوپ کا عہدہ  صرف مفتی اعظم کا عہدہ نہ تھا جو کہ دین کے معاملات میں شرعی نصوص سے رہنمائی کرتا ہویا پیش آمدہ مسائل میں فتوی دیتا ہو، بلکہ یہ مسیح کے روحانی اقدار کا وارث تھا جو کو روح القدس سے رہنمائی حاصل ہوتی تھی ۔ اس کا مقام شریعت کے (جو عیسوی مذہب میں سرے سے پائی ہی نہیں جاتی تھی) شارح کا نہ تھا بلکہ شارع کا تھا ۔ جو بوقت ضرورت نئی شریعت بھی گھڑ سکتا ہے ۔ان کے مطابق پوپ کو مندرجہ ذیل امتیازات و اختیارات حاصل ہیں
1)پوپ پر ایمان لائے بغیر نجات ممکن نہیں
2)روم کا پادری ہی پوپ بن سکتا ہے اس کے سوا اور کسی کے لیے یہ منصب روا نہیں ہے وہ عبادت گاہ کا سردار و غلطی سے پاک ہے
3) پوپ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرسکتا ہے
4)پوپ لوگوں کے گناہوں کو بخش سکتا ہے یہاں تک کہ مرے ہوئے لوگوں کے گناہوں کو بھی
5) پوپ صلیب کا نشان اپنے جوتوں پر بناتا ہے اور دوسرے پادری اپنے چہروں پر
6) تفسیر کا حق صرف پوپ کو ہے
7) پوپ حواریوں کے سردار سینٹ پطرس کا نائب ہے اور وہ تمام اختیارات جو کہ جناب پطرس کو حاصل تھے اس کو حاصل ہیں اور انجیل میں جتنے بھی فضائل ان کے متعلق بیان ہوئے ہیں وہ پوپ پر بھی صادق آتے ہیں
(مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا۔ مقالہ پاپایئت)
اس اجمال پر طائرانہ سی نظر ڈال لینے سے بھی یہ بات کھل جاتی ہے کہ "پوپ کی مذہبی پیشوایئت" کا اصل مقام کیا تھا۔ جدت پسند ذھن جب عیسایئت کو ہرا چکا تو اس کو ہر مذہب اسی رنگ میں رنگا نظر آیا جو کہ اس نے پوپ کا دیکھا تھا ۔ اس فکر خبیث کو ہر مولوی ،امام، یا اسلاف اسی پاپایئت کے مظہر نظر آئے جس سے وہ نبردآزما رہا تھا ۔حالانکہ اسلام میں ایسی پیشوایئت صدیوں میں بھی کبھی پیدا نہیں ہوئی ۔ اس کے بڑے سے بڑے امام یا مفتی اعظم نے بھی مخلوق خدا پر ان اختیارات کا دعوی نہیں کیا جس کو پوپ فخر سے اپناتا تھا۔ یہاں تک کہ بدترین سے بدترین خلافت کا دامن بھی ان اتہامات سے پاک ہے جس کو دعوی پوپ کو تھا۔پوپ کو زیادہ سے زیادہ تشبہیہ ہم جس سے دے سکتے ہیں وہ "امام معصوم" کا عقیدہ ہے جو کہ روافض کی پیداوار ہے ۔اور اسلام میں انحراف کے مترادف ہے۔ یعنی جو چیز اسلام میں انحراف ہے وہ عیسایئت کا طرہ امتیاز تھی ۔مغربی تہذیب آج جو مسلمانوں پر ایک تھیوکرٹیک ریاست قائم کرنے کا الزام لگاتی ہے اسلامی تاریخ اس تصور سے کبھی آشنا ہی نہیں رہی یہ اس کے ہاں کا پیدا کردہ تصور ہے جس کو گھسیٹ کر وہ ہر مذہبی فکر پر چسپاں کرتی ہے ۔
     عیسایئت میں اس منصب نے جب ایک ادارے کی شکل اختیار کرنا اصل میں اس مذہب کے وجود پر ٹھوکے جانا والا پہلا کیل تھا جس کا ادراک کلیسا کو بہت بعد میں ہوا۔سب سے پہلے "دین نے ایک ادارے " کا روپ دھارا ۔ جو کو ایک منظم شکل میں چلانا ضروری تھا ۔اداروں کی صورت میں اس کے قیام سے ایک "ادارتی درجہ بندی.Herarical level" کا ظہور میں آنا بھی لازمی امر تھا جو کہ کچھ نظم و ضبط کی پابندی کرے ۔ جہاں پر ایک نظام کی پابندی ایک مستحسن اقدام سمجھا جاسکتا ہے وہیں پر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک دین کے لیے باقاعدہ ایک ادارے کے قیام سے جو کہ کچھ وضعی قوانین بھی رکھتا ہو کرپشن و سیاست کا در آنا ایک لازمی امر تھا ۔ مختلف عہدوں کے لیے کھینچ تان ، کلیسائی سازشیں ،اپنے حامیوں و مخالفین کا گروہ پیدا ہوجانا، اقربا پروری ، اقتدار کی قوت کا نشہ کلیسائی نظام میں در آیا۔عیسایئت کا مذہبی ڈھانچہ بذات خود ایک طرح کا طبقاتی نظام تھا ۔ جو کہ شماس (چھوٹے پادری) سے شروع ہو کر کارڈنیل ، بشپ ،فادر کے مراحل سے گزرتا ہوا پوپ کے عہدے تک منتج ہوتا تھا۔اصل میں عیسایئت کو مذہبی عروج قسطنطین کے قبول عیسایئت سے حاصل ہوا تھا اور اسی نے چرچ کے مناصب کو بحال کیا تھا ۔ یہ ایک بڑا بادشاہ تھا اس کا وضع کردہ نظام اسی بادشاہی فکر پر مبنی تھا جو کہ حکمرانی کا رائج الوقت اصول تھا۔ پاپایئت شہنشاہت کے متوازی ایک شہنشاہیت تھی جو کہ نظام و فکر میں اس کے متوازی تھی ۔وہ زمین کے بادشاہ تھے تو یہ روحانیات کے ۔
مذہب کی ریاست سے علیحدگی کی بنیاد خود کلیسا نے ہی رکھ دی تھی ۔بادشاہ کسی بھی شریعت کی پابندی کیے بغیر حکمرانی کے اصول وضع کرسکتا تھا جب تک کہ وہ محافظ کلیسا کے فرائض سرانجام دیتا رہے اور پوپ کے روحانی اقتدار کو تسلیم کرتا رہے ۔پاپایئت ہی شریعت تھی جس کی پاسداری اسے کرنی تھی یہاں تک کہ کلیسا اتناطاقتور ہوگیا کہ روحانی کے ساتھ ساتھ اس نے دنیاوی بادشاہت کا اعلان بھی کردیا ۔اب بادشاہت ثانوی چیز تھی اصل حکمران پوپ ہی تھے ۔تیرہویں صدی میں پوپ بونی فیس ہشتم نے یہ دعویٰ کیا کہ بنی نوع انسان کے مذہبی اور دنیاوی امور پر پوپ کو مکمل اختیار حاصل ہے اور یہ بات انہوں نے منوا لی کہ پوپ سنیٹ پیٹر کے جانشین ہونے کے ناطے کسی کے سامنے جواب دہ نہیں اور نہ کوئی ان کا محاسبہ کر سکتا ہے۔
اس نے حکمران و مذہبی طبقے کے درمیان طاقت کی کشمکش کو جنم دیا ۔ جن بادشاہوں نے بھی پوپ کے اقتدار کو تسلیم کرنے سے زرا سا بھی انکار کیا اس پر کفر و لادینیت کا فتوی لگا کر اس کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کی گئی ۔ ایسی جنگوں کے سلسلے طویل ہیں بہت کم بادشاہ پاپایئت کے اس جبر کے آگے کھڑے رہ سکے ان میں سے ایک نام روم کے بادشاہ فریڈرک دوئم اور اس کے بیٹے کونارڈ کا ہے جس نے پاپایئت کی فوجوں سے بھیانک جنگیں لڑیں اور کامیاب رہا ۔

پاپایئت کے گھناونے جرائم 

"ہمارے پوپ کے خلاف فراہم کیے گئے ثبوت اس قدر واضح و مکمل ہیں کہ ان کی عزت کی بحالی کی ہر کوشش ناکام ہے ۔
Ludwig Pastor Freiherr von Campersfelden; quoted in A History of the Popes, Dr Joseph McCabe, op. cit., vol. 2
دنیا نے اخلاقیات کا اتنا گھٹیا میعار کبھی نہیں دیکھا جتنا کہ درمیانی مدت کے دوران پوپ کے اقتدار میں در آیا تھا۔Cambridge Modern History۔(vol. 1, p. 673).
کافی زیادہ پوپز گھٹیا زندگی کے حامل تھے ،ان میں سے کچھ جادوگر تھے ،کچھ فحاشی و زناکاری ،جنگجوئی ،قتل عام ،بدترین ذلالت،رشوت و اقربا پروری کے لیے مشہور۔ ان میں سے بعض خداوند یسوع مسیح پر ایمان بھی نہ رکھتے تھے بلکہ وحشی مجرم تھے  اور ہر تقدس کے دشمن  ۔ یہ شیطان کے بیٹے تھے جن میں سے بعض پادری کہلانے کے بھی مستحق نہ تھے ۔اور دوسرے گمراہ۔
(The Cradle of Christ, Bishop Frotheringham, 1877; see also Catholic Encyclopedia, xii, pp. 700-703, passim, published under the imprimatur of Archbishop Farley)


سینٹ گریگوری دی گریٹ۔عہد پاپایئت۔590-604 ء
اس نے مندروں و غیر مذاہب کی عبادت گاہوں کو ڈھانے کا حکم تو دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسکندریہ کی وہ عظیم لائیبریری بھی جلوا ڈالی جس کا الزام عیسائی ایک عرصے سے مسلمانوں کے سر ڈال رہے ہیں ۔اسے عیسائی مذہب میں ایک ولی کا درجہ حاصل ہے ۔
سینٹ گریگوری دوئم۔عہد پاپایئت 715 تا 731 ء
اس نے عیسائی مذہب میں تصویروں کو پوجنے کی حمایت کی جدوجہد کی ۔ اٹلی کے بادشاہ لیو نے جب تصویر پوجا کی مخالفت میں جب حکم جاری کیا تو اس نے اس کے خلاف مسلح بغاوت کردی ۔اور تصویر پوجا کے لیے شاہی فوجوں کو بے دردی سے قتل کیا ۔ اس کو بھی عیسائی مذہب میں ایک "ولی " کا درجہ حاصل ہے حالانکہ یہ تصویر پوجا کے لیے اٹلی کے ہزاروں بندوں کا قاتل ہے ۔
سٹیفن ھشتم۔عہد پاپایئت 896-97ء
اس نے اپنے سے پہلے پوپ فورمیسس کی لاش کو قبر میں سے نکلوایا اور پھر ایک کرسی پر بٹھا کر اس پر مقدمہ چلایا ۔اس کی مردہ لاش کو چھڑی سے ضرب لگاتا رہا اور جب مقدمہ مکمل ہوا تو سزا کے طور پر اس کی مردہ لاش کی تین انگلیاں کاٹ دیں اور اس کی لاش کو چیرپھاڑ کر سمندر برد کردیا۔
فحاشاوں کا غیر مقدس دور۔دسویں صدی عیسوی ۔(اس سیکشن میں میری طرف سے بہت کم الفاظ ہیں زیادہ تر ترجمہ ہے جو کہ عیسائی مصدقہ زرائع سے حاصل کیا گیا ہے )
یہ (پوپز) سونے جواہر سے لدے ہوئے گھوڑوں پر شکار کرتے جن کے ساتھ ناچنے والی لڑکیاں ہوتیں۔ جب شکار ختم ہوچکا ہوتا تو یہ ان بے شرم فحاشاوں کےساتھ ریشمی و مرصع بستروں کے اوپر محو استراحت ہوجاتے ۔ تمام رومن بشپزشادی شدہ تھے اور ان کی بیویاں مقدس خزانے(بیت المال) کے مال سے ریشمی کپڑے بناتیں تھیں ۔
BishopLiutprand of Cremona, whose Antapodosis treats papal history from 886 to 950, left a remarkable picture of the vice of the popes and their Episcopal colleagues, maybe with a little jealousy:
ان کی معشوقائیں شہر کی معزز ترین خواتین تھیں اور دو مکروہ ترین شاہی عورتیں ۔ تھیوڈورا اور اس کی بیٹی ماروزیا،دسویں صدی کی پاپایئت کی اصل حکمران یہ عورتیں تھیں ۔
(Antapodosis, ibid.). Renowned Vatican historian Cardinal Caesar Baronius (1538—1607) called it the "Rule of the Whores", which "really gave place to the even more scandalous rule of the whoremongers" (Annales Ecclesiastici, folio iii, Antwerp, 1597).
بشپ لیوٹپرنڈ نے تھیوڈورا کے متعلق جو معلومات فراہم کی ہیں اس کے مطابق اس نے ایک جواں سال خوبصورت پادری کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرے اور اسے راوینا کا آرچ بشپ بنادیا ۔ بعد میں تھیوڈورا نے اپنے اس محبوب کو راوینا سے بلایا اور اسے پوپ بنا دیا جسے تاریخ میں "پوپ جون ایکس" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
 Bishop Liutprand (pope 914—928, d. 928).
ماروزیا نے (اپنی ماں تھیوڈورا کے مرنے کے بعد) پوپ کے عہدے پر اپنے بیٹے "جون 11" کو نامزد کیا جو کہ 931 ء سے لے 935 ء تک پوپ نامزد رہا ۔ یہ گذشتہ پوپ ، سرگیییس 3 کا حرامی بیٹا تھا ۔(یہ بات یاد رہے کہ ماروزیا کے تعلقات بہت سے پوپز کے ساتھ رہے ہیں)
 "confirmed by Flodoard, a reliable contemporary writer" (The Popes: A Concise Biographical History, ibid., p. 162).
پوپ جان ایکس دوئم -:پاپائی اقتدار 954 ء تا 964 ء)
یہ سترہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں پوپ بنا اور جنسی و اخلاقی جرائم میں اپنے سے پہلوں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا مقدس پطرس کی گدی پر اس نے اتنا گند مچایا کہ عیسائی عورتیں اس کے زمانے میں عیسائی عبادات میں شرکت کے لیے روم نہ آتیں تھیں۔
"اس نے اپنے بدنام زمانہ کیریر کا آغاز بتوں کی پوجا سے کیا ۔اس نے شیطان کو ایک شراب پینے کی مجلس کے دوران ڈھالا اور اپنی بدنام زمانہ فحاشہ رکھیل مرسیا کو مقدس محل لاٹرن میں قائم شدہ شراب خانے کا انچارج بنادیا۔
The Popes, A Concise Biographical History, ibid., pp. 166-7) (Antapodosis, ibid.).
پوپ جان ایکس دوئم کو اپنے اردگرد خوبصورت عورتیں رکھنے کا شوق تھا۔اور اس کے خلاف قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اس کے ایک ماتحت نے مقدس بائبل پر قسم کھا کر یہ گواہی دی کہ یہ اپنی سگی بہن کے ساتھ بھی بدکاری کرتا تھا اور اپنی چرچ میں کام کرنے والی عورتوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بناتا تھا۔
said the monk-chronicler Benedict of Soracte
 (Annals of Beneventum in the Monumenta Germaniae, v).
یہ ایک عورت کی عصمت دری کرتا ہوا اس کے شوہر کے ہاتھوں ہلاک ہوا ، کلیسا نے یہ تو مان لیا کہ عورت کی عصمت دری کے دوران مارا گیا ہے لیکن شوہر کو شیطان کا نام دے دیا !!
 پوپ بونی فیس ہفتم اور بینڈکٹ نہم (974 ءتا 984۔1033 ء تا 1044 ء)
بونی فیس ایک خوفناک عفریت تھا جو کہ جرائم میں سب پہلوں کو پیچھے چھوڑ گیا ۔ لیکن پوپ بینڈکٹ نہم کی کی مجرمانہ زندگی خاص اہمیت کی حامل ہے جو کہ 1032 میں ایک خونی انقلاب کے بعد 12 یا 18 سال کی کم عمری میں پوپ بنا ۔اس نے فورا ہی اپنے تمام مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اور دھشت و بربریت کا ماحول پیدا کردیا ۔اس نے "پاپاوں کے محل" کا دروازہ ہم جنس پرستوں و اغلام بازی کے لیے کھول دیا اور اس کو اغلام بازی کا قحبہ خانہ بنادیا۔
 (The Lives of the Popes in the Early Middle Ages, Horace K. Mann, Kegan Paul, London, 1925).
پوپ لیو نہم ۔
"یہ ایمان سے پھر گیا تھا اور بتوں و معبودان باطلہ پر قربانی چڑھاتا تھا۔یہ نہیں جانا جاسکا کہ ایمان سے پھرنے کی اس کی کیا وجہ تھی ۔
(Catholic Encyclopedia, Pecci ed., iii, p. 117).

ایڈرین 4۔ پاپائی مدت ۔1154 ء تا 1159 ء
یہ کلیسا کا اکلوتا انگریز پوپ رہا ہے ۔ اس نے آرنلڈ آف برسکیا کو اپنے سامنے اس لیے زندہ جلوا دیا کہ اس نے "پاپاوں کی مالی بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھائی تھی"۔آئرش لوگ آج بھی اس کو اس وجہ سے جانتے ہیں کہ "آئرلینڈ کے ہر گھر کے پیچھے چرچ کو ایک پینی ادا کرنے کے بدلے اس نےآئر لینڈ کو انگریز بادشاہ ہنری دوئم کے حوالے کردیا تھا"

 صلیبی پوپ ۔

پوپ اربن دوئم ۔ پیٹر دی ہرمٹ۔1088 تا 1099 ء)
پہلی صلیبی جنگ کا نقیب و سپہ سالار،مسلمانوں کے ہاتھوں انطاکیہ میں سر قلم ہوا۔ یہ ظالم ترین پوپ ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ عیسایئوں و مسلمانوں کا قاتل ہے ۔اس نے کلیسا کی جائیداد میں "چوری و تشدد" کے زریعے اضافہ کیا۔ اس کے مطابق پوپ کی سلطنت کو پیسہ ادا کرنے کے لیے فرانس میں چوری جائز تھی ۔اس نے چوروں ، ڈاکووں ، قاتلوں اور بدترین مجرموں کے لیے یہ فتوی جاری کیا کہ اگر وہ صلیبی جنگ میں حصہ لیں گئیں تو ان کے گناہ معاف ہوجائیں گئیں اور وہ جنت میں داخل کیے جائیں گئیں ۔صلیبی یلغار کے دوران اس نے راستے میں آنے والے کیتھولک مذہب سے ہٹ کر ہر عیسائی ،مرد ،عورت ، بوڑھے ،بچے کو قتل کردیا ۔ اس جنگ میں اس نے مسلمانوں سے زیادہ مخالف فرقے کے عیسایئوں کو قتل کیا ۔
پوپ اربن سوئم۔1185 تا 1187
یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں حطین کے مقام پر صلیبی فوجوں کی شکست کی خبر سن کر صدمے سے چل بسا تھا۔یہ رومی بادشاہ فریڈرک دی گریٹ کے خلاف بھی جنگوں میں مصروف رہا اور بازنطینی بادشاہ قسطنطین کے خلاف جھوٹ گھڑتا رہا ۔
پوپ انوسنٹ سوئم۔ 1198 تا 1216
تاریخ پاپایئت کے مظبوط ترین پاپاوں میں سے ایک۔ دین عیسوی سے انحراف کرنے والے لاکھوں لوگوں کا قاتل۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے دامن پر دس لاکھ لوگوں کا خون ہے جس کو اس نے دین عیسوی سے انحراف کرنے کے جرم میں مارڈالا۔اس نے سن 1200 میں یروشلم کو مسلمانوں سے چھڑانے کے لیے ایک لشکر روانہ کیا لیکن وہ لشکر یروشلم کو مسلمانوں کےقبضے سے چھڑانے کے بجائے بازنطینی شہر قسطنطنیہ پر چڑھ دوڑا اور لاکھوں عیسایئوں کو قتل کردیا ۔قسطنطنیہ کو لوٹ کر آگ لگادی گئی اور اپنی ہی ہم مذہب عورتوں کی عصمت دری کی گئی ۔اس نے اپنے سے پہلے تمام کلیسائی ریکارڈز کو قبضے میں لے لیا اور ان کو دیکھنے پر پابندی لگادی ۔ اگر آج بھی کلیسا کی دیواریں توڑی جائیں تو ان کے اپنے کتب خانوں سے ایسی تاریخ برآمد ہوگی جس کو دیکھ کر بیگانے تو کیا اپنے بھی شرم جائیں ۔1215 کی لاٹرن کونسل میں اس نے "میگنا کارٹا" کی مخالفت کی ،اور یہودیوں کو الگ لباس پہننے کی پابندی پر مجبور کیا ۔ اس نے یہ بھی فتوی دیا کہ اگر کوئی بھی "عیسائی اپنے طور پر بائبل کو پڑھتے ہوئے پایا جائے تو اسے بغیر رحم کے سنگسار کردیا جائے'۔
عیسائی تاریخ میں اس کا بہت مقدس مقام ہے !!

پاپایئت کی یہ شرم ناک تاریخ اتنی لمبی کہ اس پر الگ سے ایک کتاب جمع کی جاسکتی ہے ۔ ہم نے یہ تفصیل اس لیے اکھٹی کی ہے کہ اس مذہبی ڈھانچے کا مکمل علم ہوسکے جس کے خلاف الحاد سرگرم عمل ہوا تھا۔ 
     (جاری ہے )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں