ہفتہ، 14 ستمبر، 2013

فقہ الواقع - حالات و واقعات کا علم


علماء دین و داعیان اکرام کے لیے اپنے کے حالات و واقعات کا فہم کیوں ضروری ہے ۔
فضیلۃ الشیخ - ڈاکٹر ناصر بن سیلمان العمر
ترجمہ و تلخیص ۔ محمد زکریا الزکی 


علماء پر اپنے دور کے حالات و واقعات کا علم بے حد ضروری ہے تاکہ وہ ان پر شرعی حکم لگا سکے ۔ اصول فقہ کے دو اہم اصول ہیں ۔ 
(ا)
مَا لَا یَتِمُّ الوَاجِبُ اِلَّابِہ فَہُوَ وَاجِب  ٌ   جس چیز کے بغیر کوئی شرعی واجب ادا نہ ہوسکتا ہو وہ بھی واجب ہے ۔ علمائے دین پر اپنے دور کے حالات کا شرعی حکم تلاش کرنا واجب ہے ۔ اور یہ شرعی واجب اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتاجب تک وہ اپنے دور کے حالات کا صحیح فہم حاصل نہ کرلیں ۔ چنانچہ حالات و واقعات کی سوجھ بوجھ بھی علمائے دین پر واجب ہے ۔ 
(٢)
اصول فقہ کا دوسرا اصول ہے ۔ اَلْحُکْمُ عَلٰی الشَّیْءِ فَرْعٌ عَنْ تَصَوُّرِہ کسی چیز پر لگایا گیا حکم ، اس چیز کے صحیح یا غلط تصورپر مبنی ہوتا ہے۔ اگر اس چیز کا فہم و تصور غلط ہے تو شرعی حکم بھی غلط ہوگا ۔اگر اس چیز کا فہم و تصور درست ہے تو شرعی حکم بھی درست ہوگا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حالات و واقعات کا صحیح فہم ہی درحقیقت صحیح فتوے اور درست راہنمائی کی بنیاد ہے ۔ 
!فقہ الواقع کی تعریف 

ہُوَ عِلْمٌ یَبْحَثُ فِیْ فِقْہِ الْاَحْوَالِ الْمُعَاصَرَۃِ مِنَ الْعَوَامِلِ المُؤَثِّرَۃِفِیْ الْمُجْتَمَعَاتِ وَ الْقُویٰ الْمُہَیْمَنَۃِ عَلٰی الْدُوَلِ وَ الْاَفْکَارِ الْمُوَجِّہَۃِلِزَعْزَعَۃِ الْعَقِیْدَۃِ وَ الْسُّبُلِ الْمَشْرُوْعَۃِ لِحِمَایَۃِ الْاُمَّۃِوَرَقِیِّہَافِی الْحَاضِرِ وَ الْمُسْتَقْبِلِ


اس تعریف کے مطابق فقہ الواقع کے دو بڑے اجزاء ہیں ۔

(ا)حالات و واقعات کا علم :چاہے یہ واقعات انفرادی زندگی کے ہوں /سماجی ہوں /سیاسی ہوں /ملکی ہوں یا بین الاقوامی ۔ان واقعات کے علم کا بڑا ذریعہ اخبارات ، میگزین اور نیوز چینلز وغیرہ ہیں۔ 
(ب)حالات و واقعات کے پس منظر میں عوامل کا اصولی اور فنّی علم۔ 'عوامل' واقعات کی اصل جڑ ہوتے ہیں اور عوامل کا علم بھی فقہ الواقع کااہم حصہ ہے ۔ (یہ عوامل سماجی و سیاسی بھی ہوسکتے ہیں اور فکری و علمی بھی ۔دنیا میں رونما ہونے والے نت نئے سماجی ، سیاسی تغیّرات اور کشمکش کے عوامل جاننے کے لیے مختلف عالمی تہذیبوں کے اصول ، ان کی قومی تاریخ اور ان کے اہداف کے پھیلاؤ اور طریق کا ر کا علم ضروری ہے ۔ اور یہ علم مغربی تہذیب اور علوم ِ مغرب کے تعارف اور ان کے شرعی جائزہ و حکم سے حاصل ہوتاہے ۔ )
فقہ الواقع دور جدید کا نیا علم نہیں بلکہ اس کو ہر دور کے دینی علماء نے سیکھا ہے ۔
فقہ الواقع یعنی اپنے دور کا فہم صرف آج کل کے علماء کا فریضہ نہیں ۔ یہ ہر دور میں دینی علماء کا طریقہ کارہاہے ۔ 
(ا)قرآن مجید میں فقہ الواقع پر اصولی آیت یہ ہے ۔ وَکَذَلِکَ نفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ(انعام:٥٥)
ہم قرآن میں کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتے ہیں تاکہ مجرمین کا راستہ اور طریق کار واضح ہوجائے ۔
یعنی فاسد اقوام و تہذیب کے افکار ونظریات اور اہداف و طریق کا رکو خوب واضح کرتے ہیں تاکہ کسی پر خیر و شر کے امور خلط و ملط نہ رہیں بلکہ اچھی طرح عیاں ہو جائیں ۔ (یہاںوَلِتَسْتَبِیْنَ کے واو سے پتہ چلتاہے کہ اس کامعطوف علیہ محذوف ہے اور وہ ہے لِتَسْتَبِیْنَ سَبیْلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ہے ۔)
(ب)قرآن پاک میں مسجد ضرار کی آیات فقہ الواقع کی بہت عمدہ مثال ہے ۔ یہ آیات بتلاتی ہیں کہ بعض مساجد دھوکہ دھی ، فریب اور سازشوں کاگڑھ ہوتی ہیں ۔ ان کو گرا دینا چاہیے ۔ اسی طرح قرآن نے مشرکین ِ مکہ کی حقیقت بیان کی کہ ان کا کعبہ کامتولی ہونا اور حاجیوں کو پانی پلانا تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کردے یہ لوگ مومن صحابہ کرام کے برابر ہر گز نہیں ہوسکتے (توبہ :١٩)۔یہ آیات فقہ الواقع کی بے حد عمدہ مثال ہے ۔ اسی طرح بقرہ ، احزاب اور سورۃ توبہ میں منافقین اور یہود کے حوالے سے فقہ الواقع کی زبر دست مثالیں موجود ہیں ۔ 
(ج) سیر ت النبی ؐ میں ہجرت حبشہ ، فتن کی احادیث ، غزوات ، بادشاہوں کو خطوط ، صلح حدیبیہ کے واقعات کو دیکھیں توہمیں معلوم ہوگا کہ نبی اکرم ؐ کی اپنے دور کے حالات پرگہری نظر تھی اور آپ نے اپنے دور کے مطابق بہترین بصیرت کا مظاہرہ کیا ۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ موجودہ علمائے دین کو بھی اپنے دور کے حالات کی سوجھ بوجھ حاصل کرنی چاہیے ۔ 
(د)سورۃ روم کی ابتدائی آیات میں روم کے غلبہ کی بشارت دی گئی ۔ صحابہ کرام ؓ کی کسری کے مقابلے میں رومیوں سے ہمدردی رکھنا اور عالمی حالات پر نظر رکھنا اور اللہ تعالیٰ کا راہنمائی کرنا فقہ الواقع کی بہترین مثال ہے ۔ قیصر و کسریٰ کی باہمی جنگ سے صحابہ کرام کے اپنے مفادات کا تعلق اور اپنی ہمدردی و دلچسپی اسی طرح سے ہے جیسے موجودہ دور میں روس و امریکہ کی باہمی جنگ سے عالم ِ اسلام پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ 
(ر)نبی کریم ؐ کے بعد خلفاء راشدین اور ائمہ کرام خصوصاًامام احمد ؒ، امام ابن تیمیہ ؒ اور امام عزؒبن عبد السلام وغیرہ کے دور کے حالات اور علماء کی شرعی راہنمائی فقہ الواقع کی عمدہ مثالیں ہیں ۔ 
عصر حاضر کا فہم /فقہ الواقع، عقیدہ کا تقاضا ہے ۔
شیخ عبد الرحمن بن سعدی ؒ اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ مسلمان کے لیے اپنے دور کے حالات وواقعات سمجھنا کلمہ ''لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ '' کے لوازمات میں سے ہے ۔ فقہ الواقع کے ذریعے سے ہی ولاء و براء کا تحقق ممکن ہے ۔ اور ولاء و براء عقیدہ ئ توحید کے اصولوں میں سے بنیادی اصول ہے ۔ 
اس وقت عالم ِاسلام کے اکثر ممالک میں سیکولرزم نافذ ہے ۔ اور استعماری قوتوں کے ہر قسم کے سازشی منصوبے کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور کے حالات و واقعات کی سوجھ بوجھ حاصل کرنے سے غفلت کی اور نتیجے میں اپنے دشمنوں کے منصوبوں کا شکار ہوگئے ۔ 
خلیج کی جنگ میں مسلمانوں کے پاس اطلاعات کا واحد ذریعہ فقط کافروں کا میڈیا تھا اور اب بھی عام طورپر عالم ِ اسلام کی یہی صورت حال ہے ۔ اسی طرح کفار کا میڈیا دنیا کے تمام جہادی محاذات پر واقعات کی تشریح و توضیح اپنی پسند کے مطابق کرتاہے ۔ 
فقہ الواقع فرض کفایہ ہے ۔ یہ علم مسلسل ارتقاء پذیر ہوتا ہے اور نیا رخ اختیار کرتا ہے ۔ اس میں مسلسل اپنی معلومات کو تازہ رکھنا ہوتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں علم النحو اور علم الفرائض ایسے علوم نہیں کہ جو ارتقاء پذیر ہوں ۔ 
مفتی کے لیے فقہ الواقع کی ضرورت ۔

علماء نے اصول باندھاہے ۔ اَلْحُکْمُ عَلٰی الشَّیْءِ فَرْعٌ عَنْ تَصَوُّرِہ  یعنی کسی چیز پر صحیح شرعی حکم اس وقت لگے گا جب اس کے بارے میں صحیح معلومات ہونگی ۔(اس سے جدید مسائل مثلاً ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا حکم ،سوشل سائنسز کی عمومی تعلیم کا حکم ،کلوننگ وغیرہ میں صحیح معلومات کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے )۔چنانچہ مفتی کے لیے تین قسم کی فقاہت ضروری ہے ۔
 (ا)فقہ الاصول
 (ب)فقہ الفروع 
(ج)فقہ الواقع
دعوت و تبلیغ کے لیے فقہ الواقع کی ضرورت۔ 
موجودہ دور میں بہت بڑی بڑی دعوتی و تبلیغی جماعتیں فقہ الواقع میں غفلت کی وجہ سے اساسی و بنیادی خطاؤں کا شکار ہیں ۔یہ غلطیاں منہج میں بھی ہیں اور اسلوب ِ دعوت میں بھی ہیں ۔ (مثلاً کوئی دعوتی جماعت ملکی سیاست سے یکسر الگ ہوجاتی ہے اور ملک کو مفسدین کے حوالے کردیتی ہے اور کوئی جماعت صحیح عقیدہ سے محرومی کی بناء پر سیکولر جماعتوں سے تعاون کرتی اور سیکولرزم کو مضبوط کرتی ہے )ہماری بعض جماعتیں وہ ہیں جو شرعی علم میں کمزور ہیں اور فقہ الواقع میں مضبوط ہیں جبکہ بعض وہ ہیں جو شرعی علم میں مضبوط ہیں لیکن فقہ الواقع میں کمزور ہیں ۔ 
فقہ الواقع صحیح دینی تربیت کے لیے بھی ضروری ہے۔ 
ہماری موجودہ جماعتیں تربیت کے مختلف پہلؤوں پر زور دیتی ہیں لیکن کوئی بھی جماعت ہمہ گیر اور کامل تربیت دینے کی حامل نہیں ۔ بعض جماعتیں روحانی تربیت کرتی ہیں لیکن علمی و فکری تربیت نہیں کرتیں ۔ بعض فکری و ذہنی شعور بیدار کرتی ہیں لیکن روحانی تربیت نہیں کرتیں اسی طرح بعض جماعتیں عسکری تربیت پر زور دیتی ہیں اور بعض فقط سیاسی تربیت پر محنت کرتی ہیں ۔ یہ ساری کمزوریاں فقہ الواقع سے غفلت کی وجہ سے ہیں ۔مختلف جماعتوں کی امت مسلمہ کے امراض میں سے فقط ایک مرض پر نظر ہوتی ہے اور وہ اسی مرض کو سب سے بڑی خرابی سمجھتی ہیں ۔ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کو ایک ہمہ گیر تربیتی عمل کی ضرورت ہے ۔ جس میں روحانیت ، فکرو شعور ، سیاسی بصیرت اور عسکریت جیسی سب چیزیں ہوں ۔(یامختلف جاعتوں کا آپس میں باہمی ربط و نظم ہو)
دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ فقہ الواقع کے بغیر ممکن نہیں 
اللہ نے دشمنان ِ اسلام کے مکر و فریب اور سازشوں کو کھول کھول کربیان کیا اور اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی ذہن سازی کی ۔ چنانچہ اللہ مشرکوں کے مکر و فریب کو بیان کرتے ہیں ۔ 
إِنَّہُمْ یَکِیْدُونَ کَیْْداً (15) وَأَکِیْدُ کَیْْداً (16) فَمَہِّلِ الْکَافِرِیْنَ أَمْہِلْہُمْ رُوَیْْداً (17)(سورۃ الطارق)
یہود ونصاریٰ کے مقابلے میں اللہ نے مسلمانوں کی ذہن سازی اس طرح کی ۔ 
وَلَن تَرْضَی عَنکَ الْیَہُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُم ْ(البقرۃ:١٢٠)
منافقین کی چالوں کو اس طرح بیان کیا ۔ 
َ یُخَادِعُونَ اللّہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ (النسائ:١٤٢)
وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (بقرۃ:١١)
فقہ الواقع کے ذریعے دشمنان ِ اسلام کے مکر و فریب کی نت نئی اقسام اور ان کی سازشی منصوبہ بندیوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اور مومنین کے لیے مجرموں کے طریق کار علم ہونانہایت ضروری ہے ۔ 
سیکولر حضرات اور ملحد لوگ مسلمانوں کو علماء سے متنفر کرتے ہیں اور دینی جماعتوں میں باہمی منافرت اور فرقہ واریت کا بیج بوتے ہیں تاکہ ملحدین کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں کھلی چھٹی ہو۔ فقہ الواقع کے ذریعے ہی دعوت کی ان خارجی رکاوٹوں کا علم ہوتاہے ۔ اور داعی حضرات رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کی تدبیر سوچتے ہیں اور صبر و استقامت کی ہمہ گیر کوشش کو بروئے کار لاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر امت قرار دیا کیونکہ ہم دنیا بھر کی خباثتوں اور منکرات کوسمجھ کر ان کے سامنے بند باندھنے والے تھے لیکن اب ہماری حالت سیلاب کی جھاگ کی طرح ہے جس کا کوئی وزن نہیں ہوتا اور جو بے کار ہوتی ہے ہمیں پس ماندہ ، تیسری دنیا اور ترقی پذیر دنیا کے نام سے یاد کیا جاتاہے ۔ ہم کب تک اپنی فکری ، علمی ،سماجی ،سیاسی اور عالمی مسائل میں غیروں کے سامنے بھکاری بنے رہیں گے ۔ 
فقہ الواقع کی مہارت کے اصول و ضوابط۔
فقہ الواقع کی فنی مہارت کے اصول درج ذیل ہیں ۔
(ا)فقہ الواقع کے ماہر کو سب سے پہلے اس علم کی اہمیت و ضرورت کا علم ہونا ضروری ہے ۔ یہ مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے لیکن جو اس کو سیکھ لے اس پر فرض عین ہے کہ وہ لوگوں کی صحیح راہنمائی کرے ۔ 
(ب)فقہ الواقع کے ماہر کو ضروری شرعی اصولوں کابھی علم ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ مستقل عالم اور فقیہ ہو لیکن یہ ضروری ہے کہ اسے عقیدہ ، دین ، شریعت کے اصول و قواعد کا علم ہو ۔ فقہ الواقع کے ماہر دینی علماء سے استفادہ کریں اور دینی علماء ،فقہ الواقع کے ماہرین سے استفادہ کریں ۔
(ج)فقہ الواقع میں ہر دم نت نئی معلومات پر نظر رکھنی ہوتی ہے ۔ واقعات ، پالیسیاں ، منظر اور پس منظر بدلتے ہیں تو مسلمانوں کو بھی اپنے طریق کا رپر نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس وقت ساری دنیا ایک گلوبل ویلج کی مانند ہے ۔ ایک علاقہ کے واقعات کا اثر ساری دنیا پر پڑتا ہے ۔ 
ّ(د)فقہ الواقع کے ماہرکی معلومات وسیع ہوں ۔ اس کو تین بنیادی علوم سے تعارف ضروری ہے ۔ 
(ا)علوم شرعیہ جیسے عقیدہ وفقہ 
(ب)علوم اجتماعی جیسے تاریخ 
(ج)علوم عصری جیسے سیاست اور میڈیا وغیرہ 
(ر)فقہ الواقع کا ماہر اخبارو معلومات کی جمع ،ترتیب ، موازنہ ، اسباب و علل کی تحلیل اور نتائج نکالنے کا ماہر ہو۔ اور یہ صلاحیت کسبی بھی ہے اور وہبی بھی ۔ کسی ایک چیز میں کمی کوتاہی کو دوسری چیز کے ساتھ پورا کیا جاسکتا ہے ۔ 
(س)فقہ الواقع کا ماہر عملی زندگی میںحصہ لینے والا ہو ۔ وہ بذات خود ہر خوشی کی خبر پر خوش ہو اور غمگین خبر پر غمگین ہو ۔ وہ اپنے زمانہ کے حالات و واقعات کے ساتھ عملی جد و جہد میں مصروف ہو ۔ 
(ص)فقہ الواقع کا ماہر اچھے مصادر اختیار کرے ۔ مصادر فقہ اور مصادرلغت کے ساتھ ساتھ واقعات کے مصادر بھی اچھے ہوں ۔ اسلامی مصادر بھی بلند پایہ ہوں اور کافروں کی معلومات کے مصادر بھی اچھے ہوں ۔
فقہ الواقع کے مصادر ۔
فقہ الواقع کی مہارت کے لیے درج ذیل مصادر کی طرف رجوع کرناچاہیے ۔
(ا)قرآن و سنت اور سلف صالحین کی سیرت
قرآن پاک یہود و نصاریٰ کی تاریخ اور قومی مزاج وخصلتیں بیان کرکے ان کے ساتھ تعلق و رویے کا طریقہ بتلاتا ہے ۔ اسی طرح نبی اکرم ؐ کی زندگی کے مختلف مراحل، ـآپ کا صلح و جنگ کرنا، وفود کا استقبال اور خطوط ومراسلات بھیجنا،مختلف قوموں سے معاہدات، منافقوںسے تعلق ، فتنوں میں صحیح طرز عمل۔۔ ـ یہ سب باتیں فقہ الواقع کی بہترین صلاحیت پیدا کرنے والی ہیں ۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کا مانعین ِ زکاۃ سے قتال ، حضرت عمرؓ کی قیادت ، سیرت عثمان و علیؓ ، معاویہؓ وعمر بن عبد العزیز اور ہارون الرشید وغیرہ کے حالات وواقعات میں فقہ الواقع کی عمدہ مثالیں ہیں ۔ اس امت کے سلف صالحین اور ائمہ کرام کی زندگیاں بھی فقہ الواقع کا مصدر ہیں ۔ 
(ب)عقیدہ و فقہ کی کتب ۔
عقیدہ کی کتب کے ذریعے ولاء و براء کی حدود ، واقعاتِ عالم میں مادی و اخلاقی قوانین کی کارفرمائی ،اسباب پر محنت کی مشروعیت ، نصرتِ الٰہی کی وجوہات وغیرہ کو جان سکتے ہیں ۔ فقہ کی کتب کے ذریعے ہم جہاد ، دعوت ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ، امارت و قضاء وغیرہ کے اصول جان سکتے ہیں ۔ 
(ج)تاریخ و اصول تاریخ کا علم ۔
جو ماضی کو نہیں جانتا وہ حاضر کو کبھی نہیں سمجھ سکتا اور جس کا کوئی ماضی محفوظ نہ ہو اسکا حال اور مستقبل بھی خطرہ سے خالی نہیں ہوتا۔اللہ نے ہمیں زمین میں گھومنے پھرنے اور پچھلی قوموں کے احوال پر غور کرنے کا حکم دیاکہ وہ کیوں تباہ و برباد ہوئیں ۔ اسی طرح قرآن کسی قوم کے مٹنے اور ابھرنے کے مستقل اصول و اسباب بھی ذکر کرتا ہے ۔ یہ سب باتیں قرآن کی زبان میں سنن الٰہی ہیں ۔ فقہ الواقع کے ماہرکو تاریخ کے عروج و زوال اور ان کے اسباب و علل کابھی علم ہونا چاہیے ۔ خصوصاًاسلام کی نشأۃِ اولیٰ ، سقوط اندلس ، مغرب کی سائنسی ترقی کی تاریخ ، مغربی ترقی کے اصول ، مسلمانوں کی پستی کے اسباب و غیرہ ۔
(د)سیاسی مصادر ۔
اس سے مراد علم سیاست اور جدید تاریخ کے مصادر ہیں مثلاًعالمی تنظیمیں اور ان کا کردار ، بڑی طاقتوں کی خارجہ پالیسیاں ، بین الاقوامی تعلقات ، جدید طرزِ حکومت کے اسالیب وغیرہ 
(ر)میڈیا کے مصادر ۔
میڈیا کے دو بڑے مصادر ہیں
ا۔پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات ، رسائل و جرائد ۔
ب۔الیکٹرونک میڈیا یعنی ویڈیو ، ٹی وی اور انٹر نیٹ وغیرہ 
(س) فقہ الواقع کی خصوصی کتب۔
ان مصادر کے ساتھ ساتھ فقہ الواقع پر لکھی گئی خصوصی کتب سے بھی استفادہ کرنا چاہیے جیسے واقعنا المعاصرمصنفہ استاذ محمد قطب وغیرہ 
مصادر کی مہارت کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ کسی ماہر متخصص کے ساتھ براہ راست استفادہ بھی کیا جائے۔
فقہ الواقع کا دیگر دینی علوم و فنون کے ساتھ تعلق
فقہ الواقع کا مختلف دینی علوم کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔
(ا)فقہ الواقع کا فتویٰ کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ ماحول و معاشرہ کو جانے بغیر قواعد ومصالح پر مبنی صحیح راہنمائی ممکن نہیں۔ 
(ب) فقہ الواقع کا عقیدہ سے گہرا تعلق ہے ۔ اس کے بغیر ولاء و براء کی حدود کا صحیح تعین ممکن نہیں ۔ 
(ج)فقہ الواقع کا اسلامی تربیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ اس کے بغیر جدید تربیتی کا حل بتانا ممکن ہے ۔ 
(د)فقہ الواقع کا اسلامی دعوت کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ دعوت کا منہج و اسلوب صحیح کرنے کے لیے فقہ الواقع کی گہری بصیرت ضروری ہے ۔ 
(ر) فقہ الواقع کا عملی سیاسی جد و جہد کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ فقہ الواقع کی مہارت کے بغیر ہماری سیاسی جدو جہد مسلسل ناکامی اور رکاوٹوں کا شکار ہوتی رہتی ہے ۔ 
خبروں کی جانچ پڑتال کے چند ضروری اصول ۔
اس ضمن میں شرعی اصولوں کا التزام کرنا چاہیے ۔ معلومات کے حصول میں ثقاہت و پختگی کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔ صرف ایک مصدر کی بجائے مختلف مصادر سے تعلق رکھنا چاہیے تاکہ آراء و اخبار میں توازن رہے ۔ معاملات کی گہری اور عملی سوجھ بوجھ حاصل کرنی چاہیے ۔ مستقبل کے بارے میں کوئی قطعی رائے دینے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ اسی طرح کافروں اور مادہ پرست کی تہذیب و ثقافت اور قوت و اثرورسوخ سے مرعوب ہونے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے ۔ 
فقہ الواقع کے لیے مغربی تہذیب کا اصولی و فنی تعارف بھی ضروری ہے ۔ (اضافہ ازمترجم)
فقہ الواقع اصلاً موجودہ دور کے حالات و واقعات کی سوجھ بوجھ کا نام ہے ۔ لیکن یہ سوجھ بوجھ اس وقت تک کما حقہ حاصل نہیں ہو سکتی جب تک مغربی تہذیب کا اجمالی ، اصولی اور فنی تعارف حاصل نہ ہوجائے ۔ اس وقت مسلمانوں کے تمام تر فکری ، سماجی ، سیاسی اور عالمی مسائل کی جڑ مغربی تسلط میں ہے ۔ اورمغربی تسلط کو سمجھنے کے لیے اور اس کا توڑ کرنے کے لیے مغربی افکار و نظریات اور نظام ہائے زندگی کا تعارف ضروری ہے ۔ 
مغربی تہذیب کے اصول و قواعد کے تعارف میں سیکولرزم ، مادہ پرستی ، سرمایہ دارانہ نظام ، ڈیموکریسی ، مساواتِ مرد و زن ،انسانی حقوق اور نیشنلزم وغیرہ کو سمجھنا ضروری ہے ۔ 
مغربی علوم دینی علوم کو مسلسل ناکارہ اور کمزور ثابت کررہے ہیں ۔ اس ضمن میں مغربی علوم ـ نیچرل سائنسز ، سوشل سائنسز اور ہیومن سائنسز وغیرہ ـ کا تعارف بھی ضروری ہے ۔ تاکہ ان علوم کی مسلم سماج اور مسلم رسیاستوں پر ہلاکت آفرینی کا اندازہ ہوسکے ۔ مغربی فلسفہ کس طرح تمام مذاہب خصوصا اسلام کا نقیض ہے ۔ مغربی سائنس سے کس نوعیت کا تعلق رکھا جا سکتا ہے ۔ یہ تمام باتیں اسلامی تہذیب ، اصولِ عقائد اور بنیادی اسلامی فکر سے تعلق رکھتی ہیں ۔اس کے تعارف کے بغیر مغربی تہذیب کو سمجھنا ممکن نہیں ۔ مغربی تہذیب کو سمجھنے کے لیے یورپ و امریکہ کی علمی ، سماجی و سیاسی تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہے ۔ اسی مسلم ممالک میں مغربی تربیت یافتہ Ngo,s،بنک، سیاسی پارٹیاں ، نظام ہائے تعلیم ، میڈیا ، ادب و لٹریچر کا تعارف بھی ضروری ہے ۔ تاکہ مغربی تہذیب کے پھیلاؤ کے طریق کا ر علم ہوسکے ۔ اسی طرح اہل مغرب اپنے اھداف کے لیے قوت کا استعمال اور معاشی ہتھکنڈے کس طرح استعمال کرتے ہیں ۔ یہ سب باتیں فقہ الواقع کا حصہ ہیں ۔ کیونکہ فقہ الواقع میں فقط واقعات کی ہی سوجھ بوجھ نہیں بلکہ واقعات کے پس منظر میں عوامل و علل کا مطالعہ بھی شامل ہے ۔ 
مغربی تہذیب کے اصولی وفنّی مطالعہ کے لیے ہم دو اہم کتابوں کو ضرور تجویز کریں گے ۔ ١۔سرمایہ دارانہ نظام مرتب محمد احمد زیر نگرانی ڈاکٹرجاوید اکبر انصاری 
٢۔ العلمانیۃ ڈاکٹر سفر الحوالی
ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب 

مترجم و ملخص محمد زکریا الزکی ۔ 
(قوسین کے جملے مترجم کی طرف سے ہیں )
تمت بالخیر۔ 

3 تبصرے: