ہفتہ، 28 ستمبر، 2013

شام میں نصیریوں کا عروج !


نصیری ایک ملحد فرقہ ہے جو کہ شام ،ترکی و عراق کے کچھ علاقوں میں پایا جاتا ہے ۔ اس کے عقائد کیا ہیں یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔ لیکن یہ بات ابھی بھی بہت سے لوگوں کےلیے دلچسپی کا باعث ہوسکتی ہے کہ آخر اس مکروہ ترین فرقے کو شام جیسی مقدس سرزمین پر عروج کیسے حاصل ہوا۔یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع سے متعلقہ ہے ۔موجودہ حالات و واقعات میں اور خاص طور پر ملک شام میں اہل سنۃ پر ڈھائے جانے والا انسانیت سوز ظلم اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ ہم تاریخ کے دریچوں میں پھر سے اتریں اور ان کرداروں و واقعات کو دوبارہ زیر بحث لائیں جو کہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کے زمہ دار ہیں ۔ اور تاریخ کے پنوں سے اس سازش کو سمجھنے کی کوشش کریں جو کہ روافض و مغرب نے مل کر امت مسلمہ کے ارد گرد بنی ہے 


تاریخی طور پر نصیریہ فرقے کو ہم تین اداور میں تقسیم کرسکتے ہیں 

ابتدائی دور

ابتدائی مورخین اس فرقے کو "نصیریہ" کے نام سے ہی جانتے تھے ۔ گو کہ یہ اپنے آپ کو علوی کہلوانا پسند کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ علوی کا نام انہیں "فرانسیسی انتداب" جس کو "فرنچ مینڈیٹ" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے کہ دوران دیا گیا ۔جب فرانسیسیوں نے "الاذقیہ" میں ان کو شام سے الگ کرکے ان کو ایک علیحدہ ریاست دے دی جس کو "دولۃ علویون" کے نام سے جانا جاتا تھا۔نصیری تاریخ دان محمد غالب التاویل  1938 میں اپنے مذہب کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے چار سو سالہ دور جبر کے بعد جس میں ان کو نصیری کہہ کر پکارا جاتا تھا ان کو اپنا اصل نام "علوی" واپس مل گیا ۔لیکن دراصل نصیریہ ہی ان کا وہ نام ہے جو کہ ان کے مذہب و تاریخ سے مطابقت رکھتا ہےجس کی جڑیں نویں صدی سے جاملتی ہیں  ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ لفظ علوی کا اطلاق مسلمان مورخین مسلم سرزمینوں پر پائے جانے والے تقریبا تمام شیعہ فرقوں پر کرتے رہے ہیں ۔اس لیے ان کے لیے اس لفظ کا استعمال درست نہیں۔ کیونکہ شیعہ انہیں غلاط فرقوں میں سے مانتے ہیں جن کا مذہب شیعہ سے کوئی تعلق نہیں ۔گوکہ کچھ نئی سیاسی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید شیعہ انہیں بارہ امامیوں کا درجہ دے بیٹھے ہیں ۔
نصیریہ  قبائل کا اصل علاقہ کون سا تھا یہ امر مورخین کے درمیان وجہ تنازعہ رہا ہے لیکن زیادہ تر ان کا اصل علاقہ "جبال النصیریہ " کو ہی شمار کرتے ہیں جو کہ شمالی شام کا ایک پہاڑی علاقہ ہے ۔ یہ لبنان سے لے کر ترکی قبرص تک پھیلا ہوا ایک عظیم پہاڑی سلسلہ ہے ۔نصیری فرقہ اس کے علاوہ شام کے کئی صوبوں جیسے الاذقیہ ،حمص و حما ،لبنانی علاقے "اکار" اور ترکی کے صوبہ حتی ، سیحان ،طرسوس  و اناطولیہ میں کیثر تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ موجودہ جاری جنگ میں نصیریوں کو جنگی و افرادی قوت بھی انہی علاقوں سے میسر آرہی ہے ۔تیرھویں صدی تک ان کے کئی طاقتور قبائل موصل عراق کے شام میں واقع علاقے "سنجر" میں بھی رہتے تھے ۔ جو کہ کردوں و اسماعیلیوں کے خلاف اپنے ہم مذہب شامی نصیریوں کی مدد کے لیے جبال النصیریہ کو گئے ۔اور وہیں سے عراق کے بسنے والے نصیریوں کے عقائد شام کے نصیریوں کے اندر بھی نفوذ پذیر ہوتے چلے گئے ۔
مذہبی طور پر نصیریہ تین فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں 
قمری 
یہ چاند کو حضرت علی کا مظہر جانتے ہیں ان کے مطابق حضرت علی  ؑ چاند میں رہتے ہیں اور مرنے کے بعد ان کے چاہنے والے ستاروں کا روپ دھار جاتے ہیں 
شمسی 
یہ سورج کو حضرت علی ؑ کا مظہر مانتے ہیں ۔ ان کے مطابق سورج وہ جگہ ہے جہاںپر حضرت علی ؑ رہتے ہیں 
مرشدین 
یہ بیسیویں صدی کے ایک نصیری "سلمان مرشد" کی طرف منسوب ہیں جس نے اپنے متعلق مافوق الفطرت قوتوں کے منسوب ہونے کا دعوی کیا ۔یہ اصل میں قمری نصیریوں کا ہی ایک گروپ ہے جو کہ اپنے آپ کو مرشدین کہلواتا ہے ۔
نسبی حوالے سے نصیریہ چارقبائل  پر مشتمل ہیں 
ماتاویرا۔    MATAWIRA
یہ عراق میں بسنے والے نصیری تھے جو کہ تیرھویں صدی کی شروعات میں اپنے ہم مذہبوں کی مدد کے لیے شام کے علاقے کی طرف لپکے ۔ ان کے لیڈر کانام حسن یوسف ا لمخزون تھا جس کو نصیریوں کے ہاں تاریخی طور پر ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔کچھ مغربی مورخین کی تحقیق کے مطابق "حافظ الاسد" کا تعلق اسی قبیلے سے ہے ۔ لیکن اس دعوی کو حتمی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکا۔ 
الحدادین
یہ ان کا ایک طاقتور قبیلہ ہے جو کہ الاسد خاندان کا خاص وفادار ہے ۔ اسے حکمران خاندان کی "آنکھ و کان" کا لقب دیا جاتا ہے ۔1982 کے حماہ کے قتل عام میں اس نے بھرپور شرکت کی تھی اور اخوان کی تحریک کو کچلنے میں اس کا خاص کردار رہا ہے ۔ بشاری فوج کے اہم عہدے داروں کا تعلق اس قبیلے سے ہے ۔
الخیاطین۔
اس قبیلے کو بھی نصیری اقتدار میں ایک اہم کردار حاصل ہے 
الکلبیہ ۔
یہ قبیلہ خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ نصیریوں میں سب سے زیادہ ظالم و مجرم اس قبیلے کو مانا جاتا ہے ۔ یہ جنگلی صفت کے لوگ ہیں جو کہ فریق مخالف پر کسی بھی قسم کے رحم کے قائل نہیں ۔ان کا تاریخی پیشہ لوٹ مار و قتل و غارت رہا ہے ۔ انیسویں صدی میں ان کے درمیان وقت گزارنے والے ایک عیسائی پادری ریونڈ سیمویل لائڈ کے مطابق قتل و غارت ،دھوکہ ، لوٹ مار ان کی سرشت میں شامل ہے ۔ یہ اہل سنۃ کو مشکوک جانتے ہیں اور زرا سی بھی شک گزرنے کی صورت میں ان پر حملہ کرنے سے نہیں چوکتے ۔ بیشتر مغربی و جدید مسلم مورخین کے مطابق بشار الاسد کا تعلق اسی قبیلے سے ہے ۔اس دعوی کو مزید تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ "قردھا" جو کہ بشار کے باپ حافظ الاسد کی جائے پیدایش اور اس کا مقبرے کا بھی مقام ہے تاریخی طور پر کلبیہ کے زیر اثر رہا ہے جہاں پر ماتاویرا قبیلے کا کوئی نشان نہیں پایا جاتا ۔
ان کو نصیریہ کہنے کی وجہ تسمیہ کیا ہے اس پر عام طور پر تمام مورخین جمع ہیں کہ "محمد بن نصیر" کی نسبت سے انہیں نصیریہ کہہ کر بلایا جاتا ہے ۔ دسویں صدی عیسوی سے یہ نام ان کے لیے مستعمل ہے ۔ بعض مورخین کا یہ بھی ماننا ہے کہ انہیں عیسایئت کے قرآنی نام "نصاری" کی وجہ سے نصیریہ کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے چھوٹا عیسائی ۔کیونکہ ان کے مطابق نصیریہ فرقہ اصل میں گمراہ عیسایئوں کا ہی ایک گروہ ہے ۔اس خیال کی ایک وجہ ان کے اندر عقیدہ تثلیث کا پایا جانا اور عیسایئت کی دیگر رسمیں جیسے کرسمس و ایسٹر کا اہتمام ہے 
محمد بن نصیر جس کا پورا نام "محمد ابن نصیر النمیری البکری العابدی"ہے  ایک فارسی النسل آدمی۔تھا اور عراق میں آباد تھا ۔اسی کی نسبت سے نصیریوں کو دسویں صدی عیسوی کے اکثر علماء "نمیری " کہ پکارتے تھے ۔
اس کے ہم عصر شیعہ و سنی علماء کے مطابق یہ دائرہ اسلام سے خارج تھا اور پیعمبری کا دعوی دار۔ یہ ہم جنس پرستی جیسے گھناونے مرض کا بھی شکار تھا۔اس نے دسویں صدی عیسوی میں اس دین کی ترویج عراق میں شروع کی ۔نصیری مذہب کی کتاب "مصحف المشائخ" میں اسے ایک ولی اور "گیارہویں امام ، امام حسن عسکریؒ" تک پہنچنے کا دروازہ قرار دیا گیا ہے ۔ اسی طرح گیارہویں صدی عیسوی کا نصیری مصنف "میمون ابن قاسم الطبرانی"اپنی کتاب "کتاب الدلائل و المسائل" میں  اس کے بارے میں امام حسن عسکری ؒ   کا قول بیان کرتا ہے "ابن نصیر میری روشنی و میری دلیل اور انسانیت کے لیے میرے تک پہنچنے کا راستہ ہے ۔ جو کچھ بھی وہ میرے بارے میں بیان کرتا ہے وہ حق ہے "۔ اسی طرح نصیریہ کا ایک سکالر "یوسف ابن العجوزالحلبی " جو کو النشبی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ابن نصیر کو خدا و مہدی تک پہنچنے کا راستہ قرار دیتا ہے جس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔
لیکن بذات خود امام حسن عسکریؒ و دیگر آئمہ  سے اس شخص کی  تردید و برآت منسوب ہے ۔اور اس کے اپنے زمانے کے یا قریبی زمانے کے شیعہ علماء نے اس کی تردید کی ہے ۔دسویں صدی عیسوی کا شیعہ عالم "سعد ابن عبداللہ القمی الاشعری" لکھتا ہے کہ ابن نصیر  نہ صرف کہ نبوت کا دعوی دار تھا بلکہ اس کا کہنا یہ بھی تھا کہ دسویں امام ، امام علی ہادی ؒ نے اسے اپنا پیامیر مقرر کیا ہے تاکہ وہ ان کی الوہیت کے بارے میں لوگوں کو بتا سکے ۔اور ان کی وفات پاجانے کے بعد اس نے ان کے بیٹے اما م حسن عسکری ؒ سے تعلقات بنائے رکھے اور ان کی الوہیت کا پرچار کرتا رہا ۔ یہ شخص نہ کہ صرف محرمات سے نکاح کو جائز سمجھتا تھا بلکہ ہم جنس پرستی جیسے مکروہ فعل کو خدا تک پہنچنے کا راستہ ۔دسویں صدی کا ایک اور شیعہ عالم نوبختی بھی اس کے متعلق یہی کہانی بیان کرتا ہے ۔ایک اور مشہور شیعہ عالم "الکشی" ابن نصیر کی دعووں کی تردید کرتا ہے اور امام حسن عسکری کا ایک خط بھی فراہم کرتا ہے جس میں وہ ابن نصیر اور اس کے عقائد سے برآت کا اعلان کرتے ہیں ۔یہی دعوی بالترتیب تیرھویں و  چودہویں صدی عیسوی کے شیعہ علماء طبرسی و حلی کا ہے ۔ایک اور مشہور شیعہ عالم محمد حسن الزین الملی اپنی تاریخ کی کتاب "شیعہ فی التاریخ" میں ان کے لیے نصیری کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔یہ تمام شواہد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ فرقہ دسویں صدی عیسوی میں امام علی ھادی ؒ کے وقت سے ہی وجود میں آیا۔جدید دور کے رافضی علماء جن میں موسی الصدر و ایرانی علماء شامل ہیں ان کو بارہ امامیوں میں شامل کرتے ہیں ۔ لیکن ان کا یہ دعوی مذہبی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے ۔
دسویں صدی کے سنی علماء ابو الحسن الاشعری و عبدالقاھر بغدادی وغیرہ نے اس فرقے کا تذکرہ کیا ہے لیکن انہیں نمیری کہہ کر پکارا ہے ۔ علامہ شہرستانی نے پہلی بار ان کے لیے نصیریہ کا لقب استعمال کیا ۔گیارہویں صدی عیسوی کے جلیل القدر امام ، امام ابن حزم الاندلسی ؒ بھی اس فرقے سے واقفیت رکھتے تھے اور اس کے کافر ہونے پر یقین ۔انہوں نے بھی ان کے لیے نصیریہ کالقب استعمال کیاہے ۔چودھویں صدی عیسوی میں مجدد وقت امام ابن تیمیہ ؒ نے ان کے کافر ہونے کا اور ان کے جان و مال کے مباح ہونے کا فتوی  صادر کیا ۔ ایسے فتاوی صرف ان کے نظریات کے کفر ہونے کی وجہ سے نہ تھے بلکہ مسلمین سے ان کا بغض و عناد آخری حد تک پہنچا ہوا تھا ۔جس کا زکر آگے چل کر آئے گا۔
ابن نصیر کی موت کے بعد ابن جندب نامی شخص کو اس کی وارثت ملی جس کے بارے میں کوئی خاص معلومات فراہم نہیں ہوسکیں اس کے بعد جانشنی "الجنبلانی" کے ہاتھ آئی جو کہ تصوف کے مشہور سلسلے "الجنبلانیہ" کا بانی بھی ہے ۔ اس کے بعد "حسین بن علی بن حسین بن حمدان خصیبی " نے یہ گدی سنبھالی ۔ الخصیبی  ہی وہ شخصیت ہے جس نے اس فرقے کی تبلیغ و ترویج میں سب سے بڑھ کر کوشش کی ۔ اس کو نصیریوں کے درمیان ایک خاص مقام حاصل ہے اور اپنے سے پہلے والوں پر بھی برتر مانا جاتا ہے ۔اس نے حلب شام کے شیعہ حکمرانوں "حمدانيون" کا اعتماد حاصل کرلیا اور اپنے مذہب کی ترویج میں مشغول ہوگیا ۔ سلمان الضعانی جو کہ ایک نصیری سے عیسائی ہوا تھا اور اس نے سب سے پہلے انیسویں صدی عیسوی میں اس مذہب کی خفیہ کتابوں کو آشکار کیا اور  اس جرم کی پاداش میں اس کے نصیری رشتے داروں نے اس کو دھوکے سے بلا کر زندہ جلا ڈالا ،لکھتا ہے کہ الکشبی کو نصیریوں کے اندر اتنی اہمیت حاصل ہے کہ وہ اس کو اپنے تمام آئمہ پر فوقیت دیتے ہیں اسی نے ان کے لیے مذہبی رسومات و عبادات کے طریقے وضع کیے ہیں ۔

درمیانی مدت ۔

الخصیبی کے مرنے بعد وارثت بالترتیب محمد ابن علی الجلی اور ابو سعید الطبرانی کے ہاتھ آئی ۔ الطبرانی ہی ان کی مشہور زمانہ بدنام کتاب المجموع کو مصنف ہے ۔ اس نے 1031 عیسوی میں اپنا ہیڈ کوارٹر شام کے ساحلی علاقے "الاذقیہ" میں منتقل کرلیا ۔ اس فرقہ کے عقائد اتنے گندے و مشہور زمانہ تھے کہ یہ اسے چھپا کر رکھتے تھے اور اسی وجہ سے یہ کسی بھی دربار میں کوئی خاص مقام حاصل نہ کرپائے ۔ اسماعیلیوں کے دور میں ان پر کافی نرمی رہی ۔ جس کی وجہ سے ان کو اپنے مذہب کی ترویج کا موقع حاصل رہا ۔ لیکن اپنے خفیہ عقائد کی وجہ سے یہ اہل سنۃ میں شک کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور یہ انہیں نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے ، اپنے عقائد کی وجہ سے یہ ایک خفیہ و الگ زندگی گزارنے پر مجبور تھے ۔ اس علیحدگی نے ان میں اہل سنۃ کے مقابلے پر ایک احساس کمتری پیدا کردیا تھا ۔ اور یہ ان کے مقابلے میں ہر دشمن کی مدد پر تیار رہتے تھے ۔ 1099 عیسوی میں جب پہلا صلیبی حملہ ہوا تو صلیبیوں نے ان کو بھی مسلمان جان کر ان کا قتل عام کیا ۔ لیکن جلد ہی صلیبیوں کو یہ علم ہوگیا کہ یہ لوگ عام مسلمانوں سے الگ ہیں سو انہوں نے ان سے نرمی کا سلوک کرنا شروع کردیا ۔انہی کی مدد سے صلیبی شام کی ساحلی پٹی پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے اور بدلے میں انہیں وہ قلعے واپس مل گئے جو کہ اسماعیلیوں نے ان سے چھینے تھے ۔1258 عیسوی میں جب منگول حکمران ہلاکو خان نے شام پر حملہ کیا تو انہی کی مدد سے شام پر ان کا قبضہ مستحکم ہوا۔ ہلاکو کے شام میں سپہ سالار قط بوغا کو جب سلطان سیف الدین قطزؒ اور الملک الظاہر البیبریس کی مشترکہ فوجوں نے  عین جالوت کی لڑائی میں فیصلہ کن شکست دی تو الملک بیبرس نے نصیری قلعہ بندیوں کے خلاف فوج کشی کی ۔ اس نے ان کے قلعے چھین لیے اور ان کی زمینوں پر مساجد بنائیں اور انہیں دین کی طرف لوٹنے کا حکم دیا ۔ لیکن ان لوگوں نے مساجد کو ویران کردیا بلکہ انہیں گھوڑوں و جانوروں کے اصطبل میں بدل دیا ۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ جو کہ 1326 عیسوی میں ان علاقوں سے گزرا اس کے بیان کے مطابق بیبرس کی قائم کردہ مساجد کو انہوں نے اصطبلوں میں بدل دیا تھا اور اگر کوئی نووارد مسلمان ان مساجد میں داخل ہوتا اور نماز کے لیے اذان دیتا تو یہ پکار کر کہتے "گدھے کی طرح مت چلاو تمہاری خوراک تم تک پہنچا دی جائے گی "
اسی زمانہ میں مسلمان مورخین امام ابن کیثر ؒ و ابن بطوطہ نے نصیریوں کے درمیان سے 1317 کے لگ بھگ ایک شخص کے خروج کا زکر کیا ہے جس نے مہدی ہونے کا اعلان کیا اور مسلمانوں کی املاک و عزت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔جب مصر کے سلطان الملک الناصر کو اس قتل و خون کی خبر ملی تو اس نے سب نصیریوں کے قتل کا حکم دے دیا لیکن لوگوں کے سمجھانے پر جن کو ان کی ضرورت کسانوں کے طور پر تھی اس حکم کو واپس لے لیا ۔ اہل سنۃ سے ان کی دشمنی اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ نصیری مورخ غالب الطول بیان کرتا ہے کہ جب  1401 میں مشہور بادشاہ امیر تیمور نے دمشق کو فتح کیا تو ایک نصیری عورت جس کا نام درصدف تھا چالیس نصیری کنواریوں کو لے کر مرثیے پڑھتی ہوئی تیمور کے دربار میں حاضر ہوئی اور اہل دمشق سے اہل بیت پر ہونے والے ظلم و ستم کا بدلہ لینے کی اپیل کی ۔جس میں خاص طور پر حضرت زنیب کا بدلہ لینے پر زور تھا ۔ تیمور نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ ایسا کرکے رہے گا ۔ یہ عورت ان چالیس کنواریوں کو لے کر تیمور کے ساتھ ساتھ چلی جو کہ بنو امیہ کے خلاف ترانے پڑھ رہی تھیں ۔تیمور نے جب دمشق کو فتح کرلیا تو اس نے اہل شہر سے اپنے لیے شہر کی سب سے خوبصورت لڑکی کو پیش کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ اس سے شادی کرسکے ۔ جب مطلوبہ لڑکی فراہم کردی گئی تو تیمور نے اس کو ننگے بدن سارے شہر کا چکر لگانے کا حکم دیا۔ اہل شہر نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اس پر تیمور نے کہا "کہ تمہیں رسول اللہ کی بیٹی کو ایسا کرنے پر کس نے کہا تھا " یہ کہہ کر اس نے اہل شہر کے قتل عام کا حکم دے دیا۔ نہ صرف تیمور بلکہ اس سے پہلے منگول حکمران جو کہ کلمہ پڑھ چکے تھے اس رافضی پروپیگنڈے کا شکار رہے اور شام و مصر کے اہل سنۃ کے خلاف سرگرم عمل جن میں نصیری و شیعہ فرقے ان کے ہمنوا رہے۔
سن 1516 عیسوی میں عثمانی ترک اس خطے میں بر سراقتدار آگئے اور نصیریوں کے بدترین دور کا آغاز ہوگیا ۔ مغربی مورخین جب اس دور کی منظر کشی کرتے ہیں تو نصیریوں کو ایک مظلوم قوم کی صورت میں دکھاتے ہیں ۔ لیکن وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ نصیریوں کے اس حال کے زمہ دار خود نصیری تھے جو کہ عثمانی ترکوں کے خلاف صفوی سلطنت کی مدد اور ان کے لیے جاسوسی پر معمور تھے ۔1514 کی جنگ چالدران میں جو کہ عثمانی ترکوں و ایران کے صفوی بادشاہوں کے درمیان لڑی گئی اس میں نصیریوں نے صفویوں کا ساتھ دیا ، جنگ میں ایرانیوں کو اہل سنۃ کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور شاہ ایران کی دو بیگمات تک کو کینز بننا پڑا۔ شاہ ایران جس کا دعوی اپنے متعلق الوہیت کا تھا اس صدمے کو برداشت نہ کرسکا اور سلطنت سے دست بردار ہوگیا ۔اس کے بعد یہ لابعد امر تھا کہ عثمانی ترک اپنے زیر تحت سب علاقوں میں شیعہ فرقوں سے محتاط ہوجائیں ۔سلطان سلیم کے غضب کا اندازہ کرکے نصیری و دوسرے شیعہ فرقے جبال النصریہ کو دوڑ گئے جو کہ ان کا آبائی علاقہ تھا اور جہاں پر ان سے جنگ کرنا آسان نہ تھا ۔ لیکن سلطان سلیم جیسے کہنہ مشق بادشاہ نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک عجب چال چلی اس نے اناطولیہ اور خوزران سے تقریبا پچاس ہزار ترک قبائل سے منسلکہ لوگ ان پہاڑوں پر آباد کردیئے ۔ یہ لوگ انتہائی ماہر جنگجو تھے ، اس قدم کا نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی نصیری اس علاقے سے تقریبا مفقود ہوگئے اور ترک الاذقیہ و جبلہ تک جا پہنچے ۔لیکن یہ قدم اپنے پورے مقاصد حاصل نہ کرسکا کیونکہ ان ترک قبائل میں سے بہت سوں کا تعلق خراسان سے تھا جو کہ خود شیعہ تھے ۔ انہوں نے خود نصیری مذہب قبول کرلیا اور ان کی ایک شاخ بن گئے ۔
عثمانی ترکوں پر یہ الزام لگانا درست نہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر صرف ان کے مذہب کی وجہ سے ان پر ظلم و ستم کیا ۔ کیونکہ انہی علاقوں میں اسماعیلی بھی پائے جاتے تھے جو کہ عثمانی ترکوں کے مددگار و معاون تھے ۔ مذہبی تفاوت ضرور نصیریوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا ایک حصہ ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ نصیری عثمانی ترکوں کے لیے صرف مذہبی طور پر ہی خطرہ نہ تھے بلکہ ان کی سالمیت کے لیے بھی ایک خطرہ تھے ۔اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں شیعہ قزلباش عثمانی ترکوں کے علاقوں میں آباد تھے جس سے انہوں نے کوئی ناروا سلوک نہیں کیا ۔ 
سن 1706 عیسوی میں نصیریوں نے ایک اور بدترین جرم کا ارتکاب کیا جب انہوں نے اپنے علاقے میں علاج کی غرض سے آنے والے ایک انگریز فزیشن کو مارڈالا ۔اور قاتل کو عثمانی گورنر ایمن پاشا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا ۔ایمن پاشا نے اس قتل کے بعد غصے میں آکر ان کے خلاف فوج کشی کی اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قتل کردیا ۔1807 میں اسماعیلیوں و نصیریوں کے درمیان ایک جھگڑا پھوٹ پڑا ۔ تقریبا تین سو نصیری جن کا اپنے قبائلی دینی سردار کے ساتھ کوئی اختلاف تھا،نے اسماعیلیوں کے ایک قبیلے کی پناہ پکڑی ۔ انہوں نے ان کوپناہ دے دی ۔ لیکن انہوں نے بدعہدی و بدشکنی کی اور اپنے ہی میزبانوں کو لوٹ لیا اور ان کو قتل کردیا ۔ اس قتل عام کے دوران انہیں دوسرے نصیری قبائل کی مدد بھی ملی جو کہ پہاڑوں سے ان کی مدد کے لیے اترا ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ سارا کچھ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے زیرتحت عمل میں لایا گیا۔یہ خبر جب دمشق کے عثمانی گورنر کو ملی تو وہ ایک بڑی فوج لے کر ان پر حملہ آور ہوا اور مجرمین کو کڑی سزا دی ۔اسی طرح سن 1817 میں تریپولی لبنان کا عثمانی گورنر بربر کچھ باغی قبائل کے خلاف لڑ رہا تھا تو باغی قبیلے کے سردار نے نصیریہ کے سب سے ظالم قبیلے کلبیہ کے پاس پناہ پکڑی ، جنہوں نے مخصوص قبائلی روایات کی بنا پر اس مجرم کو حکومت وقت کے حوالے کرنے سے انکار کردیا ۔ جس کے بعد بربر نے کلبیہ پر فوج کشی کردی اور ان کی اتنہائی برے طریق پر بیخ کنی کی گئی ۔ بربر ایک راسخ العقیدہ سنی تھے اور کلبیہ کے سخت خلاف۔ 

نصیری 1820 کی یونانی قبرص کے قومی آزادی کی تحریک میں عثمانی ترکوں کے خلاف یونانیوں کے مددگار بھی رہے ہیں جو کہ خلافت عثمانیہ کے اندر موجود مختلف اقلیتوں کو خلافت کے خلاف منظم کرتے تھے ۔ لیکن عثمانی ترکوں کی یہ سختی  جبال النصیریہ پر رہنے والے نصیریوں تک مخصوص تھی ۔ ترکی کے اپنے علاقوں میں رہنے والے نصیری اور شام کے شہری علاقوں میں بسنے والے نصیری عام طور پر امن پسند و حکومت کے وفادار ہوتے تھے ۔ جن کے ساتھ مذہبی اختلاف ہونے کے باوجود عثمانی خلافت کوئی تعرض نہ کرتی ۔یہ وفادار و پرامن نصیری خلافت عثمانیہ کے اندر اہم عہدوں پر بھی فائز رہے ،محمد علی پاشا  جو کہ شاہی توپخانے کا انچارج تھا اور نصیری تھا، اسی نے مشہور ترکی باغی فوج جینسری پر بمباری کی تھی ۔ 1806 میں فرانس میں عثمانی ترکوں کا سفیر "امین وحید آفندی" بھی ایک نصیری تھا ۔ یہ بعد میں خزانے پر بھی معمور رہا ۔
ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں صدیوں کا خوف و بربادی بھی ان کو اپنے عقائد کو چھوڑنے پر مجبور نہ کرسکی ، نصیریوں نے کسی خزانے کی طرح جس کو چھپا کر رکھا جائے اپنے عقائد کی حفاظت کی ۔ مختلف اداور میں مسلمان علماء نے ان کے قریب ہونے کی ان کو سمجھانے کی ان کے علاقوں میں مساجد و مدرسے تعمیر کرکے ان کو مسلم دھارا میں شامل کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن اپنی مخصوص سخت پہاڑی و دیہاتی فطرت کی وجہ سے یہ ان سب کوششوں کو شک کی نظر سے دیکھتے رہے اور انہوں نے ان کے عقائد پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔یہ بات سمجھنا بعید از قیاس ہے کہ وہ اسلام کی اصل سے واقف نہ ہوں جب کہ وہ حدود اسلامیہ میں رہتے تھے ۔ لیکن ہر رافضی گروہ کی طرح وہ اہل سنۃ سے ایک "انتقامی رقابت" رکھتے تھے جو کہ ان کے حق کو قبول کرنے کے راستے میں ایک رکاوٹ تھی ۔تقیہ ان کے مذہب کا بنیادی جز تھا۔سیلمان آفندی الضعنانی جو کہ ایک سابقہ نصیری تھا لکھتا ہے 
"یہ اپنے مذہب کو چھپانے کے لیے دوسرے فرقوں کی رسومات میں شرکت کرتے اگر یہ کسی سنی سے ملتے تو قسم کھا کر کہتے کہ ہم تمہاری ہی طرح نماز پڑھتے و روزہ رکھتے ہیں ۔لیکن دراصل وہ روزہ خوری کرتے اور اگر انہیں مسجد میں دوسروں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھنی پڑتی تو یہ قرآن کی تلاوت نہ کرتے صرف مسلمانوں کی طرح رکوع و سجود میں شریک ہوتے اور ان کی زبان پر حضرت ابوبکر ، عمر فاروق ،اور حضرت عثمان کے لیے گالیاں ہوتیں "
پہاڑوں پر بودوباش رکھنے والے ان نصیریوں کا پیشہ ملحقہ علاقوں میں سنی زمینوں پر غارت گری کرنا تھا ۔ پرامن نصیری مسلم جاگیرداروں کی سرزمینوں پر مزارعوں کا کام کرتے ۔ جنگجو و باغی نصیری قبائل عثمانی ترکوں کے خلاف ہر وقت سرگرم عمل رہتے اور ان کے دشمنوں کی مدد پر تیار۔
 اسی زمانے میں ان کا علاقہ امریکی  عیسائی مشنریوں کے لیے کافی پرکشش بن گیا جو کہ ان "بچھڑے ہوئے عیسایئوں" کو دوبارہ عیسایئت کے دامن عاطفت میں لینے کے لیے سرگرم عمل ہوگئے ۔ اس کے علاوہ ان کا ان مشنریوں کا مقصد عثمانی خلافت میں موجود اقلیتوں کو عثمانی ترکوں کے خلاف استعمال کرنا بھی تھا ۔ لیکن عیسایئوں کی یہ ساری مساعی بھی نصیریوں کو بدلنے میں ناکام رہی اور وہ ان کی اخلاقی یا دینی حالت کو بدل نہ سکے یہاں تک کہ سلطان عبدالحمید دوئم کے دور میں عیسائی مشنریوں کے مخصوص مقاصد کو سمجھتے ہوئے ان پر پابندی لگا دی گئی۔
سن 1832 کا زمانہ نصیریوں کے لیے تھوڑی سی تبدئیلی لے کر آیا جب مصر کے خدیو خاندان کے ابراہیم پاشا نے عثمانی ترکوں سے شام کو چھین لیا ۔ ابراہیم پاشا ان کے ساتھ گو نرمی کے ساتھ پیش آیا جس کی سیاسی وجوہات تھیں لیکن بعض نصیری قبائل نے اس کی کی غیر مسلح ہوجانے کی شرط کو تسلیم نہیں کیا اور اس کے خلاف لڑائی شروع کردی ۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ عثمانی ترکوں نے بھی ان نصیری قبائل کا ساتھ دیا ۔ یہ بغاوت 1834 میں کچلی گئی ۔ لیکن ابراہیم پاشا کے جانے کے بعد نصیریوں نے عثمانی ترکوں کے دیئے ہوئے اسلحے و ٹریننگ کو انہی کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا ۔
عثمانی ترکوں نے "تنظیمات" کی تشکیل کے بعد نصیریوں کی دینی و اخلاقی حالت سنوارنے کی پھر کوشش کی ۔ نصیری شیوخ سے ملاقات کی اور ان کے علاقوں میں 1870 کی دہائی میں مساجد و مدارس تعمیر کیے لیکن ان کا انجام بھی وہی ہوا جو کہ اس سے پہلے سلطان بیبرس کی کوششوں کا ہوچکا تھا ۔اسی زمانہ میں فرانس کا اثر و رسوخ بھی ان علاقوں تک پھیل چکا تھا اور وہ اپنی عیسائی مشنریوں کی مدد سے ان علاقوں میں سرگرم عمل تھا ۔ عثمانی ترکوں کی یہ کوشش نصیریوں کو فرانسیسیوں کے ہاتھ میں جانے سے روکنے کے ضمن میں تھی جو کہ ناکامی سے دوچار ہوئی اور پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی ان کی خباثت و غداری کھل کر سامنے آگئی ۔

تیسرا دور۔ نصیریوں کا عروج۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کو شکست ہوئی فرانس و برطانیہ کے مابین بدنام زمانہ "سکائس" معاہدے کے تحت شام جو کہ فلسطین ، عراق و لبنان پر مشتمل ریاست تھا مختلف ملکوں میں بانٹ دیا گیا ۔1919 میں لیگ آف نیشنز کے فیصلے کے مطابق "فرانسیسی انتداب" کےنام سے موجودہ شام کا علاقہ فرانسیسی عملداری میں دے دیا گیا ۔فرانسیسی فوجیں اس سے ایک سال پہلے 1918 میں ہی شام میں داخل ہوچکی تھیں اور ان کی عملداری میں نصیری علاقے بھی شامل تھے ۔فرانسیسی انتظام کاروں نے شام کو چار علاقوں میں تقسیم کردیا ۔
ریاست لبنان 
ریاست حلب 
ریاست دمشق اس میں جبال دروزشامل تھا
ریاست الاذقیہ۔الگ نصیری ریاست
نصیری فرانس کے قبضے سے پہلے ہی فرانس کے ساتھ رابطے میں تھے ۔ سن 1919 میں ان کے 73 سرداروں نے فرانسیسی حکومت کو ایک ٹیلیگرام لکھا جس میں ان سے ایک الگ نصیری ریاست بنانے کی درخواست کی گئی ۔ اس ٹیلگرام میں انہوں نے خود تسلیم کیا کہ وہ مسلمانوں سے الگ ایک مذہب و قوم ہیں ۔ اور ریاست فرانس سے وفاداری کا اعلان کیا۔ اس خط پر دستخط کرنے والے نصیری سرداروں میں "سیلمان الاسد" بھی شامل تھا جو کہ موجودہ صدر بشار کادادا ہے ۔ حالیہ دنوں میں جب اقوام متحدہ میں شامی مندوب  بشار جعفری نے فرانسیسی حکومت پر شام میں مداخلت کا الزام لگایا تو اس نے اسے اس خط کا حوالہ دے کربری طرح جھڑک دیا جس پر وہ سر جھکا کر رہ گیا ۔نصیریوں نے فرانس کی حکومت سے وفاداری کے اظہار کے طور پر 1920 میں بلائی جانے والی عرب نیشل کونسل کے اجلاس کا بھی بایئکاٹ کیا جو کہ عرب علاقوں کو غیر ملکی استعمار سے نجات دلانے کے لیے بلائی گئی تھی ۔1920 میں امریکن صدر ولسن نے "عربوں کے سیاسی اثرورسوخ اور اس کے طریق کار کو سمجھنے کے لیے ایک مشن بھیجا جس کو سر کرین مشن کا نام دیا جاتاہے " اس مشن کا کام شام میں عربوں کے اثرورسوخ کو بالخصوص سمجھنا تھا ۔ اسی سال شاہ فیصل نے جو کہ ایک عرب و شریف مکہ کا بیٹا تھا شام میں ایک عرب ریاست کے قیام کا اعلان کردیا ۔ فرانسیسی فوجوں نے اس کو جلد ہی شکست دے دی اور یہ اپنا تاج و تخت چھوڑ کر بھاگ گیا ۔لیکن عرب نیشلزم کی تحریک جو کہ عرب علاقوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کروانے کی تحریک تھی پھر بھی قائم رہی ۔

فرانس کو ان مفتوحہ علاقوں میں اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے مقامی قوت و فوج کی ضرورت تھی ۔عرب نیشلسٹ تحریک جو کہ سنیوں پر مشتمل تھی اس کے لیے مددگار ثابت نہ ہورہی تھی ۔ اس لیے اس نے اپنی مشہور "تقسیم کرو و حکمرانی کرو" والے اصول کے تحت شامی اقلیتوں کو پر مشتمل ایک فوج کی تشکیل کی ۔جس کو " شامی خصوصی فوج" کا نام دیا گیا ۔یہ نصیریوں کے لیے ایک سنہری موقع تھا وہ اس موقعے کو پانے کے لیے لپکے اور یہاں سے ہی اس "نصیری فوج" کے قیام کی بنیاد پڑی جس نے بعد کے واقعات میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
 
انگلش ،عرب مورخین و تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نصیریوں کا شامی اقتدار پر قبضے کے لیے اٹھایا جانے والا پہلا قدم تھا جس کی پلاننگ وہ بڑی دیر سے کررہے تھے ۔ اسی اثنا میں ان سیلمان مرشد نامی شخص کے ،جو کہ الوہیت کا دعوی دار تھا ،زیراثر چلائی جانی والی مستقلا علوی سٹیٹ کی تحریک بھی دم توڑ چکی تھی جس کے بعد انہوں نے اس قائم کردہ فوج میں ہزاروں کی تعداد میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی ۔ لیکن ابھی تک اس فوج میں ان کا کردار نچلے درجے کا تھا کیونکہ یہ زیادہ پڑھے لکھے لوگ نہ تھے ۔
سن 1946 میں فرانس کو دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں شام کو چھوڑ دینا پڑا ۔ اور کئی برطانوی مقبوضہ ریاستوں کے بشمول پاکستان ،کی طرح شام بھی ایک آزاد سلطنت قرار پایا۔ جو کہ وہی فوج رکھتی تھی جس کو فرانس نے اپنے دور میں تشکیل دیا تھا۔ الگ علوی ریاست ختم کی جاچکی تھی اور "عرب نیشلزم " کی تحریک جو کہ عرب خطوں میں بڑے زور شور سے جاری تھی اس  کے زیر اثر متحدہ شام کا قیام ہوا۔ 1949 میں شام میں اوپر تلے تین فوجی انقلاب آئے جس سے یہاں پر جمہوریت کے چلنے کی امید ختم ہوگئی ۔یہ تینوں بغاوتیں سنی کمانڈرانچیف کے زیرقیادت ہوئیں ۔ لیکن ان ہنگامی حالات میں فوج میں بڑے پیمانے پر اپنے وفاداروں کو ڈھونڈنے و اوپر لانے کے لیے تبدئیلیاں کی گئیں اور مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج کے اندرونی خودکار نظام کی بدولت نصیری فرقہ ترقی کرتا ہوا نامحسوس طریقہ سے اوپر آگیا ۔ اس کا پہلا ادراک فوج کو 1955 میں تب ہوا جب ایک عدنان المالکی جو کہ شامی فوج کا ڈپٹی چیف تھا اس کو ایک نصیری سارجنٹ عبدالکریم نے قتل کردیا ۔ جب فوج کے خفیہ ادارے کے سربراہ عبدل الحامد السراج نے تحقیق کی تو وہ حیران رہ گیا کہ فوج کے 65٪ سے زیادہ کمیشنڈ افسروں کی تعداد کا تعلق نصیری مذہب سے ہے ۔
ان واقعات سے پہلے 1940 میں شام میں "بعث پارٹی " کی بنیاد رکھی جاچکی تھی یہ مشعل افلاک نامی ایک عیسائی اور صلاح الدین بیطار نامی ایک سنی نے مل کررکھی ۔ جس کا بنیادی مقصد عرب ازم کو فروغ دینا تھا۔اس کا ایجنڈہ سیکولر تھا اور اپنی ہم عصر دوسری جماعتوں کے برعکس شامی اقلیتوں کے لیے بہت پرکشش تھی ۔ 1947 میں ایک نصیری نے دوسرے بہت سے نصیریوں کی طرح اس جماعت میں شمولیت اختیار کی ۔ یہ شخص کوئی اور نہیں موجودہ صدر بشار الاسد کا باپ حافظ الاسد تھا ۔سن 1950 میں سیکولر ایجنڈہ رکھنے والی ایک اور پارٹی "ایس ایس این پی" جس میں بھی نصیریوں کی کافی بڑی تعداد موجود تھی پر پابندی لگا دی گئی جس کی وجہ سے اس کے ممبران کی ایک کیثر تعداد بھی بعث پارٹی میں شریک ہوگئی ۔ سن 1958 میں شام کے ایک اور فوجی انقلاب نے عرب نیشلزم کے نعرے تلے مصر سے الحاق کا اعلان کردیا اور جمال عبدالناصر کے زیر تحت آگیا ۔ بعث پارٹی کی قیادت نے اس الحاق کی سیاسی و اخلاقی حمایت کی لیکن بذات خود بعث پارٹی کی صفوف میں شامل نصیری فوجیوں و سویلینز میں اس کے بارے میں بے شمار تحفظات پائے جاتے تھے ۔ وہ عرب نیشلزم کے روپ میں سنی اکثریت کا اقتدار دیکھ رہے تھے ۔ مشہور مورخ موسی متی و دیگران اس بات پر متفق ہیں کہ نصیریوں کی بعث پارٹی میں شمولیت دراصل عرب کاز سے وفاداری نہ تھی بلکہ اپنی اصلیت پر پردہ ڈال کر ملک کے سیاسی و معاشرتی ڈھانچے میں اپنا مقام بنانا۔ لیکن شام کے ساتھ مصر کے الحاق نے ان کے خوف میں اضافہ کردیا ۔
سن 1959 کو بعث پارٹی کے ان نصیری فوجی افسروں نے قاہرہ میں ایک "خفیہ فوجی کونسل" قائم کی جس کا علم بعث پارٹی کی لیڈر شپ کو بھی نہ تھا اس خفیہ میٹنگ میں "صالح الجدید، حافظ الاسد ،محمد عمران ،اور ایک دورزی افسر حماد عبید نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شام میں نصیری اقتدار کے لیے راہ ہموار کی جائے گی ۔ لیکن اس کے لیے انہیں اپنی کمیونٹی کے تعاون کی ضرورت تھی ۔
تعاون کے لیے یہ اجتماع شام کے ساحلی صوبے الاذقیہ کے مرکزی شہر قرادحۃ  میں ہوا۔ یہ نصیریوں کا گڑھ تھا ۔ اس اجتماع میں تمام نصیری قبائل کے سردار و مذہبی رہنما شامل ہوئے ۔ اس میں عمران کو "باب" کے طور پر منتخب کرلیا گیا جو کہ نصیری مذہب کا سب سے بڑا مذہبی منصب ہے اور حافظ الاسد و صالح الجدید کو ان کا نقیب۔اس خفیہ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ نصیری فوج میں زیادہ سے زیادہ شمولیت اختیار کریں گئیں تاکہ شام میں نصیری انقلاب بپا کیا جاسکے ۔ مصر و شام کا الحاق زیادہ دیر قائم نہ رہا اور صرف دو سال آٹھ ماہ بعد 1961 میں اس کا خاتمہ ہوگیا ۔اور سن 1963 میں بعث پارٹی نے فوج کی مدد سے حکومت کا تختہ الٹ کر ملک پر قبضہ کرلیا ۔ اس بغاوت کے نتیجے میں شامی حکومت میں نصیریوں کے اثر رسوخ میں بے انتہا اضافہ ہوگیا حافظ الاسد جو کہ ایر چیف مارشل تھا اس کو وزیر دفاع مقرر کردیا گیا۔ لیکن وزارت عظمی ابھی بھی بعث پارٹی کے سنی لیڈر امین حفیظ کے ہاتھوں میں تھی جس کو اس بڑھتے ہوئے نصیری خطرے کا احساس ہوگیا اور اس نے مختلف طریقے و بہانوں سے فوج میں شامل نصیری عنصر کو کم کرنے کی کوشش کی ۔ اس کی کوششوں کے نتیجے میں بعث پارٹی نے اس بار صالح الجدید کی قیادت میں 1966 کا فوجی انقلاب بپا کیا جس کے بعد صالح الجدید شام کا حکمران بن بیٹھا ۔لیکن درحقیقت شام میں دو قوتیں موجود تھیں جو کہ اب آپس میں اقتدار کے لیے خاموش کشمکش میں مصروف تھیں اور دونوں نصیری تھیں ،ایک صالح الجدید کا گروپ جو کہ خود صدر تھا اور ایک حافظ الاسد کا گروہ جو کہ وزیر دفاع تھا۔
اسی اثنا میں 1967 کی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوگئی ۔ اس میں اس نصیری وزیر دفاع کے چہرے سے عرب نیشلزم کا وہ نقاب بھی اتر گیا جو کہ اس نے اپنی اصلیت کو چھپانے کے لیے ڈالا ہوا تھا جنگ کے دوران اس کے پراسرار رویئے نے بہتوں کو حیرت میں ڈال دیا ۔ گولان کی پہاڑیوں پر ابھی اسرائیل حملہ آور بھی نہ ہوا تھا کہ شامی وزارت دفاع کی طرف سے یہ اعلان کردیا گیا کہ کہ گولان کی پہاڑیاں دشمن کے قبضے میں آچکی ہیں ۔ اس کے علاوہ کئی اور اہم فوجی مواقع پر شامی فوج نے بالکل کوئی حرکت نہ کی ۔ سن 1968 میں ایک لبنانی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرانس میں شام کے سابقہ سفیر سمیع الجندی نے اس راز کو کھولا کہ کہ اپنی حکومت کی ہدایت پر  جنگ سے دو ہفتے پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ سے پیرس میں مل چکا تھا جس نے اسے یہ یقین دہانی کروا دی تھی کہ اسرائیلی فوجیں گولان کی پہاڑیوں سے پار نہیں جائیں گئیں اگرچہ دمشق جانے کا راستہ بھی کھلا ہو ۔ اس لبنانی اخبار نے اس انٹرویو کا عنوان " جہنمی سازش" دیا۔اس دھوکے نے اس جنگ کے نتائج بدل کررکھ دیئے ۔ یہاں تک کہ خود شام میں بھی اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی لیکن سیاسی دباو وزیر دفاع کے بجائے صدر صالح الجدید پر زیادہ آیا اور اس سے فائدہ اٹھا کر حافظ الاسد نے 1971 میں  اپنے دینی بھائی مگر سیاسی حلیف صالح الجدید کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
حافظ الاسد نے برسراقتدار آتے ہی شام پر اپنی آہنی گرفت مظبوط کرنی شروع کی ۔ اس کے عزائم کی راہ میں کوئی اہم طاقت حائل نہ تھی جو کہ اس کو روک سکتی ۔ نصیری حکمران کو پہلے دن سے ہی پتہ تھا کہ جس اقلیتی بنیاد پر اس کے اقتدار کا پایہ قائم ہے وہ کسی بھی وقت کھینچا جاسکتا ہے ۔ اور نصیریوں کے خلاف اہل سنۃ کا اکٹھ کسی بھی وقت ممکن ہے ۔ اس نے سب سے پہلے نصیری اقتدار کی حفاظت کے لیےاپنا وہ مشہور زمانہ حفاظتی حصار قائم کیا جس کو "اندرونی دائرہ یا شامی اقتدار کا انر سرکل" کا نام دیا جاتا ہے ۔ 
 نصیری حفاظتی حصار۔ انرسرکل  ۔
صدر اور چیف آف آرمی سٹاف ۔ حافظ الاسد ۔
سرایہ  الدفاع کا سربراہ ۔ رفعت الاسد ۔ حافظ الاسد کا سگا بھائی  بشار کا چچا۔ سرایہ الدفاع 12000  سے لے کر 25000
 تک نصیریوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ ہے جس کے بنیادی کام دمشق کے اندر حکمران جماعت کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ یہ پورے دمشق کو گھیرے ہوئے تھے اور دمشق کے آنے جانے والے تمام راستوں پر ان کا قبضہ تھا۔ رفعت الاسد ہی وہ بدبخت ہے جو کہ 80 کی دہائی میں شامی شہر حماۃ میں اخوان المسلمون کے قتل عام میں ملوث رہا ہے ۔ الاسد خاندان میں ذھنی عارضہ و خونخواری عام بات ہے ۔ یہ شخص اتنا خونخوار تھا کہ حافظ الاسد کو مجبورا اسے شام سے نکالنا پڑا ، اب یہ اپنے بھتیجے بشار کی مدد کے لیے شام میں واپس آیا ہے
 
جمیل الاسد۔ سرایہ الدفاع کے سپیشل یونٹز کا سربراہ۔ حافظ الاسد کا سگا بھائی ۔ بشار کا چچا

عدنان الاسد۔ سرایہ السراع کا سربراہ۔ حافظ الاسد کا کزن ۔ سرایہ السراع 5000 کی تعداد پر مشتمل فوج ہے جس کا کام
نصیریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے
اس کے علاوہ اس کے دو بھتیجے بھی انہی خصوصی دستوں میں شامل تھے ۔ حافظ الاسد کا سالہ عدنان مخلوف کئی سال تک ان یونٹز کا ڈپٹی کمانڈر انچیف رہا اور 1979 میں اس نے یہ عہدہ چھوڑا۔اس مخلوف خاندان کا جو کہ حافظ الاسد کا سسرال تھا شام کا طاقتور خاندان بن کر ابھرا ۔ اسی خاندان کا ایک فرد "رمی مخلوف" اس وقت بشار الاسد کا سب سے بڑا فنانسر ہے ۔ اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی موبائل کمپنی شام میں اس کی اجازت کے بغیر کام نہیں کرسکتی تھی ۔اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اسی موقع پر موجودہ صدر بشار کے "انر سرکل" پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال لیتے ہیں
مہرالاسد۔ بشار کا بھائی ۔ اپنے چچا رفعت الاسد کی طرح یہ ذھنی طور پر ناقص و انتہائی خونخوار مانا جاتا ہے ۔ دمشق و اس کے نواحی علاقوں کی حفاظت یہی کررہا ہے ۔ اس نے 2005 میں فائرنگ کرکہ اپنے سالے آصیف سخوت تک کو زخمی کردیا تھا جو کہ ان کے حفاظتی سرکل کا ایک اہم مہرہ تھا۔آصیف سخوت مجاہدین کے حملے میں مارا جاچکا ہے ۔
علی مملوک۔ یہ شام کی نیشل سیکورٹی بیورو کا انچارج ہے جو کہ خفیہ ایجنسیز کو کنٹرول کرنے والا ادارہ ہے ۔ جس کی بنیادی زمہ داریوں میں سے نصیری اقتدار کو درپیش اندرونی و بیرونی خطروں سے بچانا ہے ۔شامی انقلاب کی شروعات میں یہ ادارہ درعا میں شامی مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث رہا ہے
عبدالفتاح قدسیہ ۔ نیشل سیکورٹی بیورو کا ڈپٹی ڈایریکٹر ۔ یہ دمشق و اس کے گردو نواح میں بدترین جرائم میں ملوث رہا ہے
رفیق شہادہ۔ فوجی خفیہ ادارے کا سربراہ ، یہ بدنام زمانہ ادارہ اپنی وحشت و سفاکیت کے لیے مشہور ہے اور موجودہ واقعات میں ظلم کی نئی داستانیں رقم کررہا ہے
فاروق السراع۔ یہ نائب صدر ہے ۔اور 1984 سے لے کر 2005 تک شام کا وزیر خارجہ بھی رہ چکا ہے ۔یہ لبنان کے صدر حریری کے قتل کی عالمی تحقیقات کو گمراہ کرنے میں شامل رہا ہے ۔
اسی مقام پر یہ بھی بہتر ہے کہ ہم اس چیز پر بھی روشنی ڈال دیں کہ اس بدترین عقائد والے فرقے کو آخر ایک اسلامی فرقہ کیوں قرار دیا گیا ۔

اسلام میں نقب۔

فرنچ مینڈیٹ کے بعد گو کہ نصیری اپنی الگ ریاست قائم کرچکے تھے لیکن پھر بھی وہ چاروں طرف سے سنی اکثریت میں گھرے ہوئے تھے جو کہ صنعت و معشیت پر قابض تھی ۔ گوکہ وہ "عرب نیشلزم" کی تحریک کو سنی اکثریت کی وجہ سے قابل اعتبار نہ جانتے تھے لیکن بذات خود یہ تحریک اس بات میں دلچسپی رکھتی تھی کہ انہیں کسی طرح قومی دھارے میں شامل کرلیا جائے اور عرب ممالک سے غیرقوموں کا تسلط ختم کردیا جائےنصیری بھی یہ بات بھانپ چکے تھے کہ مغربی قوتیں اس خطے سے واپس جانے والی ہیں اور ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ مذہبی تفاوت کو ایک طرف رکھ کر قومی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ اس کی سب سےپہلی کوشش خود ان ہی کی طرف سے سامنے آئی ۔اور سن 1936  میں ان نصیریوں کے "رجال الشیوخ" نے ایک فتوی جاری کیا کہ وہ مسلمان ہیں اور عام مسلمانوں کی طرح کلمہ و پانچ اراکین اسلام پر ایمان رکھتے ہیں ۔اور جو اس کو نہیں مانتا وہ اسے اپنے آپ میں شامل نہیں سمجھتے ۔ اسی سال انہوں نے سلطنت فرانس کو بھی ایک عرضداشت روانہ کی جس میں ان سے درخواست کی گئی کہ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کی طرح انہیں بھی ایک فرقہ ہی سمجھا جائے نہ کہ مسلمانوں سے الگ کوئی جماعت۔
اسی اثنا میں 'عرب نیشلزم" کے زیر اثر فلسطین میں سرکار برطانیہ کی طرف سے قائم کردہ مفتی اعظم امین الحسینی نے یہ فتوی جاری کیا کہ نصیری بھی مسلمان ہی ہیں اور اسلامی بھائی چارے کے فروغ کےلیے ان سے مسلمانوں والا سلوک ہی کیا جائے ۔یہ بعث پارٹی کی طرف سے نصیریوں کو تحفہ تھا ۔ لیکن اس فتوی کو اتنی مقبولیت حاصل نہ ہوئی کیونکہ یہ بذات خود شام کی کسی مذہبی اتھارٹی کی طرف سے نہ آیا تھا اور اس کا مقصد دینی سے زیادہ سیاسی تھا۔گوکہ اس کا سیاسی فائدہ نیشلزم سے زیادہ نصیریوں کو ہوا اور وہ اس فتوی کی آڑ میں اپنے اصل عقائد کو چھپا کر عرب مسلم دھارے میں شامل کردیئے گئے ۔
اثنا عشری  بھی اس ساری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے تھے ۔نجف و قم کے کتب خانوں و مدرسوں میں یہ بات پڑھائی جاتی تھی کہ نصیری غلاط شیعہ ہیں اور دین سے خارج۔ گوکہ وہ فلسطین سے جاری ہونے والے فتوی سے بالکل بے اثر رہے لیکن نجف و قم کے اداروں کے سربراہوں کے درمیان اس بات کی طلب پیدا ہوچکی تھی کہ وہ اپنے دین سے بچھڑے بھایئوں کو اپنے گروہ میں واپس لے آئیں۔ اس کام کی ابتدا نجف کے ایک شیعہ عالم آیت اللہ محسن الحکیم نے 1947 میں کی ۔ جب اس نے لبنان میں اپنے ہم منصب اور شیعہ مذہب کے مفتی شیخ حبیب الابراہیم کو نصیری علاقوں کا جائزہ لینے اور انکے بارے میں تحقیات کرنے کی درخواست کی۔ شیخ حبیب نے یہ مشن قبول کرلیا اور نصیری علاقوں کی طرف روانہ ہوگئے ۔حبیب الابراہیم نے اپنے دورے و تحقیات کے بعد یہ تجویز پیش کی کہ چند ذھین نصیریوں کو علم حاصل کرنے کے لیے نجف و قم کے تعلیمی اداروں میں بھیجا جانا چاہیے تاکہ وہ واپس آکر بارہ امامیوں کے دین کی نصیریوں میں ترویج کرسکیں ۔اس تجویز پر عملدرآمد ہوا لیکن اس کا کوئی حوصلہ افزا نتیجہ نہ نکل سکا۔ نجف و قم کے متعصب بارہ امامیوں نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے ہوئے ان نصیریوں سے بہت تحقیر آمیزسلوک کیا ۔اور انہیں مذہب شیعہ کا حصہ ماننے سے انکار کردیا ۔یہاں ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ نصیریوں کا شیعوں کے مقدس شہروں نجف و قم کا پہلا دورہ تھا ۔ اس سے پہلے نہ ان کا کوئی شیخ یا باسی ان خطوں میں باقاعدہ اپنے مذہبی نام کے ساتھ داخل نہ ہوا تھا۔
لیکن شیخ حبیب نے ہمت نہیں ہاری اور یہ تجویز پیش کی کہ نصیری علاقوں میں بارہ امامیوں کی ایک سوسائٹی قائم کی جائے یوں الاذقیہ میں جعفری سوسائٹی کا قیام وجود میں لایا گیا جس کی شاخیں طرطوس ، بانیاس و جبلہ تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ لیکن ابھی تک نصیریوں کو بارہ امامیوں کی طرف سے مسلمان ہونے کا فتوی نہیں مل سکا تھا کیونکہ نجف و قم کے شیعہ علماء کا یہی خیال تھا کہ نصیری لوگوں کو ابھی اور علم کی ضرورت ہے ۔ایسی کئی کوششیں 1956 تک عراقی و لبنانی بارہ امامیوں کی طرف سے ہوتی رہیں جن کا بنیادی مقصد نصیریوں کو مسلمان قرار دینے سے زیادہ اثنا عشری عقائد سکھانا تھا ۔ لیکن ان کا ایک فائدہ ہوا کہ اثنا عشریوں و نصیریوں کو کافی قریب آنے کو موقع مل گیا ۔1960 میں ان تعلقات کو چھوٹا سا دھچکا اس وقت لگا جب کہ عراق و شام کی بعث پارٹیوں کے درمیان کچھ مسائل میں اختلاف ہونے کی وجہ سے نجف و قم جانے کا راستہ بند ہوگیا۔ لیکن 1966 تک نصیری دوبارہ نجف و قم کا رخ کرنے لگے ۔ اور اس دفعہ ان سے ہونے والا سلوک پہلے کی نسبت بہت بہتر تھا ۔اس سلوک کا شانخسانہ 1971 میں اس وقت سامنے آیا جب شام میں حافظ الاسد نے حکومت سنبھالی ۔
حافظ الاسد نے حکومت سنبھالتے ہی1973   میں  بعث پارٹی کے منشور کے تحت جو قانون پیش کیا وہ ریاست کا مذہب اسلام ہونے کی گارنٹی نہ دیتا تھا ۔ جس پر ملک بھر میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ۔ اس اضطرابی لہر سے نمٹنے کے لیے حافظ الاسد نے قانون کی ایک نئی شق منظور کی جس کے مطابق ملک کا سربراہ مسلمان ہوگا ۔ اس کے بعد حافظ الاسد و نصیری حلقوں میں یہ ہل چل مچ گئی کہ نصیریوں کو کسی طریقے سے مسلمان قرار دیا جاسکے ۔گو کہ سن 1936 کا انگریز کے قائم کردہ مفتی فلسطین کا فتوی موجود تھا اور شام میں موجود سارے سنی علماء اسدی اقتدار کے جبر و استبداد سے ڈر کر حق بیان کرنے پر تیار نہ تھے ۔اور نصیریوں کو کافر نہ کہتے تھے لیکن یہ کافی نہ تھا جب کہ باہر کی کوئی اعلی مذہبی اتھارٹی بھی انہیں یہی مقام نہ دے دے ۔
اس مسئلے کا حل 1973 میں اس وقت کے سب سے بڑے لبنانی شیعہ رہنما "موسی الصدر" کی صورت میں سامنے آیا ۔ یہ نجف میں پیدا ہوا تھا اور قم میں تعلیم پائی تھی ۔ یہ عراق کی مشہور "مہدی آرمی " کے سربراہ "مقتدی الصدر" کا کزن تھا جو کہ عراق امریکہ جنگ کے دوران ہزاروں اہل سنۃ کے قتل میں ملوث رہی ہے ۔ یہ امل الشیعہ کا بانی ہے جس نے آگے چل کر "حزب اللہ " کی صورت اختیار کی ۔یہ اس وقت تک لبنان میں "سپریم اسلامک شیعہ کونسل" قائم کرچکا تھا جو کہ لبنان کے تمام اثنا عشری شیعوں کو کنٹرول کرتی تھی ۔ لیکن لبنانی تریپولی میں رہنے والی نصیری اقلیت ابھی بھی اس کے دائرہ اثر سے باہر تھی جس کی بہت زیادہ روابط شامی نصیریوں کے ساتھ تھے ۔ یہ اصل میں ایک ہی قبائل تھے جو کہ دو مختلف جگہوں پر بستے تھے ۔موسی الصدر اپنی سیاسی عملداری کو بڑھانے کے لیے سن 1969 سے ہی شامی نصیریوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔ 1973 کی شامی سنی بغاوت سے نمٹنے کے لیے جو کہ اس بات پر متفق تھی کہ نصیری مسلمان نہیں ہے موسی الصدر سے زیادہ موزوں بندہ کوئی نہیں تھا ۔ یوں سن 1971 میں اس ذہین رافضی شیخ نے سپریم اسلامک شیعہ کونسل کے فورم سے یہ اعلان کیا کہ نصیری بھی مسلمان ہیں اور اثنا عشری مذہب کا حصہ ۔ یہی تعلقات آگے چل کر ایران کے رافضی انقلاب اور شامی حکومت کے مابین اچھے تعلقات کی بنیاد بنے ۔
ایران کے رافضی انقلاب کی جدوجہد کے دوران جو کہ شاہ ایران کے خلاف ہوئی شامی حکومت نے اپنے دروازے ایرانی لوگوں کے لیے وا کیے رکھے ۔ان کے کئی مشہور علماء کو دمشق میں دفنایا گیا یا انہیں شام میں سیاسی پناہ دی گئی ، شام کو یہ اندازہ نہ تھا کہ ایران میں واقعی ہی انقلاب بپا ہوجائے گا لیکن اس انقلاب کے بپا ہوتے ہی خمینی کی حکومت کا قدرتی جھکاو شامی حکومت کی طرف تھا اور شامی حکومت کی پشت پر اب وہ مذہبی قوت موجود تھی جو کہ ھمیشہ ھمیشہ کے لیے ان کو اقلیتی خطرے سے دور کرنے والی تھی ۔یہ اتحاد آج تک قائم ہے ۔
نصیریوں کے عروج کی یہ داستان اپنے اندر بے شمار مقام عبرت و اسباق لیے ہوئے ہے۔ مسلمانوں کا مرکزی حکومتی نظام جسے ہم خلافت کے نام سے یاد کرتے ہیں ٹوٹتے ہی طرح طرح کے فتن امت پر ٹوٹ پڑے ۔ جن کو غیرملکی عنصر کی امداد حاصل رہی ۔مگر عقیدہ کے چاہے چھوٹی سی لو سہی ،امت میں روشن تھی جس کی وجہ سے ان فتن کو اپنا وجود بنائے رکھنے کے لیے "اسلامی ناموں ، اسلامی فتووں و اسلامی چہروں " کی ضرورت رہی۔ اور اس کے لیے ان کے سب سے بڑے حمایتی ہمیشہ سے روافض رہے ۔ پھر ان کی طاقت کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی شاندار ہیں ۔ ہم ان سے مذہبی طور پر جتنا بھی اختلاف رکھیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ جمہوریت کو سب سے زیادہ انہوں نے بخوبی اپنے حق میں استعمال کیا ۔ "سیکولرازم ، سوشلزم ، قوم پرستی ، جمہورپسندی" وہ نعرے ہیں جن کے پیچھے انہوں نے ہمیشہ اپنا اصل چہرہ چھپایا ہے اور انہی کی وجہ سے یہ مسلم معاشروں میں نقب لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں تاریخ کے لمبے صحفات پر پھیلی ہوئی یہ "رافضی سازش" ابھی ختم نہیں ہوئی آج بھی اس کے تین مراحل ہیں (ا) کسی بھی طریق سے مسلم معاشروں میں اپنے آپ کو مسلم منوا لینا چاہے اس کے لیے تقیے کا کتنا ہی زیادہ پردہ کیوں نہ اوڑھنا پڑے (ب) سیکولرازم ، سوشلزم ، جمہوریت وغیرہ کے پردوں میں کسی بھی ملک کے عسکری ، دفاعی یا انتظامی اداروں میں اپنا اثر رسوخ بڑھانا۔(ج) اثر و رسوخ کے ایک خاص حد تک پہنچ جانے کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنا چاہے یہ جمہوری طریقے سے ہی حاصل ہوجائے اور پھر اپنی کمیونٹی کو سردار بنانے کےلیے کام کرنا ۔
روافض کا یہ گھناونا کھیل عرب ممالک میں بہت دیر سے کھیلا جارہا ہے لیکن اب شامی انقلاب کی وجہ سے اس کا پردہ چاک ہوچکا ہے لیکن ہمارے ادھر اس سازش پر ابھی بھی بڑی معاملہ فہمی کے ساتھ عمل ہورہا ہے اور عسکری و دفاعی اداروں میں ان کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ ارباب اقتدار اس مسئلے کی طرف توجہ کریں اور اس سے پہلے کہ پانی سر سے اونچا ہوجائے اس کو سمیٹ لیں ۔اور مذہبی جماعتیں اپنا ووٹ بینک بنانے کے بجائے ان کا پردہ آشکار کرنے پر آمادہ ہوجائیں ۔اسلام کا مطالبہ صرف یہ نہیں ہے کہ آپ کو آپ کے طریقے پر عبادت کرنی دی جائے بلکہ اس کا مطالبہ یہ بھی ہے زمین پر اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ ہو۔
نوٹ ۔
مضمون کی تیاری میں مندرجہ زیل مآخز سے مدد لی گئی ہے۔ کسی بھی غلطی کی نشاندہی پر تہ دل سے مشکور رہوں گا۔ 
غلاط فرقے از موسی متی
اسدیوں کے اندرونی حصار پر ایک نظر از بتاتو
نصیریوں کا قتدار پر قبضہ از ڈینیل پائیپز
نصیریوں و اثنا عشریوں کا باہمی ربط از مارٹن کریمر
خلافت عثمانیہ و عیسائی مشنریز۔ نصیریوں کے تعاقب میں
حافظ الاسد کا اقتدار پر قبضہ

8 تبصرے:

  1. ماشا اللہ آپ نے بہت قیمتی معلومات فراہم کی ہیں اللہ آپ کو اس کی جزاے خیر عطا فرماے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بارک اللہ ، اس کو اور اپ ڈیٹ کردیا ہے ان شاءاللہ کچھ ہی نشتوں میں مکمل ہوجائے گا

      حذف کریں
  2. Very true brother, the same 3 level of the rafizi conspiracy is very visible in Afghanistan, they try to show themselves as Muslims but we know they are not and when we tell other Muslims that they are not Muslims then our Sunnis would call us Takfiri and so on. i love this article because it is full of truth.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. yes the conspiracy of Rafazi is still going on. They are trying to conceal their real face and motives behind the veil of Ummah but actually they are the biggest curse for Ummah

      حذف کریں
  3. مضمون تو آنکھیں کھول دینے والا ہے. اسے دوبارہ پڑھنے کے لئے محفوظ کیسے کروں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. پیج کو بک مارک کرلیں ۔ یااسے ڈاونلوڈ کرلیں

      حذف کریں