بدھ، 11 ستمبر، 2013

ماں !


اسے علم تھا کہ وہ مرجائے گا ! ایک کا لاشہ وہ پندرہ سال پہلے اٹھا چکی تھی ۔ وہ اسی وقت بہت روئی تھی ۔ اب اس کےچہرے کی جھریاں آنسو نیچے نہ گرنے دیتی تھیں ۔ آنکھوں سے بہتے اور چہرے کی پیچ و خم میں ہی کہیں ضم ہوجاتے ۔
وہ ایک عرب خاتون کا مکمل نمونہ تھیں ۔ انہیں اچھی طرح یاد تھا کہ ان کی شادی چھوٹی عمر میں ہی ہوگئی تھی ۔ شوہر کے مظبوط آسرے نے آس کو کبھی ٹوٹنے نہ دیا تھا۔ بچے ہوئے اور ایسے لگا جیسے کہ یکایک جوان بھی ہوگئے ! وقت نے چہرے کو جھری زدہ کردیا تھا لیکن محنت کش و جفا شعار عورت ہمت آج بھی نہ ہاری تھی ۔ 
پہلے بیٹے نے جب اسے اپنے خیالات سے آگاہ کیا تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ لیکن ایک نامعلوم خوف اس کے جسم کے اندر سرایت کرگیا ۔ اس کا جی چاہا کہ چیخ کر کہے "کہ تم مارے جاوگئے" لیکن وہ ضبط کرگئی ۔ اور بیٹا مارا گیا!
لیکن اس کے ضبط کا بندھن پھر بھی نہ ٹوٹا ، پندرہ سال گزر گئے ۔ کہ اردگرد بیٹوں کی لاشیں گرنے لگیں ۔سارے اپنے ہی بیٹے تھے ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھنے والے بچے ! جن میں سے کوئی بچپن میں شرارت سے اسے نانی اماں یا دادی اماں کہہ کر ستاتا ، یا چیز لے دینے کی فرمائش کرتا! سب اس کے سگے بیٹوں کے دوست تھے جو گھر کے آنگن میں اس کے سامنے کھیلتے کھیلتے جوان ہوگئے تھے، یہ ان کی شادیاں ، خوشیاں ،جھگڑے ، زندگیاں دیکھتے دیکھتے بوڑھی ہوگئی !اسے باغبانی کا شوق تھا ، سبزیاں و پھلوں کے بیج زمین کے دامن میں بوتے بوتے وہ ایکدم انہی بیٹوں کی لاشیں بونے لگیں!
  اماں کو اب سمجھ آنے لگا کہ اس کا بیٹا اسے کیا سمجھانا چاہتا تھا ۔ وہ بقیہ بیٹوں کے چہروں کو حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتی ۔ اسے معلوم تھا کہ یہ بھی مارے جائیں گئیں ! لیکن اب وہ خوفزدہ نہ تھی ، قریب ہوتی ہوئی موت نے موت کا ڈر اس سے چھین لیا تھا ۔ ماں تھی یہ قبول نہ تھا کہ بیٹے بھوکے مارے جائیں ۔ دن رات ان کے لیے راشن تیار کرتی ۔ میلے کپڑے دھوتی ۔زخموں پر پٹٰی باندھتی اور رات کی تنہایئوں میں اللہ کے آگے روتی ۔ ٹی وی پر ایک انٹرویو لینے والی نے جب ان کا انٹرویو لیا تو پہلی بار ان کے ضبط کا دامن دنیا کے سامنے ٹوٹا ۔ ایک شیرنی غرا رہی تھی ۔ ایک بوڑھی نے حمص کے محاذ کا ایسا نقشہ کھینچا کہ بڑے سے بڑا نامہ نگار بھی ویسی عکس بندی بیان نہ کرسکتا تھا !
بشاری درندوں کی نظر اس بڑھیا پر پڑ گئی۔ راتوں کے اندھیروں میں حمص کے گلی کوچوں میں گونجنے والی ایک ضیعف آواز جو کہ نوجوانوں کا حوصلہ بڑھاتی تھی ۔ بوڑھے ہاتھوں سے پکائی گئی وہ روٹی جو کہ محاذ پر مشغول نوجوان مزے لے لے کر کھاتے تھے کہ "ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی ہے"، دعاوں کا وہ سیلاب جو کہ ایک ماں ہی کی زبان و دل سے نکل سکتا ہے ، یہ ساری نعمتیں پانچ سبتمر کو ایک رافضی گولی کا شکار ہو گئیں ۔ 95 سالہ تاریخ کا ایک اور نشان مٹ گیا !
ماں کی قبر بیٹوں کے پاس ہی بنائی گئی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ جنت میں اس کی خواہش یہی ہو کہ اپنے شہید بیٹوں کو کھانا بنا کر دیتی رہے ۔ ماں کے ہاتھ کا زائقہ جنت میں بھی مل جائے تو کیا ہی بات ہے۔ 

2 تبصرے:

  1. ماشا اللہ آپ نے حق ادا کر دیا بھائی۔ اللہ ہماری اس ماں کو جنت فردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کو اس کی بہترین جزائے خیر عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  2. 2014 kae mazmoon be paste karae.MashAllah bhot tehqeeqi haq likha hae.

    جواب دیںحذف کریں