جمعرات، 19 ستمبر، 2013

مغرب کی شام پالیسی !

شام میں مغرب کی پالیسی
شام میں مغربی طاقتوں کی پالیسی کیا ہے ، کیا مغرب واقعی ہی بشار مخالف ہے ،شام میں اسے کے امدادی عناصر کونسے ہیں ، کیا واقعی ہی مغرب شامی مجاہدین کی مدد کررہا ہے ، ان سوالات نے بہت سی مباحث کو جنم دیا ہے اور فریقین مخالف نے اپنی اپنی پروپیگنڈہ مہم میں اس کو استعمال کیا ہے ۔ رافضی فریق نے مسلمان ممالک میں پھیلی ہوئی امریکی نفرت کو اس جنگ کو ایک علاقائی یا مغربی حمایت یافتہ فساد کے طور پر پیش کیا ہے تاکہ اس کا اصل چہرہ آشکار نہ ہوسکے ۔ دوسری طرف شامی تنظیمیں اس بات پر زور دیتی رہی ہیں کہ مغرب ان کی خاطر خواہ مدد نہیں کررہا جیسا
کہ ان کو امید تھی ۔



غوطہ کے کیمیائی حملوں کے بعد عام طور پر یہ احساس تقویت پکڑ گیا تھا کہ امریکہ شام پر حملہ کردے گا اور یوں اس جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا ۔اس تاثر کو عرب میڈیا پر بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ۔ لیکن امریکہ نے روس کے ساتھ ہونے والی ایک ڈیل کے نتیجے میں یہ حملہ موخر کردیا جس پر عرب حلقوں میں خاصی مایوسی پائی گئی ۔روس نے آخر امریکہ کو کس بات کی یقین دہانی کروائی ۔اور کیا صرف کیمیائی حملے ہی وہ ریڈ لائن تھے جو کہ بشار کو عبور کرنے کی اجازت نہیں ہے ! حالانکہ شام کا بشاری رافضی اقتدار ایران کی مدد سے ہر روز سینکڑوں مسلمانوں کو مسلسل شہید کیے جارہا ہے ۔ شامی مزاحمت پر کڑی و غیرجانبدارانہ نظر رکھنے والوں کی نظر سے یہ بات اوجھل نہیں ہے کہ مغربی طاقتیں شام میں کیا چاہتی ہیں۔ بہتر ہے کہ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ہم یہ جان لیں کہ مغربی طاقتوں کے مفاد آخر کیا ہیں جن کی پاسداری وہ چاہتا ہے 
 ریاست اسرائیل کا تحفظ ۔ 
شام میں ایک ایسی حکومت کا قیام جو کہ اسرائیل مخالف ہو یہ مغربی طاقتوں کو قابل قبول نہیں ہے ۔ بشاری رافضی اقتدار سے انہیں ایسا کوئی خطرہ نہ تھا جو کہ فورا اسرائیل پر اٹیک کردے ۔ مغربی تجزیہ کار و نامہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ شام کی سالہا سال کی جنگی تیاری خود اپنے لوگوں کی ممکنہ بغاوت کچلنے کے لیےکی گئی ہے ۔ اس کا اظہار پاکستان میں سابقہ امریکی سفیر ریان سی کروکر جو کہ اب ریٹایرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور اوبامہ ایڈمنسٹریشن عنقریب ان کو مشرق وسطی میں اہم زمہ داری سونپنے والی ہے ، کرچکے ہیں ۔ ان کے مطابق شامی حکومت سن 1980 کی دہائی سے جس جنگی تیاری میں مشغول تھی وہ اس کے اپنے عوام کی ممکنہ بغاوت سے نبٹنے کے لیے تھی ۔ اگرچہ وہ 80 کی دہائی میں حماۃ میں اس بغاوت کو کچل چکے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ دوبارہ جنم لے گی ۔ان کے الفاظ میں "بشار ہر قدم پر خون بچھا کر یہ جنگ جیت لے گا کیونکہ اس نے اس کی بھرپور تیاری کررکھی ہے"
 شریعت کے نفاذ کو ہر صورت روکنا ۔ 
مغربی طاقتوں کو یہ قابل قبول نہیں ہے کہ شام میں آنے والی کوئی بھی حکومت شریعت کے نفاذ کی بات کرے ۔ وہ اس انتہائی اہم خطہ زمین پر ایسی کسی بھی خواہش کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ جو کہ شریعت کا نفاذ چاہتی ہو ۔
 قومی حکومت کا قیام ۔
مغربی طاقتیں شام میں ایک قومی حکومت کا قیام چاہتی ہیں جس میں فریقین مخالف کو نمائندگی حاصل ہو ۔اور بشار کا تحفظ بھی یقنی بنایا جاسکے ۔ ایک ایسی جمہوری و قومی حکومت جو کہ ہر عنصر کی نمائندگی رکھتی ہو ۔ اس کے مخالفین صرف مجاہدین ہی نہیں ہیں بلکہ نصیری اقتدار بھی ہے ۔ کیونکہ اس طرح وہ عددی اقلیت ہونے کی وجہ سے شام پر اپنی گرفت کھوبیٹھے گا 
 جہادی تنظیموں کا خاتمہ ۔
کسی بھی فریق کی فیصلہ کن فوجی مدد کرنے سے پہلے وہ شام میں موجود جہادی گروہوں کا خاتمہ چاہتا ہے بالخصوص جو کہ القاعدہ سے متعلقہ ہیں ۔ جبھۃ النصرہ ، دولۃ الاسلامیہ العراق و الشام ،احرار الشام ،صقر الشام وغیرہ کچھ ایسے گروہ ہیں جو کہ باالواسطہ یا بلاواسطہ القاعدہ سے یا اس کی فکر سے متاثر ہیں ۔ ان میں سے احرار الشام و صقر الشام کا ایجنڈہ گلوبل اسلامک جہاد کا نہیں ہے لیکن وہ مغربی جمہوریت و سیکولرازم کو بعینہ انہی آنکھوں سے دیکھتے ہیں جن سے القاعدہ سے منسلکہ گروہ ۔اس پالسی کا کھلم کھلا اظہار فرانسیسی صدر ہولیوک ہالینڈ کرچکے ہیں کہ اگر شامی مزاحمت مغربی سپورٹ چاہتی ہے تو اس کو القاعدہ سے منسلکہ جہادی تنظیموں کا خاتمہ کرنا ہوگا
مغرب کے یہ چار بڑے اہداف ہیں جو کہ شام میں اس کی پالیسی کی بنیاد ہیں ۔ لیکن اس پالسی کی راہ میں کچھ رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے اس پر خاطر خواہ عمل نہیں ہوپارہا۔
مغرب کو اپنی مخصوص ذھنیت کی بدولت شام میں اسلحہ اٹھائے ہوئے ہر شخص مجاہد یا مستقبل کا مجاہد نظر آرہا ہے ۔ شامی محاذ پر خالص سیکولر یا جمہوری ذھن کے بندے ڈھونڈنا بھوسے میں سے سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے ۔ جمہوری نام پر جو کچھ اس کو میسر ہے وہ "اخوان یا جماعت اسلامی" جیسی ذھنیت ہے جو کہ اسلام بذریعہ جمہوریت نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بات بھی مغرب کے لیے ایک خطرے سے کم نہیں ہے ،جس کا مظاہرہ وہ مصر میں اخوان کی حکومت کے خلاف کرچکا ہے ۔ پھر ان گروپس کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ شامی محاذ پر فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ فری سیرین آرمی کہ جو یونٹ زمین پر برسر پیکار ہیں ان کی فوجی استعداد و صلاحیت کے بارے میں مغرب میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ فری سیرین آرمی کے طاقتور گروپس مثلا صقر الشام ،لو التوحید وغیرہ کم و بیش وہی نظریات رکھتے ہیں جن کو مغرب "سلفی نظریات" کے نام سے جانتا ہے ۔ کچھ شک نہیں کہ یہ گروہ سعودیہ و عرب ممالک کے حمایت یافتہ ہیں لیکن مغرب کو عرب ممالک کی یقین دہانی کافی نہیں ۔ اسے کے اپنے تھنک ٹینک و مبصرین ان گروہوں میں بڑھتی ہوئی اسلامایزیشن سے اس کو خبردار کرتے رہے ہیں ۔یہ طاقتور گروہ فتح کی صورت میں شام پر سعودیہ سٹائل شریعت کا نفاذ ہی چاہتے ہیں ۔ جو کہ مغربی ممالک کے لیے قابل قبول نہیں ہے ۔
یہاں پر ایک غلط فہمی دور کرلینی چاہیے یہ گروہ القاعدہ کی پالیسی سے اتفاق نہیں رکھتے اور مغرب کو اس طرح اپنا دشمن قرار نہیں دیتے جیسے کہ القاعدہ قرار دیتی ہے ۔اس کے علاوہ یہ گروہ گلوبل جہاد کے حامی نہیں ہیں اور اس کو شامی جہاد کو ایک قومی تحریک سمجھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے مغرب ان پر کچھ حد تک مہربان ہے اور ان کو عرب ممالک و مغرب سے فوجی وہ مالی مدد ملتی رہتی ہے ۔ لیکن یہ وہ مدد نہیں ہے جو کہ فیصلہ کن کردار ادا کرسکے ۔
ان گروہوں میں سب سے بڑا اتحاد "شامی اسلامی آزادی محاذ" ہے ۔ یہ عدنان العرعور نامی ایک شامی عالم کی فکری رہنمائی میں کام کرتا ہے جو کہ سعودی نواز ہیں اور القاعدہ کی پالیسیوں کے ناقد رہے ہیں اپنی ایک حالیہ تقریر میں انہوں نے الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام کے قیام کو ایک غلطی قرار دیا ہے۔
مغرب کی ان قوتوں کی ایک فیصلہ کن مدد نہ کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ میدان جنگ میں یہ القاعدہ یا اس سے منسلکہ گروہوں کا خاتمہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ شام میں القاعدہ عددی طور پر اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہیں ، ان کی مجموعی تعداد پندرہ سے بیس ہزار ہے جس میں جبھۃ النصرہ ودولۃ الاسلامیہ کے جنگجو شامل ہیں۔ لیکن القاعدہ کے جنگی گروہوں کی جنگی و فنی مہارت ان سے بہت بڑھی ہوئی ہے ۔ اور یہ شامی محاذ پر سپیشل سروسز دستوں جیسی اہمیت رکھتے ہیں ۔ احرار الشام کے علاوہ کوئی بھی گروہ کوئی قابل زکر معرکہ ان کی مدد کے بغیر نہیں جیت پایا ۔ ان لوگوں نے اپنے کردار کی بدولت بھی شامی محاذ پر ایک مقبولیت حاصل کی ہے ۔ عامۃ الناس میں ان کی شہرت ایک انتہائی ایماندار ، مخلص و بہادر افواج کی ہے جو بے ایمانی ، ناجائز لوٹ مار ، رشوت خوری سے کوسوں دور رہتے ہیں ۔ یہ بہترین جنگی سازو سامان و مہارت سے لیس ہیں جس کی وجہ سے ان کا خاتمہ مقامی گروہوں کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ سفارتی محاذ پر شامی ملٹری کونسل بارہا القاعدہ اور اس سے منسلکہ گروہوں پر تنقید کرچکی ہے اور باربار اس عزم کا اعادہ کرچکی ہے کہ وہ وقت آنے پر ان کو مٹا دے گی لیکن زمین پر وہ ان کے ساتھ مل کر مختلف آپریشنز میں مصروف رہتی ہے اور ان کے حلقوں میں ان کے لیے عزت و احترام کے جذبات پائے جاتے ہیں ۔
شام کی لڑائی کا اہم و طاقتور فریق احرارالشام ہے ۔ یہ شام کے مقامی سلفیوں پر مشتمل ایک تنظیم ہے جو کہ اب ایک بہت بڑے اتحاد کی سربراہی بھی کرتی ہے جس کا نام "شامی اسلامی محاذ" ہے ۔ اس کا ایجنڈہ ضرورقومی جہاد تک محدود ہے لیکن اس کے نظریات القاعدہ سے بہت قرب رکھتے ہیں ۔ ان کے اقتدار میں آجانے کے بعد خطرہ ہوگا کہ کہ ایران  کی عین سرحد پر ایک خالصتا سنی سلفی ریاست کا قیام وجود میں آجائے جس کا ایجنڈہ چاہے قومی نوعیت کا ہو لیکن وہ گلوبل جہادیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہو۔ اس مظہر کو سمجھنے کے لیے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کی مثال کافی ہے جس کا ایجنڈہ قومی و علاقائی نوعیت کا تھا لیکن وہ گلوبل جہادیوں یعنی القاعدہ وغیرہ کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی اور وقت آنے پر اس نے اس کو ثابت بھی کیا ۔
قومی حکومت سے خود مغرب کے اپنے عربی اتحادیوں کو اتفاق نہیں ہے ۔ مغرب اپنے پرانے خفیہ اتحادی روافض کے وجو دکو خطرے میں ڈالنا چاہتا ۔اور اس کی عین سرحد پر ایک خالص سنی ریاست کا قیام اسے منظور نہیں ۔" یہ جنگ کے اندر مغرب کی اپنی عربی اتحادیوں سے سرد جنگ ہے" جس کا اظہار وہ عام طور پر نہیں کرتے ۔ لیکن مغرب شام میں ایک ایسی حکومت چاہتا ہے جو کہ تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو ۔ جس کا امکان اس جنگ کے فرقہ وارانہ تناظر کی وجہ سے ممکن نہیں ۔
ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جیسے کہ ہم اپنے پہلے مضامین میں بھی نشاندہی کرچکے ہیں اور اب مغربی مفکرین کی طرف سے بھی یہ بات سامنے آنا شروع ہوگئی ہے ،مغربی پالیسی یہ ہے کہ "شام میں جنگ کو ممکنہ حد تک لٹکایا جائے "اسی حقیقت کی نشاندہی شامی محاذ کے قابل اعتماد مغربی مبصر جوشا لینڈس نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کی ہے ۔ جوشا لینڈس امریکہ کی اوکلوہامہ یونیورسٹٰی میں پروفیسر ہیں اور مشرق وسطی کے تجزیئے کے لیے قائم کی گئی ایسویسی ایشن کے صدر بھی ۔ان کے مطابق مغربی قوتیں شام میں اپنے پسندیدہ جہادی عناصر کی صرف اس حد تک مدد کررہی ہیں کہ وہ فیصلہ کن شکست نہ کھا جائیں ۔ وہ ان کو جدید و فیصلہ کن ہیتھار یا نو فلائی زون قائم کرنے سے گریزاں ہیں تاکہ بشار کو بھی کہیں فیصلہ کن شکست نہ ہوجائے ۔ اس لیے دونوں فریقین میں سے کوئی بھی جنگ نہیں جیت رہا
لیکن ان مبصرین کا تجزیہ صرف یہاں تک آکر رک جاتا ہے وہ اس لٹکانے کے عمل سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں ان پر روشنی نہیں ڈالتے ۔ مغرب کا جنگ کو طویل کرنے سے کیا مقصد ہے وہ اگر اس کے مفادات و موجودہ جنگی صورتحال کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو صاف عیاں ہے ۔
1) جنگ کے دیر تک جاری رہنے سے متحارب گروہوں کی جنگی قوت کمزور ہوتی چلی جائے گی اور آخر میں جو بھی قوت سامنے آئے اس کا زور توڑنا مشکل نہ ہوگا۔
2) موجودہ اسلامی گروہوں کی فیصلہ کن فتح نہ ہونے کی صورت میں عوام میں ان کے متعلق بیزاری بڑھے گی اور ہوسکتا ہے کہ ایسا گروہ معرض وجود میں آجائے جو کہ مغربی مدد لینے کے لیے ان گروہوں سے بھی لڑنے کو تیار ہو اور اس کو شامی عوام کی حمایت بھی حاصل ہو ۔
3) ممکنہ لمبی غیر فیصلہ کن جنگ کی صورت میں ممکنہ طور پر فریقین مخالف جانی نقصان و قتل و عام سے بچنے کے لیے ایک قومی حکومت کے قیام پر راضی ہوجائیں 
4) ایک لمبی جنگ کا نتیجہ شامی مزاحمت کے مکمل خاتمے پر بھی منتج ہوسکتا ہے جو کہ مغرب کے لیے کسی تائید غیبی سے کم نہ ہوگا۔
مغرب کے نزدیک خون مسلم کے بہنے کی کوئی قدر و اہمیت نہیں ہے اس کے لیے اپنے مفادات سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، ضرورت اس مر کی ہے کہ شامی جہاد پر برسرپیکار جہادی گروہ حددرجہ صبر و احتیاط سے کام لیں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکہ دشمن کی چال کو ناکام بنادیں ،ہمیں یہ بات کہنے سے کوئی امر مانع نہیں کہ القاعدہ بھی شام کے محاذ پر اکیلے فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرسکتی ۔ اور اس کی ایک چھوٹی سی غلطی عراق کی طرز پر اس کے خلاف ایک عوامی بغاوت پیدا کرسکتی ہے ۔ شامی جہاد میں ابھی تک ان کی حکمت عملی بہت اچھی و قابل تعریف ہے لیکن بعض جگہوں پر ان کی سخت گیری کو اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھا جارہا ۔ یہ حالت جنگ ہے ۔ سیاسیہ شرعیہ کے باب کو استعمال کرنے کی بہت ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ اس امر کی بھی بہت ضرورت ہے کہ جتنی بھی جلدی ممکن ہوسکے ایک نظریئے سے منسلکہ جماعتیں ایک جھنڈے و امیر کے تلے لڑںے کے لیے جمع ہوجائیں ۔ اس کے لیے چاہے القاعدہ کو اپنے رویئے میں لچک بھی پیدا کرنی پڑے تو کوئی قابل تعجب بات نہ ہوگی ۔    

1 تبصرہ: