منگل، 1 اکتوبر، 2013

جنسی جرائم، پابندی یا آزادی!

ہماری قوم بھی عجب ہے ہر جنون کو چھوڑ کر "جنسی جنون" کے پیچھے لگ جاتی ہے ۔ بچیوں و بچوں پر بڑھتے ہوئے جنسی حملے اس بات کے مصداق بھی ہیں کہ اس پر توجہ دی جائے۔ لیکن ہر بار کی طرح امید یہی رکھیے کہ کچھ عرصہ کےبحث و مباحثے کے بعد جس میں اسلامی ذھن و فکر رکھنے والے بندے مغربی مظاہر کو خوب رگڑیں گئیں اور فلموں ، گانوں ، فحش ویب سائٹسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کا رونا روئیں گئیں یا سکولوں و کالجوں میں مخلوط طریق تعلیم کو نشانہ بنائیں گئیں اور جوابا سیکولر و لبرل گدھے جن کا "روزگار" ان سے وابستہ ہے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اور سخت ترین قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہوئے مساجد یا مدارس میں ہونے والے کسی ایسے ہی گھناونے جرم کو کو منظر عام پر لائیں گئیں ،یا اس بات کو دلیل بنائیں گئیں کہ جن ممالک میں اسلامی نظام نافذ ہے کیا وہاں کوئی ایسا جرم نہیں ہوتا ! اور ماضی قریب یا حال سے کوئی مثال بھی لے آئیں گئیں ۔ ان گدھوں کی اس ساری مسیحائی کا بنیادی مقصد و پیغام ایک ہی ہوگا کہ "بجائے پابندی لگانے کے آزادی دے دو"۔ مادر پدر آزادی ۔ سیکس کی تعلیم عام کردو ۔ناجائز تعلقات پر سے پابندی ہٹا لو ، گرل فرینڈ ، بوائے فرینڈ کے رشتے کو تقدس کا درجہ دے دو۔ یہ معاشرتی دباو کی وجہ سے اسے زبان سے ادا کریں یا نہ کریں ۔ ان کی ہر بات کا یہی مطلب ہوگا۔
اور "پابندی و آزادی" کے اس کھیل میں کچھ ہی عرصہ بعد میڈیا کے ہاتھ میں کوئی نیا کھیل آجائے گا جرائم اسی طرح ہوتے رہیں گئیں ، سنبلیں اسی طرح لٹتی رہی گئیں لیکن بس ان پر یہ شوروغوغا بند ہوجائے گا!۔


جرم ، جرم ہے یہ چاہے کسی بھی معاشرے میں جنم لے ۔ خالص ترین اسلامی معاشروں میں جرم نہیں ہوتا یہ ایک خام خیالی ہے ۔ رسول اللہ کے دور میں چوری بھی ہوئی اور زنا بھی ۔ڈکیتی کی وارداتیں بھی ہوئیں اور زنابالجبر بھی ۔ مغربی معاشروں کی تو بات خیر چھوڑیئے وہاں تو "ہر جرم کو قانونی تحفظ" حاصل ہوگیا ہے۔ اس لیے اخلاقیات سے متعلقہ کوئی جرم ان کے نزدیک جرم نہیں رہا ۔ لیکن بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر وہ بھی تڑپتے ہیں ۔ نابالغ بچوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کے مجرموں کو ان کے مطابق بھی قرار واقعی سزا دی جاچکی ہے ۔
یہ معاملہ درحقیقت 'پابندی و آذادی" کا نہیں ہے بلکہ اس معاشرے کی تشکیل سے متعلقہ ہے جو کہ جرم سے متعلقہ نفسیات کی تشکیل کرتا ہے ۔ بلاشبہ مغربی معاشرہ و مظاہر اس نفسیات کی تشکیل کرتے ہیں ۔ ان کے اندر اس جذبے کو متحرک کرنے کے تمام لوازم پائے جاتے ہیں جو کہ اس کو حیوانوں کی طرز پر مرتب کرتا ہے ۔ ان کے ہاں یہ ایک "بنیادی انسانی حقوق" میں سے ہونے کی وجہ سے پابندی کا محتاج نہیں ہے ۔ اور یہ آذادی ان کے ہاں اس مسئلے سے نمٹنے کا ایک "حل" ہے ۔جنس کی ایسی آزادی جو کہ اس کے متعلق تجسس و فراہمی کا ازالہ کردے ۔ اور جذبے کی تسکین میں حائل رکاوٹوں کو قانونی طریقے سے دور کردے ، کسی نے فحش فلم دیکھ لی ہے اب جنسی جذبہ عروج پر ہے ،شادی ہوئی نہیں ہے کوی مسئلہ نہیں گرل فرینڈ کس لیے ہے ! کسی کو ایکدم ادراک ہوا ہے کہ جنس مخالف سے زیادہ وہ ہم جنس پرستی میں دلچسپی رکھتا ہے تو ایسا پارٹنر تلاش کرلے جو کہ رضامند ہو اور خواہش پوری کرتا رہے قانونی تحفظ حاصل ہوگا ! عام روایتی جنسی طریقوں سے لذت کو مطلوبہ میعار حاصل نہیں ہوپارہا تو مارکیٹ میں بے شمار ایسے طریقے دستیاب ہیں جن کو اپنایئے اور لطف اٹھایئں۔اگر کوئی جیتا جاگتا سانس لیتا کیریکٹر دستیاب نہیں ہے تو پھر بھی کوئی مسئلہ نہیں ،بے شمار کھلونے و دیگر اشیا دستیاب ہیں ! غرضیکہ ان مظاہر کی پوری تفصیلات فراہم کرنا ممکن نہیں ہے ۔
لیکن مغرب کے تجویز کردہ یہ سارے "حل" بھی "جنسی جرائم" کو نہیں روک سکے ۔ جنس کے جس عفریت کو انہوں نے آزادی کے ساتھ کنٹرول کرنے کی کوشش کی وہ اس میں ایک بنیادی نکتہ فراموش کرگئے کہ ان کا سامنا انسانی نفسیات سے ہے ۔جو کہ صرف "جرم" نہیں کرتی بلکہ "نئے جرائم" تشکیل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہے 
نتیجۃ یہ نفسیات جنسی تسکین کے نت نئے مظاہر تلاش کرنے لگی اور کچھ ایسے مظاہر تشکیل کیے جو کہ ان  "لغت" میں بھی جرم کہلانے کے مستحق ہوں۔ درحقیت یہ ان کی "مجوزہ آزادی کی حد سے تجاوز" تھا جو کہ ان کے ہاں جرم کہلایا۔یہ جرائم ہماری طرح کے کوئی جرائم نہیں ہوتے جن کا چرچا میڈیا پر ہورہا ہوتا ہے ۔ بلکہ شائد "بدترین" کا لفظ اس کے لیے چھوٹا ہے وہاں پر والدین بھی اپنے چھوٹے  دودھ پیتے بچوں کے ساتھ جنسی جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں ۔برائی ،برائی کو جنم دیتی ہے اس کے فارمولے کے تحت "اس آزادی سے ایسا عفریت جنم لے رہا ہے جس کو روکنا مغرب کے اپنے بس کی بھی بات نہیں"۔ لیکن یہ آزادی ان کے لیے باقاعدہ ایک مذہب کا درجہ رکھتی ہے اس لیے وہ ان جرائم کے جنم لینے کے باوجود ان پر سمجھوتہ کرنے پر تیار ہوجائیں اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے ۔ ان کا مقدمہ اس پر یہی ہوگا کہ بجائے آزادی کو قصور وار ٹہرانے کے ان جرائم میں ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔   
اس کے بالمقابل اسلام یا اسلامی تہذیب دین فطرت و فطرت ہے ۔ یہ صرف برائی کے چند بیرونی مظاہر کو سزا دینے تک محدود نہیں ہے کہ "چند مجرموں کو عبرت ناک سزا دے دی جائے" بلکہ برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا قائل ۔ اس کے اصول فطرت کے مطابق ہیں ، اس کا بیان فطرت کےمطابق ہے ان پر عملدرآمد فطرت کےمطابق ہے ۔ یہ عین حق ہے کہ یہ برائی پیدا کرنے کے مظاہر کے خلاف سرگرم عمل رہے اور ایک مسلسل و پہیم جہاد میں ۔ یہ اس بات کو سرے سے ماننے کا قائل ہی نہیں ہے "کہ جس برائی پر قابو نہ پایا جاسکے اس کو اخلاقی یا قانونی جواز مہیا کردے"۔ اس کے برعکس وہ اس کے خلاف جہدوجہد بمعنی جہاد پر یقین رکھتا ہے اور ایک اعلی اخلاق یافتہ انسانی معاشرے کا سٹیس بھی اس بات کا متقضی ہے کہ وہ برائی کو مٹانے کے لیے آخری حد تک جانے پر تیار ہو ۔ لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کو اہتمام بھی کرتا ہے کہ اس کے ماننے والے کسی اور ازم یا مذہب کی طرف کسی بھی ضرورت کے لیے آنکھ تک اٹھا کر نہ دیکھیں ۔ اسلام میں "جنس یا اس سے متعلقہ جنسی جرائم" کبھی بھی ایک مسئلہ نہیں رہے "جرم "رہے ہیں" ۔ اسلامی تہذیب نے جنس کو ایک مسئلے کے طور پر شازونادر ہی ڈسکس کیا ہے۔یہ ایک ایسا معاشرتی مظہر ہے جو کو زیربحث لانے کی گنجائش ہی نہیں پیدا ہوئی ۔ جنس کے بارے میں تجسس، سوالات ،تعلیم ان  کی مسلم معاشروں میں بہت کم نوبت آئی ہے ۔ زیادہ تر مسائل اس کے حلال و حرام سے متعلقہ ہیں بذات خود جنس سے نہیں !
اس کی وجوہات بہت واضح ہیں ۔ یہ چیز اسلام میں طے شدہ ہے کہ جنسی جرائم کے محرکات کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور یہ بات بھی اس کے ہاں مسلمہ ہے کہ جنسی جذبے کی تسکین کا بڑا اصولی و آسان سا حصول ہے ۔ شادی ۔ ایک سی نہیں ہورہی تو دوسری  ،دوسری نہیں تو تیسری ،وہ بھی نہیں تو چوتھی ۔ اور اس کا حصول آسان۔ بلوغت کی حدود میں داخل ہوتے ہی شادی ،تاکہ ذھن میں اٹھنے والے سارے تجسس و سوالات کا عملی جواب مل جائے ۔یہ اس کا بڑا فطری  حل تھا جس سے ہم محروم ہوچکے ہیں ۔مغربی تہذیب کی یلغار بہت زوردار ہے اور عنان حکومت خالص اسلام کے ہاتھوں میں نہ ہونے کی وجہ سے یہ بات فی الحال ممکن نظر نہیں آتی کہ مغرب کے تمام مظاہر پر پابندی لگ جائے ۔ لیکن اسلامی حلقوں کو صرف اس پابندی کے مطالبے تک محدود ہونے کے بجائے اسلامی اقدار پر بھی عمل پیرا ہونا ہوگا ۔ مسئلہ اس وقت ہر نسل کا نہیں ہے "اسلامی نسل" کا ضرور ہے ۔ اسے بچانا ہے تو پھر کفر کے اس حصار کو بھی توڑنا ہوگا جو کہ زنا کو آسان بناتا ہے 
اور شادی کو مشکل ۔ مسئلہ خارجی بھی ہے لیکن کچھ ہمارے اندر بھی پایا جاتا ہے ۔ 

اہم نوٹ۔
پیش آمدہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے پابندی کے علاوہ یہ صرف ایک مجوزہ حل ہے ۔ حالانکہ اصل حل یہی ہے کہ اسلام زندگی کے ہر شعبے و گوشے میں اپنی اصل طاقت کے ساتھ وقوع پذیر ہوجائے ۔اور اس حل تک پہچنے کا راستہ  جہاد کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے 

3 تبصرے:

  1. بھائی جان۔

    آپ اپنے آپ سے اختلاف کرنے والوں کو گالیاں مت دیا کریں۔

    اگر اپنے آپ کو اتنا سا کنٹرول کر لیں تو فی الحال آپ کے لیے یہی جہاد کافی ہے۔

    خیالات آپ کے قابل قدر ھیں۔

    لیکن غالباً زندگی میں آپ کی کسی بھی لبرل سے بات نہیں ھوئی۔

    جنسی تعلیم کا مطلب جنسی آزادی نہیں۔ اور نہ ہی پلاسٹک کے پھلنترو پر کنڈم چڑھانا سکھانا۔۔ ۔ ۔

    جنسی تعلیم کا واحد مقصد بچے کی عمر کے مطابق اس کو جنسی معاملات کے متعلق صحیح رہنمائی دینا ھے، تاکہ وہ گمراہ ھونے سے بچا رہے۔

    باقی مذاہب کا پتہ نہیں، لیکن اسلام جنسی تعلیم کے حق میں ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. میرا خیال ہے شائد آپ کے ذھن پر بھی "جنسی تعلیم" کا ہی بھوت سوار ہے ۔ اور کنڈوم کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا وگرنہ اچھی طرح سمجھ جاتے کہ اس پوسٹ کا مقصد جنسی تعلیم دینے یا نہ دینے سے متعلقہ نہیں ہے

      حذف کریں
  2. اس بلاگ کو برائے مہربانی آپ ڈیٹ کریں۔شکریہ

    جواب دیںحذف کریں